اندیشے وسوسے اور پروپیگنڈا
اندیشے اوروسوسے پیداکیے گئے کہ ملک کے شمالی علاقوں میں سخت سردموسم ہے اورلوگ اپنے گھروں سے ووٹ ڈالنے نہیں نکل پائیں گے
الیکشن 2024 بالآخر خیر وخوبی سر انجام پاگئے اور یہ کہا بھی درست ثابت ہوگیا کہ 8فروری کو انتخابات پتھر پر لکیر ہیں۔اِن انتخابات کے حوالے سے گرچہ بہت سے بدگمانیاں بھی پیدا کی گئیں اور قوم کے دل و دماغ میں شکوک وشبہات بھی پیدا کیے گئے کہ انتخابات کا وقت پر ہوناشاید ہی ممکن ہوپائے۔
اندیشے اوروسوسے پیدا کیے گئے کہ ملک کے شمالی علاقوں میں سخت سرد موسم ہے اورلوگ اپنے گھروں سے ووٹ ڈالنے نہیں نکل پائیں گے، پھر دہشت گردی کو جواز بناکر اُس کے پرامن انعقاد پر بھی سوالات اُٹھائے جانے لگے ۔ یہاں تک کہا گیا کہ کچھ قوتیں الیکشن چاہتی ہی نہیں اور موجودہ نگراں سیٹ اپ کو طول دینے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
ساتھ ہی ساتھ یہ پروپیگنڈا بھی کیا جانے لگا کہ میاں نوازشریف کو ایک بار پھر سے وزیراعظم بنانے کی پلاننگ ہو رہی ہے اور ان کے لیے ساری سہولتیں پیدا کی جا رہی ہیں۔ خود بلاول زرداری بھی اپنے ہر جلسہ اورتقریر میں تواتر کے ساتھ یہ بات کرتے رہے ہیں ۔
یہ سارے اندیشے اس انداز سے دہرائے جاتے رہے کہ اچھی خاصی سمجھ رکھنے والا شخص بھی شک میں مبتلا ہونے لگا ۔ہم آخری دن تک اس وہم میںگرفتار تھے کہ ابھی کسی وقت الیکشن کے ملتوی کیے جانے کا اعلان ہونے والا ہے ۔8 فروری کی صبح جب پولنگ شروع لگی تو ہماری ان گناہ گار آنکھوں کو یقین نہیں آرہاتھا کہ واقعی الیکشن اپنے وقت پرمنعقد ہو رہے ہیں۔
2018 کے انتخابات میں جس طرح ووٹوں کی گنتی اوراُن کے نتائج کا عمل اچانک رات گیارہ بجے رک گیا اورRTS کے بند ہوجانے کی خبریں گشت کرنے لگی اور صبح نتیجہ سنادیا گیا اسی طرح اس بار بھی یہی سمجھا جانے لگا کہ ہو نا ہو یہ ساری تاخیر کسی حمایتی کوجتانے کے لیے کی جا رہی ہے۔
نتیجے کچھ تاخیر سے ضرور آئے لیکن جو توقع کی جارہی تھی ویسا ہرگز نہیں ہوا۔ تاخیر کی بہت سے وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن موبائل فون سروس اورانٹرنیٹ بند کی وجہ سے اس تاخیر کا ہونا ایک بڑا سبب ثابت ہوا۔ اس بارے میں نگراں وزیرداخلہ نے جووضاحتیں پیش کی انھیں رد بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔الیکشن کے پرامن انعقاد کے بعد جونتائج سامنے آئے اُن سے ایک بات تو کلیئر ہوگئی کہ 2018 کی طرح اس بار مقتدر قوتوں کا کوئی خاص چہیتا نہیں تھا۔
سب کو اپنی اپنی مہم چلانی بھی پڑی اوراچھی خاصی محنت بھی کرنی پڑی۔ اس بار مقابلہ دو بڑے فریقوں میں تھا۔ایک اپنی سابقہ کارکردگی کولے کر عوام کے سامنے ووٹوں کی درخواست کرتارہا جب کہ دوسرا فریق عوام سے ہمدردی کے ثمرات سمیٹتا رہا۔ ہم پہلے بھی کئی بار یہ کہہ چکے ہیں کہ ہماری معاشرے میں مظلومیت اورمحرومیت کا کارڈ بہت آسانی سے بکتا ہے۔
2008 کے انتخابات میں اس کارڈ کو پیپلز پارٹی قیادت نے کیش کروایا تھا اوربی بی کی شہادت کا زبردست فائدہ اُٹھایا۔ آصف علی زرداری نہ صرف پارٹی کے سربراہ بن گئے بلکہ الیکشن میں بھی حصہ لیا۔
