پیش کردہ بجٹ…عوام کی توقعات کے برعکس

اسپتالوں سے غریب عوام کو دوائیں دینے اور انھیں انتہائی معیاری صحت کی سہولیات کی فراہمی کے لیے رقوم میں اضافہ کیا جائے

ikhalil2012@hotmail.com

مالی سال 2014-15ء کا بجٹ پاکستان کے عوام کی توقعات کے برعکس تھا۔ رواں مالی سال کا بجٹ پیش کرتے ہوئے حکومت کے لیے یہ مجبوری تھی کہ اسے برسر اقتدار آئے ہوئے چند یوم ہی گزرے تھے۔ لہٰذا جن لوگوں نے بجٹ بنایا تھا اس میں معمولی ردوبدل کے ساتھ بجٹ پیش کردیا گیا تھا۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں یہ کہہ کر 10 فی صد اضافہ کیا گیا تھا کہ چونکہ معاشی حالات بہتر نہیں ہیں اور مسلم لیگ (ن) کو حکومت سنبھالے ہوئے چند یوم ہی گزرے ہیں لہٰذا سرکاری ملازمین اسی کم اضافے پر اس سال اکتفا کریں معاشی حالات بہتر ہوتے ہی آیندہ مالی سال کے بجٹ میں ملازمین کی اشک شوئی کردی جائے گی۔

لیکن ایک دفعہ پھر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں محض 10 فی صد اضافہ کیا گیا۔ جسے ایپکا اور سرکاری ملازمین کی دوسری تنظیموں نے مسترد کردیا ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ نظرثانی کرنے کے بعد تنخواہوں میں مہنگائی کے تناسب سے اضافہ کردیا جائے گا جیساکہ اس سے قبل وعدہ کیا جاچکا ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے الیکشن کے دوران غریب عوام سے بہت سے وعدے کیے تھے۔ جس کی وجہ سے اس دفعہ جب بجٹ پیش کیا جانے لگا تو عوام کو بھرپور توقع تھی کہ بجٹ کی حکمت عملی کچھ ایسی ہوگی جس سے عوام کو ریلیف ملے گا۔مہنگائی میں کمی کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ روزگار میں اضافے کی حکمت عملی سامنے لائی جائے گی۔

لیکن کچھ ایسا ہوا کہ جو بھی اقدامات اٹھائے گئے ہیں اس کے نتیجے میں ملک میں مہنگائی میں اضافہ ہی ہوگا۔ کیونکہ مختلف اشیا پر کسٹم ڈیوٹی میں اضافے کے باعث ان اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوجائے گا۔ جس سے عوام ہی متاثر ہوں گے۔ گھی، تیل پر ٹیکس میں اضافے کی تجویز کے باعث ان اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔ پرچون فروشوں پر 5 فی صد ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ملک بھر میں 25 لاکھ تک پرچون فروش موجود ہیں جن کی اکثریت ایسی ہے جو ماہانہ 20 ہزار روپے بل ادا کرتے ہیں۔ لہٰذا ان پر ٹیکس عائد کیا جا رہا ہے۔ لیکن تمام ٹیکسوں کے نفاذ کے باعث مہنگائی کا ایک اور ریلا عوام کو بہا کر لے جائے گا۔

بجٹ میں بین الاقوامی چین اسٹوروں کی شاخوں، ایئرکنڈیشن شاپنگ پلازوں میں دکانیں چلانے والوں، کریڈٹ کارڈ یا ڈیبٹ کارڈ مشین رکھنے والوں اور ماہانہ 50 ہزار بل ادا کرنے والوں کو درجہ اول میں رکھتے ہوئے ان پر 17 فی صد سیلز ٹیکس لگایا جا رہا ہے جب کہ 20 ہزار سے زائد بجلی کا بل دینے والوں پر 7.5 فی صد کے حساب سے سیلز ٹیکس لگایا جائے گا اور 20 ہزار تک بجلی کا بل دینے والوں کو 5 فی صد سیلز ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔

لہٰذا ان تمام باتوں کا ایک ہی نتیجہ نکلے گا کہ دکاندار، شاپ کیپر ٹیکسوں کا کوئی بوجھ ہو اسے گاہکوں پر منتقل کرنے سے نہیں چوکتے۔ اور بالآخر یہ ٹیکس خریداروں پر ہی منتقل ہوکر رہ جائے گا۔ حکومت کے بین الاقوامی سفر پر جانے والے عوامی کلاس پر سفر کرنے والوں پر ٹیکس میں 160 روپے کا اضافہ کردیا ہے۔ یعنی اکانومی کلاس پر سفر کرنے والے کو اب 5 ہزار ٹیکس دینا ہوں گے جب کہ بزنس و فرسٹ کلاس میں سفر کرنے والوں کو اس مد میں 10 ہزار روپے ٹیکس ادا کرنا ہوں گے۔ سگریٹ پر ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کردیا گیا ہے۔


