ریپ ملزمان کی سرعام پھانسی کا بل مسترد پی پی اور ن لیگ کی مخالفت پی ٹی آئی تقسیم

جماعت اسلامی، ق لیگ، جے یو آئی ف اور پی ٹی آئی کے بیشتر سینیٹرز نے سرعام پھانسی کے بل کی حمایت کی

(فوٹو : فائل)

ریپ ملزمان کو سرعام پھانسی دینے سے متعلق بل سینیٹ سے مسترد کر دیا گیا، 14 ارکان نے سرعام پھانسی کے سزا کے حق جبکہ 24 نے مخالفت میں ووٹ دیا۔

جماعت اسلامی کی جانب سے جنسی زیادتی پر سرعام پھانسی کا بل سینیٹ میں پیش کیا گیا جس کی پیپلز پارٹی، ن لیگ اور نیشنل پارٹی سمیت دیگر جماعتوں نے مخالفت کی جبکہ جماعت اسلامی، ق لیگ، جے یو آئی ف اور پی ٹی آئی کے بیشتر سینیٹرز نے بل کی حمایت کی۔

پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ سرعام پھانسی ملک میں بربریت پھیلاتی ہے اور پیپلز پارٹی نے ریپ پر سزائے موت کی مخالفت کی تھی، پولیسنگ بہتر کریں نہ کہ سزائے موت کے قوانین۔

انہوں نے کہا کہ سزائے موت میں دنیا میں پاکستان کا پانچواں نمبر ہے، سر عام پھانسی اکیسویں صدی کے معاشرے کو زیب نہیں دیتا، سر عام پھانسی سے کرائم نہیں رکے گا۔

مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی نے بھی سرعام پھانسی سے متعلق قانون کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ پھانسی کو پھانسی گھاٹ تک رکھا جائے۔ قائد ایوان اسحاق ڈار نے کہا کہ قانون میں سزائے موت موجود ہے اس لیے سرعام پھانسی کی مخالفت کرتے ہیں۔

پی ٹی آئی نے بھی ریپ ملزمان کو سرعام پھانسی کی مخالفت کر دی۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ موجودہ قانون میں سخت سزا سزائے موت ہے جس کی حمایت کرتے ہیں، سرعام پھانسی کی مخالفت کرتے ہیں۔ سزائیں سرعام اور سڑکوں پر ہونے کے بجائے نظام انصاف کو بہتر بنانے پر کام ہونا چاہیے۔


بل کی حمایت کرنے والے ق لیگ کے سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ امریکا میں انجکشن لگا کر سزائے موت کے بعد ویڈیو جاری کی جاتی ہے اور سعودی عرب میں سرعام سر قلم کیا جاتا ہے، اگر مسلمان ہیں تو مؤقف درست ہونا چاہیے لیکن دنیا میں کیا ہو رہا ہے یہ اہم نہیں اسلام کیا کہتا ہے یہ اہم ہے۔

پی ٹی آئی کے دوسرے سینیٹر حمایو مہمد نے ریپ ملزمان کو سرعام پھانسی کی حمایت کر دی۔ سینیٹر حمایو مہمند نے کہا کہ جن ممالک میں سرعام سزائیں ہیں وہاں جرائم کم ہیں، جہاں ہاتھ کاٹے جاتے ہیں وہاں چوری بھی کم ہیں۔

ریپ کے بیشتر ملزمان کی ضمانتوں پر رہائی کا انکشاف

سینیٹ میں ہونے والے اجلاس میں ریپ کے ملزمان کو سرعام پھانسی کی سزا دینے سے متعلق بل پیش کرنے کے بعد انہوں نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا کی پانچ سال کی رپورٹ کے مطابق ایک ہزار 122 ریپ کے واقعات ہوئے۔

انہوں نے بتایا کہ ریپ کے مقدمات میں 581 ملزمان گرفتار ہوئے جن میں سے 494 بری ہوگئے اور صرف 87 کو سزائیں ہوئیں ہیں۔ خواتین کے ساتھ ریپ کے جرم میں گرفتار 341 ملزمان بری ہوئے ہیں اور صرف 23 کو سزائیں ہوئیں۔

سینیٹر مشتاق نے بتایا کہ 153 بچیوں سے ریپ کے ملزمان بری ہوئے ہیں صرف 64 کو سزا ہوئی ہے جبکہ ایک رپورٹ کے مطابق 2023 کے پہلے چھ ماہ میں ہر وز 12 بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ۔

انہوں نے کہا کہ صرف چار سرعام پھانسیاں لگائیں یہ جرم ختم ہو جائے گا، آپ امریکا اور یورپ سے نہ ڈریں، جرم پر قابو پانے کیلیے سخت سزائیں دینا لازم ہیں۔
Load Next Story