میاں صاحب نے ازراہ ہمدردی میں اپنی طرف سے اس الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان بھی کرڈالا لیکن زرداری صاحب نے انھیں ایسا کرنے سے روک دیا۔وہ خود صدر بنے اور وزارت عظمیٰ کسی اورکو دے دی۔ وہ ایوان صدرسے حکومت کی باگ ڈور چلاتے رہے اور پہلی بار ان کے اس دور میں کسی جمہوری حکومت نے اپنے پانچ سال پورے کیے۔
آج الیکشن کے نتائج سامنے آچکے ہیں لیکن خدشات اور وسوسے ابھی تک جاری ہیں۔ کچھ لوگوںکے خیال میں جو بھی حکومت بنے گی سال دوسال سے زیادہ نہیں چل پائے گی۔فی الحال تو کسی کو بھی پتا نہیں ہے کہ وفاق میں حکومت کون بنائے گا۔
یہ چیز اس بات کو مکمل طور پررد کرتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے پہلے سے طے کیا ہوا ہے کہ کس کو وزیراعظم بنانا ہے۔اگر ایسا ہوتا تو الیکشن کے نتائج ہرگز ایسے نہ ہوتے۔ہماری خصلت میں یہ چیز رچ بس گئی ہے کہ دوسروں کی نیت پرشک کرتے رہو خواہ حقائق کچھ بھی ظاہر کرتے ہوں۔
پہلے ہم نے الیکشن کے انعقاد پر اندیشے اور وسوسے پیدا کیے اورپھر مقتدر قوتوں کی نیتوں پرابہام پیداکرتے رہے اوراب نتائج کو لے کر بہت سے لوگ بدگمانیاں پیدا کرنے کی کوششوںمیں لگے ہوئے ہیں۔پی ٹی آئی نے اگر انٹرا پارٹی الیکشن دوسال پہلے کروا دیے ہوتے تو اُس سے اُس کا نشان بھی نہیں چھینا جاتا۔ وہ انٹراپارٹی انتخابات چاہے کسی انداز میں ہوتے لیکن انھیں تسلیم کرلینے میںکوئی عار یا مشکل پیدا نہیں ہوتی ۔الیکشن کمیشن کے کہنے پرجس بے ضابطگی سے انٹرا پارٹی الیکشن کروائے گئے اُن پر اعتراض توہونا ہی تھا۔
دوسری پارٹیوں نے بھی بلامقابلہ انٹرا پارٹی الیکشن کروائے ہیں لیکن اس انداز سے نہیں کہ پارٹی کے ارکان کو بھی معلوم نہ ہوکہ الیکشن کب اورکہاں ہورہے ہیں۔پی ٹی آئی کے پچھلے انٹراپارٹی بھی متنازع رہے تھے جس میںجسٹس وجیہ الدین جو پارٹی کے ممبر بھی تھے اور الیکشن کمیشن بھی۔ مگر انھوں نے بھی اس غلط طریقہ کار پربھی پارٹی کے اندر آواز اُٹھائی اورجس کی پاداش میں وہ پارٹی سے نکالے بھی گئے۔
عوام نے اس عام انتخابات میں پور حصہ لے کر ایک جانب اپنی پسندیدہ پارٹی کو خوب ووٹ ڈالا تو دوسری طرف مبصرین کے ان اندازوں کی بھی غلط ثابت کر دیا کہ الیکشن اورجمہوریت پر سے ہمارے لوگوں کا اعتبار اوریقین ختم ہوکررہ گیا ہے۔
ہمارے عوام اب بھی اپنا حق رائے دہی استعمال کرنا چاہتے بھی ہیں اورجانتے بھی ہیں۔ مسلم لیگ نون کو اس الیکشن میںجو نقصان پہنچاہے وہ PDM کی اس سولہ ماہ کی حکومت کاشاخسانہ ہے جس میں عوام کی مشکلات کو کم کرنے کے بجائے اس میں اضافہ ہی کیاگیا۔ نون لیگ یا میاں نوازشریف اب چاہے کتنی ہی توجہیات پیش کرتے رہیں لیکن شہبازشریف کی سولہ ماہ کی وزارت عظمیٰ نے ان کی برسوں کی کمائی پرپانی پھیر دیا۔انھیں جس سادہ اکثریت کی اُمید تھی وہ بھی نہ مل سکی اوروہ دیگر جماعتوں کو دعوت دیتے دکھائی دے رہے ہیں۔
