فاروق نائیک کی دانشمندانہ حکمت عملی
ایک وزیر اعظم کو فارغ کروانے کے بعد ’’چالاک زرداری‘‘ نے اپنی مبینہ طور پر جمع شدہ ’’قومی خزانے سے لوٹی دولت‘‘ بچالی
کالم نگاری بازار میں پھیلی گرم خبروں پر فوری ردعمل کے اظہار اور سرسری تبصرہ آرائی سے آگے جا ہی نہیں سکتی۔
معاملات کو تفصیل سے بیان کرنے کے لیے مضامین لکھے جاتے ہیں یا بھاری بھر کم کتابیں۔ راجہ پرویز اشرف کو سپریم کورٹ میں پہلی پیشی کے بعد انگریزی میں لکھنے والے وہ تبصرہ نگار جنھیں پاکستان کے اصل حکمران اور عدلیہ کے متحرک ستارے بڑے غور سے پڑھا کرتے ہیں، تواتر کے ساتھ یہ لکھنا شروع ہو گئے تھے کہ گیلانی کو فارغ کرنے کے بعد ایک اور وزیر اعظم کو توہینِ عدالت کے جرم میں سزا دے کر گھر بھیج دیا گیا تو ''سسٹم'' خطرے میں پڑ جائے گا۔ بہتر ہے کوئی ''درمیانی راستہ'' نکالا جائے۔
میرا ایسے مضامین پر ان کالموں میں فوری ردعمل یہی رہا ہے کہ آئین اور قانون کے نفاذ کو یقینی بنانے والے، معاملات کو سیاہ یا سفید میں تقسیم کر کے دیکھا کرتے ہیں۔ ''درمیانی راستے''سیاستدانوں کی ضرورت ہوا کرتے ہیں۔ بعض اوقات یہ ''درمیانی راستے'' اتنے عجیب اور حیران کن نظر آتے ہیں کہ میرے جیسے کم فہم اور سادہ لوح انھیں ''مک مکا'' کا نام دے ڈالتے ہیں۔ میں تو ''درمیانی راستہ''کی توقع کرنے کی جرأت بھی نہیں کر سکتا۔
مگر پھر جناب فاروق نائیک نے اپنی پسند کے چند بہت ہی قابل اور محترم صحافیوں کو خود بلا کر بتانا شروع کر دیا کہ سپریم کورٹ کے کچھ مہربان لوگ ''درمیانی راستہ'' دینا چاہتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ ''اس چٹھی'' کے سلسلے میں سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔
بجائے صدر زرداری کے خلاف مقدمات کھولنے کے سوئٹزر لینڈ کی حکومت کو محض یہ اطلاع دے کر عدلیہ کو مطمئن کیا جا سکتا ہے کہ ملک قیوم نے جو خط NRO کے بعد لکھا تھا، وہ غیر آئینی ہے۔
حکومتِ پاکستان اسے اپنے سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں واپس لیتی ہے۔ چونکہ آصف علی زرداری کو بطور صدر پاکستان بین الاقوامی عدالتوں کے سامنے پیش ہونے سے استثنیٰ حاصل ہے، اس لیے سوئٹزر لینڈ کی حکومت وہاں موجود بینکوں میں مبینہ طور پر 60 ملین ڈالر کی خطیر رقم کے ذرایع ڈھونڈنے کا تردد ہی نہیں کرے گی۔
سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل ہو جائے گی اور راجہ پرویز اشرف بھی آیندہ انتخابات تک اپنے عہدے پر قائم رہیں گے۔ ''وہ خط'' لکھنے کے بعد سپریم کورٹ سے وزیر اعظم اپنا عہدہ بچانے کے بعد اپنی ساری توانائی بجلی کے بحران کو حل کرنے پر لگا دیں گے۔ مارچ 2013ء تک جب وہ یہ کرنے کے بعد عام انتخابات کی طرف جائیں گے تو پاکستان پیپلز پارٹی کو ناقابلِ تلافی نقصان کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
