قدرتی آفات میں سول سوسائٹی کا کردار اہم سرکاری اداروں میں روابط بہتر بنانا ہونگے
موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک میں پاکستان کا آٹھواں نمبر، مسائل گھمبیر، لوگوں کے رویئے تبدیل کرنا ہونگے
دنیا کو درپیش چیلنجز میں موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی آلودگی بڑے چیلنجز ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک، ترقی یافتہ ممالک کی صنعتوں اور دیگر اقدامات کے ذریعے ہونے والی موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا شکار ہورہے ہیں۔
پاکستان کو گزشتہ دہائی میں موسمیاتی تبدیلی کے باعث سیلاب کی آفت کا سامنا رہا ہے۔ کسی بھی قدرتی آفت کی صورت میں پوری قوم، حکومت اور سماجی ادارے یکجا ن ہوجاتے ہیں اور متاثرین کی مدد کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔
اس کو مدنظر رکھتے ہوئے ''موسمیاتی تبدیلی اور ناگہانی آفات میں سماجی تنظیموں کا کردار''کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، اکیڈیمیا اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
ظہیر عباس ملک
(ڈائریکٹر جنرل انوائرمینٹل پروٹیکشن اتھارٹی)
روابط کا فقدان اور فیصلہ سازمی میں غیر ضروری تاخیر کی بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے۔ ہمارے ہاں ادارے اپنے تحت تو کام کرتے ہیں مگر آپس میں روابط کا فقدان ہے جسے دور کرنے کیلئے ادارہ جاتی میکنزم بنانا ہوگا۔ اس میں یہ تعین کیا جائے کہ کس طرح سب نے مل کر کام کرنا ہے اور ان کی ذمہ داریاں کیا ہوں گی۔
انوائرمینٹل پروٹیکشن اتھارٹی کے پاس اچھا ہیومن ریسورس موجود ہے مگر اس کے باوجود ہم سمجھتے ہیں کہ ایک دوسرے کے تجربے سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اس مقصد کیلئے ہم نے لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی، ایف سی کالج یونیورسٹی ودیگر کے ساتھ مفاہمتی یاد داشتوں پر دستخط کر رکھے ہیں۔
دونوں فریقین نے اپنے اپنے کردار اور ذمہ داریوں کا تعین کر رکھا ہے، ہم ایک دوسرے سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ماحول کو بہتر بنانے کیلئے کوشاں ہیں۔پالیسی سازی ایک بڑا عمل ہے جسے سمجھنا ہوگا۔ ریسرچ اور ڈویلپمنٹ پر بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
اس میں اکیڈیمیا کی تحقیق سے بھی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی آلودگی سے عام آدمی سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ اسے تحفظ دینے کیلئے سب سے اہم آگاہی ہے۔ ہمارے ہاں عوام میں آگاہی کی کمی ہے۔ لوگ سموگ کو فوگ سمجھتے ہیں حالانکہ کے اس کی اور بھی اقسام ہیں۔ ہم عوامی آگہی کیلئے اقدامات اٹھا رہے ہیں، بذریعہ ایس ایم ایس بھی لوگوں کو پیغامات بھیجے جاتے ہیں۔ پالیسی پر عملدرآمد میں مسائل سامنے آتے ہیں۔
اگر پالیسی سازی میں متعلقہ سٹیک ہولڈرز کی رائے شامل ہو تو اس پر عملدرآمد میں فائدہ ہوگا۔ ماحول کو آلودگی سے پاک بنانے کیلئے ہم کوالٹی کے معیارات کو تبدیل کر رہے ہیں، اس میںسٹیک ہولڈرز کی رائے کو بھی مدنظر رکھا جا رہا ہے۔ جس انڈسٹری کے حوالے سے پالیسی بنائی جا رہی ہے اگر اس کے مسائل کو بھی سن لیا جائے اور اس کی روشنی میں پالیسی بنائی جائے تو خاطر خواہ فائدہ ہوتا ہے۔
ہم امیشن کنٹرول کو ریگولرائز کرنے جا رہے ہیں، اس میں تمام سٹیک ہولڈرز کو شامل کیا جا رہا ہے۔ انڈسٹریل امیشن 9.3 فیصد پر پہنچ چکی تھی اور صرف 42 فیصد فیکٹریوں میں امیشن کنٹرول سسٹم نصب تھا۔ ہم نے اس حوالے سے دن رات ایک کیا جس کے بعد اب تک 96 فیصد فیکٹریوں میں امینشن کنٹرول سسٹم لگ چکا ہے اور انڈسٹریل امینشن کم ہوکر 1.7 فیصد پر آگئی ہے۔