بجٹ میں بعض پسماندہ علاقوں کی ترقی کے لیے اہم اقدام کیا گیا ہے مثلاً گلگت، بلتستان، بلوچستان اور مالاکنڈ میں فروٹ پروسیسنگ انڈسٹری کو فروغ دینے کے لیے پلانٹ مشنری پر ہر قسم کی ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے۔ اسی طرح فاٹا کے لیے بھی سرمایہ کاری کرنے پر مراعات و رعایت دی گئی ہے۔

2010ء کی بات ہے جب جون 2010ء میں بجٹ پیش کرنے سے قبل مختلف عالمی اداروں کی جانب سے جائزہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے یہ بتایا گیا کہ معاشی ترقی کی شرح 3 فی صد تک رہے گی۔ اس دوران دنیا کی مختلف رپورٹوں میں بھی تین فی صد کا حوالہ ہی دیا جاتا رہا کہ بجٹ پیش کرنے سے چند دن قبل کچھ ایسا رونما ہوگیا کہ ملکی ترقی کی شرح کو 4.1 فیصد بتایا گیا۔ ایک طرف بیرونی ترسیلات میں اضافہ ظاہر کیا جا رہا ہے جوکہ 13 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ملکی پیداوار میں بھی اضافہ کیا جائے۔ بصورت دیگر طلب میں اضافے کے باعث افراط زر میں بھی اضافہ ہوگا۔

بجٹ کے مطابق افراط زر کی شرح 8 فی صد تک رکھی جائے گی۔ البتہ کھانے پینے کی کئی اشیا پر ٹیکسوں میں کمی کے باعث ان اشیا کی قیمتوں میں کمی ہوجائے گی۔ حکومت نے بجٹ پیش کرتے ہوئے کم ازکم اجرت 12 ہزار روپے مقرر کی ہے حالانکہ اسے 15 ہزار تک لے جانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ لیکن پہلے کی طرح اس پر عملدرآمد کرنے میں مشکلات حائل ہیں۔ البتہ وزیر خزانہ نے پوسٹ بجٹ تقریر کرتے ہوئے کہا کہ سب کو اس پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔ دوسری طرف کئی اشیا پر کسٹم ڈیوٹی اور دیگر ٹیکسوں میں اضافے کے باعث یہ تمام بوجھ صارفین پر منتقل ہوں گے نیز دکاندار جس قسم کا بھی ٹیکس دیتا ہے وہ صارف پر منتقل کردیتا ہے۔ جب کہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ بجٹ کی آڑ میں کسی کو قیمتیں بڑھانے نہیں دیا جائے گا۔

اس پر عملدرآمد کافی مشکل کام ہے لیکن اگر حکومت پرعزم ہوجائے تو ایسا کرنا مشکل نہ ہوگا۔ بجٹ پیش کرنے کے دوسرے روز تقریر کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ 9 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالیں گے۔ لیکن اس کے لیے ضروری تھا کہ حکومتی بجٹ پیش کرتے ہوئے ایسی حکمت عملی اپناتی جس سے غربت میں کمی واقع ہوتی۔ حکومتی دعویٰ ہے کہ مالیاتی خسارہ کم کرکے 8.8 فی صد سے 4 فی صد تک لے آئیں گے۔ اس سے قبل بھی ایسے ہی دعوے کرتے کرتے مالیاتی خسارہ بڑھتا ہی چلا گیا ہے۔

ماہرین کے مطابق اسے کسی حد تک تجارت دوست بجٹ بھی کہا جاسکتا ہے۔ بجٹ میں وعدہ کیا گیا ہے کہ آیندہ تین سال میں ایس آر اوز کلچر کا خاتمہ کردیا جائے گا۔ وفاقی بجٹ میں تعلیم کے شعبے اور صحت کے شعبے کے لیے رقوم مختص کی جاتی ہیں لیکن چونکہ یہ شعبے صوبائی حکومتوں کے حوالے ہیں لہٰذا وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ صوبوں کو ترغیب دے کہ وہ تعلیم اور صحت کے لیے بجٹ میں اضافہ کریں۔ خستہ حال اسکولوں کی تعمیر نو کی جائے۔

اسپتالوں سے غریب عوام کو دوائیں دینے اور انھیں انتہائی معیاری صحت کی سہولیات کی فراہمی کے لیے رقوم میں اضافہ کیا جائے۔ عوام کو پینے کے صاف پانی کے لیے رقوم میں اضافہ کیا جائے۔ کیونکہ غربت میں کمی لانے کے لیے ضروری ہے کہ عوام کے لیے تعلیم کی سہولیات سستی ترین تعلیم نیز ابتدائی تعلیم مفت اور مفت صحت کی سہولیات پینے کا صاف پانی، شہروں اور دیگر علاقوں میں نکاسی آب کا بہتر انتظام کی فراہمی باآسانی کی جائے۔ غربت میں کمی لانے کے لیے روزگار کی فراہمی بھی حکومت وقت کا فریضہ ہے۔ وہی بجٹ عوام کی توقع کے مطابق ہوتا ہے جس سے عوام کی فلاح و بہبود میں اضافہ ہو رہا ہوتا ہے۔
Load Next Story