بلکہ یہ جماعت قومی اسمبلی میں اپنی ٹکٹ پر ایک باعزت اور معقول نظر آنے والی تعداد لانے کے قابل بن جائے گی۔ یہ تعداد اسے آیندہ انتخابات کے بعد بننے والی''مخلوط حکومت'' میں اہم ساجھے دار بنا سکتی ہے اور ''اگلی بار پھر زرداری'' کا قرعہ بھی نکل سکتا ہے۔
سچی بات ہے میرے بہت ہی محترم اور قابل صحافیوں کے ذریعے فاروق نائیک کی بنائی حکمت عملی مجھے تو بہت معقول نظر آئی۔ لیکن یہ سوال بھی میرے ذہن میں بار بار اُٹھتا رہا کہ فاروق صاحب نے اپنی اس دانش مندانہ اور معقول حکمت علمی سے یوسف رضا گیلانی کو کیوں محروم رکھا۔ بیرسٹر اعتزاز احسن کو بھی یہ راستہ دکھایا جا سکتا تھا۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ فاروق نائیک نے اپنا ''نسخہ'' جان بوجھ کر گیلانی اور اعتزاز احسن سے چھپائے رکھا۔ بڑی سفاکی سے ان کی کم علمی، بے بسی اور عدالت کے سامنے ذلت سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ جب وہ دونوں ناکام و رسوا ہو گئے تو نائیک صاحب نے اپنا نسخہ یہ کہہ کر طشت از بام کر دیا کہ: ایسے کہتے ہیں سخن ور سہرا!
بات صرف فاروق نائیک اور چوہدری اعتزاز احسن کے درمیان پیشہ وارانہ جلن، حسد اور مقابلہ آرائی تک محدود رہتی تو اسے نظر انداز کیا جا سکتا تھا۔ مگر ''اس چٹھی'' کا معاملہ اس دور کا اہم ترین سیاسی سوال بن چکا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اسے آئین کے آرٹیکل248 کے حوالے دیتے ہوئے صدارتی استنثیٰ کے ذکر کے ساتھ پارلیمان کی بالا دستی سے جوڑ چکی ہے۔ آصف علی زرداری نے تو ''اس چٹھی'' کا لکھنا ''قبروں پر مقدمہ چلانے'' کے مترادف بھی ٹھہرا دیا تھا۔
میں اب بھی یہ اصرار کرتا ہوں کہ راجہ پرویز اشرف کو موجودہ قومی اسمبلی کی معیاد پوری ہونے تک اپنے عہدے پر براجمان رہنے کے لیے ''وہ چٹھی'' لکھنا ہو گی۔ درمیان کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ وزیر اعظم کے منگل کو سپریم کورٹ کے رو برو پیش ہو جانے کے بعد فاروق نائیک کے چاہنے والے بہت خوش ہیں۔ ان کی ذہانت و فراست کو خراج تحسین پیش کیے جا رہے ہیں۔
فاروق نائیک کی مدح سرائی کے اس شور میں ''زرداری کی چالاکیوں'' پر کڑی نگاہ رکھنے والے چند جید صحافی لوگوں کو یہ یاد دلاکر رنگ میں بھنگ ڈالنے کی کوشش کرتے سنائی دے رہے ہیں کہ شاید وزیر قانون نے اب ''وہ چٹھی'' لکھنے پر رضا مندی کا اظہار اس لیے کیا ہے کہ آصف علی زرداری کے خلاف سوئٹزرلینڈ میں مقدمات کھلنے کے بعد والے 15سال پورے ہو گئے ہیں۔
سوئٹزر لینڈ کے قوانین کے مطابق اگر آپ کسی شخص کو 15سال کے دوران کسی الزام کے تحت سزا نہ دلوا پائیں تو معاملہ ختم سمجھا جاتا ہے۔ اب اگر فاروق نائیک کی چٹھی سوئٹزر لینڈ جائے گی تو اس ملک کے اٹارنی جنرل انھیں شکریہ ادا کرنے کے بعد یہ اطلاع دیں گے کہ ان کے قوانین کے مطابق آصف علی زرداری کے مبینہ طور پر جمع شدہ 60 لاکھ ڈالر کا معاملہ ختم ہو چکا ہے۔
