برابر کے شہری
خوشی مسیح اور سیما مسیح دونوں انتہائی غریب تھے۔ ان کے گیارہ بچے تھے ...
میری میز پر ملکی اخبارات کے اداریے، ہیومن رائٹس کمیشن کی مختلف رپورٹس، واشنگٹن پوسٹ اور دیگر غیر ملکی اخبارات کے مختلف تجزیاتی کالم پڑے ہوئے ہیں۔ میں کئی دنوں سے انھیں پڑھ رہا ہوں۔ ان میں ہمارے معاشرے کے ایک ایسے سماجی المیہ کو بار ہا بیان کیا گیا ہے جس پر اکثر لوگوں کی نظر نہیں پڑی۔ اگر کسی نے اسے دیکھا ہے تو بھی سرکاری یا غیر سرکاری سطح پر کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔ یہ مسئلہ مسیحی اور ہندئو لڑکیوں کا زبردستی مذہب تبدیل کروانا اور ان سے طاقت اور جبر کے زور پر شادیاں کرنا ہے۔ میری فہم اور گمان سے یہ اَمر بالکل باہر ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے! مگر اس میں ایک اور پہلو بھی انتہائی قابل ذکر ہے۔ وہ یہ کہ کوئی بھی مذہبی جماعت اس کام میں شامل نہیں ہے۔
فرحت مسیح صرف چودہ سال کی تھی۔ وہ خانیوال میں اپنے والدین کے ساتھ عام زندگی بسر کر رہی تھی۔ ایک دن وہ اپنی بہن سے مل کر واپس آ رہی تھی کہ ریلوے اسٹیشن کے باہر اسے ایک تانگہ نظر آیا۔ اس میں دو خواتین بھی موجود تھیں۔ کوچوان نے بتایا کہ یہ دونوں خواتین اسی گائوں کی سواریاں ہیں جہاں فرحت جانا چاہتی ہے۔ خیر دس پندرہ منٹ کی مسافت کے بعد کوچوان نے ان دونوں خواتین کو سڑک پر اتار دیا اور ایک اور مرد سواری بیٹھ گئی۔ اس چودہ سالہ بچی کو قطعاً معلوم نہیں تھا کہ یہ سواری کوچوان کا چھوٹا بھائی ہے۔ فرحت کو ایک ڈیرہ پر لے جا کر قید کر دیا گیا۔ کچھ دنوں بعد فرحت کو گائوں کے ایک مکان میں منتقل کر دیا گیا۔
کوچوان جب بھی باہر جاتا تو فرحت کمرے میں قید کر دی جاتی تھی۔ کئی بار اسے رسی سے بھی باندھ دیا جاتا تھا۔ ایک دن اس گھر میں ایک مولوی صاحب آئے۔ انھوں نے اعلان کر دیا کہ فرحت آج سے مسلمان ہو چکی ہے۔ وہ مکمل اَن پڑھ تھی۔ اس سے دو تین کاغذوں پر انگوٹھے لگوائے گئے اور بتایا گیا کہ اب وہ اس کوچوان کی منکوحہ بیوی ہے۔ فرحت نے لوگوں کو بار بار بتایا کہ وہ اپنے والدین کے پاس جانا چاہتی ہے اور شادی نہیں کرنا چاہتی۔ جواب میں اس لڑکی پر بے پناہ تشدد کیا جاتا رہا اور اس کی قید میں دردناک اضافہ بھی ہو گیا۔ ظلم کا یہ سلسلہ پانچ سال مسلسل چلتا رہا۔ اس پانچ برس میں فرحت کو دن میں بند رکھا جاتا تھا۔
ایک دن اس نے کوچوان کی بہن کی منت سماجت کی۔ جس نے اسے دن میں مردوں کی غیر موجودگی میں ایک گھنٹہ کے لیے کھول دیا۔ وہ بھاگ کر اس مکان سے باہر نکل آئی اور کسی طریقے سے اپنے والدین کے پاس پہنچ گئی۔ وہ غربت اور جہالت کی وجہ سے کوئی قانونی کارروائی نہ کر سکی کیونکہ قانون کے مطابق اس کے پاس اس واقعہ کا کوئی بھی چشم دید گواہ موجود نہیں تھا۔ اس دوران اسے قتل کرنے کی دھمکیاں بھی ملتی ر ہیں۔ آج فرحت تیس سال کی ہے اور وہ بغیر کسی شناخت کے ایک بڑے شہر میں رہ رہی ہے۔ وہ مختلف گھروں میں محنت مزدوری کر کے اپنا وقت گزارتی ہے۔
