نئے انتخابات نئی ذمے داریاں
عوام تو صرف تماشائی ہی رہیں گے مگر سیاسی کارکنوں نے اپنی پارٹیوں کا حق نمک ادا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی
ملک میں عام انتخابات کا میلہ تمام ہوا، مگر کیا گہما گہمی تھی، رات دن رونقیں تھیں، یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا دن عید سے کم نہ تھے تو راتیں شب برات کا منظر پیش کر رہی تھیں، جگہ جگہ کارنر میٹنگز اور جلسے منعقد ہوئے، جلوسوں اور ریلیوں کی بھی بھرمار رہی، سیاسی کارکنان ہی نہیں عام لوگ بھی سیاسی رنگ میں ڈوبے رہے۔ انتخابی امیدواروں کی تقاریر اور ان کے دلفریب نعروں سے دلوں میں نئی نئی امنگیں جاگیں اور مایوسیاں امیدوں میں تبدیل ہوتی نظر آئیں۔
یہ حقیقت ہے کہ انتخابی ماحول سے مرجھائے دل باغ باغ ہوتے رہے۔ عوام تو صرف تماشائی ہی رہیں گے مگر سیاسی کارکنوں نے اپنی پارٹیوں کا حق نمک ادا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اب سیاسی پارٹیاں انھیں کیا انعام دیتی ہیں یہ تو پتا نہیں ہے۔ اس دوران وہ عام لوگ جو بے روزگار تھے کام پر لگ گئے تھے۔
انھوں نے سیاسی پارٹیوں کے لیے کام کرکے پیسے کمائے حقیقت یہ ہے کہ ان انتخابات میں کئی کاروبار بھی چمک اٹھے، ان کی آمدنیاں کئی گنا بڑھ گئیں۔ بینرز اور پینافلیکس بنانے والوں کی چاندی رہی، لاؤڈ اسپیکر والے بھی مزے میں رہے۔ انتخابی پمفلٹوں اور پوسٹروں کی چھپائی نے بعض بند پریسوں کو پھر سے فعال کر دیا پھر پمفلٹوں کی تقسیم بھی کوئی آسان کام نہیں ہے اس کے لیے بھی معاوضے پر لوگوں سے کام لینا پڑا۔
اخبار اور ٹی وی چینلز نے سیاسی پارٹیوں کے انتخابی پروگرام چلائے مگر مفت نہیں۔ ادھر ڈیکوریشن والے ہی نہیں پکوان والے بھی الیکشن کی نعمتوں سے سرفراز ہوئے بغیر نہ رہ سکے جگہ جگہ انتخابی پارٹیاں ہوئیں جہاں کارکنان کو قسم قسم کے کھانے کھلائے گئے۔
اس طرح ہمارے ملک میں الیکشن جہاں رونق کی بہاریں لے کر آیا وہاں کئی لوگوں کے کاروبار چمک اٹھے تو کچھ لوگوں نے انتخابی خدمات انجام دے کر اپنا بھلا کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب جمہوریت کی برکتیں ہیں جو ہماری قوم کو حاصل ہیں۔ دعا ہے کہ ان نعمتوں سے ہمارا ملک اور ہماری قوم ہمیشہ سرفراز اور مستفید ہوتی رہے۔اگر الیکشن مہم کی بات کریں تو سب سے زوردار انتخابی مہم پیپلز پارٹی کی رہی۔ پیپلز پارٹی نے پورے ملک میں جان دار انتخابی مہم چلائی۔
یہ مہم اس لیے زوردار رہی کہ اس مرتبہ بلاول بھٹو نے خود کو بطور وزیر اعظم پیش کیا۔ یہ بڑی بات ہے کہ بزرگوں کے ہوتے ہوئے ایک نوجوان نے وزیر اعظم کے اہم عہدے کے لیے خود کو پیش کیا۔ پاکستان جیسے خستہ حال ملک کا وزیر اعظم بننے کے لیے ایک نوجوان کا بیڑا اٹھانا بڑے دل گردے کی بات ہے۔