ہمارے اقدامات کی وجہ سے گزشتہ برس کی نسبت ایئر کوالٹی انڈیکس میں 14 فیصد بہتری آئی ہے۔ پنجاب میں ہم نے پنجاب سموگ پریوینشن اینڈ کنٹرول رولز بنائے جس سے کافی فائدہ ہوا۔ اسی طرح پنجاب کلین ایئر پالیسی بھی بنائی گئی تاکہ فضا کو صاف اور آلودگی سے پاک کیا جاسکے۔ اب سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے پروڈکشن اینڈ کنزمپشن آف سنگل یوز پلاسٹک ریگولیشنزبھی بنائے گئے ہیں،ا بھی اس حوالے سے آگاہی دی جارہی ہے، عملدرآمد کا آغاز نہیں ہوا۔
ہمارا محکمہ سٹیک ہولڈرز کے ساتھ براہ راست رابطے میں ہوتا ہے۔ ہم چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ذریعے بھی فیکٹریوں اور صنعتوں کے ساتھ رابطہ رکھتے ہیں۔ سول سوسائٹی حکومت کے ساتھ رجسٹرڈ ہے، اس کیلئے ادارے موجود ہیں۔ ہم ان کے ساتھ مفاہمتی یادداشتوں کے ذریعے کام کرتے ہیں تاکہ لوگوں کی زندگیوں میںآسانیاں پیدا کی جاسکیں۔
انسان جب گھر سے نکلتا ہے تو اس کا واسطہ ٹرانسپورٹ، سیوریج، سڑ ک و دیگر معاملات کے ساتھ پڑتا ہے اور وہاں سے متعلقہ محکموں کا کام شروع ہوتا ہے۔ ماحول ایسی چیز ہے کہ انسان گھر پر بھی ہو تو اس کا اثر لازمی ہوتا ہے لہٰذا ہمارا کام گھر کے اندر اور باہر دونوں صورتوں میں ہے۔ اس میں سب سے اہم عوامی آگہی ہے۔
ہمارے ساتھ طلبہ منسلک ہیں جو میسنجرز کے طور پر کام کر رہے ہیں اور بہترین انداز میں سوشل میڈیا کے ذریعے پیغام رسانی کرکے مثبت کام کر رہے ہیں۔ پہلے ہمارا فوکس صرف پروٹیکشن پر تھا مگر اب ماحول کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلی کو بھی ہمارے مینڈیٹ میں شامل کر دیا گیا ہے لہٰذا ہم مختلف جہتوں میں کام کر رہے ہیں۔ آئندہ 5 برسوں میں آج کی نسبت حالات بہتر ہونگے۔
نازیہ جبین
(ڈائریکٹر پی ڈی ایم اے )
صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے)، ڈسٹرکٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (ڈی ڈی ایم اے)کے ذریعے کام کرتی ہے۔ اس میں ضلعی انتظامیہ شامل ہوتی ہے اور سارے اقدامات انہی کے ذریعے اٹھائے جاتے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ عوام کے ساتھ براہ راست رابطے میں ہوتی ہے، سماجی و دیگر اداروں کے ساتھ بھی اس کے روابط ہوتے ہیں اور ضلعی انتظامیہ کو معلوم ہوتا ہے کہ کہاں کیا کرنا ہے، کیسے کرنا ہے۔ 2023ء میں ہم نے آگاہی پر زیادہ توجہ دی۔ سیلاب کے حوالے سے پیشگی وارننگز جاری کی گئیں۔ علاقہ خالی کروانے کیلئے بار بار مساجد میں اعلانات کروائے گئے۔
ہماری بہتر حکمت عملی کی وجہ سے دریائے ستلج میں آنے والے سیلاب سے زیادہ نقصان نہیں ہوا۔ لوگوں کی بروقت نقل مکانی ہوگئی۔ متاثرین کیلئے خصوصی کیمپ لگائے گئے۔ انہیں راشن کے بجائے پکا ہوا کھانا فراہم کیا گیا، متاثرین کو ضرورت کی دیگر اشیاء بھی فراہم کی گئی۔
ہم سمجھتے ہیں کہ سماجی ادارے سماجی تبدیلی کے ایجنٹس ہیں۔ یہ اچھا کام کر رہے ہیں، انہیں عوام کو زیادہ سے زیادہ آگاہی دینی چاہیے تاکہ ان کے رویوں میں تبدیلی آسکے اور انہیں مسائل کا ادراک ہو۔ پی ڈی ایم اے کا کام رسپانس کا ہے، آفت سے پہلے ،ا س کے دوران اور اس کے بعد ، تمام حالات میں ہی ہمارا کام ہوتا ہے۔آفت سے پہلے پالیسی سازی کی جاتی ہے، یہ طے کیا جاتا ہے کہ کس طرح کام کرنا ہے اور کیا کام کرنا ہے۔ اس میں آگاہی بھی شامل ہے۔
آفت کے دوران ریسکیو اینڈ ریلیف ورک ہوتا ہے جبکہ بعدمیں بحالی کا کام کیا جاتا ہے۔ اکیڈیمیا جو ریسرچ کرتا ہے یہ سودمند ثابت ہوسکتی ہے۔ انہیں چاہیے کہ فیکٹری مالکان سمیت دیگر سٹیک ہولڈرز سے بھی اپنی تحقیق شیئر کریں تاکہ اس کی روشنی میں سب مل کر موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی آلودگی جیسے مسائل پر قابو پاسکیں۔
غیر سرکاری تنظیمیں اچھا کام کر رہی ہیں مگر پی ڈی ایم اے کے پاس ان کا ڈیٹا نہیں ہے۔ ہم نے 2023ء کے سیلاب میں کام کیا تو ان کی انفارمیشن نہیں تھی، انہیں پی ڈی ایم اے کے ساتھ رجسٹرڈ ہونے کی ضرورت ہے تاکہ مل کر کام کیا جاسکے۔