خوشی مسیح اور سیما مسیح دونوں انتہائی غریب تھے۔ ان کے گیارہ بچے تھے۔ اس خاندان نے لیاقت بٹ نامی شخص سے گھر کرایہ پر لیا۔ گھر کیا تھا سر چھپانے کی ایک سادہ سی جگہ تھی۔ گھر کے ایک حصہ میں مالک مکان اور اس کی بیوی بھی رہتے تھے۔ خوشی کے گیارہ بچوں میں سے چھ کی شادی ہو چکی تھی جب کہ پانچ بچے اس کے پاس ہی رہتے تھے۔ اس کی تین بیٹیاں نادیہ، نبیلہ اور نعیمہ بھی اپنے خاندان کے ساتھ رہتی تھیں۔ ان بچیوں میں سے کوئی بھی اسکول نہیں جاتا تھا۔ ان کی والدہ بھی مکمل اَن پڑھ تھی اور اسے اپنے بچوں کو تعلیم دینے کا کوئی خاص شوق نہیں تھا۔ خوشی بس ڈرائیور تھا جب کہ اس کی بیوی سیما گھروں میں جھاڑو لگاتی تھی اور صفائی کا کام کرتی تھی۔ اس کی تینوں بیٹیاں بھی اکثر اس کے ساتھ مختلف گھروں میں کام کرتی تھیں۔
تھوڑے عرصے کے بعد ان تینوں لڑکیوں نے مختلف وجوہات سے دوسروں کے گھر کام پر جانا چھوڑ دیا اور اپنے گھر پر سلائی کڑھائی کا کام شروع کر دیا۔ ان لوگوں کو یہاں منتقل ہوئے چار ماہ ہی ہوئے تھے۔ ایک دن میاں بیوی کام سے واپس آئے تو لڑکیاں گھر پر موجود نہیں تھیں۔ خوشی مسیح فوراً قریبی تھانہ میں چلا گیا۔ وہ خوش قسمت تھا کہ اس کی شکایت پر F.I.R درج کر لی گئی۔ وہ روز تھانہ کے چکر لگاتا تھا۔ اسے اپنی لڑکیوں کا کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ وہ کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں۔ اچانک مالک مکان کی بیوی نے بتایا کہ اس کی تینوں لڑکیاں مسلمان ہو چکی ہیں اور ان میں سے ایک کی شادی بھی ہو چکی ہے۔ خوشی مسیح ایک سال تک تھانہ اور کچہری میں دھکے کھاتا رہا۔ پولیس نے تقریباً بارہ ماہ بعد ان تینوں لڑکیوں کو عدالت میں پیش کیا۔
مجسٹریٹ کی عدالت کے باہر ایک ہجوم اکٹھا ہو گیا اور انھوں نے خوشی مسیح کے خلاف نعرے لگانے شروع کر دیے۔ مجسٹریٹ نے دبائو میں آ کر تینوں لڑکیوں کو دار الامان بھجوا دیا۔ والد کو اس کی بیٹیوں سے ملنے سے روک دیا گیا۔ عدالت میں کارروائی جاری رہی۔ ثابت ہو گیا کہ ان تینوں اَن پڑھ لڑکیوں کو شدید دبائو اور لالچ دے کر مذہب تبدیل کرنے کے متعلق مجبور کیا گیا تھا۔ اس دوران خوشی کے گھر کو آگ لگا دی گئی اور اس کو سردیوں میں بے آسرا باہر نکال دیا گیا۔ اس خاندان کو آج تک انصاف نہیں مل سکا۔ یہ لوگ اس قدر خوف زدہ ہیں کہ اب مستقل ایک جگہ قیام نہیں کرتے۔ یہ ہر چھ سات ماہ بعد اپنا گھر بدل لیتے ہیں۔ آج تک اس کی کوئی لڑکی گھر واپس نہیں آئی۔ نادیہ اب چھبیس سال کی ہے۔ اس کی شادی ایک رکشہ ڈرائیور سے ہو چکی ہے۔
