ناطقہ سرتا گریباں ہےاسے کیا کہیے
ناگہانی آفات کی صورت میں پاکستان کے ریاستی اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو پوراانتظامی ڈھانچہ نااہلی پر مبنی بے
معاشرے اہل علم کی حکمت،دانش اورفکری رہنمائی کے ساتھ قیادتوں کے تدبر، بصیرت اور سیاسی عزم کی بدولت ترقی کی منازل طے کرتے ہیں۔
مگر وہ معاشرے جہاںاہل دانش فکری ابہام میں مبتلاہوںاور قیادتیں کوتاہ بین اور موقع پرست ہوں،تباہی کے راستے پر گامزن ہوجاتے ہیں ۔ایسے معاشرے علم اور اخلاقی اقدار سے دور ہونے کی وجہ سے جہل آمادہ جذباتیت کا شکار ہوکراپنی زندگیاں کج بحثی اور بے مقصدماضی پرستی میں ضایع کردیتے ہیں۔طاقت کے غلط استعمال، قانون کے دہرے معیار اوراچھی حکمرانی کے تصور سے ناآشنا ہونے کے سبب زندگی میںرونما ہونے والے حادثات، سانحات اور افسوسناک واقعات کو قسمت کالکھا سمجھ کر قبول کرنے پر مجبورہوجاتے ہیں۔
ان کی نمائشی ترقی اور زندگی میں میسر سہولیات سبھی کچھ مستعار ہوتا ہے۔یوں اپنی محدود سوچ، جہل اورحماقتوں کے باعث وقت کی گرد تلے دب کر تاریخ کا عبرت ناک باب بن جاتے ہیں۔
پاکستانی معاشرہ ایسی ہی کیفیت سے دوچار چلاآرہاہے۔ یہاںنہ اہل دانش واضح سمت متعین کرنے میں مدد دے رہے ہیں اور نہ قائدین میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ معاشرے کودرپیش مسائل کاصحیح ادراک کرتے ہوئے انھیں سنجیدگی سے حل کرکے سماج کو آگے کی طرف لے جاسکیں۔ پوری قوم کے ذہنوں میں یہ بٹھادیاگیا ہے کہ قومی سلامتی کا انحصار علم وآگہی کے فروغ، سماجی ترقی اورمعاشی استحکام کے بجائے فوجی قوت کے اضافے پر ہے۔
یہی وجہ ہے پوری قوم اپنے وسائل کا خطیر حصہ صرف عسکری قوت بڑھانے پرصرف کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ حالانکہ اس کے خاطرخواہ نتائج بھی برآمد نہیں ہوئے ہیں۔بلکہ حالیہ چند برسوں کے دوران ہونے والے چند مظاہر نے قومی سلامتی کی قلعی کھول دی ہے۔آج صورتحال یہ ہے کہ پوری قوم صحت، سماجی ترقی اور معاشی ترقی کے اہداف سے بہت دور جہل، ناخواندگی اور بے علمی کے اندھیرے غار میں ٹامک ٹوئیاں ماررہی ہے اور کبھی آمریت اورکبھی جمہوریت کی شکل میں ایک ہی مخصوص موقع پرست طبقہ تسلسل کے ساتھ ان پر مسلط چلاآرہاہے۔جس نے کرپشن، بدعنوانی اور قانون شکنی کابازار گرم کررکھا ہے۔
اس تناظرمیںناگہانی آفات کی صورت میں پاکستان کے ریاستی اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو پوراانتظامی ڈھانچہ نااہلی پر مبنی بے بسی کی تصویر نظر آئے گا۔ اکتوبر2005ء میں کشمیر اور خیبر پختونخواہ کے بعض اضلاع میں آنے والے زلزلے کی مثال کو لیجیے، حکومت اور اس کے مختلف ادارے ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کی صلاحیت اور ضروری آلات نہ ہونے کی وجہ سے کئی گھنٹوں تک افراتفری کاشکار رہے۔نتیجتاً ایسے ہزاروں افراد جنھیں بروقت کارروائی کے ذریعہ بچایاجاسکتا تھا، حکومتی نااہلی کے سبب لقمہ اجل ہوگئے۔