ان کے لیے اب یہی بہتر ہے کہ چھوٹی جماعتوں کی منت سماجت کرنے اور اُن کی بلیک میلنگ کا شکارہونے کے بجائے اپوزیشن میں بیٹھ جائیں۔ ضروری نہیں کہ ساری دنیا کادرد اپنے سینے میںرکھاجائے۔ ویسے بھی ملک کے معاشی حالات اس قابل نہیں ہیں کہ دوتین سالوں میں عوام کو راحتیں فراہم کی جاسکیں،جو بھی اِن حالات میں حکومت سنبھالے گا اُسے سخت اورکٹھن مشکلات کا سامنا ہوگا۔ بہتر ہے کہ دوسروں کو حکومت بنانے دیا جائے۔
اندیشے اوروسوسے پیدا کیے گئے کہ ملک کے شمالی علاقوں میں سخت سرد موسم ہے اورلوگ اپنے گھروں سے ووٹ ڈالنے نہیں نکل پائیں گے، پھر دہشت گردی کو جواز بناکر اُس کے پرامن انعقاد پر بھی سوالات اُٹھائے جانے لگے ۔ یہاں تک کہا گیا کہ کچھ قوتیں الیکشن چاہتی ہی نہیں اور موجودہ نگراں سیٹ اپ کو طول دینے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
ساتھ ہی ساتھ یہ پروپیگنڈا بھی کیا جانے لگا کہ میاں نوازشریف کو ایک بار پھر سے وزیراعظم بنانے کی پلاننگ ہو رہی ہے اور ان کے لیے ساری سہولتیں پیدا کی جا رہی ہیں۔ خود بلاول زرداری بھی اپنے ہر جلسہ اورتقریر میں تواتر کے ساتھ یہ بات کرتے رہے ہیں ۔
یہ سارے اندیشے اس انداز سے دہرائے جاتے رہے کہ اچھی خاصی سمجھ رکھنے والا شخص بھی شک میں مبتلا ہونے لگا ۔ہم آخری دن تک اس وہم میںگرفتار تھے کہ ابھی کسی وقت الیکشن کے ملتوی کیے جانے کا اعلان ہونے والا ہے ۔8 فروری کی صبح جب پولنگ شروع لگی تو ہماری ان گناہ گار آنکھوں کو یقین نہیں آرہاتھا کہ واقعی الیکشن اپنے وقت پرمنعقد ہو رہے ہیں۔
2018 کے انتخابات میں جس طرح ووٹوں کی گنتی اوراُن کے نتائج کا عمل اچانک رات گیارہ بجے رک گیا اورRTS کے بند ہوجانے کی خبریں گشت کرنے لگی اور صبح نتیجہ سنادیا گیا اسی طرح اس بار بھی یہی سمجھا جانے لگا کہ ہو نا ہو یہ ساری تاخیر کسی حمایتی کوجتانے کے لیے کی جا رہی ہے۔
نتیجے کچھ تاخیر سے ضرور آئے لیکن جو توقع کی جارہی تھی ویسا ہرگز نہیں ہوا۔ تاخیر کی بہت سے وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن موبائل فون سروس اورانٹرنیٹ بند کی وجہ سے اس تاخیر کا ہونا ایک بڑا سبب ثابت ہوا۔ اس بارے میں نگراں وزیرداخلہ نے جووضاحتیں پیش کی انھیں رد بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔الیکشن کے پرامن انعقاد کے بعد جونتائج سامنے آئے اُن سے ایک بات تو کلیئر ہوگئی کہ 2018 کی طرح اس بار مقتدر قوتوں کا کوئی خاص چہیتا نہیں تھا۔
سب کو اپنی اپنی مہم چلانی بھی پڑی اوراچھی خاصی محنت بھی کرنی پڑی۔ اس بار مقابلہ دو بڑے فریقوں میں تھا۔ایک اپنی سابقہ کارکردگی کولے کر عوام کے سامنے ووٹوں کی درخواست کرتارہا جب کہ دوسرا فریق عوام سے ہمدردی کے ثمرات سمیٹتا رہا۔ ہم پہلے بھی کئی بار یہ کہہ چکے ہیں کہ ہماری معاشرے میں مظلومیت اورمحرومیت کا کارڈ بہت آسانی سے بکتا ہے۔
2008 کے انتخابات میں اس کارڈ کو پیپلز پارٹی قیادت نے کیش کروایا تھا اوربی بی کی شہادت کا زبردست فائدہ اُٹھایا۔ آصف علی زرداری نہ صرف پارٹی کے سربراہ بن گئے بلکہ الیکشن میں بھی حصہ لیا۔
میاں صاحب نے ازراہ ہمدردی میں اپنی طرف سے اس الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان بھی کرڈالا لیکن زرداری صاحب نے انھیں ایسا کرنے سے روک دیا۔وہ خود صدر بنے اور وزارت عظمیٰ کسی اورکو دے دی۔ وہ ایوان صدرسے حکومت کی باگ ڈور چلاتے رہے اور پہلی بار ان کے اس دور میں کسی جمہوری حکومت نے اپنے پانچ سال پورے کیے۔
