رانا چندر سنگھ اور ڈاکٹر سویرا پرکاش
تمام غیر مسلم پاکستانی برادریوں کا تحفظ اکثریتی مذہبی برادری کا فرض ہے جسے نبھانے میں ہم آج تک کامیاب نہیں ہوسکے ہیں
عام انتخابات کے نتائج پر پورے ملک میں ایک مباحثہ جاری ہے۔ جس کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ شاید ہی کوئی ایسی جماعت ہو جو اپنے تحفظات کا اظہار نہ کررہی ہو۔
غور طلب بات یہ ہے کہ ہر جماعت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ اس کی جیتی ہوئی نشستوں پر دھاندلی نہیں ہوئی جب کہ جن حلقوں سے اسے کامیابی نہیں ملی ہے وہاں دھاندلی کی گئی ہے۔ دوسرے الفاظ میں کہہ لیں کہ سب کو سب سے شکایت ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس بحث کا بھی خاتمہ ہوجائے گا اور نیا سیاسی بندوبست اپنا کام شروع کردے گا۔
ایک مستحکم جمہوری نظام میں عموماً انتخابی نتائج کا تجزیہ کرکے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ معاشرے کے کن طبقات نے اپنا حق رائے دہی کتنے موثر انداز میں استعمال کیا۔ خواتین کے حوالے سے نتائج کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ قومی اسمبلی کے گیارہ حلقوں سے خواتین امیدواروں نے کامیابی حاصل کی ہے۔ براہ راست کامیاب ہونے والی خواتین کا تعلق پنجاب، کے پی کے اور سندھ سے ہے۔ قومی اسمبلی کی جنرل نشستوں کے لیے مختلف سیاسی جماعتوں نے 280 خواتین کو ٹکٹ جاری کیے تھے۔
نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ خواتین امیدواروں کے لیے اب بھی عام انتخابات میں براہ راست حصہ لے کر کامیاب ہونا بہت مشکل ہے۔ زیادہ دکھ اس بات کا بھی ہوتا ہے کوئی غیر مسلم خاتون امیدوار براہ راست طور پر منتخب ہوکر قومی اسمبلی میں نہیں پہنچ سکی، لیکن یہ جان کر بڑی خوشی ہوئی کہ خیبرپختونخوا کی ایک صوبائی نشست پر 25 سالہ سویرا پرکاش نے پی کے 25 بونیر سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر انتخاب میں حصہ لیا۔
وہ انتخابی معرکے میں کامیاب نہ ہوسکیں لیکن قومی اور عالمی سطح پر توجہ کا مرکز بن گئیں اور دنیا میں پاکستان کا ایک خوش گوار چہرہ اجاگر ہوا۔ ہندو برادری سے تعلق رکھنے والی سویرا پرکاش پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں۔ انھوں نے ایبٹ آباد میڈیکل کالج سے طب کی ڈگری حاصل کی ہے۔ ہر خاتون سیاسی کارکن کی طرح ڈاکٹر سویرا بھی مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹو شہید سے بے حد متاثر ہیں۔ انھوں نے بھرپورانداز سے اپنی انتخابی مہم چلائی اورگھر گھرجاکر لوگوں سے ووٹ مانگے۔
بونیر ایک پسماندہ پہاڑی علاقہ ہے۔ جہاں کے عوام صحت اور تعلیم کی سہولتوں سے محروم ہیں۔ امید ہے کہ ناکام ہونے کے بعد بھی سویرا پرکاش اپنے علاقے کی عوام کے بلاتفریق خدمت کریں گی۔ ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والی اس نوجوان لڑکی کے بارے میں جان کر مجھے تھر پارکر کے رانا چندر سنگھ بے ساختہ یاد آگئے جو آج اس دنیا میں موجود نہیں۔ ان سے متعلق چند حقائق ایسے ہیں جن کے بارے میں جاننا ہم سب کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
