بلوچستان میں بھی مایوسی
پیپلز پارٹی نے سرفراز بگٹی کو صوبہ کا نیا وزیر اعلیٰ بنانے کا فیصلہ کیا ہے
ملک میں منعقد ہونے والے بارہویں انتخابات کے نتائج نے بلوچستان کے قوم پرستوں کو بھی مایوس کردیا۔ گزشتہ صدی کے وسط سے بلوچستان کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی جماعتوں کے اراکین کو عوام کی نمایندگی سے محروم کردیا گیا۔ بلوچستان کی اہم جماعتوں کے رہنماؤں کے کوئٹہ میں منعقد ہونے والے اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ غیرنمایندہ حکومت کی تشکیل کو قبول نہیں کیا جائے گا۔
اجلاس میں اتفاق رائے سے منظور کیے جانے والے اعلامیے میں صوبہ بھر میں احتجاجی تحریک شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس اعلامیہ میں خاص طور پر اس بات پر زور دیا گیا کہ پریزائیڈنگ افسروں کے جاری کردہ فارم 45 کے تحت حقیقی نتائج کا اعلان کیا جائے۔ اس بات کا واضح اظہار کیا گیا کہ اگر یونہی ہٹ دھرمی قائم رہی تو بلوچستان میں متوازی اسمبلی تشکیل دی جائے گی۔
یہ نمایندے اس بات پر متفق ہوئے کہ چھوٹی اقوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے بلوچستان کی سطح پر مضبوط سیاسی پلیٹ فارم کی تشکیل کے لیے اس اجلاس میں شریک جماعتوں کے سربراہوں کا اجلاس طلب کیا جائے گا۔ اس اجلاس میں ہونے والے فیصلے کے تحت صوبہ بھر میں احتجاج شروع کیا گیا۔ کوئٹہ، خضدار، تربت اور دیگر شہروں میں دھرنے منعقد ہوئے۔
احتجاجی تحریک میں نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، پختون خواہ ملی عوامی پارٹی اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی 1973 کے آئین کے تحت ''حق دو تحریک'' کے عنوان سے بلوچستان کے حقوق کے لیے برسوں سے پرامن جدوجہد کررہی ہیں۔ ان جماعتوں نے جمہوریت کی بحالی کی ہر تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے اور قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کی ہیں۔ ان جماعتوں نے پندرہ ماہ قبل تحریک انصاف کی وفاق میں قائم حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کوکامیاب بنانے میں بھرپور حصہ لیا تھا مگر ان جماعتوں کے نمایندوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا گیا۔
ان جماعتوں کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ان کے قومی اور صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کے پاس پریزائیڈنگ افسروں کے جاری فارم 45 موجود ہیں مگر ان امیدواروں کی کامیابی کا اعلان کرنے کے بجائے جن افراد کی کامیابی کا اعلان کیا گیا ہے۔
ان میں سے بعض نمایندوں کا ریکارڈ درست نہیں ہے ۔ نیشنل پارٹی کے صدر ڈاکٹر مالک کا دعویٰ ہے کہ ان کی جماعت صوبائی اسمبلی کی 11نشستوں پر کامیاب ہوئی ہے مگر حتمی نتائج میں تین نشستوں پر کامیابی کا اعلان کیا گیا ہے۔ نیشنل پارٹی کے سیکریٹری جنرل جان بلیدی کو احتجاج دھرنا کی قیادت کرنے پر جان سے مارنے کی دھمکیاں د ی گئی ہیں۔
الیکشن کمیشن کے اعلامیہ کے مطابق اس وقت بلوچستان اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی 11، جمعیت علمائے اسلام 10، مسلم لیگ ن کی 10، نیشنل پارٹی کی 3 اور دیگر جماعتوں کی 16 نشستیں ہیں۔ پیپلز پارٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ بلوچستان میں حکومت بنانے کی خواہاں ہے۔ پیپلز پارٹی میں کئی رہنما قابل ذکر ہیں۔ پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والوں میں بلوچستان کے ایک سابق وزیر اعلیٰ کے صاحبزادے بھی شامل ہیں ۔