وہ تو بھلاہو عالمی امدادی اداروں اور سماجی تنظیموں کا جنہوں نے بروقت کارروائی کرکے متاثرہ لوگوں کوبچانے اور ان کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا۔ اس وقت اگر صرف حکومتی اقدام پر تکیہ کیا جاتا،نقصانات مزید کئی گنا زیادہ ہوسکتے تھے۔لیکن افسوس ناک پہلویہ ہے کہ اس موقعے پر بھی نااہل،بے حس اورموقع پرست انتظامیہ نے کرپشن اور بدعنوانی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیااورآنے والی امدادمیں بھی خرد بردکے نئے ریکارڈقائم کیے۔
ایسی ہی تشویشناک صورتحال2010ء کے سیلاب کے موقعے پر پیش آئی۔جس نے حکومت، ریاستی اداروں اور سیاسی جماعتوں کی نااہلی کا ایک بار پھر پردہ چاک کیا۔ اس سیلاب کے نتیجے میں لاکھوں ایکڑ زمین زیر آب آگئی۔جس کی وجہ سے لاکھوںخاندان بے گھرہوئے اورلاکھوںٹن غذائی اجناس ضایع ہوئیں۔فوج کے علاوہ کسی انتظامی ادارے کی کارروائی اطمینان بخش نہیں تھی۔
حالانکہ ڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹی قائم ہوچکی تھی۔ مگر اس ادارے کی کارکردگی بھی مایوس کن رہی۔یہاں پھر عوام کے علاوہ عالمی امدای اداروں نے خطیر امداد دی۔لیکن ایک بار پھر کرپشن اور بدعنوانیوں کی کہانیاں عام ہوئیں۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 2011ء میں سندھ کے بیشتر حصوں میں آنے والے سیلاب پر عالمی برادری نے کوئی خاص توجہ نہیں دی،کیونکہ انھیں اندازہ ہوگیاکہ اس ملک کے حکمران اور انتظامی ادارے متاثرہ عوام کی بحالی اور آیندہ بچائو کی تدابیر کرنے کے بجائے امدادی رقم ہڑپ کرجاتے ہیں۔
اس بات پر یقین نہیں کیا جاسکتا کہ حکومت اور ریاستی ادارے کرہ ارض پررونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلی سے ناواقف ہیں۔جس کے نتیجے میں بارشوں، سیلابوں اورطوفانوں کی شدت میں اضافہ ہورہاہے۔لیکن سرکاری سطح پران آفات سے نمٹنے کے لیے کوئی ٹھوس پالیسی یا ہنگامی پروگرام دو برس گزرنے کے باوجودابھی تک سامنے نہیں آسکاہے۔نتیجتاًآج سندھ، جنوبی پنجاب، بلوچستان سمیت ملک کے بیشتر اضلاع ایک بار پھرسیلابی پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ دنیا کے بیشتر ممالک برسات کے پانی کو ضایع ہونے سے بچانے کے لیے چھوٹے بڑے reservoir بناکر سیلابوں کی تباہ کاریوں سے بچنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔
نیپال میں ہر شہری نے اپنے گھر کی چھت پر reservoir بنالیے ہیں،تاکہ بارش کے پانی کو جمع کرکے قلت کے دنوں میں استعمال کیا جاسکے۔پاکستان میںہرسال لاکھوں کیوسک پانی کھیتوں،کھلیانوں کے علاوہ انسانی آبادی کو بھی نقصان پہنچاتا ہے یاپھر ضایع ہوجاتاہے۔اگر ہمارے یہاں اس قسم کے reservoir بناکرسیلابی پانی کو جمع کرلیاجائے توسیلاب کی تباہ کاریوں سے بچنے کے علاوہ اس پانی کو قلت کے دنوں میں استعمال کیاجاسکتا ہے۔