اس کے ساتھ ساتھ این جی اوز کو آپس میں بھی مل کر کام کرنا چاہیے تاکہ سماجی کاموں کو مزید موثر بنایا جاسکے۔ 43 فیصد آبادی کسی نہ کسی طرح شعبہ زراعت سے جڑی ہے، سیلاب جیسی آفات سے ان کی زندگی متاثر ہوتی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی و دیگر مسائل سے نمٹنے کیلئے ہمیں لوگوں کے رویئے بدلنا ہوگا۔
ڈاکٹر سونیا عمر
(ایسوسی ایٹ پروفیسرسوشل ورک ڈیپارٹمنٹ، جامعہ پنجاب)
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں ساری ذمہ داری حکومت پر نہیں ڈالی جاسکتی۔ معاشی مشکلات کی وجہ سے حکومت کے پاس وسائل محدود ہیں لہٰذا ان سے نمٹنے کیلئے معاشرے کے تمام سٹیک ہولڈرز کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ دنیا کی بھی نظر ہوتی ہے کہ مشکل حالات میں پاکستان کی حکومت، اکیڈیمیا اور این جی اوز کیا کام کر رہی ہیں۔ ہم سماجی مسائل پر بات کرتے ہیںلیکن افسوس ہے کہ ہمارے ہاں غربت اور بے روزگاری کم نہیں ہوسکی۔ سیلاب جیسی آفات کے باعث جرائم کی شرح بڑھ جاتی ہے۔زراعت کے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں، فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں۔
ہماری سماجی و ثقافتی روایات اور عمل ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ فیکٹریاں بے جا دھواں چھوڑتی ہیں، بڑی بڑی عمارتیں، سیوریج کا ناقص نظام، گندا پانی، اینٹوں کے بھٹے و دیگر مسائل سنگین ہوتے جا رہے ہیں جن سے ماحول خراب ہو رہا ہے۔ماحولیاتی آلودگی عالمی مسئلہ ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی صنعتوں کی وجہ سے ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کا خمیازہ ترقی پذیر ممالک بھگت رہے ہیں جو افسوسناک ہے۔
ہمارے طلبہ کا ایک وفد 'ایم یو این' میں شرکت کیلئے ایمسٹرڈیم گیا۔وہاں بتایا گیا کہ ایک فیکٹری کا آلودہ پانی لیکیج کی وجہ سے نہر میں شامل ہوگیا تو وہ فیکٹری 20 سال کیلئے بند کردی گئی۔ اس فیکٹری نے جان بوجھ کر نہر میں پانی نہیں پھینکا تھا مگر پھر بھی ماحول آلودہ کرنے پر سزا ہوئی۔ ہمارے ہاں اس طرح کے بیشتر مسائل ہیں جس کی روک تھام ضروری ہے۔
ہم اپنے طلبہ کو ہر لحاظ سے تیار کر رہے ہیں تاکہ وہ مشکل حالات میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ ہمارے طلبہ فیلڈ میں کام کرتے ہیں، ہم انہیں متاثرہ علاقوں میں بھی بھیجتے ہیں، ان کی تربیت کی جاتی ہے، ہمارے طلبہ مثبت سرگرمیوں میں شامل ہوتے ہیں۔ ہم ریسرچ کے ذریعے بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ہم نے اپنے کورسز میں تبدیلیاں کی ہیں۔ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اور ریلیف کی سرگرمیوں کو شامل کیا گیا ہے، اس میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی بھی کروائی جا رہی ہے لہٰذا آنے والے برسوں میں ہمارے فارغ التحصیل طلبہ ملکی مسائل حل کریں گے۔ تعلیمی ادارے اہم تحقیقات کرتے ہیں۔
میں نے بھی مختلف سماجی اداروں کے ساتھ مل کر ریسرچ کی۔ اکیڈیمیا کا ہمیشہ سے یہ گلہ رہتا ہے کہ ہماری ریسرچ کی روشنی میں پالیسیاں کیوں نہیں بنائی جاتی؟ دنیا میں تو اکیڈیمیا کو تھنک ٹینک کا درجہ دیا جاتا ہے ، ہمارے ہاں اس سے فائدہ کیوں نہیں اٹھایا جاتا؟ سیلاب اور قدرتی آفات کے حوالے سے پہلے کی نسبت حکومت کا رسپانس بہتر ہوا ہے، پنجاب کے ادارے اچھا کام کر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک مسئلہ حکومت کے پاس اعداد و شمار کا نہ ہونا ہے۔
حکومت کے پاس سیلاب زدہ علاقوں کا ڈیٹا موجود نہیں ہوتا،اس میں کووارڈینیشن کے مسائل بھی ہیں جنہیں دور کرنا ہوگا۔ ہمیں پائیدار پالیسیاں بنا کر ڈیٹا مرتب کرنا ہوگا اور اس کی روشنی میں عملی اقدامات کرنا ہونگے۔ اس کے ساتھ اداروں میں روابط کو بھی بہتر بنایا جائے۔
مبارک علی سرور
(نمائندہ سول سوسائٹی)
موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک میں پاکستان دنیا میں آٹھویں نمبر پر ہے جبکہ جنوبی ایشیاء میں اس سے بھی بری حالت ہے۔پاکستان گزشتہ دہائی میں خشک سالی، سیلاب ،ناگہانی آفات اور موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار رہا ہے۔ 2010ء میں پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے بڑے سیلاب کا سامنا کرنا پڑا جس سے ملک میں نقصان ہوا۔ اسی طرح 2022ء میں صوبہ سندھ، پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں سیلاب آیا جس سے بہت تباہی ہوئی۔
2023ء میں بھی سیلاب آیا جو ماضی کے سیلابوں سے مختلف تھا۔ 1988ء کے بعد 2023ء میں دریائے ستلج میں 3 لاکھ کیوسک پانی آیا جس سے قصور، اوکاڑہ، وہاڑی، بہاولنگر سمیت 7 اضلاع میں لاکھوں خاندان بے گھر ہوئے، فصلیں، مکان اور انفراسٹرکچر تباہ ہوا۔ مشکل حالات میں حکومت، پی ڈی ایم اے، ای پی اے، ریسکیو 1122اور سول سوسائٹی سمیت دیگر اداروں کا کردار قابل ستائش ہے۔حکومتی ادارے اپنی استطاعت کے مطابق کام کرتے ہیں، بجٹ کا مسئلہ بھی ہوتاہے۔
حکومتی اداروں نے سیلاب کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کیلئے دن رات ایک کیا۔ سماجی تنظیموں نے ایمرجنسی کی صورتحال میں متاثرین کوراشن فراہم کیا، سرد موسم میں لوگوں کو بستر، کمبل، کھانے پینے کی اشیائ، ہائی جین کٹس و دیگر امدادی سامان فراہم کیا گیا۔ ضلعی انتظامیہ کے تعاون سے متاثرین اور مستحقین تک رسائی ممکن ہوئی۔ اس میں ڈپٹی و اسسٹنٹ کمشنرز نے ہمارا ساتھ دیا، راشن و امدادی سامان کی تقسیم میںوہ ہمارے ساتھ تھے۔ انتظامیہ کی طرف سے ہمیں سکیورٹی دی گئی اور ضروری انتظامات بھی کیے گئے۔
ہم نے سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ مل کر چونیاں، دیپالپور، بہاولپور سمیت مختلف علاقوں میں کام کیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آفات سے نمٹنا کسی ایک ادارے کا کام نہیں۔ اس میں این ڈی ایم اے، پی ڈی ایم اے، ای پی اے، ریسکیو 1122، سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ سمیت دیگر محکموں کا کام ہے لہٰذا تمام سٹیک ہولڈرز کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ سول سوسائٹی نے اپنے طور پر جو کردار ادا کیا ہے وہ قابل ستائش ہے۔ ہم حکومت کا کام نہیں کرتے لیکن حکومت کو مدد ضرور فراہم کرتے ہیں۔ پنجاب نے موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے اہم اقدامات اٹھائے ہیں۔
محکمہ ماحولیات کے ساتھ اب موسمیاتی تبدیلی کو بھی شامل کر دیا گیا ہے جس سے یقینا بہتری آئے گی۔میرے نزدیک ہمیں ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔اس کے لیے اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف کی روشنی میں پالیسی سازی کرنا ہوگی۔پاکستان کے نصف سے زائد افراد پنجاب میں رہتے ہیں لہٰذا ہمیں پالیسیوں پر نظر ثانی کرناہوگی، عملدرآمد کا درست میکنزم بھی بنانا ہوگا۔ سیوریج کا پانی، ماحولیاتی مسائل، موسمیاتی تغیرات سے لوگ براہ راست متاثر ہوتے ہیں لہٰذا ڈویلپمنٹ سیکٹر سمیت سب کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ماضی قریب میں پی ڈی ایم اے نے سماجی اداروں سے مشاورت کی۔ پی ڈی ایم اے میں ایک اچھا ڈیش بورڈ موجود ہے لیکن سماجی اداروں سے اشتراک کے حوالے سے آرگنائزڈ میکنزم نہیں ہے۔ پی ڈی ایم اے کئی علاقوں میں بالواسطہ اور کہیں بلاواسطہ کام کر رہا ہے۔ اس کے فوکل پرسنز موجود ہوتے ہیں۔ میرے نزدیک جلد رسپانس اور ریلیف کا کام بڑا چیلنج ہے۔