یہ بھی خبریں ہیں کہ پیپلز پارٹی نے سرفراز بگٹی کو صوبہ کا نیا وزیر اعلیٰ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے قائدین آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری مسلم لیگ ن کے قائدین سے مذاکرات میں بلوچستان میں حکومت بنانے کی خواہش کا اظہار کرچکے ہیں اور اگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن وفاق میں مشترکہ حکومت بنانے کے لیے تیار ہو تو مسلم لیگ ن بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی حمایت کرے گی۔
بلوچستان میں گزشتہ کئی برسوں سے ایک مزاحمتی تحریک جاری ہے۔ بہت سے لوگ لاپتہ ہیں۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی خواتین اور مردوں نے گزشتہ ماہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں تربت سے اسلام آباد تک مارچ کیا' ان لوگوں نے ایک ماہ تک اسلام آباد پریس کلب کے سامنے دھرنا دیا۔ اسلام آباد کے شہریوں نے کپڑوں اور بستر سے لے کر گرم سوپ اور کھانے تک مارچ کے شرکاء کو پہنچائے تھے۔
مرد و خواتین ڈاکٹر رات کو مارچ میں شامل خواتین ، بچوں اور بوڑھوں کے طبی معائنہ کے لیے آتے تھے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے اس دھرنا کے مقام پر دہشت گردی کی وارداتوں میں بلوچستان کے شہداء کے لواحقین نے بھی احتجاجی کیمپ لگایا تھا۔ نوابزادہ جمال رئیسانی اور سرفراز بگٹی شہداء کیمپ کے حامیوں میں شامل تھے، جب ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں مارچ کے شرکاء دھرنا ختم کرکے واپس گئے تو بلوچستان کے شہدا کے لواحقین نے بھی دھرنا ختم کر دیا تھا۔
ماہ رنگ بلوچ اور ان کے ساتھیوں کی واپسی کے بعد کوئٹہ میں جلسہ کیا گیا'جہاں ایک بوڑھے شخص نے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کو سردار کی پگڑی پہنائی جو بلوچ سماج میں ہونے والی سماجی تبدیلیوں کی واضح نشاندہی کررہی ہے، اگر پیپلز پارٹی کی قیادت نے پارٹی میں نئے شامل ہونے والے افراد کو وزیر اعلیٰ بنایا تو پھر بلوچستان میں ایک نئی کشمکش شروع ہوجائے گی۔
بلوچستان کی تاریخ پر نظر رکھنے والے محققین کہتے ہیں کہ بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوتی ہے تو پھر 70ء کی دہائی میں قائم ہونے والی پیپلز پارٹی کی حکومت کی یاد تازہ ہوجائے گی ۔
پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں 20 دسمبر 1971 کو پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے صدر اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھالا۔ صدر ذوالفقار علی بھٹو نے صوبے کی اکثریتی جماعت نیشنل عوامی پارٹی کو حکومت بنانے کی دعوت دی تھی۔ صدرذوالفقارعلی بھٹو نے نیپ کے رہنما میر غوث بخش بزنجو کو گورنر مقرر کیا۔ نیشنل عوامی پارٹی کے سردار عطا ء اﷲ مینگل کی قیادت میں پہلی صوبائی حکومت قائم ہوئی تھی مگر پھر وزیر اعظم بھٹو نے 9ماہ بعد نیپ کی حکومت کو برطرف کیا اور نیپ کے رہنماؤں کو گرفتار کرکے حیدرآباد سازش کیس قائم کیا گیا۔
بلوچستان میں چار سال تک ایک فوجی آپریشن چلتا رہا۔ایک اور اہم بات یہ ہے کہ نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر مالک بلوچ اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے سردار اختر مینگل وغیرہ نے پرامن جدوجہد کی ایک روایت قائم کی ہے بلکہ بعض حلقے ڈاکٹر مالک اور اختر مینگل پر بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مارچ کی حمایت نا کرنے پر تنقید کرتے ہیں۔
