آئینی مدت من مانیوں کا مکمل اختیار کیوں
ملک میں سینیٹر بننے کے لیے کروڑوں روپے خرچ کرکے ارکان کو خریدا جاتا ہے
حکومتوں کی 5 سالہ آئینی مدت پانچ سال تک حکمرانوں کو غلط حکومت کرنے کا اختیار نہیں دیتی۔ کیا سیاسی جماعتوں کو ملک توڑنے کی اجازت دے دی جائے اور لوگ پانچ سالہ مدت ختم ہونے کا انتظار کرتے رہیں۔
اس ملک میں پہلی بار ایک حکومت کو آئینی طور پر تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایا گیا تو پھر یہ مسئلہ کیوں بن گیا؟ بھارت، برطانیہ اور دیگر ملکوں میں وہاں کی حکومتوں کو آئینی طور ہٹایا جاتا رہا ہے وہاں تو مسئلہ نہیں بنتا اور ہر حکومت اپنی آئینی تعداد کے ذریعے ہی اقتدار میں رہنے کا حق رکھتی ہے۔
آئینی مدت حکومت کے غلط کاموں کا لائسنس نہیں ہے پاکستان میں سیاست کا محور طاقت ہے جو حکومت میں ہے وہ حکومت چھوڑنا ہی نہیں چاہتے جب کہ حکومت سے باہر بیٹھے سیاسی عناصر جلد سے جلد اقتدار حاصل کرنے کے خواہاں ہیں ۔
اس جائزے سے پتا چل رہا ہے کہ ماضی میں بعض حکومتیں کیوں برطرف کی گئی تھیں مگر ملک میں پہلی بار اپریل 2022 میں جو حکومت تبدیل کی گئی وہ پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں نے تحریک عدم اعتماد کے آئینی طریقے کے مطابق تبدیل کی تھی اور پارلیمنٹ اپنی مدت مکمل کرکے سبکدوش ہوئی۔
ملک میں پہلی بار 2002 کے بعد 2022 تک چار بار پارلیمنٹ نے اپنی 5 سالہ مدت پوری کی اور سپریم کورٹ کے دو فیصلوں کے مطابق دو وزیر اعظم نااہلی کے باعث ہٹائے گئے اور پہلی بار اسمبلیوں نے اپنی 5 سالہ مدت جنرل پرویز کی صدارت میں پوری کی۔ یہ بھی درست ہے کہ اس وقت کی قومی اسمبلی نے تین وزیر اعظم منتخب کیے تھے جو من مانی کرنے کی جرأت نہیں رکھتے تھے ۔
ملک میں سینیٹر بننے کے لیے کروڑوں روپے خرچ کرکے ارکان کو خریدا جاتا ہے اور کسی سینیٹر کو عوام کے پاس جانا نہیں پڑتا۔ اندر ہی اندر معاملہ طے ہو جاتا ہے اور رزلٹ آنے پر پارٹیوں کے امیدوار ہار اور کروڑوں روپے خرچ کرنے والا سینیٹر منتخب ہو جاتا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ سیاسی پارٹیاں جماعت اسلامی کے سوا اپنے پارٹی ٹکٹ بھاری فیس وصول کرکے دیتی ہیں اور سینیٹ الیکشن میں پارٹیاں خفیہ طور بھاری رقم وصول کرتی ہیں۔ جب ارکان اسمبلی اور سینیٹر کروڑوں روپے خرچ کرکے بننا پڑتا ہے تو منتخب ہونے والے خرچ کی گئی اپنی رقم کی وصولی کا طریقہ بھی جانتے ہیں۔ وہ اپنے ووٹ فروخت کرکے مشروط طور پر دے کر اور سرکاری وسائل کے ذریعے اپنی خرچ کی گئی رقم بمع سود کسی نہ کسی طرح وصول کر ہی لیتے ہیں کیونکہ انھیں آیندہ بھی الیکشن لڑنا ہوتا ہے۔
جو عوامی نمایندے کروڑوں روپے خرچ کرکے کامیاب ہوں گے وہ عوامی مفاد پر ہر حال میں ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں اور حکومتی وسائل حکومت کی حمایت کے بغیر استعمال نہیں ہوتے اس لیے انھیں وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کو خوش رکھنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں بھٹو مرحوم سمیت کوئی وزیر اعظم دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ اپنے بل بوتے یا عوام کی حمایت سے وزیر اعظم بنا ہے۔