اب آپ اندرون سندھ میں ہندو خاندانوں پر نظر دوڑائیے۔ جمنا کی عمر چھ سال اور اس کی بڑی بہن پوجا دس برس کی ہے۔ اس کے والد کا نام سوما اور والدہ کا نام مرجو ہے۔ یہ میر پور خاص میں اختر کالونی میں رہتے ہیں۔ جمنا اور پوجا اپنے والدین کی غربت کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے کام کرنے پر مجبور ہیں۔ وہ مٹی کے کھلونے گھر گھر بیچتی ہیں اور اس طرح خاندان کا گزارہ ہو جاتا ہے۔ مالی وسائل کی تنگی اور مسلسل غربت اس خاندان کا مقدر ہے۔ اس سال فروری کے مہینے میں یہ دونوں بچیاں کھلونے بیچنے گھر سے باہر گئیں۔ مگر واپس نہ پہنچیں۔
سوما نے اپنی بچیوں کو تلاش کرنا شروع کر دیا۔ وہ کہیں نہیں ملیں۔ جب میڈیا نے اس واقعہ کو رپورٹ کیا اور دبائو میں اضافہ ہونے لگا تو مقامی پولیس نے رپٹ درج کر کے کارروائی شروع کر دی۔ معلوم ہوا کہ یہ لڑکیاں رجب نامی شخص کے پاس ہیں۔ جب انکو عدالت میں پیش کیا گیا تو عدالت کو بتایا گیا کہ وہ مسلمان ہو چکی ہیں۔ عدالت نے انکو دار الامان بھجوا دیا۔ چھ سالہ جمنا کو عدالت نے والدین کے حوالے کر دیا۔ مگر اس کی بڑی بہن دار الامان میں قیام پذیر ہے۔
رنکل کماری کی عمر انیس سال ہے۔ وہ میر پور کی رہنے والی ہے۔ وہ عام بچیوں کی طرح مقامی کالج میں پڑھ رہی تھی۔ چوبیس فروری کو اسے چند لوگوں نے بندوق کے زور پر اغوا کر لیا۔ اس کا والد نند لال مقامی اسکول میں ٹیچر ہے۔ نند لال کو بتایا گیا کہ بیٹی زندہ ہے اور مسلمان ہو چکی ہے۔ پولیس، تھانہ اور کچہری کسی جگہ بھی اِس غریب والد کی شنوائی نہیں ہوئی۔ اس کو یہ بھی بتایا گیا کہ رنکل کی شادی نوید نامی شخص سے ہوچکی ہے۔
مقامی عدالت نے اس شادی پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ رنکل کا نام بدل کر فریال رکھ دیا گیا۔ یہ واقعہ میڈیا نے دنیا بھر میں رپورٹ کیا۔ سپریم کورٹ نے بھی اس واقعہ کا نوٹس لے لیا۔ رنکل یا فریال کو سپریم کورٹ میں پیش کیا گیا۔ جج صاحب نے عدالت کو عام لوگوں سے خالی کروایا۔ لڑکی کا بیان لیا گیا۔ اس لڑکی نے ملک کی سب سے بڑی عدالت میں بیان دیا کہ اس کو زبردستی مسلمان کیا گیا ہے اور اس کی شادی بھی زبردستی کی گئی ہے۔ اس لڑکی نے یہاں تک کہا کہ اسے مار دیا جائے مگر وہ اپنے خاوند کے پاس واپس نہیں جانا چاہتی۔ اس نے عدالت میں یہ بھی کہا کہ اس ملک میں اس کے مذہب سے تعلق رکھنے والوں کے لیے انصاف کا حصول تقریباً ناممکن بنا دیا گیا ہے۔
بسنت لال گلشن2011ء میں بلوچستان میں صوبائی وزیر تھے۔ ان کے بقول صرف ایک سال میں چار لڑکیوں اور تین ہندئو لڑکوں سے زبردستی مذہب تبدیل کرایا گیا۔ بلوچستان میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ ہندئو موجود ہیں۔ ان کا کوئی والی وارث نہیں۔ ان کا اغوا بالکل عام سی بات بن چکی ہے۔ لورالائی، چمن اور سبی میں کئی ایسے معاملات سامنے آئے ہیں جن میں خوف، طاقت اور پیسے کو استعمال کر کے بچوں کا مذہب تبدیل کروایا گیا ہے۔ کشن چند پروانی پانچ بار پاکستان کی پارلیمنٹ کے ممبر رہے۔ وہ اس طرح کے تمام معاملات پر انتہائی سنجیدگی سے نظر رکھتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اقلیتوں کے مسائل تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ ان میں کسی قسم کی کمی نہیں ہو پا رہی۔ ہر طرف بے بسی کا عالم ہے۔
ہمارے ملک میں سالانہ جبر سے مذہب تبدیل کروانا اور پھر زبردستی شادیوں کے تین سو واقعات رونما ہوتے ہیں۔ 1947ء کی دس فیصد غیر مسلم اقلیت اب سکڑ کر تین فیصد کے قریب رہ گئی ہیں۔ اکثریت ملک چھوڑ کر اور ممالک میں جا چکے ہیں۔ ہمارے ملک کے یہ قانونی شہری خوف کا شکار ہو کر نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں۔ ہمارے عظیم قائد نے تمام اقلیتوں کو برابر کے حقوق کی ضمانت دی تھی۔ ان کی کابینہ کا مرکزی وزیر قانون ہندئو تھا۔ پوری سیاسی زندگی میں قائد اعظم نے کسی مذہبی تعصب کو نزدیک نہیں آنے دیا۔ اسلام دنیا میں امن اور استحکام کا ضامن ہے۔ ہمارے مذہب میں کسی قسم کا جبر نہیں ہے۔
ہمارا مذہب محبت، بھائی چارہ اور صلہ رحمی کا نشان ہے۔ پھر یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے۔ اور سوال یہ بھی ہے کہ کیوں ہو رہا ہے؟ میرے سامنے کئی ایسے کیسز کی رپورٹیں پڑی ہیں جس کو میں بیان ہی نہیں کر سکتا۔ میں کئی معاملات لکھ نہیں سکتا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ تمام رپورٹس غلط ہوں! یہ بھی ممکن ہے کہ ان تمام واقعات کے محرکات بھی بالکل مختلف ہوں! مگر ان معاملات میں اگر رتی بھر بھی صداقت ہے تو ہمیں پوری تہذیب اور عدل کے ساتھ ان کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے! اس لیے کہ غیر مسلم شہریوں کے تمام حقوق ہمارے جیسے ہیں! یہ ہمارے ملک کے شہری ہیں! برابر کے شہری؟
فرحت مسیح صرف چودہ سال کی تھی۔ وہ خانیوال میں اپنے والدین کے ساتھ عام زندگی بسر کر رہی تھی۔ ایک دن وہ اپنی بہن سے مل کر واپس آ رہی تھی کہ ریلوے اسٹیشن کے باہر اسے ایک تانگہ نظر آیا۔ اس میں دو خواتین بھی موجود تھیں۔ کوچوان نے بتایا کہ یہ دونوں خواتین اسی گائوں کی سواریاں ہیں جہاں فرحت جانا چاہتی ہے۔ خیر دس پندرہ منٹ کی مسافت کے بعد کوچوان نے ان دونوں خواتین کو سڑک پر اتار دیا اور ایک اور مرد سواری بیٹھ گئی۔ اس چودہ سالہ بچی کو قطعاً معلوم نہیں تھا کہ یہ سواری کوچوان کا چھوٹا بھائی ہے۔ فرحت کو ایک ڈیرہ پر لے جا کر قید کر دیا گیا۔ کچھ دنوں بعد فرحت کو گائوں کے ایک مکان میں منتقل کر دیا گیا۔