وہ اپنے انتخابی جلسوں میں مسلسل میاں نواز شریف کو نشانہ بناتے رہے اور عوام سے بار بار کہتے رہے کہ وہ انھیں چوتھی بار وزیر اعظم نہ بنائیں۔ ادھر جماعت اسلامی کے امیر قاضی سراج الحق نے برملا کہا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) والے ایک ہی ہیں یعنی کہ آپس میں ملے ہوئے ہیں ان کا اختلاف ظاہری ہے۔ الیکشن کے بعد یہ ایک ہو جائیں گے۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ نواز شریف نے اپنی پارٹی کی اتنی مہم نہیں چلائی جتنی اس سے زیادہ بلاول بھٹو نے ان کی مہم چلائی جیسے وہ ہر موقع پر میاں نواز شریف کا نام عوام کے سامنے رکھتے تھے۔
وہ کیوں ان کے چوتھی بار وزیر اعظم بننے کے خلاف ہیں وہ عوام کو اس کی وجہ نہ بتا سکے۔گوکہ وہ میاں صاحب کے خلاف بولتے رہے ہیں مگر دوسری جانب میاں صاحب نے ایک بار بھی بلاول کے خلاف بات نہیں کی اس سے عوام کو لگا کہ بلاول میاں صاحب کے خلاف بول کر دراصل ان کی انتخابی مہم چلا رہے ہیں پھر ہمارے عوام بھی اب سیاستدانوں کی باتوں کو خوب سمجھنے لگے ہیں وہ جو کہتے ہیں دراصل اس کا مطلب الٹا ہی ہوتا ہے۔
بہرحال عوام کی جو بھی سوچ ہو وہ ان کی مرضی ہے مگر یہ بات ضرور قابل غور ہے کہ اس مرتبہ بلاول بھٹو کی الیکشن میں انٹری سے پیپلز پارٹی کو نئی زندگی ملی ہے اب پورے ملک میں پھر سے پیپلز پارٹی کا چرچہ ہے۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد اس پارٹی کو کافی دھچکا لگا تھا اور سیاست میں تحریک انصاف نے اس کی جگہ لے لی تھی۔
سندھ میں پیپلز پارٹی اپنی ساکھ کو قائم رکھنے میں ضرور کامیاب رہی تھی۔ میاں نواز شریف ویسے تو پورے ملک کی بات کرتے ہیں اور پھر مسلم لیگ (ن) کوئی علاقائی پارٹی نہیں ہے یہ پورے ملک میں سیاست کرتی ہے مگر افسوس کہ اس الیکشن میں اس پارٹی نے کراچی کیا پورے سندھ کو بھلائے رکھا، انھوں نے اپنا ایک بھی انتخابی جلسہ یہاں منعقد نہیں کیا۔ کیا سندھ کے عوام ووٹرز نہیں ہیں؟
بہرحال سندھ کے عوام کی (ن) لیگ سے یہ شکایت بالکل بجا ہے کہ اس کی نظر میں سندھ کے ووٹرز کی زیادہ اہمیت نہیں ہے۔ اس مرتبہ شاید مسلم لیگ (ن) کی یہ اسٹرٹیجی تھی کہ پنجاب میں ہی اتنی سیٹیں ہیں کہ اگر ان میں سے سو بھی جیت لی جائیں تو وہ قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت سے حکومت تشکیل دے سکتی ہے۔
پھر شہباز شریف کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کو پہلے ہی اپنا ہمدرد بنا چکے تھے اس کے علاوہ مولانا فضل الرحمن کی پارٹی بھی حکومت سازی میں ان کی مدد کے لیے تیار تھی۔ تحریک انصاف کے آزاد ارکان پر بھی مسلم لیگ (ن) کی نظریں تھیں اور جہانگیر ترین اور علیم خان پہلے ہی ان کے حلیف بن چکے تھے۔
بہرحال میاں نواز شریف جو بھی عذر پیش کریں ان کی کراچی اور سندھ میں غیر حاضری کو عوام نے شدت سے محسوس کیا ہے کہ کیا انھیں کراچی اور سندھ کے عوام کی حمایت کی ضرورت نہیں ہے۔ انھیں کراچی کو تو کسی بھی صورت میں نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔
اب جہاں تک حالیہ عام انتخابات کے نتائج کا تعلق ہے اس کے مطابق قومی اسمبلی کے آزاد امیدواروں نے سب سے زیادہ نشستیں جیت لی ہیں۔ دوسرے نمبر پر مسلم لیگ (ن) اور تیسرے نمبر پر پیپلز پارٹی رہی ہے۔ اس صورت حال میں کوئی بھی ایک پارٹی حکومت بنانے کی پوزیشن میں دکھائی نہیں دیتی ہے۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں مل کر مرکز میں اپنی حکومت بنا سکتے ہیں مگر لگتا ہے زرداری ایسا کرنے میں جلدی نہیں کریں گے کیونکہ بلاول پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ آزاد امیدواروں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی پوری کوشش کریں گے اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو لگتا ہے کچھ آزاد ارکان قومی اسمبلی ان کی جانب متوجہ ہو جائیں مگر چوں کہ پیپلز پارٹی کی نشستیں اتنی زیادہ نہیں ہیں کہ وہ ان چند آزاد اراکین کے ساتھ مرکز میں اپنی حکومت بنا سکیں چنانچہ ان کا ایک دفعہ پھر مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ملنا یقینا فائدہ مند ہو سکتا ہے۔
ان انتخابات میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے اچھی کارکردگی دکھائی ہے وہ بھی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر مرکزی حکومت میں شامل ہو سکتی ہے۔ ایم کیو ایم کا ویسے بھی پہلے سے ہی مسلم لیگ (ن) سے رابطہ قائم ہے۔
متحدہ کا جہاں تک کامیاب رزلٹ کا تعلق ہے اس سے کراچی کے امن پسند عوام کو انتہائی خوشی حاصل ہوئی ہے کیونکہ اس سے وہ تاثر اب ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان لندن کی سپورٹ کے بغیر نہ ہی چل سکتی ہے اور نہ ہی انتخابات میں کامیابی حاصل کرسکتی ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کی سب سے بڑی ذمے داری اس وقت کراچی کے گمبھیر مسائل کو حل کرنا ہے اور وہ مرکزی حکومت میں شامل ہو کر ہی یہ ٹارگٹ حاصل کرسکتی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ انتخابی ماحول سے مرجھائے دل باغ باغ ہوتے رہے۔ عوام تو صرف تماشائی ہی رہیں گے مگر سیاسی کارکنوں نے اپنی پارٹیوں کا حق نمک ادا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اب سیاسی پارٹیاں انھیں کیا انعام دیتی ہیں یہ تو پتا نہیں ہے۔ اس دوران وہ عام لوگ جو بے روزگار تھے کام پر لگ گئے تھے۔
انھوں نے سیاسی پارٹیوں کے لیے کام کرکے پیسے کمائے حقیقت یہ ہے کہ ان انتخابات میں کئی کاروبار بھی چمک اٹھے، ان کی آمدنیاں کئی گنا بڑھ گئیں۔ بینرز اور پینافلیکس بنانے والوں کی چاندی رہی، لاؤڈ اسپیکر والے بھی مزے میں رہے۔ انتخابی پمفلٹوں اور پوسٹروں کی چھپائی نے بعض بند پریسوں کو پھر سے فعال کر دیا پھر پمفلٹوں کی تقسیم بھی کوئی آسان کام نہیں ہے اس کے لیے بھی معاوضے پر لوگوں سے کام لینا پڑا۔
اخبار اور ٹی وی چینلز نے سیاسی پارٹیوں کے انتخابی پروگرام چلائے مگر مفت نہیں۔ ادھر ڈیکوریشن والے ہی نہیں پکوان والے بھی الیکشن کی نعمتوں سے سرفراز ہوئے بغیر نہ رہ سکے جگہ جگہ انتخابی پارٹیاں ہوئیں جہاں کارکنان کو قسم قسم کے کھانے کھلائے گئے۔