مگر کسی کو اس بارے میں سوچنے کی نہ فرصت ہے اور نہ اہلیت۔ ویسے بھی جب مفت کی امداد ہاتھ آرہی ہو تو غور وفکر کرنے کی کیا ضرورت۔اب گیارہ ستمبر کو کراچی اور لاہور کی دو فیکٹریوںمیں لگنے والی آگ کے نقصانات کی طرف آئیے۔اس آتشزدگی سے لاہور میں25جب کہ کراچی میں سیکڑوں محنت کش لقمہ اجل ہوگئے۔ اتنی ہی تعداد اسپتالوں میں پڑی موت وزیست کی کشمکش میں مبتلا ہے۔بے شک یہ ایک ناگہانی حادثہ ہے، لیکن اس کے پس پشت نااہلی، کرپشن اور اقرباپروری کی ان گنت داستانیںبھی ہیں۔
کراچی کی فیکٹری میں لگنے والی آگ پر 48 گھنٹے تک آگ پر قابونہ پایا جانا انتظامی اداروں کی نااہلی کو ظاہر کرتا ہے۔دوسرے پھنسے ہوئے لوگوں کو بچانے کے بجائے Rescue کے نام پر صرف لاشیں نکالی گئیں۔یہاں کئی سوال پیدا ہوتے ہیں۔ اول،یہ کہ اتنے بڑے شہر میں فائربریگیڈکامناسب نظام کیوں نہیں ہے؟دوئم،ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ضروری مشینری اور آلات کی کمی کیوںہے؟سوئم،صوبائی حکومت کے مختلف شعبے جن میںوزارت صنعت، وزارت محنت ، وزارت خزانہ اوربلڈنگ کنٹرول اتھارٹی جیسے محکمہ شامل ہیں،اپنی ذمے داریاں پوری کرنے میں مسلسل کیوں ناکام ہیں؟چہارم،متعلقہ محکموں اوراداروں کو ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کی تربیت کیوں نہیں دی جاتی؟
محنت کشوں کے مسائل پر کام کرنے والی تنظیموں خاص طورپر پائلر اور لیبر پارٹی کئی دہائیوں سے پاکستان کے صنعتی علاقوں میں لیبر قوانین کی کھلی خلاف ورزیوںکی نشاندہی کرتی رہی ہیں۔مگر ان پر توجہ دینے کے بجائے تسلسل کے ساتھ فیکٹری قوانین کی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں۔ان تنظیموں کی تحقیق کے مطابق پورے ملک میںغیررسمی (Informal) مزدوروں کی تعداد 80فیصدسے تجاوز کرچکی ہے۔
غیر رسمی مزدوروہ محنت کش ہوتے ہیں، جنھیں نہ تقرری نامہ جاری کیا جاتاہے اور نہ انھیں قانون کے مطابق سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔بلکہ انھیں ٹھیکیداری نظام کے تحت ملازم رکھا جاتا ہے،جس کی وجہ سے وہ ہفتہ وار، تہواروں اور اتفاقی چھٹیوں کے حق سے محروم ہوتے ہیں۔ تقرری نامہ نہ ہونے کی وجہ سے انھیں سوشل سیکیورٹی میں رجسٹر نہیں کیا جاتا اور انھیںحکومت کی اعلان کردہ کم سے کم اجرت بھی نہیں دی جاتی۔
یہ تو صورتحال کا ایک پہلو ہے، جس پر عمل درآمد کی ذمے داری وزارت محنت پر عائد ہوتی ہے۔اس کے علاوہ مختلف صنعتوں میں کام کرنے والے محنت کشوں کو دی جانے والی اجرتوں کی جانچ پڑتال کرکے کم سے کم اجرت کو یقینی بنانا،انھیں سوشل سیکیورٹی اورEOBIمیںرجسٹر کروانا اور ان کے دیگر مفادات کا تحفظ کرنابھی اسی وزارت کی ذمے داری ہے۔ مگریہ محکمہ اپنی ذمے داریاں نبھانے میں مسلسل ناکام ہے۔