آج الیکشن کے نتائج سامنے آچکے ہیں لیکن خدشات اور وسوسے ابھی تک جاری ہیں۔ کچھ لوگوںکے خیال میں جو بھی حکومت بنے گی سال دوسال سے زیادہ نہیں چل پائے گی۔فی الحال تو کسی کو بھی پتا نہیں ہے کہ وفاق میں حکومت کون بنائے گا۔
یہ چیز اس بات کو مکمل طور پررد کرتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے پہلے سے طے کیا ہوا ہے کہ کس کو وزیراعظم بنانا ہے۔اگر ایسا ہوتا تو الیکشن کے نتائج ہرگز ایسے نہ ہوتے۔ہماری خصلت میں یہ چیز رچ بس گئی ہے کہ دوسروں کی نیت پرشک کرتے رہو خواہ حقائق کچھ بھی ظاہر کرتے ہوں۔
پہلے ہم نے الیکشن کے انعقاد پر اندیشے اور وسوسے پیدا کیے اورپھر مقتدر قوتوں کی نیتوں پرابہام پیداکرتے رہے اوراب نتائج کو لے کر بہت سے لوگ بدگمانیاں پیدا کرنے کی کوششوںمیں لگے ہوئے ہیں۔پی ٹی آئی نے اگر انٹرا پارٹی الیکشن دوسال پہلے کروا دیے ہوتے تو اُس سے اُس کا نشان بھی نہیں چھینا جاتا۔ وہ انٹراپارٹی انتخابات چاہے کسی انداز میں ہوتے لیکن انھیں تسلیم کرلینے میںکوئی عار یا مشکل پیدا نہیں ہوتی ۔الیکشن کمیشن کے کہنے پرجس بے ضابطگی سے انٹرا پارٹی الیکشن کروائے گئے اُن پر اعتراض توہونا ہی تھا۔
دوسری پارٹیوں نے بھی بلامقابلہ انٹرا پارٹی الیکشن کروائے ہیں لیکن اس انداز سے نہیں کہ پارٹی کے ارکان کو بھی معلوم نہ ہوکہ الیکشن کب اورکہاں ہورہے ہیں۔پی ٹی آئی کے پچھلے انٹراپارٹی بھی متنازع رہے تھے جس میںجسٹس وجیہ الدین جو پارٹی کے ممبر بھی تھے اور الیکشن کمیشن بھی۔ مگر انھوں نے بھی اس غلط طریقہ کار پربھی پارٹی کے اندر آواز اُٹھائی اورجس کی پاداش میں وہ پارٹی سے نکالے بھی گئے۔
عوام نے اس عام انتخابات میں پور حصہ لے کر ایک جانب اپنی پسندیدہ پارٹی کو خوب ووٹ ڈالا تو دوسری طرف مبصرین کے ان اندازوں کی بھی غلط ثابت کر دیا کہ الیکشن اورجمہوریت پر سے ہمارے لوگوں کا اعتبار اوریقین ختم ہوکررہ گیا ہے۔
ہمارے عوام اب بھی اپنا حق رائے دہی استعمال کرنا چاہتے بھی ہیں اورجانتے بھی ہیں۔ مسلم لیگ نون کو اس الیکشن میںجو نقصان پہنچاہے وہ PDM کی اس سولہ ماہ کی حکومت کاشاخسانہ ہے جس میں عوام کی مشکلات کو کم کرنے کے بجائے اس میں اضافہ ہی کیاگیا۔ نون لیگ یا میاں نوازشریف اب چاہے کتنی ہی توجہیات پیش کرتے رہیں لیکن شہبازشریف کی سولہ ماہ کی وزارت عظمیٰ نے ان کی برسوں کی کمائی پرپانی پھیر دیا۔انھیں جس سادہ اکثریت کی اُمید تھی وہ بھی نہ مل سکی اوروہ دیگر جماعتوں کو دعوت دیتے دکھائی دے رہے ہیں۔
ان کے لیے اب یہی بہتر ہے کہ چھوٹی جماعتوں کی منت سماجت کرنے اور اُن کی بلیک میلنگ کا شکارہونے کے بجائے اپوزیشن میں بیٹھ جائیں۔ ضروری نہیں کہ ساری دنیا کادرد اپنے سینے میںرکھاجائے۔ ویسے بھی ملک کے معاشی حالات اس قابل نہیں ہیں کہ دوتین سالوں میں عوام کو راحتیں فراہم کی جاسکیں،جو بھی اِن حالات میں حکومت سنبھالے گا اُسے سخت اورکٹھن مشکلات کا سامنا ہوگا۔ بہتر ہے کہ دوسروں کو حکومت بنانے دیا جائے۔