کوچوان جب بھی باہر جاتا تو فرحت کمرے میں قید کر دی جاتی تھی۔ کئی بار اسے رسی سے بھی باندھ دیا جاتا تھا۔ ایک دن اس گھر میں ایک مولوی صاحب آئے۔ انھوں نے اعلان کر دیا کہ فرحت آج سے مسلمان ہو چکی ہے۔ وہ مکمل اَن پڑھ تھی۔ اس سے دو تین کاغذوں پر انگوٹھے لگوائے گئے اور بتایا گیا کہ اب وہ اس کوچوان کی منکوحہ بیوی ہے۔ فرحت نے لوگوں کو بار بار بتایا کہ وہ اپنے والدین کے پاس جانا چاہتی ہے اور شادی نہیں کرنا چاہتی۔ جواب میں اس لڑکی پر بے پناہ تشدد کیا جاتا رہا اور اس کی قید میں دردناک اضافہ بھی ہو گیا۔ ظلم کا یہ سلسلہ پانچ سال مسلسل چلتا رہا۔ اس پانچ برس میں فرحت کو دن میں بند رکھا جاتا تھا۔
ایک دن اس نے کوچوان کی بہن کی منت سماجت کی۔ جس نے اسے دن میں مردوں کی غیر موجودگی میں ایک گھنٹہ کے لیے کھول دیا۔ وہ بھاگ کر اس مکان سے باہر نکل آئی اور کسی طریقے سے اپنے والدین کے پاس پہنچ گئی۔ وہ غربت اور جہالت کی وجہ سے کوئی قانونی کارروائی نہ کر سکی کیونکہ قانون کے مطابق اس کے پاس اس واقعہ کا کوئی بھی چشم دید گواہ موجود نہیں تھا۔ اس دوران اسے قتل کرنے کی دھمکیاں بھی ملتی ر ہیں۔ آج فرحت تیس سال کی ہے اور وہ بغیر کسی شناخت کے ایک بڑے شہر میں رہ رہی ہے۔ وہ مختلف گھروں میں محنت مزدوری کر کے اپنا وقت گزارتی ہے۔
خوشی مسیح اور سیما مسیح دونوں انتہائی غریب تھے۔ ان کے گیارہ بچے تھے۔ اس خاندان نے لیاقت بٹ نامی شخص سے گھر کرایہ پر لیا۔ گھر کیا تھا سر چھپانے کی ایک سادہ سی جگہ تھی۔ گھر کے ایک حصہ میں مالک مکان اور اس کی بیوی بھی رہتے تھے۔ خوشی کے گیارہ بچوں میں سے چھ کی شادی ہو چکی تھی جب کہ پانچ بچے اس کے پاس ہی رہتے تھے۔ اس کی تین بیٹیاں نادیہ، نبیلہ اور نعیمہ بھی اپنے خاندان کے ساتھ رہتی تھیں۔ ان بچیوں میں سے کوئی بھی اسکول نہیں جاتا تھا۔ ان کی والدہ بھی مکمل اَن پڑھ تھی اور اسے اپنے بچوں کو تعلیم دینے کا کوئی خاص شوق نہیں تھا۔ خوشی بس ڈرائیور تھا جب کہ اس کی بیوی سیما گھروں میں جھاڑو لگاتی تھی اور صفائی کا کام کرتی تھی۔ اس کی تینوں بیٹیاں بھی اکثر اس کے ساتھ مختلف گھروں میں کام کرتی تھیں۔
تھوڑے عرصے کے بعد ان تینوں لڑکیوں نے مختلف وجوہات سے دوسروں کے گھر کام پر جانا چھوڑ دیا اور اپنے گھر پر سلائی کڑھائی کا کام شروع کر دیا۔ ان لوگوں کو یہاں منتقل ہوئے چار ماہ ہی ہوئے تھے۔ ایک دن میاں بیوی کام سے واپس آئے تو لڑکیاں گھر پر موجود نہیں تھیں۔ خوشی مسیح فوراً قریبی تھانہ میں چلا گیا۔ وہ خوش قسمت تھا کہ اس کی شکایت پر F.I.R درج کر لی گئی۔ وہ روز تھانہ کے چکر لگاتا تھا۔ اسے اپنی لڑکیوں کا کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ وہ کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں۔ اچانک مالک مکان کی بیوی نے بتایا کہ اس کی تینوں لڑکیاں مسلمان ہو چکی ہیں اور ان میں سے ایک کی شادی بھی ہو چکی ہے۔ خوشی مسیح ایک سال تک تھانہ اور کچہری میں دھکے کھاتا رہا۔ پولیس نے تقریباً بارہ ماہ بعد ان تینوں لڑکیوں کو عدالت میں پیش کیا۔
