مرتضیٰ بھٹو اعلان حق کا فاتح …
یہ بھی ایک اہم قومی سچائی ہے کہ عوام کی جدوجہد سے حاصل ہونے والا پاکستان اپنی تاریخ سے محروم ہے
تاریخ کی زمین کبھی بانجھ یا بنجر نہیں ہوتی،اس کی کوکھ سے تو ہمیشہ نئے نظریاتی، جدید فلسفی اور ایسے رہنما پیدا ہوتے ہی رہتے ہیں جو محکوم لوگوں کی آزادی والے خوابوں کو ''تعبیر آنکھیں'' دینے کے لیے عوامی جدوجہد کے سرخ رنگ گلاب مہکائے رکھتے ہیں۔
پابلونرودا نے اپنی ایک نظم میں ایسے لوگوں کو زندہ شہر قرار دیا ہے اور خوش قسمتی سے ہماری تاریخ میں ایسے بہت سے زندہ شہرآباد ہیں اور ہمارا تاریخی ورثہ ظلم کے خلاف مزاحمت کرنے والے بہت سے بہادروں کی داستانوں سے پرمایہ ہے لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ تاریک راہوں میں مارے جانے والوں کی لاتعداد محیرالعقول کہانیاں ایسی بھی ہیں جو اس خطے کی اصل تاریخ ہیں لیکن بوجوہ انہیں عوام کی نگاہوں سے اوجھل رکھا گیا ہے۔
ایسی ہی ایک کہانی اقتدار اور المیہ کی دہری کیفیت کے شکار بھٹو خاندان کے اس جواں رعنا مرتضیٰ بھٹو کی ہے جس نے اپنے وقت کے ''زیوس'' سے بغاوت کی اور پھر جرأت و انصاف کے نور میں دھلا یہ شخص بڑے دھیمے انداز میں کچھ لوگوں کے دلوں میں گھر کرگیا۔
یہ جلاوطن باغی ہی نہیں ایک انقلابی کا قصہ ہے جو آزادی، جرأت اور عزت کے خواب کا تعاقب کرتے ہوئے اپنے جوان لہو میں ڈوب کر ایسا ابھرا کہ تاریخ میں ایک ایسی صبح کا عنوان بن گیا جو اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے لڑنے کا حوصلہ عطا کرتی ہے ۔
آج مرتضیٰ بھٹو کی 16 ویں برسی کے موقعے پر یہ نوحہ لکھتے ہوئے میرے سامنے بہت سارے سوالات ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کیا کسی غاصب یا آمر کیخلاف مزاحمت کرنا یا صدیوں سے گمنام رہنے والی عوام کے دفاع میں بندوق اٹھانا کوئی جرم ہے ؟
یہ محض مرتضیٰ بھٹو کی بے گناہی کا سوال نہیں ہے بلکہ تمام قوم کی بقا کا راز اس سوال کے جواب میں پنہاں ہے کیونکہ ''فتح یا موت '' کا یہ راستہ اس نے ذاتی شوق کی خاطر اختیار نہیں کیا تھا۔ مرتضیٰ بھٹو نے ایک آمر حکومت کے خلاف مزاحمت کا آئینی و قومی فرض کفایہ ادا کرتے ہوئے جس راستے کا انتخاب کیا وہ قابل بحث ضرور ہے اور اس کے درست یا غلط ہونے پر بھی بڑے طمطراق سے فتویٰ دیا جا سکتا ہے تاہم یہ اور بات ہے کہ فتویٰ دینے والے کتنے ایسے لوگ ہوں گے جنہوں نے خود اپنے لیے کوئی نیا راستہ بنانے کی کوشش کی ہوگی۔
ضیاء آمریت کے خلاف مرتضیٰ بھٹو کی جدوجہد کو نتیجہ خیز قرار نہ بھی دیا جائے تو وہ شاندار ضرور ہے اور جہاں تک بات اس مزاحمت کے درست یا غلط ہونے کی ہے تو یہ فتویٰ دینے والا علم میرے پاس ہرگز بھی نہیں ہے ویسے بھی یہ تاریخ کا کام ہے کہ وہ اس جدوجہد کے بارے میں فیصلہ کرتے ہوئے مرتضیٰ بھٹو کی مزاحمتی تحریک کے درست مقام کا تعین کرے لیکن یہ المیہ بھی ایک اہم قومی سچائی ہے کہ عوام کی جدوجہد سے حاصل ہونے والا پاکستان ہنوز اپنی تاریخ سے محروم ہے۔