بادشاہ ہمایوں کو پناہ دینے والے رانا پرشاد سنگھ کی نسل کے 25 ویں رانا ' رانا چندر سنگھ تھے ۔ رانا چندر سنگھ کے پتا رانا ارجن سنگھ تحریک پاکستان کے زمانے میں مسلم لیگ میں شامل ہوئے۔ وہ تھر کے ایک ایسے علاقے کے سردار تھے جہاں رہنے والوں میں 75 فیصد ہندو تھے لیکن انھوں نے مسلم لیگ کی بھرپور مہم چلائی۔ ان کے نصیب میں اپنی اس جدوجہد کا پھل دیکھنا نہ لکھا تھا۔ وہ 1946میں سورگ باشی ہوئے اور 16 برس کی عمر میں رانا چندر سنگھ کے سر پر اپنے قبیلے اور علاقے کی سرداری کا صافہ بندھا۔
راناچندر سنگھ کی تعلیم ہندوستانی اشرافیہ کے تعلیمی ادارے دہرہ دون میں ہوئی۔ ان کی خوش دامن کانگریس کی سیاست سے وابستہ تھیں اور وہ راجستھانی زبان کی ایک مشہور لکھنے والی تھیں۔رانا چندر سنگھ 1956 میں پہلی مرتبہ سندھ کی صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور سندھ کے پہلے ہندو تھے جو وزیر ہوئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تو رانا چندر سنگھ پیپلز پارٹی کے بنیادی اراکین میں سے تھے۔ انھوںنے قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا' جیت کر وفاقی وزیر ہوئے اور ایسا صرف ایک مرتبہ نہیں بارہا ہوا۔
اپنی سیاسی زندگی میں رانا چندرسنگھ 9 مرتبہ انتخابات میں کھڑے ہوئے اور ہر مرتبہ جیت ان کا مقدر ہوئی۔ بھٹو صاحب کی پھانسی ان کے لیے ذاتی سانحہ تھی۔ جنرل ضیاء الحق نے ان کی طرف دوستی ہاتھ بڑھانا چاہا تو رانا صاحب نے اس ہاتھ کو تھامنا تو دور کی بات ہے اس کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔
جنرل ضیاء کے مارشل لاء کا دو رتھا جب امر کوٹ میں ایک فوجی گاڑی نے راہ چلتے لڑکے کو ٹکر ماری اور وہ بچہ جان سے گزر گیا۔ فوجی گاڑی فرار ہوگئی۔ رانا چندر سنگھ کو اس بات کی خبر ہوئی تو وہ اس فوجی گاڑی کے تعاقب میں نکلے اور آخر کار اسے جالیا۔ اس کے بعد کی کہانی رہنے دیجیے۔
بے نظیر بھٹو جلاوطنی کا دور گزار کر واپس آئیں۔ رانا چندر سنگھ کو 1988 میں پارٹی کا ٹکٹ ملا۔ وہ جیت کر ایک بار پھر قومی اسمبلی میں پہنچے لیکن بے نظیر اور ان کے درمیان وہ رشتہ قائم نہ رہ سکا جس کی رانا توقع کررہے تھے۔
1971کی پاک ہند جنگ کے بعد تھر کے بہت سے ہندو خاندانوں کے ہندوستان چلے جانے سے ناخوش بھٹو صاحب کی ہدایت پر راجستھان جاکر اور انھیں مناکر واپس لانے والے' بھٹو صاحب کی پھانسی کا سوگ منانے والے رانا چندر سنگھ نے1990 کی ابتداء میں پیپلزپارٹی چھوڑ دی اور ''پاکستان ہندو پارٹی'' بنائی۔ جس کے جھنڈے کا رنگ زعفرانی تھا جس پر اوم اور ترشول کے نشان بنے ہوئے تھے۔ اور سندھی اور اردو میں پارٹی کا نام لکھا ہوا تھا۔
1993 میں وہ اپنی پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی نشست کے لیے کھڑے ہوئے' کامیاب ہوئے تو میاں نوازشریف نے انھیں وفاقی وزیر بنایا۔پاکستان کی سیاست کے یک رنگ منظر نامے پر راجا چندر سنگھ ایک شاندار اور مختلف شخص کے طور پر دکھائی دیتے تھے ان کا جودھ پوری کوٹ ، گھومی ہوئی گھنی مونچھیں ،سرپر رنگین لہریے کا شاندار صافہ اور شاہانہ چال سب کا دل موہ لیتی تھی۔
رانا چندر سنگھ سیاست دانوںکی اس نسل سے تعلق رکھتے تھے جن کے لیے سیاست عبادت تھی جو اس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ جان جائے پر وچن نہ جائے۔ وہ راجپوت آن بان کے ساتھ زندہ رہے اور ان ہی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے ختم ہوئے۔ وہ کراچی کے ایک اسپتال میں ختم ہوئے تو پاکستان کے بڑے بڑے سیاسی لیڈروں نے ان کی موت پر تعزیت کے پیغام بھیجے۔ قومی اسمبلی میں بھی ان کے لیے دو منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔
''رانا جاگیر'' سے سورگ باشی رانا کی ارتھی اس شان سے اٹھی کہ آگے آگے سنکھ پھونکا جارہا تھا، تاشے اور باجے بج رہے تھے۔ موت کے بعد بھی کسی راجپوت سردار کا سر جھک نہیں سکتا۔ اسی لیے رانا چندر سنگھ ایک کرسی پر بٹھائے گئے تھے ۔ کرسی پر گلابی رنگ کی ریشمی چادر سے ان پر سایہ کیا گیا تھااور کرسی کو خاندان کے نوجوان اٹھائے ہوئے تھے۔
ان کے سرپر زعفرانی صافہ تھا، گلے میں زیورات اور پھولوں کے ہار اور بدن پر ریشمی لباس۔ ان کی ارتھی دس کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے عمر کوٹ آئی تو راستے بھر لوگوں کا گلیوں میں' عورتوں اور بچوں کا چھتوں پر ہجوم تھا اوروہ اپنے رانا کو آخری بار اپنی آنکھوں میںرکھ لینا چاہتے تھے۔
یکم اگست 2009کو رانا چندر سنگھ رخصت ہوئے تو اس دکھ کے ساتھ کہ پاکستان میں ہندوئوں اور دوسری اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری بنادیا گیا ہے۔ اپنے آخری دنوں میںانٹرویو دیتے ہوئے شکستہ دل رانا چندر سنگھ نے ٹوٹے ہوئے لہجے میں کہا کہ ''میں اب اس عمر میں یہ محسوس کرتاہوں کہ بٹوارے کے وقت ہندوستان نہ جاکر اور اپنے لوگوں کوجانے سے روک کر میں نے غلطی کی۔ پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی جس طرح بڑھ رہی ہے۔ میری کمیونٹی کے لوگ کس طرح اس کا سامنا کریں گے؟''
تمام غیر مسلم پاکستانی برادریوں کا تحفظ اکثریتی مذہبی برادری کا فرض ہے جسے نبھانے میں ہم آج تک کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ کاش رانا چندر سنگھ دکھی دل لیے ہم سے رخصت نہ ہوئے ہوتے ۔ ہمیں یقینی بنانا ہوگا کہ رانا چندر سنگھ جو دکھ لیے دنیا سے گئے وہ دکھ ڈاکٹر سویرا پرکاش اور اس کی برادری کو نہ دیکھنا پڑے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ ہر جماعت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ اس کی جیتی ہوئی نشستوں پر دھاندلی نہیں ہوئی جب کہ جن حلقوں سے اسے کامیابی نہیں ملی ہے وہاں دھاندلی کی گئی ہے۔ دوسرے الفاظ میں کہہ لیں کہ سب کو سب سے شکایت ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس بحث کا بھی خاتمہ ہوجائے گا اور نیا سیاسی بندوبست اپنا کام شروع کردے گا۔
ایک مستحکم جمہوری نظام میں عموماً انتخابی نتائج کا تجزیہ کرکے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ معاشرے کے کن طبقات نے اپنا حق رائے دہی کتنے موثر انداز میں استعمال کیا۔ خواتین کے حوالے سے نتائج کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ قومی اسمبلی کے گیارہ حلقوں سے خواتین امیدواروں نے کامیابی حاصل کی ہے۔ براہ راست کامیاب ہونے والی خواتین کا تعلق پنجاب، کے پی کے اور سندھ سے ہے۔ قومی اسمبلی کی جنرل نشستوں کے لیے مختلف سیاسی جماعتوں نے 280 خواتین کو ٹکٹ جاری کیے تھے۔
نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ خواتین امیدواروں کے لیے اب بھی عام انتخابات میں براہ راست حصہ لے کر کامیاب ہونا بہت مشکل ہے۔ زیادہ دکھ اس بات کا بھی ہوتا ہے کوئی غیر مسلم خاتون امیدوار براہ راست طور پر منتخب ہوکر قومی اسمبلی میں نہیں پہنچ سکی، لیکن یہ جان کر بڑی خوشی ہوئی کہ خیبرپختونخوا کی ایک صوبائی نشست پر 25 سالہ سویرا پرکاش نے پی کے 25 بونیر سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر انتخاب میں حصہ لیا۔
