اگر آج اسٹیبلشمنٹ کمزور ہوگی تو سب کا نقصان ہوگا شرجیل میمن

جے یو آئی کے گڑھ میں پی ٹی آئی کے لوگ جیتے ہیں، مولانا کی شکایت تو پی ٹی آئی پر ہونی چاہیے، رہنما پی پی پی

شرجیل میمن نے کہا کہ ہم پی ٹی آئی کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہیں—فوٹو: ایکسپریس نیوز

پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) رہنما شرجیل انعام میمن نے جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور دیگر مخالف سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے لگائے جانے والے الزامات پر کہا ہے کہ یہ پورے ملک کو کہنا چاہتے ہیں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہو جاؤ لیکن ہمیں تمام اداروں کو مضبوط تر بنانا ہے، اگر آج اسٹبلشمنٹ کمزور ہوگی تو سب کا نقصان ہوگا۔

کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پی پی پی رہنما شرجیل انعام میمن نے کہا کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کو تاریخی مینڈیٹ عوام نے دیا ہے، پیپلز پارٹی نے سندھ میں اپنے ہی ریکارڈ توڑے ہیں اورعوام نے دل کھول کر ووٹ دیا، بلاول بھٹو پیپلز پارٹی کے کارکنوں کا شکریہ ادا کرنے ٹھٹھہ جائیں گے۔

انتخابات میں دھاندلی کے خلاف احتجاج پربات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج سندھ میں جی ڈی اے کی جانب سے ایک پروگرام کیا جارہا ہے، ہم پیر صاحب کی عزت کرتے ہیں، یہ مریدوں کا اجتماع ہے، سیاسی جلسہ نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب 2024 کے انتخابات کا اعلان ہوا تو پاکستان مسلم لیگ (ن)، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) نے اتحاد بنایا لیکن پیپلز پارٹی نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اورمخالف اتحاد کوبڑے مارجن سے ہرایا۔

مخالف جماعتوں کو مخاطب کرکے ان کا کہنا تھا کہ جب نتائج آرہے تھے آپ خاموش تھے، آپ نے کون سی شکایت درج کرائی ہے، بلدیاتی انتخابات میں کسی ایک ضلع میں بھی ان کو کامیابی نہیں ملی اورعام انتخبات میں ان کو مسترد کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ جی ڈی اے والے 5 سال تک ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہوتے ہیں تو لوگ بیوقوف نہیں ہیں، کبھی جی ڈی اے یا باقی جماعتوں کو کوئی کام کرتے ہوئے آپ نے دیکھا ہے، صرف سیاسی جلسوں میں بیٹھ کرآپ کلیئر نہیں ہوتے۔

شرجیل انعام میمن نے کہا کہ جہاں جی ڈی اے دھرنا دےرہی ہے، ان کے رزلٹس نکالیں، میں آج سیٹ چھوڑتا ہوں دوبارہ الیکشن لڑ لیں۔

'یہ سیاست میں قتل عام کی بات کرتے ہیں'

ان کا کہنا تھا کہ یہ سیاست میں قتل عام کی بات کرتے ہیں، اگر آپ کے جلسے سے ہماری لیڈر شپ پر بات ہو گئی تو ہم جواب دیں گے، آپ کی عوام میں پذیرائی نہیں ہے، پیر صاحب پگارا کے لیے احترام ہے،آپ مذہبی چیزوں کو سیاست سے الگ رکھیں۔


رہنما پی پی پی نے کہا کہ پی ٹی آئی اور جے یو آئی کا ملاپ ہوا، جے یو آئی کے گڑھ میں پی ٹی آئی کے لوگ جیتے ہیں، مولانا کی شکایت تو پی ٹی آئی کے لیے ہونی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ مولانا نے بھی عجیب وغریب باتیں کیں، مشرف دور میں مولانا امور کشمیر کے چیئرمین کیسے بنے، ہم تلخ حقیقت میں نہیں جانا چاہتے ہیں، جن کے نام مولانا نے لیے ہیں، پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ آئینی طور پر وزیراعظم کو ہٹایا گیا۔

شرجیل میمن نے کہا کہ2018 میں کس طرح عمران خان کو کامیاب کرایا گیا، پی ٹی آئی کو اس الیکشن میں جتنا مینڈیٹ ملا ہے ہم اس کا احترام کرتے ہیں، آج جو لوگ معصوم بننے کی کوشش کرتے ہیں، عمران خان کے دھرنے کس طرح ہوئے تھے، کون کون جہاز بھر کر وفاداریاں تبدیل کررہے تھے ، کس طرح لوگوں کا مینڈیٹ چھینا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے جن لوگوں کے مینڈیٹ پر ڈاکا ڈالا ہے، وہ قانونی راستہ اختیار کررہے ہیں، جی ڈی اے بتائے اس نے کسی ایک کو گھر بنا کر دیا ہو، جو اسپتال آج بنے ہیں اس میں جی ڈی اے کے لوگ بھی علاج کراتے ہیں، ہمارے مسائل ہیں، ان کو بھی اب حل کریں گے۔

'مولانا کے خلاف عمران خان جو گفتگو کرتے رہے وہ قابل مذمت تھی'

ان کا کہنا تھا کہ مولانا کے خلاف عمران خان جو گفتگو کرتے رہے، وہ قابل مذمت تھی، ہماری جی ڈی اے سے کوئی دشمنی نہیں ہے، پہلے ثبوت پیش کریں، یہ تو بلدیات میں بھی نہیں جیتے تھے، پی ٹی آئی کا ہمیں علم نہیں کیا چاہتے ہیں۔

شرجیل میمن نے کہا کہ ملک کو بچانے کے لیے کوئی اور چوائس نہیں تھی، مولانا فضل الرحمان نے جس ملاقات کا ذکر کیا میں اس میں شامل نہیں تھا، کونسی ملاقات کے بعد مولانا کشمیرکمیٹی کے چیئرمین بنے، مولانا نے مشرف غیر آئینی حکومت میں کیوں ایم ایم اے بنائی، اس ریفرنڈم میں عمران خان بھی شریک تھے۔

رہنما پی پی پی نے کہا کہ یہ پورے ملک کو کہنا چاہتے ہیں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہو جاؤ، ہمیں تما اداروں کو مضبوط تر بنانا ہے، اگر آج اسٹیبلشمنٹ کمزور ہوگی تو سب کا نقصان ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ 9 مئی کو شارع فیصل پر گاڑیاں اور بسیں جلائی گئیں، ملک کے ساتھ زیادتی کی گئی، ماضی میں مسلم لیگ(ن) نے بھی سپریم کورٹ پر حملے کیے، پی ٹی آئی نے بھی 9 مئی کے واقعات کیے۔

منتخب رکن صوبائی اسمبلی کا کہنا تھا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ نے دھاندلی کرنی ہوتی تو علی امین گنڈا پور جیت سکتے تھے، ہم آئینی عہدوں کے لیے مقابلہ کریں گے اور اس کے لیے دیگر جماعتوں کے پاس بھی جائیں گے۔
Load Next Story