کتابوں پر تبصرے

کتابوں پر تبصرے

کتابوں پر تبصرے از رضوان طاہر مبین روزنامہ ایکسپریس

'باپردہ مزاح'

اردو کے ممتاز مزاح نگار ابن انشا کی معروف تصنیف 'آپ سے کیا پردہ' سے متاثر ہو کر 'آپ سے پردہ ہے' نامی یہ کتاب مزاح نگاری کے میدان میں محمد حنیف شیوانی کی ایک کاوش ہے، جو ان کے 47 مختصر اور دل چسپ مضامین پر مشتمل ہے، اس کتابکے مندرجات میں وہ گاہے گاہے اپنے قلم کے نشتر چبھو کر احتجاج بھی کرتے ہیں اور لفظوں کی چوٹ بھی خوب کستے چلے جاتے ہیں۔

گویا ان صفحات میں 'طنز' اور 'مزاح' دونوں کا مکمل اہتمام کرنے کی پوری پوری کوشش کی گئی ہے۔ اس کتاب میں بہت سے صفحات پر 'صفحہ نمبر' کا سہو غالباً طباعت کی چُوک ہے، لیکن ہمیں تو یہ خیال بھی آتا ہے کہ ممکن ہے کہ یہ بھی مصنف کی غیر اعلانیہ یا دانستہ 'چھیڑ خانی' ہو اور انھیں یقین ہو کہ ان کا باذوق قاری ان کی تحریر کے لطف میں فہرست سے ٹٹولے گئے مطلوبہ مضمون کو 'صفحہ نمبر' کے بغیر بھی کسی نہ کسی طرح ڈھونڈ نکالے گا ہی۔

بہرحال، اگر یہ واقعی غلطی اور سہو ہے، تو امید ہے کہ اگلی اشاعت میں یہ ضرور بالضرور دور کر لیا جائے گا۔ اس شگفتہ کتاب کے حوالے سے متماز محقق اور ماہر لسانیات ڈاکٹر معین الدین عقیل اور معروف سخن وَر احمد حاطب صدیقی جیسی شخصیات نے بھی اپنے گراں قدر خیالات کا اظہار کیا ہے۔ 240 صفحات پر محیط، مجلد اور رنگین تصویری خاکوں سے آراستہ یہ دیدہ زیب کتاب ہر مضمون میں باقاعدہ نمایاں نکات کے چوکھٹوں سے بھی آراستہ کی گئی ہے، اور یہ امر ہمیں کسی بھی کتاب میں ایک نئی اور ایک منفرد پیش کش محسوس ہوئی ہے۔ بَڑھیا کاغذ پر شایع شدہ مزاح پر مبنی مضامین کے اس دل چسپ مجموعے کی قیمت 2000 روپے رکھی گئی ہے۔ یہ مصنف کی دوسری کاوش ہے، ان کی پہلی کتاب 'میم میم مضامین' کے عنوان سے 2021ءمیں شایع ہو چکی ہے، یہ کتاب فضلی بکس کراچی میں دست یاب ہے۔

ایک موضوع، اور طرح طرح کے شعر

آپ کو کسی بھی موضوع پر کوئی مضمون لکھنا ہو یا کہیں اظہار خیال کرنا ہو، تو اس موضوع سے متعلقہ محاورے، ضرب المثل، اشعار اور 'تراکیب' بڑی کارآمد رہتی ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے بہت سے نئے اور پرانے شعرا نے ایک ہی طرح کی بات کافی مختلف طریقوں سے کہی ہوئی ہوتی ہے۔ بعضے شاعر ایک ہی موضوع پر مختلف نکتوں کا ذکر بھی کر جاتے ہیں۔ جسے سمجھنے والے خوب سمجھتے ہیں اور پھر اس کی داد بھی دیتے جاتے ہیں، لیکن ہوتا یہ ہے کہ محدود انسانی یادداشت میں اتنے بہت سے موضوعات کے اشعار کی موجودگی اور پھر انھیں بہ وقت ضرورت بازیافت کرنا ایک مشکل امر ہوتا ہے۔ اردو اگرچہ بہت قدیم زبان تو نہیں، لیکن اس کے نمایاں دو، چار سو برسوں میں بھی اس کے دامن میں طرح طرح کے خیالات اور موضوعات پر شعر وادب کا بہت سا مواد تو جمع ہو ہی چکا ہے۔

اردو زبان وادب کے طالب علموں، محققین اور لکھنے والوں کے لیے اپنے متعلقہ موضوع پر شعر وسخن کے باب میں کیا کچھ کہا گیا ہے، اس مشکل کا حل ہمیں اس کتاب میں بہ خوبی دکھائی دیتا ہے، جس کا عنوان ہے 'اندازِ بیاں کے رنگ' جس میں افضل حیسن خان نے 300 سے زائد مختلف موضوعات پر مختلف شعرا کے اظہار خیال کو یک جا کر دیا ہے۔ اس تصنیف میں نہ صرف اردو بلکہ بہت سے موضوعات پر تو معروف فارسی کلام کا بھی خوب اہتمام کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کتاب کے آخر میں 'کتابیات' کو بجا طور پر سونے پہ سہاگہ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، جس سے یہ تحقیق دو آتشہ ہو جاتی ہے۔ یقینی طور پر مختلف موضوعات پر اظہار خیال اور عام مضامین سے لے کر تخلیقی تحریروں، مکالموں اور مضامین نگاری سمیت مختلف تحقیقی حوالہ جات کے تعلق سے یہ کتاب نہایت مفید اور کارآمد ثابت ہوگی۔ فضلی بکس سے شایع ہونے والی 333 صفحات کی اس کتاب کی قیمت 1200 روپے ہے۔