اس محکمے کے بدعنوان اور کرپٹ اہلکار صنعت کاروں سے رشوت لے کر ان کے مزدوروں کی کم تعداد ظاہر کرکے مزدور حقوق پر ڈاکہ زنی میںصنعتکاروں کے ساتھ برابر کا شریک ہیں۔اس صورتحال کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ صنعت لگانے کے حوالے سے برطانوی دور سے کچھ قوانین نافذ ہیں۔مگرپاکستان میںان پر عملدرآمد نہیں ہورہا۔ نہ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی فیکٹری عمارتوں کا معائنہ کررہی ہے اورنہ وزارت صنعت، صنعتوں کی کارکردگی کی مانیٹرنگ کررہی ہے۔
کراچی اورلاہور میں ہونے والی ہلاکتوں کے بعد یہ انداز ہوا کہ پاکستان میں کئی دہائیوںسے انحطاط پذیرحکمرانی، اب مکمل ناکامی کی سطح تک جاپہنچی ہے۔ اس لیے پاکستان کے پورے انتظامی ڈھانچے کو ایک مکمل سرجیکل آپریشن کی ضرورت ہے، جس کے بغیر اصلاح احوال کی توقع عبث ہے۔جہاں تک محنت کشوںکا تعلق ہے،توان کے مسائل کے حل کے لیے سب سے پہلے صنعتی ماحول کوبہتربنانا اورانھیں تحفظ فراہم کرنا ضروری ہے۔
دوسرے پاکستان میں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی طرح سوشل سیکیورٹی کے نظام کو ہر سطح پر نافذ کیا جائے اور قومی شناختی کارڈ کی طرز پر ہر شہری کوسوشل سیکیورٹی کارڈ جاری کیا جائے۔سوئم، ہر صوبائی حکومت وقتاً فوقتاً اعلان کردہ کم سے کم اجرت پر عمل درآمد اور ILOکنونشنز اور لیبر قوانین کے مطابق محنت کشوں کے حقوق کو یقینی بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔ان ابتدائی اقدامات کے بغیر مزدوروں کے حقوق کی ضمانت ممکن نہیں ہے۔
مگر وہ معاشرے جہاںاہل دانش فکری ابہام میں مبتلاہوںاور قیادتیں کوتاہ بین اور موقع پرست ہوں،تباہی کے راستے پر گامزن ہوجاتے ہیں ۔ایسے معاشرے علم اور اخلاقی اقدار سے دور ہونے کی وجہ سے جہل آمادہ جذباتیت کا شکار ہوکراپنی زندگیاں کج بحثی اور بے مقصدماضی پرستی میں ضایع کردیتے ہیں۔طاقت کے غلط استعمال، قانون کے دہرے معیار اوراچھی حکمرانی کے تصور سے ناآشنا ہونے کے سبب زندگی میںرونما ہونے والے حادثات، سانحات اور افسوسناک واقعات کو قسمت کالکھا سمجھ کر قبول کرنے پر مجبورہوجاتے ہیں۔
ان کی نمائشی ترقی اور زندگی میں میسر سہولیات سبھی کچھ مستعار ہوتا ہے۔یوں اپنی محدود سوچ، جہل اورحماقتوں کے باعث وقت کی گرد تلے دب کر تاریخ کا عبرت ناک باب بن جاتے ہیں۔
پاکستانی معاشرہ ایسی ہی کیفیت سے دوچار چلاآرہاہے۔ یہاںنہ اہل دانش واضح سمت متعین کرنے میں مدد دے رہے ہیں اور نہ قائدین میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ معاشرے کودرپیش مسائل کاصحیح ادراک کرتے ہوئے انھیں سنجیدگی سے حل کرکے سماج کو آگے کی طرف لے جاسکیں۔ پوری قوم کے ذہنوں میں یہ بٹھادیاگیا ہے کہ قومی سلامتی کا انحصار علم وآگہی کے فروغ، سماجی ترقی اورمعاشی استحکام کے بجائے فوجی قوت کے اضافے پر ہے۔