1971 کے بعد سے بالاتروں کی مدد سے ہر وزیر اعظم منتخب ہوا بعد میں اسی نے اپنے ان محسنوں کو آنکھیں دکھائیں اور من مانیاں کیں۔ دو تین وزرائے اعظم کے سوا منتخب ہونے والے ہر وزیر اعظم نے خود کو بادشاہ سلامت سمجھ لیا اور من مانیوں کے ریکارڈ قائم کیے جب کہ اندرونی طور ان کی اسمبلیوں میں کیا حالت تھی اس کا تو سابق وزیر اعظم عمران خان نے سابق ہو کر خود کہا تھا کہ انھیں بجٹ پاس کرانے کے لیے بالاتروں کی مدد سے اسمبلی اجلاس بلانا پڑتا ہے۔
من مانیوں میں ریکارڈ عمران خان نے قائم کیا جن کو بڑی توقعات کے ساتھ ملک میں تبدیلی کے لیے اقتدار میں لایا گیا تھا اور انھوں نے ہی اپنے لانے والوں کو مایوس کیا اور وزیر اعظم جیسے جمہوری فیصلوں کی بجائے بادشاہوں جیسے آمرانہ فیصلے کیے۔
اہلیت کی بجائے اپنے من پسند نااہلوں اپنے ملکی و غیر ملکی دوستوں اور خوشامدیوں کو اہم عہدوں سے نوازا۔ بالاتروں سمیت قوم تقسیم کرکے فسطائیت قائم کی۔ اپوزیشن کے تمام رہنماؤں کو گرفتار کرایا اور ان سے بھرپور انتقام لیا اور قوم سے کیا گیا کوئی وعدہ پورا نہیں کیا۔
وزیر اعظم اتنا طاقتور ہوتا ہے کہ سرکاری وسائل سے وہ تحریک عدم اعتماد آسانی سے ناکام بنا سکتا ہے۔ کروڑوں روپے اپنی مرضی سے غلط کاموں کے لیے خرچ کر سکتا ہے۔ 58-2-B کا اب کوئی خطرہ نہیں رہا تو 5 سال وہ مکمل من مانیاں کیوں نہیں کرے گا۔ ارکان اسمبلی اسے ناراض نہیں کرسکتے تو 5 سال تک اسے من مانے فیصلوں سے کون روک سکتا ہے۔ چاہے ملک تباہ ہو یا عوام برباد ہوں اسے اپنے ہٹائے جانے کا ڈر ہی نہیں ہوتا۔
اس ملک میں پہلی بار ایک حکومت کو آئینی طور پر تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایا گیا تو پھر یہ مسئلہ کیوں بن گیا؟ بھارت، برطانیہ اور دیگر ملکوں میں وہاں کی حکومتوں کو آئینی طور ہٹایا جاتا رہا ہے وہاں تو مسئلہ نہیں بنتا اور ہر حکومت اپنی آئینی تعداد کے ذریعے ہی اقتدار میں رہنے کا حق رکھتی ہے۔
آئینی مدت حکومت کے غلط کاموں کا لائسنس نہیں ہے پاکستان میں سیاست کا محور طاقت ہے جو حکومت میں ہے وہ حکومت چھوڑنا ہی نہیں چاہتے جب کہ حکومت سے باہر بیٹھے سیاسی عناصر جلد سے جلد اقتدار حاصل کرنے کے خواہاں ہیں ۔
اس جائزے سے پتا چل رہا ہے کہ ماضی میں بعض حکومتیں کیوں برطرف کی گئی تھیں مگر ملک میں پہلی بار اپریل 2022 میں جو حکومت تبدیل کی گئی وہ پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں نے تحریک عدم اعتماد کے آئینی طریقے کے مطابق تبدیل کی تھی اور پارلیمنٹ اپنی مدت مکمل کرکے سبکدوش ہوئی۔
ملک میں پہلی بار 2002 کے بعد 2022 تک چار بار پارلیمنٹ نے اپنی 5 سالہ مدت پوری کی اور سپریم کورٹ کے دو فیصلوں کے مطابق دو وزیر اعظم نااہلی کے باعث ہٹائے گئے اور پہلی بار اسمبلیوں نے اپنی 5 سالہ مدت جنرل پرویز کی صدارت میں پوری کی۔ یہ بھی درست ہے کہ اس وقت کی قومی اسمبلی نے تین وزیر اعظم منتخب کیے تھے جو من مانی کرنے کی جرأت نہیں رکھتے تھے ۔
