عوامی ریفرنڈم

عوام نے ووٹ کے ذریعے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے اور اس ووٹ کا احترام کیا جانا چاہیے

Abdulqhasan@hotmail.com

پاکستان کی پچھتر سالہ تاریخ کے ایک اور عام انتخابات کو متنارعہ قرار دیا جارہا ہے لیکن اس دفعہ ان میں انفردایت کی بات یہ ہے کہ یہ واحد الیکشن ہے جس میں اتنی بڑی تعداد میں آزاد امیدوار کامیاب ہوئے ہوئے جب کہ ایک درخشاں مثال کراچی سے جماعت اسلامی کے جیتنے والے امیدوار حافظ نعیم الرحمن نے قائم کی ہے۔

انھوں اپنی جیت کو آزاد امیدوار کی جیت قرار دیتے ہوئے اپنی نشست سے دستبرداری کا اعلان کردیا ہے۔ انھوں نے الیکشن کمیشن کو کہا ہے کہ جس امیدوار کے ووٹ زیادہ ہیں، اس کی جیت کا اعلان کیا جائے۔

مرشد مولانا مودودی کے اس پیرو کار کے اس اعلان نے ملکی سیاست میں کھلبلی مچا دی ہے اور جماعت کے اس کارکن کے عمل نے اس حقیقت کو اجاگر کیا ہے کہ قوم کا ضمیر ابھی زندہ ہے جب کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے بھی الیکشن میں جماعت کو مطلوبہ کامیابی نہ ملنے پر جماعت کی امارت سے استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا ہے۔

جماعت اسلامی کے علاوہ جناب جہانگیر ترین اور پرویز خٹک جو کبھی تحریک انصاف کے صف اول کے رہنماء تھے لیکن کسی خوش فہمی میں اس سے الگ ہو کر نئی سیاسی جماعتیں بنا لیں تھیں ان کو بھی الیکشن میں ناکامی نے سیاست سے کنارہ کشی پر مجبور کر دیا ہے۔ یہ ایسی مثالیں ہیں جن کی تقلید کی جانی چاہیے۔

الیکشن کا ابتدائی مرحلہ عوام کے حق رائے دہی کے استعمال کے بعد مکمل ہو گیا ہے۔ اگلا مرحلہ حکومتوں کی تشکیل ہے۔ مرکز میں حکومت بنانے کے لیے تادم تحریر کسی بھی ایک جماعت کے پاس واضح اکثریت نہیں ہے، اس کے لیے مخلوط حکومت ہی واحد حل سامنے آیا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کون سی جماعتیں اس مخلوط حکومت کے لیے باہمی تعاون پر رضامند ہوتی ہیں اور ان کے درمیان شراکت اقتدار کا کیا فارمولا طے پاتا ہے، یہ طے ہونا ہنوز باقی ہے۔

شنید یہی ہے کہ ماضی کی حریف اور گزشتہ حکومت کی حلیف جماعتیں مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی ہی حکومت بنانے کے لیے تعاون پر کسی حد تک رضا مند نظر آرہی ہیں۔ستم ظریفی یہ ہے کہ مسلم لیگ نواز وفاقی حکومت کے لیے کوشاں ہے جب کہ زبیر عمر اور مفتاح اسماعیل اپنی ہی جماعت کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں اور اس مینڈیٹ کو جعلی قرار دے رہے ہیں۔


شاید دونوں مسلم لیگ ن میں اپنی بے قدری کا بدلہ مخالفانہ بیان بازی کرکے لینے کی کوشش کررہے ہیں۔ بہرحال متعدد حلقوں میں ناکام امیدواروں نے اپنے پاس موجود فارم 45 کو بنیاد بناتے ہوئے الیکشن کمیشن کی جانب سے اعلان کردہ کامیاب امیدواروں کے خلاف عدالتوں سے رجوع بھی کیا۔

عدالتوں نے انھیں الیکشن کمیشن سے رجوع کرنے کا حکم دیا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ الیکشن کمیشن اعتراف کر لیتا کہ اس کے عملے سے بھی کوتاہیاں ہوئی ہیںلیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس صورت میں پولنگ کا عمل مشکوک ہونے کا خدشہ ہے ، پی ٹی آئی اسے ایشو بنا کر احتجاج کرسکتی ہے۔

الیکشن میں عوام نے بھی اپنے سیاسی نمایندوں کے خلاف غصہ نکالا ہے، کئی نامور اور ناقابل شکست سمجھے جانے والے لیڈر شکست کھا گئے ہیں۔تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزادامیدواروں کو بھی بڑی کامیابی حاصل ہوئی ہے ۔الیکشن کمیشن کی کتابوں میں تو یہ آزاد امیدوار ہیں لیکن درحقیقت یہ تحریک انصاف کے امیدوار ہیں ۔

ملک بھر میں کسی ایک بھی جلسے کے بغیر اور امیدواروں کی غیر حاضری کے باوجود تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں بھاری تعداد میں ووٹ پڑے ہیں۔ عوامی حلقوں میں اس بات پر بحث و مباحثہ جاری ہے کہ رائے عامہ کا احترام کرنا سب پر لازم ہے ۔

عوام نے ووٹ کے ذریعے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے اور اس ووٹ کا احترام کیا جانا چاہیے۔ ایک بات تو واضح نظر آرہی ہے کہ مخلوط حکومت اپنی آئینی مدت تو شاید پوری کرلے لیکن وہ بڑے فیصلے نہیں کر پائے گی۔

ملک جو پہلے ہی معاشی زبوں حالی کا شکار ہے، اس کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گا ۔ منقسم مینڈیٹ کے باعث سادہ اکثریت سے محروم کسی بھی سیاسی پارٹی کے لیے حکومت کی باگ دوڑ سنبھالنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔

اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے معاشی بحران کے پیش نظر سیاسی پارٹیوں کو اپنے مفادات کی قربانی دینی پڑے گی ، نئی حکومت کی تشکیل پر سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ریاست کی مضبوطی کے لیے اشد ضروری ہے، اس مرحلے میں عوامی رائے کوبھی مقدم اور شامل رکھنا ہو گا کیونکہ عوام تو اپنا فیصلہ سنا چکے ہیں۔
Load Next Story