یہی وجہ ہے پوری قوم اپنے وسائل کا خطیر حصہ صرف عسکری قوت بڑھانے پرصرف کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ حالانکہ اس کے خاطرخواہ نتائج بھی برآمد نہیں ہوئے ہیں۔بلکہ حالیہ چند برسوں کے دوران ہونے والے چند مظاہر نے قومی سلامتی کی قلعی کھول دی ہے۔آج صورتحال یہ ہے کہ پوری قوم صحت، سماجی ترقی اور معاشی ترقی کے اہداف سے بہت دور جہل، ناخواندگی اور بے علمی کے اندھیرے غار میں ٹامک ٹوئیاں ماررہی ہے اور کبھی آمریت اورکبھی جمہوریت کی شکل میں ایک ہی مخصوص موقع پرست طبقہ تسلسل کے ساتھ ان پر مسلط چلاآرہاہے۔جس نے کرپشن، بدعنوانی اور قانون شکنی کابازار گرم کررکھا ہے۔
اس تناظرمیںناگہانی آفات کی صورت میں پاکستان کے ریاستی اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو پوراانتظامی ڈھانچہ نااہلی پر مبنی بے بسی کی تصویر نظر آئے گا۔ اکتوبر2005ء میں کشمیر اور خیبر پختونخواہ کے بعض اضلاع میں آنے والے زلزلے کی مثال کو لیجیے، حکومت اور اس کے مختلف ادارے ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کی صلاحیت اور ضروری آلات نہ ہونے کی وجہ سے کئی گھنٹوں تک افراتفری کاشکار رہے۔نتیجتاً ایسے ہزاروں افراد جنھیں بروقت کارروائی کے ذریعہ بچایاجاسکتا تھا، حکومتی نااہلی کے سبب لقمہ اجل ہوگئے۔
وہ تو بھلاہو عالمی امدادی اداروں اور سماجی تنظیموں کا جنہوں نے بروقت کارروائی کرکے متاثرہ لوگوں کوبچانے اور ان کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا۔ اس وقت اگر صرف حکومتی اقدام پر تکیہ کیا جاتا،نقصانات مزید کئی گنا زیادہ ہوسکتے تھے۔لیکن افسوس ناک پہلویہ ہے کہ اس موقعے پر بھی نااہل،بے حس اورموقع پرست انتظامیہ نے کرپشن اور بدعنوانی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیااورآنے والی امدادمیں بھی خرد بردکے نئے ریکارڈقائم کیے۔
ایسی ہی تشویشناک صورتحال2010ء کے سیلاب کے موقعے پر پیش آئی۔جس نے حکومت، ریاستی اداروں اور سیاسی جماعتوں کی نااہلی کا ایک بار پھر پردہ چاک کیا۔ اس سیلاب کے نتیجے میں لاکھوں ایکڑ زمین زیر آب آگئی۔جس کی وجہ سے لاکھوںخاندان بے گھرہوئے اورلاکھوںٹن غذائی اجناس ضایع ہوئیں۔فوج کے علاوہ کسی انتظامی ادارے کی کارروائی اطمینان بخش نہیں تھی۔
حالانکہ ڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹی قائم ہوچکی تھی۔ مگر اس ادارے کی کارکردگی بھی مایوس کن رہی۔یہاں پھر عوام کے علاوہ عالمی امدای اداروں نے خطیر امداد دی۔لیکن ایک بار پھر کرپشن اور بدعنوانیوں کی کہانیاں عام ہوئیں۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 2011ء میں سندھ کے بیشتر حصوں میں آنے والے سیلاب پر عالمی برادری نے کوئی خاص توجہ نہیں دی،کیونکہ انھیں اندازہ ہوگیاکہ اس ملک کے حکمران اور انتظامی ادارے متاثرہ عوام کی بحالی اور آیندہ بچائو کی تدابیر کرنے کے بجائے امدادی رقم ہڑپ کرجاتے ہیں۔