ملک میں سینیٹر بننے کے لیے کروڑوں روپے خرچ کرکے ارکان کو خریدا جاتا ہے اور کسی سینیٹر کو عوام کے پاس جانا نہیں پڑتا۔ اندر ہی اندر معاملہ طے ہو جاتا ہے اور رزلٹ آنے پر پارٹیوں کے امیدوار ہار اور کروڑوں روپے خرچ کرنے والا سینیٹر منتخب ہو جاتا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ سیاسی پارٹیاں جماعت اسلامی کے سوا اپنے پارٹی ٹکٹ بھاری فیس وصول کرکے دیتی ہیں اور سینیٹ الیکشن میں پارٹیاں خفیہ طور بھاری رقم وصول کرتی ہیں۔ جب ارکان اسمبلی اور سینیٹر کروڑوں روپے خرچ کرکے بننا پڑتا ہے تو منتخب ہونے والے خرچ کی گئی اپنی رقم کی وصولی کا طریقہ بھی جانتے ہیں۔ وہ اپنے ووٹ فروخت کرکے مشروط طور پر دے کر اور سرکاری وسائل کے ذریعے اپنی خرچ کی گئی رقم بمع سود کسی نہ کسی طرح وصول کر ہی لیتے ہیں کیونکہ انھیں آیندہ بھی الیکشن لڑنا ہوتا ہے۔
جو عوامی نمایندے کروڑوں روپے خرچ کرکے کامیاب ہوں گے وہ عوامی مفاد پر ہر حال میں ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں اور حکومتی وسائل حکومت کی حمایت کے بغیر استعمال نہیں ہوتے اس لیے انھیں وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کو خوش رکھنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں بھٹو مرحوم سمیت کوئی وزیر اعظم دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ اپنے بل بوتے یا عوام کی حمایت سے وزیر اعظم بنا ہے۔
1971 کے بعد سے بالاتروں کی مدد سے ہر وزیر اعظم منتخب ہوا بعد میں اسی نے اپنے ان محسنوں کو آنکھیں دکھائیں اور من مانیاں کیں۔ دو تین وزرائے اعظم کے سوا منتخب ہونے والے ہر وزیر اعظم نے خود کو بادشاہ سلامت سمجھ لیا اور من مانیوں کے ریکارڈ قائم کیے جب کہ اندرونی طور ان کی اسمبلیوں میں کیا حالت تھی اس کا تو سابق وزیر اعظم عمران خان نے سابق ہو کر خود کہا تھا کہ انھیں بجٹ پاس کرانے کے لیے بالاتروں کی مدد سے اسمبلی اجلاس بلانا پڑتا ہے۔
من مانیوں میں ریکارڈ عمران خان نے قائم کیا جن کو بڑی توقعات کے ساتھ ملک میں تبدیلی کے لیے اقتدار میں لایا گیا تھا اور انھوں نے ہی اپنے لانے والوں کو مایوس کیا اور وزیر اعظم جیسے جمہوری فیصلوں کی بجائے بادشاہوں جیسے آمرانہ فیصلے کیے۔
اہلیت کی بجائے اپنے من پسند نااہلوں اپنے ملکی و غیر ملکی دوستوں اور خوشامدیوں کو اہم عہدوں سے نوازا۔ بالاتروں سمیت قوم تقسیم کرکے فسطائیت قائم کی۔ اپوزیشن کے تمام رہنماؤں کو گرفتار کرایا اور ان سے بھرپور انتقام لیا اور قوم سے کیا گیا کوئی وعدہ پورا نہیں کیا۔
وزیر اعظم اتنا طاقتور ہوتا ہے کہ سرکاری وسائل سے وہ تحریک عدم اعتماد آسانی سے ناکام بنا سکتا ہے۔ کروڑوں روپے اپنی مرضی سے غلط کاموں کے لیے خرچ کر سکتا ہے۔ 58-2-B کا اب کوئی خطرہ نہیں رہا تو 5 سال وہ مکمل من مانیاں کیوں نہیں کرے گا۔ ارکان اسمبلی اسے ناراض نہیں کرسکتے تو 5 سال تک اسے من مانے فیصلوں سے کون روک سکتا ہے۔ چاہے ملک تباہ ہو یا عوام برباد ہوں اسے اپنے ہٹائے جانے کا ڈر ہی نہیں ہوتا۔