وہ انتخابی معرکے میں کامیاب نہ ہوسکیں لیکن قومی اور عالمی سطح پر توجہ کا مرکز بن گئیں اور دنیا میں پاکستان کا ایک خوش گوار چہرہ اجاگر ہوا۔ ہندو برادری سے تعلق رکھنے والی سویرا پرکاش پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں۔ انھوں نے ایبٹ آباد میڈیکل کالج سے طب کی ڈگری حاصل کی ہے۔ ہر خاتون سیاسی کارکن کی طرح ڈاکٹر سویرا بھی مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹو شہید سے بے حد متاثر ہیں۔ انھوں نے بھرپورانداز سے اپنی انتخابی مہم چلائی اورگھر گھرجاکر لوگوں سے ووٹ مانگے۔
بونیر ایک پسماندہ پہاڑی علاقہ ہے۔ جہاں کے عوام صحت اور تعلیم کی سہولتوں سے محروم ہیں۔ امید ہے کہ ناکام ہونے کے بعد بھی سویرا پرکاش اپنے علاقے کی عوام کے بلاتفریق خدمت کریں گی۔ ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والی اس نوجوان لڑکی کے بارے میں جان کر مجھے تھر پارکر کے رانا چندر سنگھ بے ساختہ یاد آگئے جو آج اس دنیا میں موجود نہیں۔ ان سے متعلق چند حقائق ایسے ہیں جن کے بارے میں جاننا ہم سب کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
بادشاہ ہمایوں کو پناہ دینے والے رانا پرشاد سنگھ کی نسل کے 25 ویں رانا ' رانا چندر سنگھ تھے ۔ رانا چندر سنگھ کے پتا رانا ارجن سنگھ تحریک پاکستان کے زمانے میں مسلم لیگ میں شامل ہوئے۔ وہ تھر کے ایک ایسے علاقے کے سردار تھے جہاں رہنے والوں میں 75 فیصد ہندو تھے لیکن انھوں نے مسلم لیگ کی بھرپور مہم چلائی۔ ان کے نصیب میں اپنی اس جدوجہد کا پھل دیکھنا نہ لکھا تھا۔ وہ 1946میں سورگ باشی ہوئے اور 16 برس کی عمر میں رانا چندر سنگھ کے سر پر اپنے قبیلے اور علاقے کی سرداری کا صافہ بندھا۔
راناچندر سنگھ کی تعلیم ہندوستانی اشرافیہ کے تعلیمی ادارے دہرہ دون میں ہوئی۔ ان کی خوش دامن کانگریس کی سیاست سے وابستہ تھیں اور وہ راجستھانی زبان کی ایک مشہور لکھنے والی تھیں۔رانا چندر سنگھ 1956 میں پہلی مرتبہ سندھ کی صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور سندھ کے پہلے ہندو تھے جو وزیر ہوئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تو رانا چندر سنگھ پیپلز پارٹی کے بنیادی اراکین میں سے تھے۔ انھوںنے قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا' جیت کر وفاقی وزیر ہوئے اور ایسا صرف ایک مرتبہ نہیں بارہا ہوا۔
اپنی سیاسی زندگی میں رانا چندرسنگھ 9 مرتبہ انتخابات میں کھڑے ہوئے اور ہر مرتبہ جیت ان کا مقدر ہوئی۔ بھٹو صاحب کی پھانسی ان کے لیے ذاتی سانحہ تھی۔ جنرل ضیاء الحق نے ان کی طرف دوستی ہاتھ بڑھانا چاہا تو رانا صاحب نے اس ہاتھ کو تھامنا تو دور کی بات ہے اس کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔
جنرل ضیاء کے مارشل لاء کا دو رتھا جب امر کوٹ میں ایک فوجی گاڑی نے راہ چلتے لڑکے کو ٹکر ماری اور وہ بچہ جان سے گزر گیا۔ فوجی گاڑی فرار ہوگئی۔ رانا چندر سنگھ کو اس بات کی خبر ہوئی تو وہ اس فوجی گاڑی کے تعاقب میں نکلے اور آخر کار اسے جالیا۔ اس کے بعد کی کہانی رہنے دیجیے۔
بے نظیر بھٹو جلاوطنی کا دور گزار کر واپس آئیں۔ رانا چندر سنگھ کو 1988 میں پارٹی کا ٹکٹ ملا۔ وہ جیت کر ایک بار پھر قومی اسمبلی میں پہنچے لیکن بے نظیر اور ان کے درمیان وہ رشتہ قائم نہ رہ سکا جس کی رانا توقع کررہے تھے۔
1971کی پاک ہند جنگ کے بعد تھر کے بہت سے ہندو خاندانوں کے ہندوستان چلے جانے سے ناخوش بھٹو صاحب کی ہدایت پر راجستھان جاکر اور انھیں مناکر واپس لانے والے' بھٹو صاحب کی پھانسی کا سوگ منانے والے رانا چندر سنگھ نے1990 کی ابتداء میں پیپلزپارٹی چھوڑ دی اور ''پاکستان ہندو پارٹی'' بنائی۔ جس کے جھنڈے کا رنگ زعفرانی تھا جس پر اوم اور ترشول کے نشان بنے ہوئے تھے۔ اور سندھی اور اردو میں پارٹی کا نام لکھا ہوا تھا۔
1993 میں وہ اپنی پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی نشست کے لیے کھڑے ہوئے' کامیاب ہوئے تو میاں نوازشریف نے انھیں وفاقی وزیر بنایا۔پاکستان کی سیاست کے یک رنگ منظر نامے پر راجا چندر سنگھ ایک شاندار اور مختلف شخص کے طور پر دکھائی دیتے تھے ان کا جودھ پوری کوٹ ، گھومی ہوئی گھنی مونچھیں ،سرپر رنگین لہریے کا شاندار صافہ اور شاہانہ چال سب کا دل موہ لیتی تھی۔
رانا چندر سنگھ سیاست دانوںکی اس نسل سے تعلق رکھتے تھے جن کے لیے سیاست عبادت تھی جو اس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ جان جائے پر وچن نہ جائے۔ وہ راجپوت آن بان کے ساتھ زندہ رہے اور ان ہی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے ختم ہوئے۔ وہ کراچی کے ایک اسپتال میں ختم ہوئے تو پاکستان کے بڑے بڑے سیاسی لیڈروں نے ان کی موت پر تعزیت کے پیغام بھیجے۔ قومی اسمبلی میں بھی ان کے لیے دو منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔
''رانا جاگیر'' سے سورگ باشی رانا کی ارتھی اس شان سے اٹھی کہ آگے آگے سنکھ پھونکا جارہا تھا، تاشے اور باجے بج رہے تھے۔ موت کے بعد بھی کسی راجپوت سردار کا سر جھک نہیں سکتا۔ اسی لیے رانا چندر سنگھ ایک کرسی پر بٹھائے گئے تھے ۔ کرسی پر گلابی رنگ کی ریشمی چادر سے ان پر سایہ کیا گیا تھااور کرسی کو خاندان کے نوجوان اٹھائے ہوئے تھے۔
ان کے سرپر زعفرانی صافہ تھا، گلے میں زیورات اور پھولوں کے ہار اور بدن پر ریشمی لباس۔ ان کی ارتھی دس کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے عمر کوٹ آئی تو راستے بھر لوگوں کا گلیوں میں' عورتوں اور بچوں کا چھتوں پر ہجوم تھا اوروہ اپنے رانا کو آخری بار اپنی آنکھوں میںرکھ لینا چاہتے تھے۔
یکم اگست 2009کو رانا چندر سنگھ رخصت ہوئے تو اس دکھ کے ساتھ کہ پاکستان میں ہندوئوں اور دوسری اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری بنادیا گیا ہے۔ اپنے آخری دنوں میںانٹرویو دیتے ہوئے شکستہ دل رانا چندر سنگھ نے ٹوٹے ہوئے لہجے میں کہا کہ ''میں اب اس عمر میں یہ محسوس کرتاہوں کہ بٹوارے کے وقت ہندوستان نہ جاکر اور اپنے لوگوں کوجانے سے روک کر میں نے غلطی کی۔ پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی جس طرح بڑھ رہی ہے۔ میری کمیونٹی کے لوگ کس طرح اس کا سامنا کریں گے؟''
تمام غیر مسلم پاکستانی برادریوں کا تحفظ اکثریتی مذہبی برادری کا فرض ہے جسے نبھانے میں ہم آج تک کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ کاش رانا چندر سنگھ دکھی دل لیے ہم سے رخصت نہ ہوئے ہوتے ۔ ہمیں یقینی بنانا ہوگا کہ رانا چندر سنگھ جو دکھ لیے دنیا سے گئے وہ دکھ ڈاکٹر سویرا پرکاش اور اس کی برادری کو نہ دیکھنا پڑے۔