اس بات پر یقین نہیں کیا جاسکتا کہ حکومت اور ریاستی ادارے کرہ ارض پررونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلی سے ناواقف ہیں۔جس کے نتیجے میں بارشوں، سیلابوں اورطوفانوں کی شدت میں اضافہ ہورہاہے۔لیکن سرکاری سطح پران آفات سے نمٹنے کے لیے کوئی ٹھوس پالیسی یا ہنگامی پروگرام دو برس گزرنے کے باوجودابھی تک سامنے نہیں آسکاہے۔نتیجتاًآج سندھ، جنوبی پنجاب، بلوچستان سمیت ملک کے بیشتر اضلاع ایک بار پھرسیلابی پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ دنیا کے بیشتر ممالک برسات کے پانی کو ضایع ہونے سے بچانے کے لیے چھوٹے بڑے reservoir بناکر سیلابوں کی تباہ کاریوں سے بچنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔
نیپال میں ہر شہری نے اپنے گھر کی چھت پر reservoir بنالیے ہیں،تاکہ بارش کے پانی کو جمع کرکے قلت کے دنوں میں استعمال کیا جاسکے۔پاکستان میںہرسال لاکھوں کیوسک پانی کھیتوں،کھلیانوں کے علاوہ انسانی آبادی کو بھی نقصان پہنچاتا ہے یاپھر ضایع ہوجاتاہے۔اگر ہمارے یہاں اس قسم کے reservoir بناکرسیلابی پانی کو جمع کرلیاجائے توسیلاب کی تباہ کاریوں سے بچنے کے علاوہ اس پانی کو قلت کے دنوں میں استعمال کیاجاسکتا ہے۔
مگر کسی کو اس بارے میں سوچنے کی نہ فرصت ہے اور نہ اہلیت۔ ویسے بھی جب مفت کی امداد ہاتھ آرہی ہو تو غور وفکر کرنے کی کیا ضرورت۔اب گیارہ ستمبر کو کراچی اور لاہور کی دو فیکٹریوںمیں لگنے والی آگ کے نقصانات کی طرف آئیے۔اس آتشزدگی سے لاہور میں25جب کہ کراچی میں سیکڑوں محنت کش لقمہ اجل ہوگئے۔ اتنی ہی تعداد اسپتالوں میں پڑی موت وزیست کی کشمکش میں مبتلا ہے۔بے شک یہ ایک ناگہانی حادثہ ہے، لیکن اس کے پس پشت نااہلی، کرپشن اور اقرباپروری کی ان گنت داستانیںبھی ہیں۔
کراچی کی فیکٹری میں لگنے والی آگ پر 48 گھنٹے تک آگ پر قابونہ پایا جانا انتظامی اداروں کی نااہلی کو ظاہر کرتا ہے۔دوسرے پھنسے ہوئے لوگوں کو بچانے کے بجائے Rescue کے نام پر صرف لاشیں نکالی گئیں۔یہاں کئی سوال پیدا ہوتے ہیں۔ اول،یہ کہ اتنے بڑے شہر میں فائربریگیڈکامناسب نظام کیوں نہیں ہے؟دوئم،ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ضروری مشینری اور آلات کی کمی کیوںہے؟سوئم،صوبائی حکومت کے مختلف شعبے جن میںوزارت صنعت، وزارت محنت ، وزارت خزانہ اوربلڈنگ کنٹرول اتھارٹی جیسے محکمہ شامل ہیں،اپنی ذمے داریاں پوری کرنے میں مسلسل کیوں ناکام ہیں؟چہارم،متعلقہ محکموں اوراداروں کو ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کی تربیت کیوں نہیں دی جاتی؟