مجسٹریٹ کی عدالت کے باہر ایک ہجوم اکٹھا ہو گیا اور انھوں نے خوشی مسیح کے خلاف نعرے لگانے شروع کر دیے۔ مجسٹریٹ نے دبائو میں آ کر تینوں لڑکیوں کو دار الامان بھجوا دیا۔ والد کو اس کی بیٹیوں سے ملنے سے روک دیا گیا۔ عدالت میں کارروائی جاری رہی۔ ثابت ہو گیا کہ ان تینوں اَن پڑھ لڑکیوں کو شدید دبائو اور لالچ دے کر مذہب تبدیل کرنے کے متعلق مجبور کیا گیا تھا۔ اس دوران خوشی کے گھر کو آگ لگا دی گئی اور اس کو سردیوں میں بے آسرا باہر نکال دیا گیا۔ اس خاندان کو آج تک انصاف نہیں مل سکا۔ یہ لوگ اس قدر خوف زدہ ہیں کہ اب مستقل ایک جگہ قیام نہیں کرتے۔ یہ ہر چھ سات ماہ بعد اپنا گھر بدل لیتے ہیں۔ آج تک اس کی کوئی لڑکی گھر واپس نہیں آئی۔ نادیہ اب چھبیس سال کی ہے۔ اس کی شادی ایک رکشہ ڈرائیور سے ہو چکی ہے۔
اب آپ اندرون سندھ میں ہندو خاندانوں پر نظر دوڑائیے۔ جمنا کی عمر چھ سال اور اس کی بڑی بہن پوجا دس برس کی ہے۔ اس کے والد کا نام سوما اور والدہ کا نام مرجو ہے۔ یہ میر پور خاص میں اختر کالونی میں رہتے ہیں۔ جمنا اور پوجا اپنے والدین کی غربت کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے کام کرنے پر مجبور ہیں۔ وہ مٹی کے کھلونے گھر گھر بیچتی ہیں اور اس طرح خاندان کا گزارہ ہو جاتا ہے۔ مالی وسائل کی تنگی اور مسلسل غربت اس خاندان کا مقدر ہے۔ اس سال فروری کے مہینے میں یہ دونوں بچیاں کھلونے بیچنے گھر سے باہر گئیں۔ مگر واپس نہ پہنچیں۔
سوما نے اپنی بچیوں کو تلاش کرنا شروع کر دیا۔ وہ کہیں نہیں ملیں۔ جب میڈیا نے اس واقعہ کو رپورٹ کیا اور دبائو میں اضافہ ہونے لگا تو مقامی پولیس نے رپٹ درج کر کے کارروائی شروع کر دی۔ معلوم ہوا کہ یہ لڑکیاں رجب نامی شخص کے پاس ہیں۔ جب انکو عدالت میں پیش کیا گیا تو عدالت کو بتایا گیا کہ وہ مسلمان ہو چکی ہیں۔ عدالت نے انکو دار الامان بھجوا دیا۔ چھ سالہ جمنا کو عدالت نے والدین کے حوالے کر دیا۔ مگر اس کی بڑی بہن دار الامان میں قیام پذیر ہے۔
رنکل کماری کی عمر انیس سال ہے۔ وہ میر پور کی رہنے والی ہے۔ وہ عام بچیوں کی طرح مقامی کالج میں پڑھ رہی تھی۔ چوبیس فروری کو اسے چند لوگوں نے بندوق کے زور پر اغوا کر لیا۔ اس کا والد نند لال مقامی اسکول میں ٹیچر ہے۔ نند لال کو بتایا گیا کہ بیٹی زندہ ہے اور مسلمان ہو چکی ہے۔ پولیس، تھانہ اور کچہری کسی جگہ بھی اِس غریب والد کی شنوائی نہیں ہوئی۔ اس کو یہ بھی بتایا گیا کہ رنکل کی شادی نوید نامی شخص سے ہوچکی ہے۔