2023ء میں 7 اضلاع میں آنے والا سیلاب ترجیحات میں شامل نہیں رہا، اس میں بہت کام کرنے اور اس سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ آفات میں سماجی اداروں کا کردار مثبت رہا، سرکاری اداروں کے درمیان کووارڈینیشن کا فقدان ہے۔ آفات سے نمٹنے کیلئے سرکاری و سماجی اداروں کے درمیان ہم آہنگی اور اشتراک کو فروغ دینا ہوگا۔
پاکستان کو گزشتہ دہائی میں موسمیاتی تبدیلی کے باعث سیلاب کی آفت کا سامنا رہا ہے۔ کسی بھی قدرتی آفت کی صورت میں پوری قوم، حکومت اور سماجی ادارے یکجا ن ہوجاتے ہیں اور متاثرین کی مدد کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔
اس کو مدنظر رکھتے ہوئے ''موسمیاتی تبدیلی اور ناگہانی آفات میں سماجی تنظیموں کا کردار''کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، اکیڈیمیا اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
ظہیر عباس ملک
(ڈائریکٹر جنرل انوائرمینٹل پروٹیکشن اتھارٹی)
روابط کا فقدان اور فیصلہ سازمی میں غیر ضروری تاخیر کی بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے۔ ہمارے ہاں ادارے اپنے تحت تو کام کرتے ہیں مگر آپس میں روابط کا فقدان ہے جسے دور کرنے کیلئے ادارہ جاتی میکنزم بنانا ہوگا۔ اس میں یہ تعین کیا جائے کہ کس طرح سب نے مل کر کام کرنا ہے اور ان کی ذمہ داریاں کیا ہوں گی۔
انوائرمینٹل پروٹیکشن اتھارٹی کے پاس اچھا ہیومن ریسورس موجود ہے مگر اس کے باوجود ہم سمجھتے ہیں کہ ایک دوسرے کے تجربے سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اس مقصد کیلئے ہم نے لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی، ایف سی کالج یونیورسٹی ودیگر کے ساتھ مفاہمتی یاد داشتوں پر دستخط کر رکھے ہیں۔
دونوں فریقین نے اپنے اپنے کردار اور ذمہ داریوں کا تعین کر رکھا ہے، ہم ایک دوسرے سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ماحول کو بہتر بنانے کیلئے کوشاں ہیں۔پالیسی سازی ایک بڑا عمل ہے جسے سمجھنا ہوگا۔ ریسرچ اور ڈویلپمنٹ پر بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
اس میں اکیڈیمیا کی تحقیق سے بھی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی آلودگی سے عام آدمی سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ اسے تحفظ دینے کیلئے سب سے اہم آگاہی ہے۔ ہمارے ہاں عوام میں آگاہی کی کمی ہے۔ لوگ سموگ کو فوگ سمجھتے ہیں حالانکہ کے اس کی اور بھی اقسام ہیں۔ ہم عوامی آگہی کیلئے اقدامات اٹھا رہے ہیں، بذریعہ ایس ایم ایس بھی لوگوں کو پیغامات بھیجے جاتے ہیں۔ پالیسی پر عملدرآمد میں مسائل سامنے آتے ہیں۔
اگر پالیسی سازی میں متعلقہ سٹیک ہولڈرز کی رائے شامل ہو تو اس پر عملدرآمد میں فائدہ ہوگا۔ ماحول کو آلودگی سے پاک بنانے کیلئے ہم کوالٹی کے معیارات کو تبدیل کر رہے ہیں، اس میںسٹیک ہولڈرز کی رائے کو بھی مدنظر رکھا جا رہا ہے۔ جس انڈسٹری کے حوالے سے پالیسی بنائی جا رہی ہے اگر اس کے مسائل کو بھی سن لیا جائے اور اس کی روشنی میں پالیسی بنائی جائے تو خاطر خواہ فائدہ ہوتا ہے۔
ہم امیشن کنٹرول کو ریگولرائز کرنے جا رہے ہیں، اس میں تمام سٹیک ہولڈرز کو شامل کیا جا رہا ہے۔ انڈسٹریل امیشن 9.3 فیصد پر پہنچ چکی تھی اور صرف 42 فیصد فیکٹریوں میں امیشن کنٹرول سسٹم نصب تھا۔ ہم نے اس حوالے سے دن رات ایک کیا جس کے بعد اب تک 96 فیصد فیکٹریوں میں امینشن کنٹرول سسٹم لگ چکا ہے اور انڈسٹریل امینشن کم ہوکر 1.7 فیصد پر آگئی ہے۔
ہمارے اقدامات کی وجہ سے گزشتہ برس کی نسبت ایئر کوالٹی انڈیکس میں 14 فیصد بہتری آئی ہے۔ پنجاب میں ہم نے پنجاب سموگ پریوینشن اینڈ کنٹرول رولز بنائے جس سے کافی فائدہ ہوا۔ اسی طرح پنجاب کلین ایئر پالیسی بھی بنائی گئی تاکہ فضا کو صاف اور آلودگی سے پاک کیا جاسکے۔ اب سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے پروڈکشن اینڈ کنزمپشن آف سنگل یوز پلاسٹک ریگولیشنزبھی بنائے گئے ہیں،ا بھی اس حوالے سے آگاہی دی جارہی ہے، عملدرآمد کا آغاز نہیں ہوا۔