اس پر اب کوئی عدالتی کارروائی نہیں ہو سکتی۔ المختصر ہمارے یہ جید صحافی کہانی یہ بنا رہے ہیں کہ چار سال تک معاملے کو لٹکانے اور اپنے ایک وزیر اعظم کو فارغ کروانے کے بعد ''چالاک زرداری'' نے اپنی مبینہ طور پر جمع شدہ ''قومی خزانے سے لوٹی دولت'' بچالی ہے۔
''چالاک زرداری'' کا سپریم کورٹ کو چار سال تک بہلاوے میں اُلجھائے رکھنے اور گیلانی، بابر اعوان اور بیرسٹر اعتزاز احسن جیسے ''پیارے'' مروانے کے بعد ''اپنی رقم بچا لینے والی'' یہ کہانی اگر چل نکلی تو آیندہ انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کو ذلت آمیز نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ گزشتہ ہفتے میں نے تقریباََ 30 گھنٹے اپنے شہر لاہور میں گزارے۔
مقصد تو ایک بہت ہی پیارے عزیز کے ہاں شادی میں شرکت تھا۔ مگر موقع پا کر وہاں میں ان محلوں میں بھی گیا جہاں عام لوگ رہتے ہیں اور انتخابات میں ہر صورت ووٹ ڈالا کرتے ہیں۔ ان کی باتیں سننے کے بعد میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ آیندہ انتخابات کے لیے کم از کم لاہور شہر سے عقل کا کوئی اندھا ہی پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ کا بڑی بے تابی سے خواہاں نظر آئے گا۔
ہاں کچھ نو دولتیے ''کمپنی کی مشہوری''کے لیے یہ حرکت ضرور کر سکتے ہیں کہ بہت سارا مال کمانے اور اس کا ان کی نظر میں معمولی سا حصہ خرچ کرنے کے بعد اس طرح ان کا ''سیاسی کیریئر'' شروع ہو جائے گا۔ اخباروں میں اور ٹیلی وژن اسکرینوں پر ''نام شام'' بھی آ جائے گا۔ فاروق نائیک کی دانش مندانہ حکمت عملی کی مدح سرائی کرنے والے ''سسٹم'' کے خود ساختہ محافظوں کو شاید اس پہلو کی خبر ہی نہیں۔ وہ اسلام آباد میں رہتے ہیں۔ انگریزی میں سوچتے اور لکھتے ہیں۔ کمپیوٹر سے کھیلتے ہیں اور ''آئی فون'' کے تازہ ترین ماڈل پر اُنگلیاں چلاتے میری اور آپ کی قسمتوں کے فیصلے کیا کرتے ہیں۔
معاملات کو تفصیل سے بیان کرنے کے لیے مضامین لکھے جاتے ہیں یا بھاری بھر کم کتابیں۔ راجہ پرویز اشرف کو سپریم کورٹ میں پہلی پیشی کے بعد انگریزی میں لکھنے والے وہ تبصرہ نگار جنھیں پاکستان کے اصل حکمران اور عدلیہ کے متحرک ستارے بڑے غور سے پڑھا کرتے ہیں، تواتر کے ساتھ یہ لکھنا شروع ہو گئے تھے کہ گیلانی کو فارغ کرنے کے بعد ایک اور وزیر اعظم کو توہینِ عدالت کے جرم میں سزا دے کر گھر بھیج دیا گیا تو ''سسٹم'' خطرے میں پڑ جائے گا۔ بہتر ہے کوئی ''درمیانی راستہ'' نکالا جائے۔
میرا ایسے مضامین پر ان کالموں میں فوری ردعمل یہی رہا ہے کہ آئین اور قانون کے نفاذ کو یقینی بنانے والے، معاملات کو سیاہ یا سفید میں تقسیم کر کے دیکھا کرتے ہیں۔ ''درمیانی راستے''سیاستدانوں کی ضرورت ہوا کرتے ہیں۔ بعض اوقات یہ ''درمیانی راستے'' اتنے عجیب اور حیران کن نظر آتے ہیں کہ میرے جیسے کم فہم اور سادہ لوح انھیں ''مک مکا'' کا نام دے ڈالتے ہیں۔ میں تو ''درمیانی راستہ''کی توقع کرنے کی جرأت بھی نہیں کر سکتا۔