اس طرح ہمارے ملک میں الیکشن جہاں رونق کی بہاریں لے کر آیا وہاں کئی لوگوں کے کاروبار چمک اٹھے تو کچھ لوگوں نے انتخابی خدمات انجام دے کر اپنا بھلا کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب جمہوریت کی برکتیں ہیں جو ہماری قوم کو حاصل ہیں۔ دعا ہے کہ ان نعمتوں سے ہمارا ملک اور ہماری قوم ہمیشہ سرفراز اور مستفید ہوتی رہے۔اگر الیکشن مہم کی بات کریں تو سب سے زوردار انتخابی مہم پیپلز پارٹی کی رہی۔ پیپلز پارٹی نے پورے ملک میں جان دار انتخابی مہم چلائی۔
یہ مہم اس لیے زوردار رہی کہ اس مرتبہ بلاول بھٹو نے خود کو بطور وزیر اعظم پیش کیا۔ یہ بڑی بات ہے کہ بزرگوں کے ہوتے ہوئے ایک نوجوان نے وزیر اعظم کے اہم عہدے کے لیے خود کو پیش کیا۔ پاکستان جیسے خستہ حال ملک کا وزیر اعظم بننے کے لیے ایک نوجوان کا بیڑا اٹھانا بڑے دل گردے کی بات ہے۔
وہ اپنے انتخابی جلسوں میں مسلسل میاں نواز شریف کو نشانہ بناتے رہے اور عوام سے بار بار کہتے رہے کہ وہ انھیں چوتھی بار وزیر اعظم نہ بنائیں۔ ادھر جماعت اسلامی کے امیر قاضی سراج الحق نے برملا کہا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) والے ایک ہی ہیں یعنی کہ آپس میں ملے ہوئے ہیں ان کا اختلاف ظاہری ہے۔ الیکشن کے بعد یہ ایک ہو جائیں گے۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ نواز شریف نے اپنی پارٹی کی اتنی مہم نہیں چلائی جتنی اس سے زیادہ بلاول بھٹو نے ان کی مہم چلائی جیسے وہ ہر موقع پر میاں نواز شریف کا نام عوام کے سامنے رکھتے تھے۔
وہ کیوں ان کے چوتھی بار وزیر اعظم بننے کے خلاف ہیں وہ عوام کو اس کی وجہ نہ بتا سکے۔گوکہ وہ میاں صاحب کے خلاف بولتے رہے ہیں مگر دوسری جانب میاں صاحب نے ایک بار بھی بلاول کے خلاف بات نہیں کی اس سے عوام کو لگا کہ بلاول میاں صاحب کے خلاف بول کر دراصل ان کی انتخابی مہم چلا رہے ہیں پھر ہمارے عوام بھی اب سیاستدانوں کی باتوں کو خوب سمجھنے لگے ہیں وہ جو کہتے ہیں دراصل اس کا مطلب الٹا ہی ہوتا ہے۔
بہرحال عوام کی جو بھی سوچ ہو وہ ان کی مرضی ہے مگر یہ بات ضرور قابل غور ہے کہ اس مرتبہ بلاول بھٹو کی الیکشن میں انٹری سے پیپلز پارٹی کو نئی زندگی ملی ہے اب پورے ملک میں پھر سے پیپلز پارٹی کا چرچہ ہے۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد اس پارٹی کو کافی دھچکا لگا تھا اور سیاست میں تحریک انصاف نے اس کی جگہ لے لی تھی۔
سندھ میں پیپلز پارٹی اپنی ساکھ کو قائم رکھنے میں ضرور کامیاب رہی تھی۔ میاں نواز شریف ویسے تو پورے ملک کی بات کرتے ہیں اور پھر مسلم لیگ (ن) کوئی علاقائی پارٹی نہیں ہے یہ پورے ملک میں سیاست کرتی ہے مگر افسوس کہ اس الیکشن میں اس پارٹی نے کراچی کیا پورے سندھ کو بھلائے رکھا، انھوں نے اپنا ایک بھی انتخابی جلسہ یہاں منعقد نہیں کیا۔ کیا سندھ کے عوام ووٹرز نہیں ہیں؟
بہرحال سندھ کے عوام کی (ن) لیگ سے یہ شکایت بالکل بجا ہے کہ اس کی نظر میں سندھ کے ووٹرز کی زیادہ اہمیت نہیں ہے۔ اس مرتبہ شاید مسلم لیگ (ن) کی یہ اسٹرٹیجی تھی کہ پنجاب میں ہی اتنی سیٹیں ہیں کہ اگر ان میں سے سو بھی جیت لی جائیں تو وہ قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت سے حکومت تشکیل دے سکتی ہے۔
پھر شہباز شریف کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کو پہلے ہی اپنا ہمدرد بنا چکے تھے اس کے علاوہ مولانا فضل الرحمن کی پارٹی بھی حکومت سازی میں ان کی مدد کے لیے تیار تھی۔ تحریک انصاف کے آزاد ارکان پر بھی مسلم لیگ (ن) کی نظریں تھیں اور جہانگیر ترین اور علیم خان پہلے ہی ان کے حلیف بن چکے تھے۔
بہرحال میاں نواز شریف جو بھی عذر پیش کریں ان کی کراچی اور سندھ میں غیر حاضری کو عوام نے شدت سے محسوس کیا ہے کہ کیا انھیں کراچی اور سندھ کے عوام کی حمایت کی ضرورت نہیں ہے۔ انھیں کراچی کو تو کسی بھی صورت میں نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔
اب جہاں تک حالیہ عام انتخابات کے نتائج کا تعلق ہے اس کے مطابق قومی اسمبلی کے آزاد امیدواروں نے سب سے زیادہ نشستیں جیت لی ہیں۔ دوسرے نمبر پر مسلم لیگ (ن) اور تیسرے نمبر پر پیپلز پارٹی رہی ہے۔ اس صورت حال میں کوئی بھی ایک پارٹی حکومت بنانے کی پوزیشن میں دکھائی نہیں دیتی ہے۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں مل کر مرکز میں اپنی حکومت بنا سکتے ہیں مگر لگتا ہے زرداری ایسا کرنے میں جلدی نہیں کریں گے کیونکہ بلاول پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ آزاد امیدواروں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی پوری کوشش کریں گے اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو لگتا ہے کچھ آزاد ارکان قومی اسمبلی ان کی جانب متوجہ ہو جائیں مگر چوں کہ پیپلز پارٹی کی نشستیں اتنی زیادہ نہیں ہیں کہ وہ ان چند آزاد اراکین کے ساتھ مرکز میں اپنی حکومت بنا سکیں چنانچہ ان کا ایک دفعہ پھر مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ملنا یقینا فائدہ مند ہو سکتا ہے۔
ان انتخابات میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے اچھی کارکردگی دکھائی ہے وہ بھی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر مرکزی حکومت میں شامل ہو سکتی ہے۔ ایم کیو ایم کا ویسے بھی پہلے سے ہی مسلم لیگ (ن) سے رابطہ قائم ہے۔
متحدہ کا جہاں تک کامیاب رزلٹ کا تعلق ہے اس سے کراچی کے امن پسند عوام کو انتہائی خوشی حاصل ہوئی ہے کیونکہ اس سے وہ تاثر اب ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان لندن کی سپورٹ کے بغیر نہ ہی چل سکتی ہے اور نہ ہی انتخابات میں کامیابی حاصل کرسکتی ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کی سب سے بڑی ذمے داری اس وقت کراچی کے گمبھیر مسائل کو حل کرنا ہے اور وہ مرکزی حکومت میں شامل ہو کر ہی یہ ٹارگٹ حاصل کرسکتی ہے۔