ابھی تو بدن میں لہو ہے بہت

کہاوت بنانے والوں کو پتہ تھا کہ چوہوں کے خون میں عمر درازی کا کوئی نہ کوئی عنصر ضرور ہے ...

barq@email.com

ان دنوں اخبارات میں بڑے زبردست قسم کے ''سائنسی ٹوٹکے'' آ رہے ہیں۔پنسلوانیا یونیورسٹی کی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چائے میں ایک عنصر ''چا چا چا'' نام کا ہوتا ہے جو ناک کی ہڈی کو بڑھانے میں مدد دیتا ہے، کافی میں ''کف کف کف'' نام کا ایسڈ بالوں کے اندر گھس کر انھیں ''چسپا'' بنا دیتا ہے جس کی وجہ سے بالوں کے دو مونہہ آپس میں ایسے جڑ جاتے ہیں کہ

من تو شدم تو من شدی من جاں شدم تو تن شدی

تا کس نہ گوئید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری

قہوے کے باغوں میں چونکہ پریاں اپنے گھونسلے بناتی ہیں، اس لیے قہوہ پینے سے انسانوں اور بالخصوص عورتوں کا رنگ بھی پریوں سا ہو جاتا ہے بلکہ ان کے پر بھی نکل آتے ہیں جنھیں لوگ دوپٹہ سمجھتے ہیں، اس قسم کی تحقیقاتی اور انکشافاتی خبریں ہم بڑی دل چسپی سے اس لیے پڑھتے ہیں کہ جن نتائج پر یہ آج پہنچے ہیں وہ نتائج سیکڑوں سال پہلے ہمارے بزرگوں پر منکشف ہوئے تھے مثلا خون دینے سے انسان کا خون اور زیادہ نکھر جاتا ہے اس جدید انکشاف کا پتہ ہمارے بزرگوں کو صدیوں پہلے لگا تھا چنانچہ اکثر لوگ فصد کھلواتے تھے یا جونکیں لگواتے تھے اور صاحب استطاعت لوگ اس غرض کے لیے بیویاں اور کنیزیں رکھتے تھے لیکن مختلف رنگوں نسلوں علاقوں اور عمروں کا حساب کتاب رکھنے کے لیے پھر شاہی سائنس دانوں نے کمپیوٹر بنا دیا۔

آج کی مغربی سائنس کوئی ایک بھی ایسی چیز ایجاد نہیں کر پائی جو ہمارے اجداد نے بغداد، استنبول، دہلی، آگرہ، دمشق اور سمر قند میں نہیں کی تھی، ابھی ابھی جو تازہ ترین انکشافاتی تحقیق ہم نے اخبار میں پڑھی ہے وہ یہ ہے کہ کسی امریکی یونیورسٹی نے چوہوں پر تجربہ کر کے معلوم کیا ہے کہ چوہوں کے خون میں عمر بڑھانے کی شکتی ہوتی ہے، اب یہ محض وقت اور پیسے کا ضیاع نہیں تو اور کیا ہے، اس پر جو سرمایہ خرچ ہوا ہے اس کا آدھا بھی ہمیں دے دیتے تو ہم یہ بات صرف ایک کہاوت سے ثابت کر دیتے، اور کہاوت یہ ہے کہ بلی کی نو جانیں ہوتی ہیں اور اس لیے ہوتی تھیں کہ پرانے زمانے میں ہر بلی کم از کم نو سو چوہے کھا کر ہی حج پر جاتی تھی ''فی سو چوہوں'' میں ایک جان حساس کر لیجیے۔

مطلب یہ کہ کہاوت بنانے والوں کو پتہ تھا کہ چوہوں کے خون میں عمر درازی کا کوئی نہ کوئی عنصر ضرور ہے صرف وہ اس عنصر کو نام نہیں دے پائے تھے لیکن یہ کیا مشکل ہے ابھی دیے دیتے ہیں ''خون چو'' نام کیسا رہے گا۔ خون چوسنے سے عمر طاقت اور نہ جانے کیا کیا بڑھ جاتا ہے، نوجوان اور کم عمر چوہوں کا خون جب بڑی عمر کے چوہوں میں منتقل کیا گیا تو ان کی پژمردگی بشاشت میں بدل گئی نہ صرف اچھلنے کودنے لگے بلکہ لیڈی چوہوں پر بری نظر بھی ڈالنے لگے

خون پینے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق

وہ سمجھتے ہیں کہ بڈھے کی صحت اچھی ہے

ہماری معلومات اس سلسلے میں ان سے زیادہ اپ ٹو ڈیٹ ہیں وہ تو نوجوان چوہوں کا خون بوڑھے چوہوں کو چڑھا کر ابھی چوہوں کو جوان کر رہے ہیں جب کہ ہمارے بزرگ خون چڑھائے بغیر بھی جوانوں کی جوانی اپنے اندر منتقل کرتے تھے، 81 سالہ بڈھے 18 سالہ دوشیزاؤںسے شادیاں کرتے تھے ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب افغان مہاجرین ہم کو انصار بنانے آئے تھے تو اکثر بڈھے یہی نسخہ استعمال کرتے تھے۔