محنت کشوں کے مسائل پر کام کرنے والی تنظیموں خاص طورپر پائلر اور لیبر پارٹی کئی دہائیوں سے پاکستان کے صنعتی علاقوں میں لیبر قوانین کی کھلی خلاف ورزیوںکی نشاندہی کرتی رہی ہیں۔مگر ان پر توجہ دینے کے بجائے تسلسل کے ساتھ فیکٹری قوانین کی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں۔ان تنظیموں کی تحقیق کے مطابق پورے ملک میںغیررسمی (Informal) مزدوروں کی تعداد 80فیصدسے تجاوز کرچکی ہے۔
غیر رسمی مزدوروہ محنت کش ہوتے ہیں، جنھیں نہ تقرری نامہ جاری کیا جاتاہے اور نہ انھیں قانون کے مطابق سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔بلکہ انھیں ٹھیکیداری نظام کے تحت ملازم رکھا جاتا ہے،جس کی وجہ سے وہ ہفتہ وار، تہواروں اور اتفاقی چھٹیوں کے حق سے محروم ہوتے ہیں۔ تقرری نامہ نہ ہونے کی وجہ سے انھیں سوشل سیکیورٹی میں رجسٹر نہیں کیا جاتا اور انھیںحکومت کی اعلان کردہ کم سے کم اجرت بھی نہیں دی جاتی۔
یہ تو صورتحال کا ایک پہلو ہے، جس پر عمل درآمد کی ذمے داری وزارت محنت پر عائد ہوتی ہے۔اس کے علاوہ مختلف صنعتوں میں کام کرنے والے محنت کشوں کو دی جانے والی اجرتوں کی جانچ پڑتال کرکے کم سے کم اجرت کو یقینی بنانا،انھیں سوشل سیکیورٹی اورEOBIمیںرجسٹر کروانا اور ان کے دیگر مفادات کا تحفظ کرنابھی اسی وزارت کی ذمے داری ہے۔ مگریہ محکمہ اپنی ذمے داریاں نبھانے میں مسلسل ناکام ہے۔
اس محکمے کے بدعنوان اور کرپٹ اہلکار صنعت کاروں سے رشوت لے کر ان کے مزدوروں کی کم تعداد ظاہر کرکے مزدور حقوق پر ڈاکہ زنی میںصنعتکاروں کے ساتھ برابر کا شریک ہیں۔اس صورتحال کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ صنعت لگانے کے حوالے سے برطانوی دور سے کچھ قوانین نافذ ہیں۔مگرپاکستان میںان پر عملدرآمد نہیں ہورہا۔ نہ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی فیکٹری عمارتوں کا معائنہ کررہی ہے اورنہ وزارت صنعت، صنعتوں کی کارکردگی کی مانیٹرنگ کررہی ہے۔
کراچی اورلاہور میں ہونے والی ہلاکتوں کے بعد یہ انداز ہوا کہ پاکستان میں کئی دہائیوںسے انحطاط پذیرحکمرانی، اب مکمل ناکامی کی سطح تک جاپہنچی ہے۔ اس لیے پاکستان کے پورے انتظامی ڈھانچے کو ایک مکمل سرجیکل آپریشن کی ضرورت ہے، جس کے بغیر اصلاح احوال کی توقع عبث ہے۔جہاں تک محنت کشوںکا تعلق ہے،توان کے مسائل کے حل کے لیے سب سے پہلے صنعتی ماحول کوبہتربنانا اورانھیں تحفظ فراہم کرنا ضروری ہے۔
دوسرے پاکستان میں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی طرح سوشل سیکیورٹی کے نظام کو ہر سطح پر نافذ کیا جائے اور قومی شناختی کارڈ کی طرز پر ہر شہری کوسوشل سیکیورٹی کارڈ جاری کیا جائے۔سوئم، ہر صوبائی حکومت وقتاً فوقتاً اعلان کردہ کم سے کم اجرت پر عمل درآمد اور ILOکنونشنز اور لیبر قوانین کے مطابق محنت کشوں کے حقوق کو یقینی بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔ان ابتدائی اقدامات کے بغیر مزدوروں کے حقوق کی ضمانت ممکن نہیں ہے۔