نئی قائم ہونے والی حکومت بلوچستان کے حالات بہتر کرنا چاہتی ہے تو انتخابی دھاندلیوں کا تدارک کیا جائے۔ لاپتہ افراد کا مسئلہ حل ہونا چاہیے اور بلوچستان کے نمایندوں سے مذاکرات کے لیے لائحہ عمل واضح ہونا چاہیے۔
اجلاس میں اتفاق رائے سے منظور کیے جانے والے اعلامیے میں صوبہ بھر میں احتجاجی تحریک شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس اعلامیہ میں خاص طور پر اس بات پر زور دیا گیا کہ پریزائیڈنگ افسروں کے جاری کردہ فارم 45 کے تحت حقیقی نتائج کا اعلان کیا جائے۔ اس بات کا واضح اظہار کیا گیا کہ اگر یونہی ہٹ دھرمی قائم رہی تو بلوچستان میں متوازی اسمبلی تشکیل دی جائے گی۔
یہ نمایندے اس بات پر متفق ہوئے کہ چھوٹی اقوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے بلوچستان کی سطح پر مضبوط سیاسی پلیٹ فارم کی تشکیل کے لیے اس اجلاس میں شریک جماعتوں کے سربراہوں کا اجلاس طلب کیا جائے گا۔ اس اجلاس میں ہونے والے فیصلے کے تحت صوبہ بھر میں احتجاج شروع کیا گیا۔ کوئٹہ، خضدار، تربت اور دیگر شہروں میں دھرنے منعقد ہوئے۔
احتجاجی تحریک میں نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، پختون خواہ ملی عوامی پارٹی اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی 1973 کے آئین کے تحت ''حق دو تحریک'' کے عنوان سے بلوچستان کے حقوق کے لیے برسوں سے پرامن جدوجہد کررہی ہیں۔ ان جماعتوں نے جمہوریت کی بحالی کی ہر تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے اور قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کی ہیں۔ ان جماعتوں نے پندرہ ماہ قبل تحریک انصاف کی وفاق میں قائم حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کوکامیاب بنانے میں بھرپور حصہ لیا تھا مگر ان جماعتوں کے نمایندوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا گیا۔
ان جماعتوں کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ان کے قومی اور صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کے پاس پریزائیڈنگ افسروں کے جاری فارم 45 موجود ہیں مگر ان امیدواروں کی کامیابی کا اعلان کرنے کے بجائے جن افراد کی کامیابی کا اعلان کیا گیا ہے۔
ان میں سے بعض نمایندوں کا ریکارڈ درست نہیں ہے ۔ نیشنل پارٹی کے صدر ڈاکٹر مالک کا دعویٰ ہے کہ ان کی جماعت صوبائی اسمبلی کی 11نشستوں پر کامیاب ہوئی ہے مگر حتمی نتائج میں تین نشستوں پر کامیابی کا اعلان کیا گیا ہے۔ نیشنل پارٹی کے سیکریٹری جنرل جان بلیدی کو احتجاج دھرنا کی قیادت کرنے پر جان سے مارنے کی دھمکیاں د ی گئی ہیں۔
الیکشن کمیشن کے اعلامیہ کے مطابق اس وقت بلوچستان اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی 11، جمعیت علمائے اسلام 10، مسلم لیگ ن کی 10، نیشنل پارٹی کی 3 اور دیگر جماعتوں کی 16 نشستیں ہیں۔ پیپلز پارٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ بلوچستان میں حکومت بنانے کی خواہاں ہے۔ پیپلز پارٹی میں کئی رہنما قابل ذکر ہیں۔ پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والوں میں بلوچستان کے ایک سابق وزیر اعلیٰ کے صاحبزادے بھی شامل ہیں ۔
