کھانے پینے کی چیزیں ضایع نہ کیجیے

دنیا کی خوراک کا تقریباً ایک تہائی حصہ ضایع ہو جاتا ہے جو تقریباً 13کھرب کلوگرام سالانہ ہے

فوٹو : فائل

اے عاشقانِ رسول ﷺ! کھانے پینے کی چیزوں کو ضایع کرنا ایک بین الاَقوامی مَسئلہ ہے۔

لوگوں کی ایک تعداد ہے کہ جو استعمال کے قابل ہونے کے باوجود کھانے پینے کی بہت سی چیزوں کو ضایع کردیتی ہے، شادی بیاہ وغیرہ کی تقریبات، رمضان المبارک میں عام لوگوں کے افطار کے لیے مختلف مقامات پر بچھائے گئے دسترخوان یا پھر بڑے لوگوں کی افطار پارٹیاں، ہوٹلز اور گھر، ال غرض بہت سی جگہوں پر کھانے پینے کی چیزیں ضایع ہوتی ہوئی نظر آتی ہیں۔

وطنِ عزیز پاکستان کے ساتھ کئی ممالک میں روزانہ لاکھوں کروڑوں روپے کی کھانے پینے کی چیزیں پھینک دی جاتی ہیں جو کہ کسی انسان کے پیٹ میں نہیں جاتیں۔

کئی امیر ممالک تو ایسے ہیں کہ جن میں استعمال کے قابل ہونے کے باوجود کھانے کی چیز کو ضایع کرنے کے باقاعدہ قوانین بنے ہوئے ہیں۔ جیسا کہ ایک امیر ملک کے بارے میں پتا چلا کہ وہاں ہوٹل والے قانونی لحاظ سے اس بات کے پابند ہوتے ہیں کہ بچا ہوا کھانا شام کو پھینک دیں، مثلاً اگر کوئی ہوٹل والا مچھلیاں پکا کر یا تَل کر یا ڈیپ فرائی کر کے بیچتا ہو، تو شام میں جتنی مچھلیاں بچی ہوں گی چاہے پکی ہوئی ہوں یا پھر کچی جو کہ فریزر میں موجود ہوں، ساری ہی پھینک دینا ضَروری ہے۔

اب چاہے وہ ایک ہزار روپے کی ہوں یا پھر ایک لاکھ روپے کی، انہیں دوسرے دِن نہیں کھلا سکتے۔ آپ اسی سے اندازہ لگالیں کہ جب فریزر میں رکھی کچی مچھلیاں دوسرے دِن نہیں چلا سکتے تو پھر پکا ہوا کھانا اگلے دن کے لیے کس نے فریج میں رکھنے دینا ہے؟ یہ بھی لازمی طور پر پھینکنا ہی ہوگا۔

دعوتوں میں کھانا کھاتے ہوئے ٹیبلز، دستر خوانوں اور دریوں پر کھانا گِرایا جاتا ہے، جن ہڈیوں کے ساتھ گوشت لگا ہوتا ہے انہیں برابر صاف نہیں کیا جاتا، برتن سے گرم مسالے اور نہ کھائی جانے والی چیزوں کو نکالنے کے ساتھ کھانے کے بہت سے ذرات بھی ساتھ ہی چلے جاتے اور ضایع ہوجاتے ہیں، کھانے کے بعد برتنوں اور دیگوں میں بچا ہوا تھوڑا سا کھانا دوبارہ استِعمال کرنے کا بہت سے لوگوں کا ذِہن نہیں ہوتا، بچی ہوئی روٹیاں یا پھر ان کے ٹکڑے اور بچے ہوئے چاول بھی پھینک دیے جاتے ہیں۔

اعداد و شمار کی عالمی ویب سائٹ '' theworldcounts.com '' کے مطابق دنیا کی خوراک کا تقریباً ایک تہائی حصہ ضایع ہو جاتا ہے جو تقریباً 1.3 بلین ٹَن یعنی 13کھرب کلوگرام سالانہ ہے۔


جہالت اور دینی تعلیمات سے دوری کے سبب کچھ لوگوں کے دماغ بہک جاتے ہیں، پھر انہیں مسلمانوں کے جوٹھے میں بھی جَراثیم اور بیکٹیریا نظر آتے ہیں اور وہ اپنے مسلمان بھائی کا جوٹھا کھانے پینے سے گِھن کھاتے اور کتراتے ہیں، اس طرح بھی کھانے پینے کی چیزوں کے ضایع ہونے کی مقدار بڑھ جاتی ہے، حالاں کہ مسلمان کا جوٹھا کھانا پینا ایک تو عاجزی والا کام ہے اور دوسرا یہ کہ مومن کے جوٹھے میں شفا کی خوش خبری ہے۔