یہ نئی تحقیق والے ابھی اس طریقہ علاج کے بارے میں علم ہی نہیں رکھتے جہاں تک خون کا تعلق ہے تو بادشاہ لوگ اگر رعایا کا خون اپنے اندر منتقل کرتے رہتے تھے اور یہ طریقہ علاج آج جمہوریت کے دور میں بھی اسلامی ممالک کے اندر رائج ہے، چونکہ حکمرانوں پر عوام کی خدمت کا ''بوجھ'' بہت زیادہ ہوتا ہے یعنی وقت کم اور مقابلہ سخت ہوتا ہے اس لیے وہ اس طریقہ علاج پر بہت زیادہ بھروسہ کرتے ہیں اور پھر یہ بھی ہے کہ عوام کی زندگی ویسے بھی زندگی سے زیادہ شرمندگی ہوتی ہے اس لیے جتنی زیادہ ان کو جلدی چھٹکارا دلایا جائے ان کے لیے اچھا ہوتا ہے، مصیبت جتنی کم ہوتی ہے اتنا ہی بہتر ہے

منحصر مرنے پر ہو جس کی امید

ناامیدی اس کی دیکھا چاہیے

کسی اور ملک کا تو ہمیں پتہ نہیں ہے لیکن اپنے ملک کے بارے میں ہم یہ فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ یاں اس بلڈ ٹرانسفیوژن کے لیے بڑے اعلیٰ پائے کے انتظامات کیے گئے ہیں اس سلسلے میں حکومت بلکہ حکومتوں کی تعریف نہ کرنا قطعی غلط ہو گا اس لیے ہمیں سب سے پہلے تو حکومت کے ''حسن انتظام'' اور تکنیکی مہارت پر عش عش کرنا ہو گا تو چلیے آٹھ منٹ تک بالکل خاموش رہ کر دل میں عش عش کرنا شروع کر دیجیے


رب کا شکر ادا کر بھائی

جس نے ہماری جمہوریت بنائی

دنیا میں یوں تو ایک لاکھ ایک ہزار ایک سو ایک اعشاریہ ایک ''جمہورتیں'' رائج ہیں لیکن ان سب میں کوئی نہ کوئی ایسا عیب پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے تسلی بخش انداز میں بلڈ ٹرانسفیوژن نہیں ہوتا ہے بہت کم خون حکمرانوں تک منتقل ہوتا ہے کیوں کہ وہاں کے عوام کسی نہ کسی طرح اپنا خون بچانے کے لیے کامیاب ہو جاتے ہیں یا کسی نہ کسی طرح واپس لے لیتے ہیں یعنی

بلا سے گر مژہ یار تشنہ خوں ہے

رکھوں کچھ اپنی بھی مژگان خوں فشاں کے لیے

لیکن اپنے یہاں کے طریقہ ''علاج'' میں ایسا بالکل بھی ممکن نہیں ہے، کیونکہ اس غرض کے لیے حکومت نے جو بلڈ بینک رکھے ہوئے ہیں اور جن کو یہاں محکمے کہا جاتا ہے ان میں ایک سے بڑھ کر ایک ماہر پایا جاتا ہے وہ انتہائی مہارت کے ساتھ ''پیچ گھما کر'' خون کا بہاؤ بڑھاتے رہتے ہیں اور عوام کی رگوں سے خون کھنیچتے رہتے ہیں، اس خون کو جمع کر کے اور اپنا حصہ وصول کر کے آگے منتقل کر دیا جاتا ہے اور اسے قابل انتقال بنا کر فنڈز کا نام دے دیا جاتا ہے اور خاص طور پر منتخب کیے ہوئے ''مریضوں'' کو چڑھا دیا جاتا ہے

ڈرے کیوں میرا قاتل کیا رہے گا اس کی گردن پر

یہ خوں جو چشم تر سے عمر بھر یوں دم بہ دم نکلے

مطلب کہنے کا یہ ہے کہ اس راز کا ہمیں پہلے سے پتہ ہے کہ خون چڑھانے سے کیا کیا فوائد حاصل ہوتے ہیں اور یہ لوگ اب کہیں جا کر چوہوں پر تجربات کر رہے ہیں ہم نے چوہوں پر تجربات کیے بغیر ہی ''چوہوں'' کے خون کا کمال معلوم کر لیا تھا اور بلیوں کی درازیٔ عمر کا راز جان لیا تھا اور یہ تو کہنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ اپنے یہاں ''چوہے'' بہت ہوتے ہیں جو اگرچہ اتنے موٹے تازے نہیں ہوتے لیکن پھر بھی زیادہ ہوتے ہیں اس لیے قطرہ قطرہ لے کر بھی ''دریا'' بنا لیے جاتے ہیں

ابھی تو بدن میں لہو ہے بہت

قلم چھین لے روشنائی نہ دے

پہلے رگ رگ سے مری خون نچوڑا اس نے

اب وہ کہتے ہیں کہ رنگت تری کیوں پیلی ہے
Load Next Story