مگر پھر جناب فاروق نائیک نے اپنی پسند کے چند بہت ہی قابل اور محترم صحافیوں کو خود بلا کر بتانا شروع کر دیا کہ سپریم کورٹ کے کچھ مہربان لوگ ''درمیانی راستہ'' دینا چاہتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ ''اس چٹھی'' کے سلسلے میں سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔
بجائے صدر زرداری کے خلاف مقدمات کھولنے کے سوئٹزر لینڈ کی حکومت کو محض یہ اطلاع دے کر عدلیہ کو مطمئن کیا جا سکتا ہے کہ ملک قیوم نے جو خط NRO کے بعد لکھا تھا، وہ غیر آئینی ہے۔
حکومتِ پاکستان اسے اپنے سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں واپس لیتی ہے۔ چونکہ آصف علی زرداری کو بطور صدر پاکستان بین الاقوامی عدالتوں کے سامنے پیش ہونے سے استثنیٰ حاصل ہے، اس لیے سوئٹزر لینڈ کی حکومت وہاں موجود بینکوں میں مبینہ طور پر 60 ملین ڈالر کی خطیر رقم کے ذرایع ڈھونڈنے کا تردد ہی نہیں کرے گی۔
سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل ہو جائے گی اور راجہ پرویز اشرف بھی آیندہ انتخابات تک اپنے عہدے پر قائم رہیں گے۔ ''وہ خط'' لکھنے کے بعد سپریم کورٹ سے وزیر اعظم اپنا عہدہ بچانے کے بعد اپنی ساری توانائی بجلی کے بحران کو حل کرنے پر لگا دیں گے۔ مارچ 2013ء تک جب وہ یہ کرنے کے بعد عام انتخابات کی طرف جائیں گے تو پاکستان پیپلز پارٹی کو ناقابلِ تلافی نقصان کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
بلکہ یہ جماعت قومی اسمبلی میں اپنی ٹکٹ پر ایک باعزت اور معقول نظر آنے والی تعداد لانے کے قابل بن جائے گی۔ یہ تعداد اسے آیندہ انتخابات کے بعد بننے والی''مخلوط حکومت'' میں اہم ساجھے دار بنا سکتی ہے اور ''اگلی بار پھر زرداری'' کا قرعہ بھی نکل سکتا ہے۔
سچی بات ہے میرے بہت ہی محترم اور قابل صحافیوں کے ذریعے فاروق نائیک کی بنائی حکمت عملی مجھے تو بہت معقول نظر آئی۔ لیکن یہ سوال بھی میرے ذہن میں بار بار اُٹھتا رہا کہ فاروق صاحب نے اپنی اس دانش مندانہ اور معقول حکمت علمی سے یوسف رضا گیلانی کو کیوں محروم رکھا۔ بیرسٹر اعتزاز احسن کو بھی یہ راستہ دکھایا جا سکتا تھا۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ فاروق نائیک نے اپنا ''نسخہ'' جان بوجھ کر گیلانی اور اعتزاز احسن سے چھپائے رکھا۔ بڑی سفاکی سے ان کی کم علمی، بے بسی اور عدالت کے سامنے ذلت سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ جب وہ دونوں ناکام و رسوا ہو گئے تو نائیک صاحب نے اپنا نسخہ یہ کہہ کر طشت از بام کر دیا کہ: ایسے کہتے ہیں سخن ور سہرا!