یہ بھی خبریں ہیں کہ پیپلز پارٹی نے سرفراز بگٹی کو صوبہ کا نیا وزیر اعلیٰ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے قائدین آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری مسلم لیگ ن کے قائدین سے مذاکرات میں بلوچستان میں حکومت بنانے کی خواہش کا اظہار کرچکے ہیں اور اگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن وفاق میں مشترکہ حکومت بنانے کے لیے تیار ہو تو مسلم لیگ ن بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی حمایت کرے گی۔
بلوچستان میں گزشتہ کئی برسوں سے ایک مزاحمتی تحریک جاری ہے۔ بہت سے لوگ لاپتہ ہیں۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی خواتین اور مردوں نے گزشتہ ماہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں تربت سے اسلام آباد تک مارچ کیا' ان لوگوں نے ایک ماہ تک اسلام آباد پریس کلب کے سامنے دھرنا دیا۔ اسلام آباد کے شہریوں نے کپڑوں اور بستر سے لے کر گرم سوپ اور کھانے تک مارچ کے شرکاء کو پہنچائے تھے۔
مرد و خواتین ڈاکٹر رات کو مارچ میں شامل خواتین ، بچوں اور بوڑھوں کے طبی معائنہ کے لیے آتے تھے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے اس دھرنا کے مقام پر دہشت گردی کی وارداتوں میں بلوچستان کے شہداء کے لواحقین نے بھی احتجاجی کیمپ لگایا تھا۔ نوابزادہ جمال رئیسانی اور سرفراز بگٹی شہداء کیمپ کے حامیوں میں شامل تھے، جب ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں مارچ کے شرکاء دھرنا ختم کرکے واپس گئے تو بلوچستان کے شہدا کے لواحقین نے بھی دھرنا ختم کر دیا تھا۔
ماہ رنگ بلوچ اور ان کے ساتھیوں کی واپسی کے بعد کوئٹہ میں جلسہ کیا گیا'جہاں ایک بوڑھے شخص نے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کو سردار کی پگڑی پہنائی جو بلوچ سماج میں ہونے والی سماجی تبدیلیوں کی واضح نشاندہی کررہی ہے، اگر پیپلز پارٹی کی قیادت نے پارٹی میں نئے شامل ہونے والے افراد کو وزیر اعلیٰ بنایا تو پھر بلوچستان میں ایک نئی کشمکش شروع ہوجائے گی۔
بلوچستان کی تاریخ پر نظر رکھنے والے محققین کہتے ہیں کہ بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوتی ہے تو پھر 70ء کی دہائی میں قائم ہونے والی پیپلز پارٹی کی حکومت کی یاد تازہ ہوجائے گی ۔
پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں 20 دسمبر 1971 کو پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے صدر اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھالا۔ صدر ذوالفقار علی بھٹو نے صوبے کی اکثریتی جماعت نیشنل عوامی پارٹی کو حکومت بنانے کی دعوت دی تھی۔ صدرذوالفقارعلی بھٹو نے نیپ کے رہنما میر غوث بخش بزنجو کو گورنر مقرر کیا۔ نیشنل عوامی پارٹی کے سردار عطا ء اﷲ مینگل کی قیادت میں پہلی صوبائی حکومت قائم ہوئی تھی مگر پھر وزیر اعظم بھٹو نے 9ماہ بعد نیپ کی حکومت کو برطرف کیا اور نیپ کے رہنماؤں کو گرفتار کرکے حیدرآباد سازش کیس قائم کیا گیا۔
بلوچستان میں چار سال تک ایک فوجی آپریشن چلتا رہا۔ایک اور اہم بات یہ ہے کہ نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر مالک بلوچ اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے سردار اختر مینگل وغیرہ نے پرامن جدوجہد کی ایک روایت قائم کی ہے بلکہ بعض حلقے ڈاکٹر مالک اور اختر مینگل پر بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مارچ کی حمایت نا کرنے پر تنقید کرتے ہیں۔
نئی قائم ہونے والی حکومت بلوچستان کے حالات بہتر کرنا چاہتی ہے تو انتخابی دھاندلیوں کا تدارک کیا جائے۔ لاپتہ افراد کا مسئلہ حل ہونا چاہیے اور بلوچستان کے نمایندوں سے مذاکرات کے لیے لائحہ عمل واضح ہونا چاہیے۔