مقامی عدالت نے اس شادی پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ رنکل کا نام بدل کر فریال رکھ دیا گیا۔ یہ واقعہ میڈیا نے دنیا بھر میں رپورٹ کیا۔ سپریم کورٹ نے بھی اس واقعہ کا نوٹس لے لیا۔ رنکل یا فریال کو سپریم کورٹ میں پیش کیا گیا۔ جج صاحب نے عدالت کو عام لوگوں سے خالی کروایا۔ لڑکی کا بیان لیا گیا۔ اس لڑکی نے ملک کی سب سے بڑی عدالت میں بیان دیا کہ اس کو زبردستی مسلمان کیا گیا ہے اور اس کی شادی بھی زبردستی کی گئی ہے۔ اس لڑکی نے یہاں تک کہا کہ اسے مار دیا جائے مگر وہ اپنے خاوند کے پاس واپس نہیں جانا چاہتی۔ اس نے عدالت میں یہ بھی کہا کہ اس ملک میں اس کے مذہب سے تعلق رکھنے والوں کے لیے انصاف کا حصول تقریباً ناممکن بنا دیا گیا ہے۔
بسنت لال گلشن2011ء میں بلوچستان میں صوبائی وزیر تھے۔ ان کے بقول صرف ایک سال میں چار لڑکیوں اور تین ہندئو لڑکوں سے زبردستی مذہب تبدیل کرایا گیا۔ بلوچستان میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ ہندئو موجود ہیں۔ ان کا کوئی والی وارث نہیں۔ ان کا اغوا بالکل عام سی بات بن چکی ہے۔ لورالائی، چمن اور سبی میں کئی ایسے معاملات سامنے آئے ہیں جن میں خوف، طاقت اور پیسے کو استعمال کر کے بچوں کا مذہب تبدیل کروایا گیا ہے۔ کشن چند پروانی پانچ بار پاکستان کی پارلیمنٹ کے ممبر رہے۔ وہ اس طرح کے تمام معاملات پر انتہائی سنجیدگی سے نظر رکھتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اقلیتوں کے مسائل تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ ان میں کسی قسم کی کمی نہیں ہو پا رہی۔ ہر طرف بے بسی کا عالم ہے۔
ہمارے ملک میں سالانہ جبر سے مذہب تبدیل کروانا اور پھر زبردستی شادیوں کے تین سو واقعات رونما ہوتے ہیں۔ 1947ء کی دس فیصد غیر مسلم اقلیت اب سکڑ کر تین فیصد کے قریب رہ گئی ہیں۔ اکثریت ملک چھوڑ کر اور ممالک میں جا چکے ہیں۔ ہمارے ملک کے یہ قانونی شہری خوف کا شکار ہو کر نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں۔ ہمارے عظیم قائد نے تمام اقلیتوں کو برابر کے حقوق کی ضمانت دی تھی۔ ان کی کابینہ کا مرکزی وزیر قانون ہندئو تھا۔ پوری سیاسی زندگی میں قائد اعظم نے کسی مذہبی تعصب کو نزدیک نہیں آنے دیا۔ اسلام دنیا میں امن اور استحکام کا ضامن ہے۔ ہمارے مذہب میں کسی قسم کا جبر نہیں ہے۔
ہمارا مذہب محبت، بھائی چارہ اور صلہ رحمی کا نشان ہے۔ پھر یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے۔ اور سوال یہ بھی ہے کہ کیوں ہو رہا ہے؟ میرے سامنے کئی ایسے کیسز کی رپورٹیں پڑی ہیں جس کو میں بیان ہی نہیں کر سکتا۔ میں کئی معاملات لکھ نہیں سکتا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ تمام رپورٹس غلط ہوں! یہ بھی ممکن ہے کہ ان تمام واقعات کے محرکات بھی بالکل مختلف ہوں! مگر ان معاملات میں اگر رتی بھر بھی صداقت ہے تو ہمیں پوری تہذیب اور عدل کے ساتھ ان کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے! اس لیے کہ غیر مسلم شہریوں کے تمام حقوق ہمارے جیسے ہیں! یہ ہمارے ملک کے شہری ہیں! برابر کے شہری؟