کوچۂ سخن
غزل
حواس کھل کے ٹٹولے بڑے سوال کیے
جنابِ عشق نے کیسے کڑے سوال کیے
یہ حکم تھا کہ سراسر خموش رہنا ہے
مگر فقیر تھے ضد پر اڑے، سوال کیے
مجھے جنون تھا ہر چیز جان لینے کا
سو میری عقل پہ پردے پڑے، سوال کیے
یہ دل اداس فلک کی طرح پڑا ہوا تھا
سو میں نے اس میں ستارے جڑے، سوال کیے
تمام رات نسوں میں لپکتے سناٹے
مرے حواس سے کھل کر لڑے، سوال کیے
اک التفات کا زر تھا ہمارے پیش نظر
سو خود سے جھوٹے مسائل گھڑے، سوال کیے
(عبدالرحمان واصف۔ کہوٹہ)
غزل
یہ شہر جس کو امیر اپنا منتخب کرے گا
حقوق غصب وہی سب کے روز و شب کرے گا
نہیں پڑے ابھی چھینٹے لباس پر جس کے
شریکِ جرم اسے بھی ضرور اب کرے گا
معافیاں بھی بہت گڑگڑا کے مانگے گا
خطاؤں سے بھی مگر اجتناب کب کرے گا
ارادے اس کے ہیں ظاہر تو آرزو معلوم
شجر جلائے گا اور چھاؤں کی طلب کرے گا
اک اور نسل یہی سوچتے ہوئی بوڑھی
نظر زمیں پہ کبھی تو ہمارا رب کرے گا
(اکرم جاذب۔ منڈی بہائُ الدین)
غزل
خوش دوست ہم سے اور ہیں خوش دوستوں سے ہم
اب لطف لے رہے ہیں نزدیکیوں سے ہم
عہدِ وصالِ یار کی گھڑیاں قریب ہیں
ٹکرا رہے ہیں ہجر کی سب الجھنوں سے ہم
جب وہ رہِ وفا سے گزرتے ہیں بار بار
پھر جھانکتے ہیں پیار کی ان کھڑکیوں سے ہم
ان کی حیا کا رنگ ہے ہم پر بھی دوستو
شرما رہے ہیں باغ کی سب تتلیوں سے ہم
دشتِ جنوں میں گزری ہے احمدؔ تمام عمر
واقف ہیں ہم سے منزلیں اور منزلوں سے ہم
(احمد حجازی۔ لیاقت پور، ڈیرہ غازی خان)
غزل
جن سے چھپیں معائبِ دیوار خال خال
ہوتے ہیں ایسے پیڑ ثمر بار خال خال
کچھ اس لئے بھی دام ہر اک شے کے کم ہوئے
آتے ہیں اس گلی میں خریدار خال خال
جائز ہے خوفِ تیزیٔ رفتار اس لئے
دیکھے ہیں تم نے صاحبِ رفتار خال خال
جو مدّعائے دل کو سمجھتے ہیں اچھے سے
اس مدّعا پہ کرتے ہیں تکرار خال خال
میں سوچتا ہوں وقت کی رفتار سے بھی تیز
کچھ اس لئے ہیں میرے طر ف دار خال خال
روشن میں خود کو کرتا رہا خود کی آگ سے
مجھ ایسا ہو گا کوئی چمک دار خال خال
(توحید زیب۔بہاولپور)
غزل
عشق میں صرف جدائی ہے یہ ڈر کیسا ہے
اور بے نام مسافت ہے سفر کیسا ہے
ہر گھڑی مجھ کو تری یاد مزہ دیتی ہے
سحر تیرا ہے کہ یادوں کا مگر کیسا ہے
مان تھا جس پہ مجھے جان سے اپنی بڑھ کر
اس نے الفت کا دیا مجھ کو ثمر کیسا ہے
کوئی خوشبو ہے نہ سایا ہے نہ پھل پھول کوئی
تو نے آنگن میں لگایا جو شجر کیسا ہے
