نقوی صاحب اکیلے کیا کیا کریں
ن لیگ کے وہ فیورٹ ہیں جبکہ زرداری صاحب ماضی میں انھیں بیٹا تک قرار دے چکے
آپ کا اپنی زندگی میں کچھ ایسے لوگوں سے تعلق ضرور رہا ہو گا جو ہر کسی کے کام آتے ہیں، اپنے انداز کی وجہ سے انھیں تمام حلقوں میں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہو، بیشتر لوگ سمجھتے ہوں کہ وہ ہمارے سب سے زیادہ قریب ہے، اپنے نقوی صاحب بھی ایسے ہی لگتے ہیں۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ انھیں طاقتور ترین حلقوں کی تائید حاصل ہے، ن لیگ کے وہ فیورٹ ہیں جبکہ زرداری صاحب ماضی میں انھیں بیٹا تک قرار دے چکے، ایسی شخصیت کی وجہ سے بعض اوقات آپ کو دو کشتیوں کا سوار ہونا پڑتا ہے۔
محسن نقوی چیئرمین پی سی بی تو بن چکے لیکن جب تک نئی حکومت ذمہ داریاں نہیں سنبھال لیتی وہ نگراں وزیراعلیٰ پنجاب بھی ہیں،حال ہی میں ان کے گھر پر آصف علی زرداری اور شہباز شریف کی اہم ترین سیاسی ملاقات بھی ہوئی، ظاہر سی بات ہے یہ کام زیادہ توجہ طلب ہیں اس وجہ سے کرکٹ کو مکمل وقت نہیں دے پا رہے۔
اب تک ان کی مکمل اسٹاف سے ملاقات بھی نہیں ہو پائی، البتہ وہ وقت نکال کر کچھ دیر کیلیے دفتر ضرور آتے ہیں، دوسری جانب پی ایس ایل کا پہلا میچ چار دن کے فاصلے پر ہے، محسن نقوی نے لاہور میں بعض پروجیکٹس طوفانی رفتار سے مکمل کرائے اب انھیں کرکٹ لیگ کے کام بھی ایسے ہی کرانے ہوں گے۔
پی سی بی کے بیشتر ٹاپ آفیشلز کی خواہش تھی کہ نجم سیٹھی آ جاتے لیکن ایسا نہ ہوا،ایسے لوگوں کو مٹھائی کے ڈبے پھینکنے پڑے، پلان چوپٹ ہونے پر اب وہ بھی تیزی دکھا رہے ہیں کہ بروقت سب کام ہو جائیں، محسن نقوی کیلیے بڑا مسئلہ پی سی بی میں اچھی ٹیم کا نہ ہونا ہے۔
ان کو ایک باصلاحیت سی ای او کی ضرورت ہے جو عدم موجودگی میں بھی انتظامات دیکھتے رہے، گوکہ پی سی بی کا آئین اس کی اجازت نہیں دیتا لیکن کوئی بھی پوسٹ تخلیق کی جا سکتی ہے، جیسے دوستوں کی تنخواہیں نہ روکنے کیلیے خیالی شعبہ اسپیشل پروجیکٹس بنایا گیا جہاں فالتو ملازمین کو بھیج دیا جاتا ہے، سلمان نصیر وکیل ہیں ،انھیں لیگل ڈپارٹمنٹ کا سربراہ ہونا چاہیے مگر سی او او بنا دیا گیا۔
اب وہ آئی سی سی کی میٹنگز میں بھی شرکت کرتے ہیں اور کرکٹ کے بڑے فیصلے بھی انہی کے ہاتھوں میں ہیں، ڈائریکٹر انٹرنیشنل کرکٹ عثمان واہلہ نے جس طرح سینٹرل کنٹریکٹ کے معاملے کو مس ہینڈل کر کے ٹیم کو بغاوت کے دہانے تک پہنچایا وہ سب کے سامنے ہے، اب لیگز کے این او سی مسائل بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، الگ الگ سلوک پر پلیئرز سخت ناخوش ہیں۔
محسن نقوی کو ڈائریکٹر کمرشل بابر حمید کی فائل منگوا کر ضرور پڑھنی چاہیے کہ وہ کیوں پہلے بورڈ سے چلے گئے اور پھر واپسی کیسے ہوئی، حال ہی میں پی ایس ایل پروڈکشن بڈز میں تمام بڈرز نے شکایات کمیٹی سے رجوع کیا اس سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟
میڈیا میں عالیہ رشید نے کام سنبھالنا شروع کیا تھا کہ سمیع برنی کے چاہنے والے انھیں واپس لانے کیلیے سرگرم ہو گئے، یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے ساتھی ڈائریکٹر کو دھکا دینے والے کیس میں بھی انھیں بچایا تھا، محسن نقوی میڈیا کے ہی فرد ہیں یقینا وہ جانتے ہوں گے کہ کون کتنے پانی میں ہے، ان دنوں جیسے ہی وہ قذافی اسٹیڈیم پہنچتے ہیں کچھ لوگ ان کے ساتھ جڑ جاتے ہیں اور واپسی تک ساتھ نہیں چھوڑتے۔
ظاہر ہے ان کے اپنے مفاد ہیں لیکن نقوی صاحب بھی کچے کھلاڑی نہیں ہیں یقینا وہ اپنی دوسری سورسز سے حقائق جان رہے ہوں گے، کئی لوگ نوکریاں بچانے کیلیے ان کے ساتھ تعلق نکال رہے ہیں، کالز بھی آ رہی ہوں گی لیکن فیصلے میرٹ پر کرنے چاہیئں، صرف اس بات پر غور کریں کہ حالیہ عرصے میں رمیز راجہ، نجم سیٹھی یا ذکا اشرف بطور چیئرمین کیوں زیادہ کامیاب نہیں رہے؟وجہ انہی لوگوں پر انحصار ہے جو محسن نقوی کو بھی ورثے میں لے۔
اگر وہ بھی یہی غلطی کریں گے تو مسائل برقرار رہیں گے، پی ایس ایل سر پر ہے ابھی وہ زیادہ تبدیلیاں نہیں کر سکتے البتہ دیکھنا چاہیے کہ کون کتنے پانی میں ہے،اس سے اہلیت کے مطابق ہی کام لیں، لیگ کا جو حال ہوا وہ سب کے سامنے ہے، چار دن باقی ہیں کوئی ہائپ ہی نہیں بنی، ہر کام میں تاخیر ہے، ٹکٹوں کی ویب سائٹ کا اپ ڈاؤن ہی ختم نہیں ہو رہا، ذکا اشرف سے بغض کی وجہ سے بورڈ ملازمین نے جو سستی دکھائی اس کا خمیازہ اب بھگتا پڑ رہا ہے، میں نے سنا ہے کہ محسن نقوی کو اسی سوچ کے ساتھ لایا گیا کہ وہ پی سی بی کی سمت درست کر دیں گے۔
وہ تین سال کیلیے آئے ہیں سب کی حمایت بھی حاصل ہے تو ایسا کریں بھی، ابھی چیلنجز کا طوفان سر اٹھائے سامنے کھڑا ہے، پی ایس ایل کے بعد انھیں اپنی ٹیم میں جو مسائل ہیں وہ حل کرنا ہوں گے، پھرکرکٹ ٹیم کے معاملات دیکھیں، کپتانوں سے ملاقات کر کے انھیں اعتماد دیں، وہاب ریاض ان کے ساتھ وزیر ضرور ہیں لیکن پاکستان میں ان سے بڑے کرکٹ دماغ موجود ہیں ان سے رابطہ کریں۔
صرف وہاب کی باتوں کو حرف آخر نہ سمجھیں، سیاسی ملاقاتوں سے فراغت کے بعد کرکٹرز سے بھی ملیں، کوچ کا مسئلہ حل کریں، حفیظ کو نہیں رکھنا تو نئے کی تلاش شروع کریں کیونکہ ورلڈکپ بھی زیادہ دور نہیں ہے،ایک اور بات جس سے ہر لالچی شخص کی رال ٹپکنے لگتی ہے وہ باہمی سیریز کے میڈیا رائٹس ہیں۔
یہ اربوں روپے کا معاملہ ہے،چیئرمین اچھی ساکھ کے حامل افراد سے بڈنگ کا مرحلہ مکمل کرائیں، چیمپئنز ٹرافی کے معاملات بھی ابھی سے دیکھیں، ہمیں میزبانی کرنا ہے لہذا اسٹیڈیمز کو اپ گریڈ کرانا ہوگا،پی ایس ایل فرنچائز مالکان سے ملاقاتیں کر کے لیگ کو بہتر بنانے کی راہیں تلاش کریں۔
کئی دیگر بڑے معاملات بھی حل طلب ہیں یقینا چیئرمین جب مکمل وقت پی سی بی کو دیں گے تب ان پر بھی نظر ڈالیں گے،ابھی تو وہ وزیر اعظم بنوانے کی کوششوں میں مصروف ہیں، ایک نقوی صاحب اکیلے کیا کیا کریں، البتہ امید ہے سیاسی طوفان تھمنے پر ہمیں پی سی بی میں بھی بہتری آتی دکھائی دے گی، تب تک انتظار ہی کرنا مناسب ہوگا۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ انھیں طاقتور ترین حلقوں کی تائید حاصل ہے، ن لیگ کے وہ فیورٹ ہیں جبکہ زرداری صاحب ماضی میں انھیں بیٹا تک قرار دے چکے، ایسی شخصیت کی وجہ سے بعض اوقات آپ کو دو کشتیوں کا سوار ہونا پڑتا ہے۔
محسن نقوی چیئرمین پی سی بی تو بن چکے لیکن جب تک نئی حکومت ذمہ داریاں نہیں سنبھال لیتی وہ نگراں وزیراعلیٰ پنجاب بھی ہیں،حال ہی میں ان کے گھر پر آصف علی زرداری اور شہباز شریف کی اہم ترین سیاسی ملاقات بھی ہوئی، ظاہر سی بات ہے یہ کام زیادہ توجہ طلب ہیں اس وجہ سے کرکٹ کو مکمل وقت نہیں دے پا رہے۔
اب تک ان کی مکمل اسٹاف سے ملاقات بھی نہیں ہو پائی، البتہ وہ وقت نکال کر کچھ دیر کیلیے دفتر ضرور آتے ہیں، دوسری جانب پی ایس ایل کا پہلا میچ چار دن کے فاصلے پر ہے، محسن نقوی نے لاہور میں بعض پروجیکٹس طوفانی رفتار سے مکمل کرائے اب انھیں کرکٹ لیگ کے کام بھی ایسے ہی کرانے ہوں گے۔
پی سی بی کے بیشتر ٹاپ آفیشلز کی خواہش تھی کہ نجم سیٹھی آ جاتے لیکن ایسا نہ ہوا،ایسے لوگوں کو مٹھائی کے ڈبے پھینکنے پڑے، پلان چوپٹ ہونے پر اب وہ بھی تیزی دکھا رہے ہیں کہ بروقت سب کام ہو جائیں، محسن نقوی کیلیے بڑا مسئلہ پی سی بی میں اچھی ٹیم کا نہ ہونا ہے۔
ان کو ایک باصلاحیت سی ای او کی ضرورت ہے جو عدم موجودگی میں بھی انتظامات دیکھتے رہے، گوکہ پی سی بی کا آئین اس کی اجازت نہیں دیتا لیکن کوئی بھی پوسٹ تخلیق کی جا سکتی ہے، جیسے دوستوں کی تنخواہیں نہ روکنے کیلیے خیالی شعبہ اسپیشل پروجیکٹس بنایا گیا جہاں فالتو ملازمین کو بھیج دیا جاتا ہے، سلمان نصیر وکیل ہیں ،انھیں لیگل ڈپارٹمنٹ کا سربراہ ہونا چاہیے مگر سی او او بنا دیا گیا۔
اب وہ آئی سی سی کی میٹنگز میں بھی شرکت کرتے ہیں اور کرکٹ کے بڑے فیصلے بھی انہی کے ہاتھوں میں ہیں، ڈائریکٹر انٹرنیشنل کرکٹ عثمان واہلہ نے جس طرح سینٹرل کنٹریکٹ کے معاملے کو مس ہینڈل کر کے ٹیم کو بغاوت کے دہانے تک پہنچایا وہ سب کے سامنے ہے، اب لیگز کے این او سی مسائل بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، الگ الگ سلوک پر پلیئرز سخت ناخوش ہیں۔
محسن نقوی کو ڈائریکٹر کمرشل بابر حمید کی فائل منگوا کر ضرور پڑھنی چاہیے کہ وہ کیوں پہلے بورڈ سے چلے گئے اور پھر واپسی کیسے ہوئی، حال ہی میں پی ایس ایل پروڈکشن بڈز میں تمام بڈرز نے شکایات کمیٹی سے رجوع کیا اس سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟
میڈیا میں عالیہ رشید نے کام سنبھالنا شروع کیا تھا کہ سمیع برنی کے چاہنے والے انھیں واپس لانے کیلیے سرگرم ہو گئے، یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے ساتھی ڈائریکٹر کو دھکا دینے والے کیس میں بھی انھیں بچایا تھا، محسن نقوی میڈیا کے ہی فرد ہیں یقینا وہ جانتے ہوں گے کہ کون کتنے پانی میں ہے، ان دنوں جیسے ہی وہ قذافی اسٹیڈیم پہنچتے ہیں کچھ لوگ ان کے ساتھ جڑ جاتے ہیں اور واپسی تک ساتھ نہیں چھوڑتے۔
ظاہر ہے ان کے اپنے مفاد ہیں لیکن نقوی صاحب بھی کچے کھلاڑی نہیں ہیں یقینا وہ اپنی دوسری سورسز سے حقائق جان رہے ہوں گے، کئی لوگ نوکریاں بچانے کیلیے ان کے ساتھ تعلق نکال رہے ہیں، کالز بھی آ رہی ہوں گی لیکن فیصلے میرٹ پر کرنے چاہیئں، صرف اس بات پر غور کریں کہ حالیہ عرصے میں رمیز راجہ، نجم سیٹھی یا ذکا اشرف بطور چیئرمین کیوں زیادہ کامیاب نہیں رہے؟وجہ انہی لوگوں پر انحصار ہے جو محسن نقوی کو بھی ورثے میں لے۔
اگر وہ بھی یہی غلطی کریں گے تو مسائل برقرار رہیں گے، پی ایس ایل سر پر ہے ابھی وہ زیادہ تبدیلیاں نہیں کر سکتے البتہ دیکھنا چاہیے کہ کون کتنے پانی میں ہے،اس سے اہلیت کے مطابق ہی کام لیں، لیگ کا جو حال ہوا وہ سب کے سامنے ہے، چار دن باقی ہیں کوئی ہائپ ہی نہیں بنی، ہر کام میں تاخیر ہے، ٹکٹوں کی ویب سائٹ کا اپ ڈاؤن ہی ختم نہیں ہو رہا، ذکا اشرف سے بغض کی وجہ سے بورڈ ملازمین نے جو سستی دکھائی اس کا خمیازہ اب بھگتا پڑ رہا ہے، میں نے سنا ہے کہ محسن نقوی کو اسی سوچ کے ساتھ لایا گیا کہ وہ پی سی بی کی سمت درست کر دیں گے۔
وہ تین سال کیلیے آئے ہیں سب کی حمایت بھی حاصل ہے تو ایسا کریں بھی، ابھی چیلنجز کا طوفان سر اٹھائے سامنے کھڑا ہے، پی ایس ایل کے بعد انھیں اپنی ٹیم میں جو مسائل ہیں وہ حل کرنا ہوں گے، پھرکرکٹ ٹیم کے معاملات دیکھیں، کپتانوں سے ملاقات کر کے انھیں اعتماد دیں، وہاب ریاض ان کے ساتھ وزیر ضرور ہیں لیکن پاکستان میں ان سے بڑے کرکٹ دماغ موجود ہیں ان سے رابطہ کریں۔
صرف وہاب کی باتوں کو حرف آخر نہ سمجھیں، سیاسی ملاقاتوں سے فراغت کے بعد کرکٹرز سے بھی ملیں، کوچ کا مسئلہ حل کریں، حفیظ کو نہیں رکھنا تو نئے کی تلاش شروع کریں کیونکہ ورلڈکپ بھی زیادہ دور نہیں ہے،ایک اور بات جس سے ہر لالچی شخص کی رال ٹپکنے لگتی ہے وہ باہمی سیریز کے میڈیا رائٹس ہیں۔
یہ اربوں روپے کا معاملہ ہے،چیئرمین اچھی ساکھ کے حامل افراد سے بڈنگ کا مرحلہ مکمل کرائیں، چیمپئنز ٹرافی کے معاملات بھی ابھی سے دیکھیں، ہمیں میزبانی کرنا ہے لہذا اسٹیڈیمز کو اپ گریڈ کرانا ہوگا،پی ایس ایل فرنچائز مالکان سے ملاقاتیں کر کے لیگ کو بہتر بنانے کی راہیں تلاش کریں۔
کئی دیگر بڑے معاملات بھی حل طلب ہیں یقینا چیئرمین جب مکمل وقت پی سی بی کو دیں گے تب ان پر بھی نظر ڈالیں گے،ابھی تو وہ وزیر اعظم بنوانے کی کوششوں میں مصروف ہیں، ایک نقوی صاحب اکیلے کیا کیا کریں، البتہ امید ہے سیاسی طوفان تھمنے پر ہمیں پی سی بی میں بھی بہتری آتی دکھائی دے گی، تب تک انتظار ہی کرنا مناسب ہوگا۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)