بہرحال مرتضیٰ بھٹو کا یہ کمال ہمیں جلد یا بدیر تسلیم کرنا ہوگا کہ وہ اپنے طبقے سے اٹھ کر ہم عوام سے آملنے والوں کی قطار میں سب سے پہلا فرد تھا۔ وہ پسے ہوئے طبقات کے اندر سماکر تبدیلی کا مطالبہ کرنے والا پہلا جاگیردار تھا اور وہ جانتا تھا کہ اگر تم ظالم و جابر فرمانروا کو اس کے تخت سے اتارنا چاہتے ہو تو پہلے اس تخت کو تباہ کرو جو اس منصب حصول کے لیے تم نے اپنے اندر سما رکھا ہے اور وہ اپنے اندر سے اس تخت کو تباہ کرکے ایک ایسا دہقانی سپاہی بن گیا تھا جس کے سینے میں مشین گن کا مورچہ ہمیشہ آباد رہتا ہے۔
حالانکہ بھٹو کے اس بیٹے کو تاریخ سے لگاؤ کی وجہ سے اس حقیقت کا بھی مکمل ادارک تھا کہ برصغیر کی قدیم قومیں آج بھی اپنی تاریخی شخصیتوں کا ذکر بڑے احترام سے کرتی ہیں اور برصغیر کے عوام جنگ و جدل اور مذہبی گروہ بندیوں کی وجہ سے نفسیاتی طور پر شخصیت پرست بن چکے ہیں اور اپنی نجات کا ذریعہ شخصیات کو سمجھتے ہیں لیکن اس کے باوجود اس نے کبھی نہیں چاہا کہ وہ عوام سے اپنی پوجا کروائے۔
مرتضیٰ بھٹو مکمل طور پر ایک سیاسی کارکن کے قالب میں ڈھل چکا تھا اور شاید اسی لیے آج جبکہ وہ ہمارے درمیاں موجود نہیں ہے لیکن اپنے ہاتھوں میں لہو بھرے کپڑے لیے تاریخ کے چوراہے پر مظلوم مزاحمت کی علامت بن کر ارنسٹ ہمینگوے کی نوبل انعام یافتہ کتاب ''The old man and the sea" کے اس فکرے کو سچ ثابت کررہا ہے کہ ''آدمی کو مارا جا سکتا ہے اسے شکست نہیں دی جاسکتی '' اور یقیناً مرتضیٰ بھٹو بھی ماردیا گیا لیکن اسے شکست ابھی ہرگز نہیں ہوئی لیکن کیا یہ بات وہ لوگ بھی جانتے ہیں جو گزشتہ 16 برس سے مرتضیٰ بھٹو کی نعش اور انصاف کے درمیان ایک دربان، شمشیر بکف کوتوال اور پیٹرپین (Peter pen) بن کر کھڑے ہیں۔
آج مرتضیٰ بھٹو کی برسی پر سامنے آنے والے سوالوں میں سب سے اہم سوال ہی انصاف کا ہے کیونکہ آج بدعنوان حکمرانوں کے پیدا کردہ سیاسی، معاشی اور اخلاقی بحرانوں کی وجہ سے عوام کم از کم قابل قبول انصاف کے حصول میں پارلیمنٹ سے مایوسی کے بعد ایک چارہ کار کے طور پر عدلیہ کی طرف دیکھ رہی ہے اور اپنی آخری توقعات عدالت ہائے عالیہ و عظمیٰ سے وابستہ کر بیٹھی ہے کیونکہ یہ چند مورچوں، تعزیرات اور دفعات کی جنگ نہیں بلکہ پاکستان کی بقا کی آخری جنگ ہے۔
یہ مرتضیٰ بھٹو ہی تھا جس نے پاکستان لوٹنے کے بعد بھی یہاں کی کرپٹ سیاسی روایات کا حصہ بننے کے بجائے اپنے سیاسی سفر میں اصولوں کا دامن تھامے رکھا۔
مرتضیٰ بھٹو کی شہادت کے 16 طویل برس گزرنے کے بعد بھی مرتضیٰ قتل کیس کا فیصلہ نہ ہونے کے بعد یہ بات بڑی شدت سے سامنے آئی ہے اور یہ توقع آج کا پاکستان عوام سے وابستہ کرچکا ہے۔
خدا ہمارے عوام کو سچائی کے مورچوں پرکھڑا ہونے اور صرف دفاعی نہیں بلکہ فیصلہ کن فتح کے لیے ایک جارحانہ جنگ لڑنے کی توفیق دے اور چونکہ یہ چند مورچوں یا دفعات کی جنگ نہیں ہے اس لیے عوام، عدلیہ کو حکومتی دہشت گردی انسان دشمن اور وطن دشمن نظام کے خلاف مدد کو پکار رہے ہیں۔ خدا کرے کہ ان چھوٹی چھوٹی لفظی بغاوتوں سے ایوان عدل کے سبھی درکھل جائیں۔ کاش کہ پاکستان کے غریب عوام آزادی جمہوریت ، مساوات اور اعلان حق کے ہر میدان میں فاتح رہیں۔
(سولہویں برسی کے موقعے پر خصوصی مضمون)
پابلونرودا نے اپنی ایک نظم میں ایسے لوگوں کو زندہ شہر قرار دیا ہے اور خوش قسمتی سے ہماری تاریخ میں ایسے بہت سے زندہ شہرآباد ہیں اور ہمارا تاریخی ورثہ ظلم کے خلاف مزاحمت کرنے والے بہت سے بہادروں کی داستانوں سے پرمایہ ہے لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ تاریک راہوں میں مارے جانے والوں کی لاتعداد محیرالعقول کہانیاں ایسی بھی ہیں جو اس خطے کی اصل تاریخ ہیں لیکن بوجوہ انہیں عوام کی نگاہوں سے اوجھل رکھا گیا ہے۔
ایسی ہی ایک کہانی اقتدار اور المیہ کی دہری کیفیت کے شکار بھٹو خاندان کے اس جواں رعنا مرتضیٰ بھٹو کی ہے جس نے اپنے وقت کے ''زیوس'' سے بغاوت کی اور پھر جرأت و انصاف کے نور میں دھلا یہ شخص بڑے دھیمے انداز میں کچھ لوگوں کے دلوں میں گھر کرگیا۔
یہ جلاوطن باغی ہی نہیں ایک انقلابی کا قصہ ہے جو آزادی، جرأت اور عزت کے خواب کا تعاقب کرتے ہوئے اپنے جوان لہو میں ڈوب کر ایسا ابھرا کہ تاریخ میں ایک ایسی صبح کا عنوان بن گیا جو اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے لڑنے کا حوصلہ عطا کرتی ہے ۔
آج مرتضیٰ بھٹو کی 16 ویں برسی کے موقعے پر یہ نوحہ لکھتے ہوئے میرے سامنے بہت سارے سوالات ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کیا کسی غاصب یا آمر کیخلاف مزاحمت کرنا یا صدیوں سے گمنام رہنے والی عوام کے دفاع میں بندوق اٹھانا کوئی جرم ہے ؟
یہ محض مرتضیٰ بھٹو کی بے گناہی کا سوال نہیں ہے بلکہ تمام قوم کی بقا کا راز اس سوال کے جواب میں پنہاں ہے کیونکہ ''فتح یا موت '' کا یہ راستہ اس نے ذاتی شوق کی خاطر اختیار نہیں کیا تھا۔ مرتضیٰ بھٹو نے ایک آمر حکومت کے خلاف مزاحمت کا آئینی و قومی فرض کفایہ ادا کرتے ہوئے جس راستے کا انتخاب کیا وہ قابل بحث ضرور ہے اور اس کے درست یا غلط ہونے پر بھی بڑے طمطراق سے فتویٰ دیا جا سکتا ہے تاہم یہ اور بات ہے کہ فتویٰ دینے والے کتنے ایسے لوگ ہوں گے جنہوں نے خود اپنے لیے کوئی نیا راستہ بنانے کی کوشش کی ہوگی۔
ضیاء آمریت کے خلاف مرتضیٰ بھٹو کی جدوجہد کو نتیجہ خیز قرار نہ بھی دیا جائے تو وہ شاندار ضرور ہے اور جہاں تک بات اس مزاحمت کے درست یا غلط ہونے کی ہے تو یہ فتویٰ دینے والا علم میرے پاس ہرگز بھی نہیں ہے ویسے بھی یہ تاریخ کا کام ہے کہ وہ اس جدوجہد کے بارے میں فیصلہ کرتے ہوئے مرتضیٰ بھٹو کی مزاحمتی تحریک کے درست مقام کا تعین کرے لیکن یہ المیہ بھی ایک اہم قومی سچائی ہے کہ عوام کی جدوجہد سے حاصل ہونے والا پاکستان ہنوز اپنی تاریخ سے محروم ہے۔
بہرحال مرتضیٰ بھٹو کا یہ کمال ہمیں جلد یا بدیر تسلیم کرنا ہوگا کہ وہ اپنے طبقے سے اٹھ کر ہم عوام سے آملنے والوں کی قطار میں سب سے پہلا فرد تھا۔ وہ پسے ہوئے طبقات کے اندر سماکر تبدیلی کا مطالبہ کرنے والا پہلا جاگیردار تھا اور وہ جانتا تھا کہ اگر تم ظالم و جابر فرمانروا کو اس کے تخت سے اتارنا چاہتے ہو تو پہلے اس تخت کو تباہ کرو جو اس منصب حصول کے لیے تم نے اپنے اندر سما رکھا ہے اور وہ اپنے اندر سے اس تخت کو تباہ کرکے ایک ایسا دہقانی سپاہی بن گیا تھا جس کے سینے میں مشین گن کا مورچہ ہمیشہ آباد رہتا ہے۔
حالانکہ بھٹو کے اس بیٹے کو تاریخ سے لگاؤ کی وجہ سے اس حقیقت کا بھی مکمل ادارک تھا کہ برصغیر کی قدیم قومیں آج بھی اپنی تاریخی شخصیتوں کا ذکر بڑے احترام سے کرتی ہیں اور برصغیر کے عوام جنگ و جدل اور مذہبی گروہ بندیوں کی وجہ سے نفسیاتی طور پر شخصیت پرست بن چکے ہیں اور اپنی نجات کا ذریعہ شخصیات کو سمجھتے ہیں لیکن اس کے باوجود اس نے کبھی نہیں چاہا کہ وہ عوام سے اپنی پوجا کروائے۔
مرتضیٰ بھٹو مکمل طور پر ایک سیاسی کارکن کے قالب میں ڈھل چکا تھا اور شاید اسی لیے آج جبکہ وہ ہمارے درمیاں موجود نہیں ہے لیکن اپنے ہاتھوں میں لہو بھرے کپڑے لیے تاریخ کے چوراہے پر مظلوم مزاحمت کی علامت بن کر ارنسٹ ہمینگوے کی نوبل انعام یافتہ کتاب ''The old man and the sea" کے اس فکرے کو سچ ثابت کررہا ہے کہ ''آدمی کو مارا جا سکتا ہے اسے شکست نہیں دی جاسکتی '' اور یقیناً مرتضیٰ بھٹو بھی ماردیا گیا لیکن اسے شکست ابھی ہرگز نہیں ہوئی لیکن کیا یہ بات وہ لوگ بھی جانتے ہیں جو گزشتہ 16 برس سے مرتضیٰ بھٹو کی نعش اور انصاف کے درمیان ایک دربان، شمشیر بکف کوتوال اور پیٹرپین (Peter pen) بن کر کھڑے ہیں۔
آج مرتضیٰ بھٹو کی برسی پر سامنے آنے والے سوالوں میں سب سے اہم سوال ہی انصاف کا ہے کیونکہ آج بدعنوان حکمرانوں کے پیدا کردہ سیاسی، معاشی اور اخلاقی بحرانوں کی وجہ سے عوام کم از کم قابل قبول انصاف کے حصول میں پارلیمنٹ سے مایوسی کے بعد ایک چارہ کار کے طور پر عدلیہ کی طرف دیکھ رہی ہے اور اپنی آخری توقعات عدالت ہائے عالیہ و عظمیٰ سے وابستہ کر بیٹھی ہے کیونکہ یہ چند مورچوں، تعزیرات اور دفعات کی جنگ نہیں بلکہ پاکستان کی بقا کی آخری جنگ ہے۔
یہ مرتضیٰ بھٹو ہی تھا جس نے پاکستان لوٹنے کے بعد بھی یہاں کی کرپٹ سیاسی روایات کا حصہ بننے کے بجائے اپنے سیاسی سفر میں اصولوں کا دامن تھامے رکھا۔
مرتضیٰ بھٹو کی شہادت کے 16 طویل برس گزرنے کے بعد بھی مرتضیٰ قتل کیس کا فیصلہ نہ ہونے کے بعد یہ بات بڑی شدت سے سامنے آئی ہے اور یہ توقع آج کا پاکستان عوام سے وابستہ کرچکا ہے۔
خدا ہمارے عوام کو سچائی کے مورچوں پرکھڑا ہونے اور صرف دفاعی نہیں بلکہ فیصلہ کن فتح کے لیے ایک جارحانہ جنگ لڑنے کی توفیق دے اور چونکہ یہ چند مورچوں یا دفعات کی جنگ نہیں ہے اس لیے عوام، عدلیہ کو حکومتی دہشت گردی انسان دشمن اور وطن دشمن نظام کے خلاف مدد کو پکار رہے ہیں۔ خدا کرے کہ ان چھوٹی چھوٹی لفظی بغاوتوں سے ایوان عدل کے سبھی درکھل جائیں۔ کاش کہ پاکستان کے غریب عوام آزادی جمہوریت ، مساوات اور اعلان حق کے ہر میدان میں فاتح رہیں۔
(سولہویں برسی کے موقعے پر خصوصی مضمون)