آسماں تجھ کو ترا چاند مبارک ہو مگر
فرش پر دیکھ چمکتا یہ بدر کیسا ہے
نہ کوئی چاند نہ سورج نہ کوئی تارا ہے
یہ اگر میرا نگر ہے تو نگر کیسا ہے
بارہا پٹخا ہے سر اپنا یہاں لا حاصل
لو لگا رکھی ہے جس در سے وہ در کیسا ہے
سب تگ و دو مری بے سود رہی ہے شفقتؔ
زندگی بھر جو کیا میں نے سفر کیسا ہے
(ملک شفقت اللہ شفی۔ جھنگ)
غزل
سمجھ نہ پائے تھے وہ اندرون کی بارش
تبھی تو آنکھ سے جاری ہے خون کی بارش
محل جو خوابوں کا تعمیر کر چکا تھا، اسے
بہا کے لے گئی پھر مون سون کی بارش
کچھ اس طرح مرے برسوں کا ضبط ٹوٹا ہے
جوں ایک ساتھ ہوئی ہے قرون کی بارش
برس! کہ تھوڑی فضا مشکبار ہو جائے
میں خشک راہ کی مٹی تو جون کی بارش
جھٹک کے بھیگتی زلفیں یہ کون گزرا تھا
ہے پارساؤں پہ اب تک جنون کی بارش
کڑک سی چائے، تمھارا خیال، تنہائی
اور اس کے ساتھ یہ رم جھم سکون کی بارش
ردھم کے ساتھ وہ ٹپ ٹپ سنائی دی صادقؔ
کہ جیسے ہوگئی مجھ پر فنون کی بارش
(محمد ولی صادق۔ کوہستان ،خیبر پختونخوا)
غزل
حسد کو لوگ جو دل تک رسائی دیتے ہیں
وہ رشتے دار بھی دشمن دکھائی دیتے ہیں
بھلا خیالِ مراسم بھی ان کو کیا ہو گا
کہ بات بات پہ جن کو صفائی دیتے ہیں
وہی کہ جن سے نبھانے کا عہد ہو جائے
وہی کہ ہم کو ہمیشہ جدائی دیتے ہیں
تمام چہروں سے تشنہ لبی جھلکتی ہے
تمام لوگ ہی پیاسے دکھائی دیتے ہیں
َپرندے اپنی اڑانیں بھی بھول جاتے ہیں
کہ جتنے عرصے تلک ہم رہائی دیتے ہیں
وہ ایک پَر کو بنانے سے ٹھہرے ہیں قاصر
یہ بے وقوف کہ جن کو خدائی دیتے ہیں
امید ہوتی ہے حمزہؔ مزید برکت کی
بطورِ صدقہ جو اپنی کمائی دیتے ہیں
(امیر حمزہ سلفی۔ اسلام آباد)
غزل
اس نے جو مانگا مجھے اس کو دیا
اس کو لیکن پھر بھی میں نے کھو دیا
تھی اذیّت ناک اس کی داستاں
میں تو بس عنوان پڑھ کر رو دیا
گالیاں دیں اس نے لیکن خوش ہوں میں
اس نے مجھ بے بار کو کچھ تو دیا
لڑ رہا ہے آج طوفانوں سے وہ
پھونک سے ڈرتا تھا کل تک جو دیا
باقیوں میں اس کا آدھا بھی نہیں
رب نے جتنا حسن ہے تجھ کو دیا
(شکیل ساحر شاہ۔واشم، مہاراشٹر، بھارت )
غزل
سچ بتا! واقعی نہیں ہو گی
تُو مرے بن دکھی نہیں ہو گی؟
مت کریں آپ عشق کی بیعت
آپ سے پیروی نہیں ہو گی
یہ جو تُو پارسا بنا ہوا ہے
کوئی تجھ کو ملی نہیں ہو گی
تم مرے ہجر میں کرو تو کرو
مجھ سے تو خودکشی نہیں ہو گی
کس طرح سوچتے ہیں آپ کو ہم