آج ہر ایک بے بَرَکتی اور تنگ دستی کے سبب پریشان ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ پریشانی کھانے پینے کی چیزوں کا اِحتِرام نہ کرنے اور رزق کی بے حرمتی کرنے کے سبب ہو۔ رحمتِ عالَم ﷺ مکانِ عالی شان میں تشریف لائے، روٹی کا ٹکڑا پڑا ہوا دیکھا تو اسے اٹھا کر پونچھا پھر کھا لیا اور فرمایا: ''اے عائشہ! اچّھی چیز کا احترام کرو کہ یہ چیز (یعنی روٹی) جب کسی قوم سے بھاگی ہے تَو لوٹ کر نہیں آئی۔''

ہمارا دینِ اسلام تو ہمیں دسترخوان پر گرے ہوئے کھانے کے ذرات بھی اٹھا کر کھا لینے اور انہیں ضایع نہ کرنے کا درس دیتا ہے۔ چناں چہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص دسترخوان سے کھانے کے گرے ہوئے ٹکڑوں کو اٹھا کر کھائے وہ خوش حالی کی زندگی گزارتا ہے اور اس کی اولاد اور اولاد کی اولاد کم عقلی سے محفوظ رہتی ہے۔

یاد رکھیے! جان بوجھ کر جس نے پانی کا ایک قطرہ اور اناج کا ایک دانہ بھی ضایع کیا تو وہ آخرت میں پھنس سکتا ہے، مال ضایع کرنا ناجائز و گناہ اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ نیز اگر ہم کھانے پینے کی چیزوں کو ضایع کریں گے تو قیامت کے دن اس پر حِساب نہیں بل کہ عذاب ہے، حِساب تو اس حلال مال پر ہے جو ہم نے کھایا پیا اور استعمال کیا، باقی جو ہم نے ضایع کر دیا اس پر تو عذاب ہے۔

اگر ہم سب بھی اپنا یہ ذہن بنالیں کہ کھانے پینے کی چیزوں کا ایک ذرہ اور ایک قطرہ بھی ہم ضایع نہیں کریں گے اور نہ ہی ضایع ہونے دیں گے، نیز دوسرے مسلمان بھائی کا جوٹھا بھی کھا پی لیں گے تو اس سے جہاں کھانے پینے کی چیزیں ضایع ہونے سے بچیں گی وہیں تنگ دستی اور غربت میں بھی اچھی خاصی کمی آسکتی ہے، مہنگائی پر بھی کنٹرول ہوسکتا ہے، کیوں کہ عام طور پر مہنگائی اس وقت ہوتی ہے جب خریداری زیادہ کی جاتی ہے، اگر لوگ خریداری کم کریں گے تو دکانوں، کارخانوں اور فیکٹریوں میں مال اسٹاک پڑا رہے گا، بکے گا نہیں تو پھر بیچنے والے سستا کریں گے۔

حضرت سیدنا ابراہیم بن ادھمؒ اپنے مریدوں سے کھانے کی اَشیاء کی قیمتیں پوچھتے تو آپ سے کہا جاتا کہ ان کی قیمتیں حَد سے بڑھ گئی ہیں۔ تو آپ اِرشاد فرماتے انہیں خریدنا چھوڑ دو، سستی ہوجائیں گی۔

ہماری تمام عاشقانِ رسول ﷺ سے فریاد ہے کہ کھانے پینے کی چیزوں کا احترام کیجیے، انہیں ضایع ہونے سے بچائیے اور دوسروں کو بھی اس بات کی تلقین کیجیے، روٹی، سالن، چاول اور اسی طرح دیگر کھانے پینے کی چیزیں اگر بچ جائیں اور کھانے پینے کے قابل ہوں تو دوبارہ استعمال کرنے کے لیے فریج میں رکھ دیجیے یا پھر کسی ایسے کو دے دیجیے کہ جو انہیں استعمال کرلے یا پھر گائے، بکریوں، چِڑیوں، مرغیوں یا بلّیوں کو کِھلا پِلا کر ان چیزوں کی بے ادبی اور اِسراف کے جرم سے بچیے۔

اﷲ پاک ہمیں اپنی نعمتوں کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
Load Next Story