ہمارا محکمہ سٹیک ہولڈرز کے ساتھ براہ راست رابطے میں ہوتا ہے۔ ہم چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ذریعے بھی فیکٹریوں اور صنعتوں کے ساتھ رابطہ رکھتے ہیں۔ سول سوسائٹی حکومت کے ساتھ رجسٹرڈ ہے، اس کیلئے ادارے موجود ہیں۔ ہم ان کے ساتھ مفاہمتی یادداشتوں کے ذریعے کام کرتے ہیں تاکہ لوگوں کی زندگیوں میںآسانیاں پیدا کی جاسکیں۔
انسان جب گھر سے نکلتا ہے تو اس کا واسطہ ٹرانسپورٹ، سیوریج، سڑ ک و دیگر معاملات کے ساتھ پڑتا ہے اور وہاں سے متعلقہ محکموں کا کام شروع ہوتا ہے۔ ماحول ایسی چیز ہے کہ انسان گھر پر بھی ہو تو اس کا اثر لازمی ہوتا ہے لہٰذا ہمارا کام گھر کے اندر اور باہر دونوں صورتوں میں ہے۔ اس میں سب سے اہم عوامی آگہی ہے۔
ہمارے ساتھ طلبہ منسلک ہیں جو میسنجرز کے طور پر کام کر رہے ہیں اور بہترین انداز میں سوشل میڈیا کے ذریعے پیغام رسانی کرکے مثبت کام کر رہے ہیں۔ پہلے ہمارا فوکس صرف پروٹیکشن پر تھا مگر اب ماحول کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلی کو بھی ہمارے مینڈیٹ میں شامل کر دیا گیا ہے لہٰذا ہم مختلف جہتوں میں کام کر رہے ہیں۔ آئندہ 5 برسوں میں آج کی نسبت حالات بہتر ہونگے۔
نازیہ جبین
(ڈائریکٹر پی ڈی ایم اے )
صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے)، ڈسٹرکٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (ڈی ڈی ایم اے)کے ذریعے کام کرتی ہے۔ اس میں ضلعی انتظامیہ شامل ہوتی ہے اور سارے اقدامات انہی کے ذریعے اٹھائے جاتے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ عوام کے ساتھ براہ راست رابطے میں ہوتی ہے، سماجی و دیگر اداروں کے ساتھ بھی اس کے روابط ہوتے ہیں اور ضلعی انتظامیہ کو معلوم ہوتا ہے کہ کہاں کیا کرنا ہے، کیسے کرنا ہے۔ 2023ء میں ہم نے آگاہی پر زیادہ توجہ دی۔ سیلاب کے حوالے سے پیشگی وارننگز جاری کی گئیں۔ علاقہ خالی کروانے کیلئے بار بار مساجد میں اعلانات کروائے گئے۔
ہماری بہتر حکمت عملی کی وجہ سے دریائے ستلج میں آنے والے سیلاب سے زیادہ نقصان نہیں ہوا۔ لوگوں کی بروقت نقل مکانی ہوگئی۔ متاثرین کیلئے خصوصی کیمپ لگائے گئے۔ انہیں راشن کے بجائے پکا ہوا کھانا فراہم کیا گیا، متاثرین کو ضرورت کی دیگر اشیاء بھی فراہم کی گئی۔
ہم سمجھتے ہیں کہ سماجی ادارے سماجی تبدیلی کے ایجنٹس ہیں۔ یہ اچھا کام کر رہے ہیں، انہیں عوام کو زیادہ سے زیادہ آگاہی دینی چاہیے تاکہ ان کے رویوں میں تبدیلی آسکے اور انہیں مسائل کا ادراک ہو۔ پی ڈی ایم اے کا کام رسپانس کا ہے، آفت سے پہلے ،ا س کے دوران اور اس کے بعد ، تمام حالات میں ہی ہمارا کام ہوتا ہے۔آفت سے پہلے پالیسی سازی کی جاتی ہے، یہ طے کیا جاتا ہے کہ کس طرح کام کرنا ہے اور کیا کام کرنا ہے۔ اس میں آگاہی بھی شامل ہے۔
آفت کے دوران ریسکیو اینڈ ریلیف ورک ہوتا ہے جبکہ بعدمیں بحالی کا کام کیا جاتا ہے۔ اکیڈیمیا جو ریسرچ کرتا ہے یہ سودمند ثابت ہوسکتی ہے۔ انہیں چاہیے کہ فیکٹری مالکان سمیت دیگر سٹیک ہولڈرز سے بھی اپنی تحقیق شیئر کریں تاکہ اس کی روشنی میں سب مل کر موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی آلودگی جیسے مسائل پر قابو پاسکیں۔
غیر سرکاری تنظیمیں اچھا کام کر رہی ہیں مگر پی ڈی ایم اے کے پاس ان کا ڈیٹا نہیں ہے۔ ہم نے 2023ء کے سیلاب میں کام کیا تو ان کی انفارمیشن نہیں تھی، انہیں پی ڈی ایم اے کے ساتھ رجسٹرڈ ہونے کی ضرورت ہے تاکہ مل کر کام کیا جاسکے۔
اس کے ساتھ ساتھ این جی اوز کو آپس میں بھی مل کر کام کرنا چاہیے تاکہ سماجی کاموں کو مزید موثر بنایا جاسکے۔ 43 فیصد آبادی کسی نہ کسی طرح شعبہ زراعت سے جڑی ہے، سیلاب جیسی آفات سے ان کی زندگی متاثر ہوتی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی و دیگر مسائل سے نمٹنے کیلئے ہمیں لوگوں کے رویئے بدلنا ہوگا۔