آپ کی سوچ بھی نہیں ہو گی
یاد رکھ اے کدال! میری طرح
ہر زمیں ریتلی نہیں ہو گی
زندگی غم کی جیل سے شاید
زندگی بھر بری نہیں ہو گی
(عبداللہ باصرؔ۔گوجرانوالہ)
غزل
اچھا تو تجھے مجھ سے اذیت ہی ملی،ٹھیک
چل ٹھیک ہے کم ظرف تھا،قربانی نہ دی،ٹھیک
اچھا! وہ بری لڑکی ہے؟ بدکار، کمینی
دیکھی تھی تری رال! مگر بات نہ کی، ٹھیک
اچھا تو مصور نے تجھے ایسا بنایا
پوچھا نہ گیا تجھ سے، تری مرضی نہ تھی،ٹھیک
اچھا تو زمیں والے فلک کو نہیں سمجھے
بارش کی تمنا تھی مگر بجلی گری،ٹھیک
ہاں ٹھیک ہے،تُو ٹھیک اسی وقت پہ پہنچا
دیکھا بھی تجھے،پھر بھی نہیں گاڑی رکی،ٹھیک
اچھا تو تری چھت پہ کبوتر نہیں اترے
پانی بھی رکھا تو نے اور آواز بھی دی، ٹھیک
اچھا تو سبھی کچھ تھا فقط کھیل کی حد تک
اچھا تو تجھے میری کبھی فکر نہ تھی، ٹھیک
اچھا ہے شفیقؔ، آپ کو گر بول دے اچھا
ایسا ہے تو پھر آپ بہت اچھے ہیں جی!ٹھیک؟
(نعمان شفیق۔ سرگودھا)
''میں ہوں عونی''
خوشبوؤں کا جسم تھے الدوس تم
تھے مرے عونی بہت مخصوص تم
بھر گئی آنکھیں
قسم رب کی مری جب تجھے دیکھا
اے مرے عونی تو عونی کب لگا؟
تو مرا تاشی ہے، تو عونی کب ہے رے
کیا تجھے معلوم ہے تعداد میں
ہو گئے لاکھوں ترے اب تو شفیق
اب ترے اخوان روتے ہیں شہید!
اے فرشتے تم قیامت سہہ گئے
کافروں کی ہر خیانت سہہ گئے
اے مرے عونی کہ تیری لاش نے
کر دیا گُل قند،ملبہ خون سے
خوبصورت زور آور مرحبا
اے فلسطینی دلاور مرحبا
میں نہ ہو پاؤں گا تیرے لمس سا
اے فرشتے کیا تری گفتار تھی
لگتی تھی کوئی منادی خلد کی
اے مرے معصوم ہوں مغموم ،میں
وہ ترے لہجے کا صادق پن جو اب
ہر نگہ میں اشک بھرتا رہتا ہے
اب تمہارے فالور چپ بیٹھے ہیں
اب یہ لاکھوں ہیں اے عونی!
جان لو۔۔۔
جان لو کی دل پھٹے جاتے ہیں اب
جانتے ہیں صاحبِ توقیر ہے
تو علی اصغرؑ کا دامن گیر ہے
اے شہیدِ بے خطا
اک عرض ہے
بزدلی کی آخری تمثیل ہوں
میں تو بس اشعار کہہ پایا ترے
میں نہ پہنچا ملبے کے اس ڈھیر پر
میں نہ تھا گریہ کناں تجھ شیر پر
اے مرے عونی مجھے تو کر معاف
میں تری سسکی جو ہچکی ہو گئی
نہیں لوری سنا پایا،کہ میں
کوئی پتھر تیرے قاتل کی طرف
پھینکنے پہنچا نہیں،معلوم ہے
یہ ناکافی ہے مذمت
بزدلی!
میں کوئی ہمت نہ جَن پایا
سچ ہے
میں ترا بھائی نہ بَن پایا
عونی!
(ساگر حضورپوری۔گوجرانوالہ)
سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی