کراچی کے سیاسی حقوق کی بحالی
اس بار انتخابات میں دھاندلی سے زیادہ نتائج میں رد و بدل کے الزامات سامنے آ رہے ہیں
کراچی کے انتخابی نتائج کے مطابق ایم کیو ایم (پاکستان) قومی اسمبلی کی 15 نشستوں کے ساتھ شہر کی اکثریتی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے، اور باقی سات نشستیں پیپلز پارٹی کے حصے میں آئی ہیں، جب کہ تحریک انصاف کے آزاد امیدواروں اور جماعت اسلامی کو یہاں قومی اسمبلی میں ایک نشست بھی نہیں مل سکی، جس کے بعد ایک بار پھر انتخابی نتائج کے خلاف احتجاج کیا جا رہا ہے۔
پہلے مخالف جماعتیں دھاندلی کے الزام لگاتی تھیں، لیکن اس بار انتخابات میں دھاندلی سے زیادہ نتائج میں رد و بدل کے الزامات سامنے آ رہے ہیں۔ کراچی کا مینڈیٹ 2015کے بلدیاتی انتخابات تک غیر منقسم متحدہ قومی موومنٹ کے پاس رہا ہے، جسے حریف جماعتیں دھاندلی کا نتیجہ قرار دیتی تھیں، لیکن نگرانی کے باوجود بھی بدستور انتخابی نتائج ویسے ہی سامنے آتے تھے۔
ایم کیو ایم کے اندرونی انتشار کے بعد کراچی میں اس کے مختلف دھڑے سامنے آئے، جنھیں گزشتہ سال یکجا کیا گیا، جس کے بعد صرف بانی ایم کیو ایم کا گروہ المعروف ایم کیو ایم (لندن) ان سے الگ رہ گیا تھا، اور اس بار 2018 کے بائیکاٹ کے برعکس ایم کیو ایم (لندن) نے بھی 80 سے زائد نشستوں پر اپنے آزاد امیدوارکھڑے کیے تھے، جن کے انتخابی نشان بھی مختلف تھے، تاہم سامنے آنے والے انتخابی نتائج کے مطابق قومی اسمبلی کی نشست پر زیادہ تر چار ہزار اور صوبائی نشست پر دو ہزار ووٹ ملے۔
دوسری طرف کراچی میں انتخابی نتائج کے بعد ایم کیو ایم (پاکستان) کی جانب سے سابقہ مرکز 'نائن زیرو' کے قریب واقع جناح گرائونڈ میں فتح کا جشن منایا گیا۔ 'بانی متحدہ' سے علیحدگی کے آٹھ سال میں یہ پہلا موقع تھا کہ یہاں کوئی پروگرام کیا گیا۔ دوسری طرف جماعت اسلامی الیکشن کمیشن کے باہر سراپا احتجاج رہی۔
حافظ نعیم الرحمن نے کراچی کے انتخابی نتائج کو کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کیا اور یہ دعویٰ کیا کہ ان کے پاس فارم 45 کے مطابق ایم کیو ایم (پاکستان) کو قومی اسمبلی کے کسی حلقے سے دس اور صوبائی سے پانچ ہزار ووٹ بھی نہیں ملے۔ اس کے ساتھ وہ اپنی صوبائی اسمبلی کی نشست سے بھی یہ کہہ کر دستبردار ہوگئے کہ یہاں سے تحریک انصاف کا آزاد امیدوار جیتا ہے۔ یہاں ہمارے ذہن میں یہ سوال بھی آتا ہے کہ کیا عام انتخابات میں ایسی 'گڑ بڑ' بھی کی گئی ہے کہ جس میں حافظ نعیم کو بھی فتح یاب دکھا دیا گیا؟
اگر ایسا ہے تو پھر اس پر سوچنا چاہیے کہ ان کے ساتھ ایسا کیوں کیا گیا؟ایم کیو ایم (پاکستان) کے حق میں انتخابی نتائج کے بعد شہر کے کچھ حلقوں کی جانب سے ایک اور عجیب وغریب رویہ بھی دیکھا گیا کہ انھوں نے صرف اس بنیاد پر ان کی حمایت شروع کر دی کہ ' چلیے اس بار 'مقامی' یا 'مہاجر' نمایندے آگے آئے ہیں۔
کیوں کہ اس سے قبل 2018 میں اور آٹھ فروری 2024 کے انتخابات میں بھی اس شہر کے لوگ بڑی تعداد میں یہ شکایت کر رہے تھے کہ 'تحریک انصاف' نے کراچی سے جن امیدواروں کا اعلان کیا، ان میں سے بہت بڑی تعداد کا تعلق اس شہر سے نہیں، 2018 کے انتخابی نتائج کے مطابق تحریک انصاف کے بیش تر امیدوارکامیاب ٹھہرے تھے، لیکن اس بار ایسا نہیں ہوا اور اس طرح گزشتہ انتخابات کے نتائج کی طرح اس بار بھی سوالات کیے جا رہے ہیں۔
یہاں قابل ذکر امر یہ ہے کہ شہرکا درد رکھنے والے وہ احباب جو اس انتخابی نتائج کو صرف ' اپنے' امیدوار کی بنیاد پر اچھا کہہ رہے ہیں، وہ اس حقیقت سے منہ کیوں موڑ رہے ہیں کہ یہ مسئلہ مہاجر اور غیر مہاجر کا ہرگز نہیں، بلکہ اصل سوال اس شہر میں انتخابی اور سیاسی آزادی کا ہے۔
پاکستان کے آئین اور قانون پر یقین رکھنے والے ہر شخص اور سیاسی جماعت کو انتخابات لڑنے اور سیاسی و جمہوری جدوجہد کرنے کا مکمل حق حاصل ہے، لیکن کراچی شہر گزشتہ کئی برسوں سے مسلسل سیاسی گھٹن کا شکار ہے ، شہر میں سیاسی کانفرنسیں اور ادبی میلوں میں دنیا جہاں کی سیاسی آزادی کی بات ہوتی ہے، لیکن اس شہرکے جمہوری اور سیاسی حقوق پر کبھی لب کشائی نہیں ہوتی۔
صرف یہی نہیں اس شہر کے اپنے لکھنے والے بھی اس پر مصلحتوں کا شکار ہیں اور یہ مطالبہ نہیں کر رہے کہ اس شہر میں تمام سیاسی جماعتوں کو آئین اور قانون کے تحت برابر سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دی جائے اور امن و امان خراب کرنے والی ساری قوتوں سے انصاف کے ساتھ نمٹا جائے۔ دستور پاکستان کی عمل داری اور شہریوں کے بنیادی سیاسی حقوق کی پاس داری کی جائے۔
یہی وہ راستے ہیں جو جمہوریت کی طرف جاتے ہیں، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ دانشور اور شہر قائد کا درد رکھنے والے تو اس پر اپنا کوئی کردار ادا کرنے سے گریزاں ہیں ہی، ساتھ ہی ہمارے شہر کے بہت سے سیاسی رہنما بھی اتنے بالغ نظر نہیں کہ کھلے دل سے اپنے سارے حریف اور مخالفوں کے بنیادی سیاسی حقوق کے لیے بات کرسکیں۔ وہ آج اپنے حق میں انتخابی نتائج نہ ملنے پر شعلہ بیانی کے مظاہرے کرتے ہوئے متنبہ تو کر رہے ہیں کہ مبینہ طور پر انتخابی نتائج کی تبدیلی سے نوجوانوں کا انتخابی عمل سے اعتبار اٹھ رہا ہے، کہیں ہمارے نوجوان مایوس ہو کر کوئی غلط راہ اختیار نہ کرنے لگیں۔۔۔!
لیکن اس شہر کی سیاسی آزادی اور حقیقی جمہوری فضا کی خاطر ایسے بلند آہنگ لہجے اختیار نہیں کیے گئے۔ کھیل بھی تو وہی کھیلنے میں لطف آتا ہے، جس میں ضابطوں کی پابندی ہو۔ پھر وہی ہار، ہار ہوتی ہے اور وہی جیت پھر جیت کا مزہ دیتی ہے، لیکن یہ انتخابات توکوئی کھیل کود نہیں کہ شرکاء غیر مطمئن ہوئے اور بات ختم، یہ تو لوگوں کی نمایندگی طے کرنے کا عمل ہے۔
انتخابات میں شفافیت اور اعتباریت کے بغیر تو یہ مشق سوائے اخراجات کے اور کسی کام کی نہیں۔ عام انتخابات میں اگر لوگوں کو آزادی سے انتخابات لڑنے اور اس میں اپنی رائے دینے کا مساوی اور جمہوری حق نہ ملا تو یہ اس ملک کی جمہوریت اور اس ملک کے مستقبل کے لیے کس قدر خوفناک ہوگا، اس کا شاید ہم اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔
پہلے مخالف جماعتیں دھاندلی کے الزام لگاتی تھیں، لیکن اس بار انتخابات میں دھاندلی سے زیادہ نتائج میں رد و بدل کے الزامات سامنے آ رہے ہیں۔ کراچی کا مینڈیٹ 2015کے بلدیاتی انتخابات تک غیر منقسم متحدہ قومی موومنٹ کے پاس رہا ہے، جسے حریف جماعتیں دھاندلی کا نتیجہ قرار دیتی تھیں، لیکن نگرانی کے باوجود بھی بدستور انتخابی نتائج ویسے ہی سامنے آتے تھے۔
ایم کیو ایم کے اندرونی انتشار کے بعد کراچی میں اس کے مختلف دھڑے سامنے آئے، جنھیں گزشتہ سال یکجا کیا گیا، جس کے بعد صرف بانی ایم کیو ایم کا گروہ المعروف ایم کیو ایم (لندن) ان سے الگ رہ گیا تھا، اور اس بار 2018 کے بائیکاٹ کے برعکس ایم کیو ایم (لندن) نے بھی 80 سے زائد نشستوں پر اپنے آزاد امیدوارکھڑے کیے تھے، جن کے انتخابی نشان بھی مختلف تھے، تاہم سامنے آنے والے انتخابی نتائج کے مطابق قومی اسمبلی کی نشست پر زیادہ تر چار ہزار اور صوبائی نشست پر دو ہزار ووٹ ملے۔
دوسری طرف کراچی میں انتخابی نتائج کے بعد ایم کیو ایم (پاکستان) کی جانب سے سابقہ مرکز 'نائن زیرو' کے قریب واقع جناح گرائونڈ میں فتح کا جشن منایا گیا۔ 'بانی متحدہ' سے علیحدگی کے آٹھ سال میں یہ پہلا موقع تھا کہ یہاں کوئی پروگرام کیا گیا۔ دوسری طرف جماعت اسلامی الیکشن کمیشن کے باہر سراپا احتجاج رہی۔
حافظ نعیم الرحمن نے کراچی کے انتخابی نتائج کو کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کیا اور یہ دعویٰ کیا کہ ان کے پاس فارم 45 کے مطابق ایم کیو ایم (پاکستان) کو قومی اسمبلی کے کسی حلقے سے دس اور صوبائی سے پانچ ہزار ووٹ بھی نہیں ملے۔ اس کے ساتھ وہ اپنی صوبائی اسمبلی کی نشست سے بھی یہ کہہ کر دستبردار ہوگئے کہ یہاں سے تحریک انصاف کا آزاد امیدوار جیتا ہے۔ یہاں ہمارے ذہن میں یہ سوال بھی آتا ہے کہ کیا عام انتخابات میں ایسی 'گڑ بڑ' بھی کی گئی ہے کہ جس میں حافظ نعیم کو بھی فتح یاب دکھا دیا گیا؟
اگر ایسا ہے تو پھر اس پر سوچنا چاہیے کہ ان کے ساتھ ایسا کیوں کیا گیا؟ایم کیو ایم (پاکستان) کے حق میں انتخابی نتائج کے بعد شہر کے کچھ حلقوں کی جانب سے ایک اور عجیب وغریب رویہ بھی دیکھا گیا کہ انھوں نے صرف اس بنیاد پر ان کی حمایت شروع کر دی کہ ' چلیے اس بار 'مقامی' یا 'مہاجر' نمایندے آگے آئے ہیں۔
کیوں کہ اس سے قبل 2018 میں اور آٹھ فروری 2024 کے انتخابات میں بھی اس شہر کے لوگ بڑی تعداد میں یہ شکایت کر رہے تھے کہ 'تحریک انصاف' نے کراچی سے جن امیدواروں کا اعلان کیا، ان میں سے بہت بڑی تعداد کا تعلق اس شہر سے نہیں، 2018 کے انتخابی نتائج کے مطابق تحریک انصاف کے بیش تر امیدوارکامیاب ٹھہرے تھے، لیکن اس بار ایسا نہیں ہوا اور اس طرح گزشتہ انتخابات کے نتائج کی طرح اس بار بھی سوالات کیے جا رہے ہیں۔
یہاں قابل ذکر امر یہ ہے کہ شہرکا درد رکھنے والے وہ احباب جو اس انتخابی نتائج کو صرف ' اپنے' امیدوار کی بنیاد پر اچھا کہہ رہے ہیں، وہ اس حقیقت سے منہ کیوں موڑ رہے ہیں کہ یہ مسئلہ مہاجر اور غیر مہاجر کا ہرگز نہیں، بلکہ اصل سوال اس شہر میں انتخابی اور سیاسی آزادی کا ہے۔
پاکستان کے آئین اور قانون پر یقین رکھنے والے ہر شخص اور سیاسی جماعت کو انتخابات لڑنے اور سیاسی و جمہوری جدوجہد کرنے کا مکمل حق حاصل ہے، لیکن کراچی شہر گزشتہ کئی برسوں سے مسلسل سیاسی گھٹن کا شکار ہے ، شہر میں سیاسی کانفرنسیں اور ادبی میلوں میں دنیا جہاں کی سیاسی آزادی کی بات ہوتی ہے، لیکن اس شہرکے جمہوری اور سیاسی حقوق پر کبھی لب کشائی نہیں ہوتی۔
صرف یہی نہیں اس شہر کے اپنے لکھنے والے بھی اس پر مصلحتوں کا شکار ہیں اور یہ مطالبہ نہیں کر رہے کہ اس شہر میں تمام سیاسی جماعتوں کو آئین اور قانون کے تحت برابر سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دی جائے اور امن و امان خراب کرنے والی ساری قوتوں سے انصاف کے ساتھ نمٹا جائے۔ دستور پاکستان کی عمل داری اور شہریوں کے بنیادی سیاسی حقوق کی پاس داری کی جائے۔
یہی وہ راستے ہیں جو جمہوریت کی طرف جاتے ہیں، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ دانشور اور شہر قائد کا درد رکھنے والے تو اس پر اپنا کوئی کردار ادا کرنے سے گریزاں ہیں ہی، ساتھ ہی ہمارے شہر کے بہت سے سیاسی رہنما بھی اتنے بالغ نظر نہیں کہ کھلے دل سے اپنے سارے حریف اور مخالفوں کے بنیادی سیاسی حقوق کے لیے بات کرسکیں۔ وہ آج اپنے حق میں انتخابی نتائج نہ ملنے پر شعلہ بیانی کے مظاہرے کرتے ہوئے متنبہ تو کر رہے ہیں کہ مبینہ طور پر انتخابی نتائج کی تبدیلی سے نوجوانوں کا انتخابی عمل سے اعتبار اٹھ رہا ہے، کہیں ہمارے نوجوان مایوس ہو کر کوئی غلط راہ اختیار نہ کرنے لگیں۔۔۔!
لیکن اس شہر کی سیاسی آزادی اور حقیقی جمہوری فضا کی خاطر ایسے بلند آہنگ لہجے اختیار نہیں کیے گئے۔ کھیل بھی تو وہی کھیلنے میں لطف آتا ہے، جس میں ضابطوں کی پابندی ہو۔ پھر وہی ہار، ہار ہوتی ہے اور وہی جیت پھر جیت کا مزہ دیتی ہے، لیکن یہ انتخابات توکوئی کھیل کود نہیں کہ شرکاء غیر مطمئن ہوئے اور بات ختم، یہ تو لوگوں کی نمایندگی طے کرنے کا عمل ہے۔
انتخابات میں شفافیت اور اعتباریت کے بغیر تو یہ مشق سوائے اخراجات کے اور کسی کام کی نہیں۔ عام انتخابات میں اگر لوگوں کو آزادی سے انتخابات لڑنے اور اس میں اپنی رائے دینے کا مساوی اور جمہوری حق نہ ملا تو یہ اس ملک کی جمہوریت اور اس ملک کے مستقبل کے لیے کس قدر خوفناک ہوگا، اس کا شاید ہم اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