ڈاکٹر سونیا عمر
(ایسوسی ایٹ پروفیسرسوشل ورک ڈیپارٹمنٹ، جامعہ پنجاب)
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں ساری ذمہ داری حکومت پر نہیں ڈالی جاسکتی۔ معاشی مشکلات کی وجہ سے حکومت کے پاس وسائل محدود ہیں لہٰذا ان سے نمٹنے کیلئے معاشرے کے تمام سٹیک ہولڈرز کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ دنیا کی بھی نظر ہوتی ہے کہ مشکل حالات میں پاکستان کی حکومت، اکیڈیمیا اور این جی اوز کیا کام کر رہی ہیں۔ ہم سماجی مسائل پر بات کرتے ہیںلیکن افسوس ہے کہ ہمارے ہاں غربت اور بے روزگاری کم نہیں ہوسکی۔ سیلاب جیسی آفات کے باعث جرائم کی شرح بڑھ جاتی ہے۔زراعت کے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں، فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں۔
ہماری سماجی و ثقافتی روایات اور عمل ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ فیکٹریاں بے جا دھواں چھوڑتی ہیں، بڑی بڑی عمارتیں، سیوریج کا ناقص نظام، گندا پانی، اینٹوں کے بھٹے و دیگر مسائل سنگین ہوتے جا رہے ہیں جن سے ماحول خراب ہو رہا ہے۔ماحولیاتی آلودگی عالمی مسئلہ ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی صنعتوں کی وجہ سے ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کا خمیازہ ترقی پذیر ممالک بھگت رہے ہیں جو افسوسناک ہے۔
ہمارے طلبہ کا ایک وفد 'ایم یو این' میں شرکت کیلئے ایمسٹرڈیم گیا۔وہاں بتایا گیا کہ ایک فیکٹری کا آلودہ پانی لیکیج کی وجہ سے نہر میں شامل ہوگیا تو وہ فیکٹری 20 سال کیلئے بند کردی گئی۔ اس فیکٹری نے جان بوجھ کر نہر میں پانی نہیں پھینکا تھا مگر پھر بھی ماحول آلودہ کرنے پر سزا ہوئی۔ ہمارے ہاں اس طرح کے بیشتر مسائل ہیں جس کی روک تھام ضروری ہے۔
ہم اپنے طلبہ کو ہر لحاظ سے تیار کر رہے ہیں تاکہ وہ مشکل حالات میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ ہمارے طلبہ فیلڈ میں کام کرتے ہیں، ہم انہیں متاثرہ علاقوں میں بھی بھیجتے ہیں، ان کی تربیت کی جاتی ہے، ہمارے طلبہ مثبت سرگرمیوں میں شامل ہوتے ہیں۔ ہم ریسرچ کے ذریعے بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ہم نے اپنے کورسز میں تبدیلیاں کی ہیں۔ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اور ریلیف کی سرگرمیوں کو شامل کیا گیا ہے، اس میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی بھی کروائی جا رہی ہے لہٰذا آنے والے برسوں میں ہمارے فارغ التحصیل طلبہ ملکی مسائل حل کریں گے۔ تعلیمی ادارے اہم تحقیقات کرتے ہیں۔
میں نے بھی مختلف سماجی اداروں کے ساتھ مل کر ریسرچ کی۔ اکیڈیمیا کا ہمیشہ سے یہ گلہ رہتا ہے کہ ہماری ریسرچ کی روشنی میں پالیسیاں کیوں نہیں بنائی جاتی؟ دنیا میں تو اکیڈیمیا کو تھنک ٹینک کا درجہ دیا جاتا ہے ، ہمارے ہاں اس سے فائدہ کیوں نہیں اٹھایا جاتا؟ سیلاب اور قدرتی آفات کے حوالے سے پہلے کی نسبت حکومت کا رسپانس بہتر ہوا ہے، پنجاب کے ادارے اچھا کام کر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک مسئلہ حکومت کے پاس اعداد و شمار کا نہ ہونا ہے۔
حکومت کے پاس سیلاب زدہ علاقوں کا ڈیٹا موجود نہیں ہوتا،اس میں کووارڈینیشن کے مسائل بھی ہیں جنہیں دور کرنا ہوگا۔ ہمیں پائیدار پالیسیاں بنا کر ڈیٹا مرتب کرنا ہوگا اور اس کی روشنی میں عملی اقدامات کرنا ہونگے۔ اس کے ساتھ اداروں میں روابط کو بھی بہتر بنایا جائے۔
مبارک علی سرور
(نمائندہ سول سوسائٹی)
موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک میں پاکستان دنیا میں آٹھویں نمبر پر ہے جبکہ جنوبی ایشیاء میں اس سے بھی بری حالت ہے۔پاکستان گزشتہ دہائی میں خشک سالی، سیلاب ،ناگہانی آفات اور موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار رہا ہے۔ 2010ء میں پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے بڑے سیلاب کا سامنا کرنا پڑا جس سے ملک میں نقصان ہوا۔ اسی طرح 2022ء میں صوبہ سندھ، پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں سیلاب آیا جس سے بہت تباہی ہوئی۔
2023ء میں بھی سیلاب آیا جو ماضی کے سیلابوں سے مختلف تھا۔ 1988ء کے بعد 2023ء میں دریائے ستلج میں 3 لاکھ کیوسک پانی آیا جس سے قصور، اوکاڑہ، وہاڑی، بہاولنگر سمیت 7 اضلاع میں لاکھوں خاندان بے گھر ہوئے، فصلیں، مکان اور انفراسٹرکچر تباہ ہوا۔ مشکل حالات میں حکومت، پی ڈی ایم اے، ای پی اے، ریسکیو 1122اور سول سوسائٹی سمیت دیگر اداروں کا کردار قابل ستائش ہے۔حکومتی ادارے اپنی استطاعت کے مطابق کام کرتے ہیں، بجٹ کا مسئلہ بھی ہوتاہے۔
حکومتی اداروں نے سیلاب کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کیلئے دن رات ایک کیا۔ سماجی تنظیموں نے ایمرجنسی کی صورتحال میں متاثرین کوراشن فراہم کیا، سرد موسم میں لوگوں کو بستر، کمبل، کھانے پینے کی اشیائ، ہائی جین کٹس و دیگر امدادی سامان فراہم کیا گیا۔ ضلعی انتظامیہ کے تعاون سے متاثرین اور مستحقین تک رسائی ممکن ہوئی۔ اس میں ڈپٹی و اسسٹنٹ کمشنرز نے ہمارا ساتھ دیا، راشن و امدادی سامان کی تقسیم میںوہ ہمارے ساتھ تھے۔ انتظامیہ کی طرف سے ہمیں سکیورٹی دی گئی اور ضروری انتظامات بھی کیے گئے۔
ہم نے سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ مل کر چونیاں، دیپالپور، بہاولپور سمیت مختلف علاقوں میں کام کیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آفات سے نمٹنا کسی ایک ادارے کا کام نہیں۔ اس میں این ڈی ایم اے، پی ڈی ایم اے، ای پی اے، ریسکیو 1122، سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ سمیت دیگر محکموں کا کام ہے لہٰذا تمام سٹیک ہولڈرز کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ سول سوسائٹی نے اپنے طور پر جو کردار ادا کیا ہے وہ قابل ستائش ہے۔ ہم حکومت کا کام نہیں کرتے لیکن حکومت کو مدد ضرور فراہم کرتے ہیں۔ پنجاب نے موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے اہم اقدامات اٹھائے ہیں۔
محکمہ ماحولیات کے ساتھ اب موسمیاتی تبدیلی کو بھی شامل کر دیا گیا ہے جس سے یقینا بہتری آئے گی۔میرے نزدیک ہمیں ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔اس کے لیے اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف کی روشنی میں پالیسی سازی کرنا ہوگی۔پاکستان کے نصف سے زائد افراد پنجاب میں رہتے ہیں لہٰذا ہمیں پالیسیوں پر نظر ثانی کرناہوگی، عملدرآمد کا درست میکنزم بھی بنانا ہوگا۔ سیوریج کا پانی، ماحولیاتی مسائل، موسمیاتی تغیرات سے لوگ براہ راست متاثر ہوتے ہیں لہٰذا ڈویلپمنٹ سیکٹر سمیت سب کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ماضی قریب میں پی ڈی ایم اے نے سماجی اداروں سے مشاورت کی۔ پی ڈی ایم اے میں ایک اچھا ڈیش بورڈ موجود ہے لیکن سماجی اداروں سے اشتراک کے حوالے سے آرگنائزڈ میکنزم نہیں ہے۔ پی ڈی ایم اے کئی علاقوں میں بالواسطہ اور کہیں بلاواسطہ کام کر رہا ہے۔ اس کے فوکل پرسنز موجود ہوتے ہیں۔ میرے نزدیک جلد رسپانس اور ریلیف کا کام بڑا چیلنج ہے۔
2023ء میں 7 اضلاع میں آنے والا سیلاب ترجیحات میں شامل نہیں رہا، اس میں بہت کام کرنے اور اس سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ آفات میں سماجی اداروں کا کردار مثبت رہا، سرکاری اداروں کے درمیان کووارڈینیشن کا فقدان ہے۔ آفات سے نمٹنے کیلئے سرکاری و سماجی اداروں کے درمیان ہم آہنگی اور اشتراک کو فروغ دینا ہوگا۔