بات صرف فاروق نائیک اور چوہدری اعتزاز احسن کے درمیان پیشہ وارانہ جلن، حسد اور مقابلہ آرائی تک محدود رہتی تو اسے نظر انداز کیا جا سکتا تھا۔ مگر ''اس چٹھی'' کا معاملہ اس دور کا اہم ترین سیاسی سوال بن چکا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اسے آئین کے آرٹیکل248 کے حوالے دیتے ہوئے صدارتی استنثیٰ کے ذکر کے ساتھ پارلیمان کی بالا دستی سے جوڑ چکی ہے۔ آصف علی زرداری نے تو ''اس چٹھی'' کا لکھنا ''قبروں پر مقدمہ چلانے'' کے مترادف بھی ٹھہرا دیا تھا۔
میں اب بھی یہ اصرار کرتا ہوں کہ راجہ پرویز اشرف کو موجودہ قومی اسمبلی کی معیاد پوری ہونے تک اپنے عہدے پر براجمان رہنے کے لیے ''وہ چٹھی'' لکھنا ہو گی۔ درمیان کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ وزیر اعظم کے منگل کو سپریم کورٹ کے رو برو پیش ہو جانے کے بعد فاروق نائیک کے چاہنے والے بہت خوش ہیں۔ ان کی ذہانت و فراست کو خراج تحسین پیش کیے جا رہے ہیں۔
فاروق نائیک کی مدح سرائی کے اس شور میں ''زرداری کی چالاکیوں'' پر کڑی نگاہ رکھنے والے چند جید صحافی لوگوں کو یہ یاد دلاکر رنگ میں بھنگ ڈالنے کی کوشش کرتے سنائی دے رہے ہیں کہ شاید وزیر قانون نے اب ''وہ چٹھی'' لکھنے پر رضا مندی کا اظہار اس لیے کیا ہے کہ آصف علی زرداری کے خلاف سوئٹزرلینڈ میں مقدمات کھلنے کے بعد والے 15سال پورے ہو گئے ہیں۔
سوئٹزر لینڈ کے قوانین کے مطابق اگر آپ کسی شخص کو 15سال کے دوران کسی الزام کے تحت سزا نہ دلوا پائیں تو معاملہ ختم سمجھا جاتا ہے۔ اب اگر فاروق نائیک کی چٹھی سوئٹزر لینڈ جائے گی تو اس ملک کے اٹارنی جنرل انھیں شکریہ ادا کرنے کے بعد یہ اطلاع دیں گے کہ ان کے قوانین کے مطابق آصف علی زرداری کے مبینہ طور پر جمع شدہ 60 لاکھ ڈالر کا معاملہ ختم ہو چکا ہے۔
اس پر اب کوئی عدالتی کارروائی نہیں ہو سکتی۔ المختصر ہمارے یہ جید صحافی کہانی یہ بنا رہے ہیں کہ چار سال تک معاملے کو لٹکانے اور اپنے ایک وزیر اعظم کو فارغ کروانے کے بعد ''چالاک زرداری'' نے اپنی مبینہ طور پر جمع شدہ ''قومی خزانے سے لوٹی دولت'' بچالی ہے۔
''چالاک زرداری'' کا سپریم کورٹ کو چار سال تک بہلاوے میں اُلجھائے رکھنے اور گیلانی، بابر اعوان اور بیرسٹر اعتزاز احسن جیسے ''پیارے'' مروانے کے بعد ''اپنی رقم بچا لینے والی'' یہ کہانی اگر چل نکلی تو آیندہ انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کو ذلت آمیز نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ گزشتہ ہفتے میں نے تقریباََ 30 گھنٹے اپنے شہر لاہور میں گزارے۔
مقصد تو ایک بہت ہی پیارے عزیز کے ہاں شادی میں شرکت تھا۔ مگر موقع پا کر وہاں میں ان محلوں میں بھی گیا جہاں عام لوگ رہتے ہیں اور انتخابات میں ہر صورت ووٹ ڈالا کرتے ہیں۔ ان کی باتیں سننے کے بعد میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ آیندہ انتخابات کے لیے کم از کم لاہور شہر سے عقل کا کوئی اندھا ہی پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ کا بڑی بے تابی سے خواہاں نظر آئے گا۔
ہاں کچھ نو دولتیے ''کمپنی کی مشہوری''کے لیے یہ حرکت ضرور کر سکتے ہیں کہ بہت سارا مال کمانے اور اس کا ان کی نظر میں معمولی سا حصہ خرچ کرنے کے بعد اس طرح ان کا ''سیاسی کیریئر'' شروع ہو جائے گا۔ اخباروں میں اور ٹیلی وژن اسکرینوں پر ''نام شام'' بھی آ جائے گا۔ فاروق نائیک کی دانش مندانہ حکمت عملی کی مدح سرائی کرنے والے ''سسٹم'' کے خود ساختہ محافظوں کو شاید اس پہلو کی خبر ہی نہیں۔ وہ اسلام آباد میں رہتے ہیں۔ انگریزی میں سوچتے اور لکھتے ہیں۔ کمپیوٹر سے کھیلتے ہیں اور ''آئی فون'' کے تازہ ترین ماڈل پر اُنگلیاں چلاتے میری اور آپ کی قسمتوں کے فیصلے کیا کرتے ہیں۔