ایک 'جہاں دیدہ' کے قلم سے

'احساس زیاں' سابق سفیر پاکستان محمد عاقل ندیم کے قلم سے نکلے ہوئے مختلف مضامین کا مجموعہ ہے۔ اپنی ان تحریروں کے حوالے سے وہ رقم طراز ہیں کہ ان کے یہ کالم ومضامین 'پاکستان تحریک انصاف' کی حکومت کے ابتدائی تین برسوں یعنی 2019ءتا 2022ءکے ایک جائزے پر مشتمل ہیں، اور چوں کہ مصنف کا تعلق خارجہ امور سے ہے، اس لیے گاہے گاہے اس شعبے کا رنگ بھی اس کتاب کے بہت سے مضامین میں دکھائی دیتا ہے۔ ان کی یہ تحریریں وقتاً فوقتاً معروف خبری ویب سائٹ 'انڈیپنڈنٹ اردو' پر شایع ہوتی رہی ہیں۔

کتاب میں ہر کالم کے ساتھ اس کی تاریخ اشاعت بھی درج کی گئی ہے، جس سے اس میں کہی گئی بات کو سمجھنے میں زیادہ سہولت رہتی ہے، کیوں کہ سیاست اور تاریخ میں منظرنامہ بدلتا رہتا ہے، اس لیے کسی بھی بات کے حوالے سے اس کے زمانے اور وقت کی خبر ہونا بھی اہم اور ضروری ہو جاتا ہے۔ کتاب کے اہم موضوعات میں بڑے قومی معاملات تو ہیں ہی، لیکن اس کے ساتھ ساتھ بہت سے قابل ذکر بین الاقوامی امور، ہم سایہ ممالک سے تعلقات، مختلف مسائل اور ساجھے داری کو بھی موضوع بنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سول سروس کے حوالے سے بھی بہت سے اہم مضامین شامل کیے گئے ہیں۔

ان کا ایک مضمون 'اعلیٰ سرکاری ملازمتوں میں فوجیوں کا کوٹا کیوں؟' میں بہت دلائل کے ساتھ اپنا مافی الضمیر قارئین کے سامنے رکھا گیا ہے، جس سے جذباتیت اور محض اظہار خیال کے بہ جائے باقاعدہ استدلال اور ایک منطقی بات اور موقف سامنے آتا ہے۔

کتاب کی پشت پر سابق سیکریٹری خارجہ ریاض حسین کھوکھر، جلیل عباس جیلانی اور سابق سفیر عبدالباسط کے تاثرات بھی درج کیے گئے ہیں۔ 431 صفحات پر محیط سبز ہلالی سرورق اور مضبوط جلد سے آراستہ یہ کتاب شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور سے شایع ہوئی ہے، قیمت 1500 روپے رکھی گئی ہے۔


گزری تہذیب وہنر کی خبریں

آبائی وطن ٹونک (راجستھان) سے لے کر حیدرآباد، کراچی اور حجاز مقدس تک مختلف جگہوں کے تاثرات سے مختلف یادیں اور واقعات اس کتاب 'ان کہی' کو قابل قدر بناتے ہیں، جسے 50 کے قریب چھوٹے چھوٹے مضامین میں بانٹا گیا ہے۔ ان مضامین میں بہت سی سلسلے وار تحریریں بھی ہیں اور کچھ جداگانہ اظہار بھی۔ بالخصوص اس کتاب کے ابتدا میں نو مضامین مصنفہ کے 'سفرِ حج' کے بیان اور ان کے مشاہدات، تجربات اور تاثرات پر مبنی ہیں، اس کے بعد مختلف سماجی مسائل اور دیگر متفرق امور کے حوالے سے ان کے نقطہ ہائے نظر، یادیں، باتیں، بالخصوص قیام پاکستان کے بعد ہندوستان سے یہاں ہجرت کرنے والوں کا رہن سہن، طور طریقے اور طرزِ معاشرت سے لے کر اس وقت کے سماج کی اٹھان اور ان کی تہذیب کا ایک سیر حاصل بیان پڑھنے کو ملتا ہے۔ پھر اس کتاب کی مصنفہ غزالہ جاوید، پروفیسر عنایت علی خان جیسے اردو کے قادر الکلام سخن ور کے خانوادے سے تعلق رکھتی ہیں، تو یقیناً یہ امر بھی اس کتاب کے پڑھنے والوں کو واضح طور پر جھلکتا ہے۔ تبھی انھوں نے محض خاتون خانہ ہوتے ہوئے بھی اپنی بے ساختہ تحریری صلاحیتوں کا بھی اس قدر سلیقے سے اظہار کیا ہے، کہ قاری اس جانب متوجہ ہوئے بغیر نہیں رہ پاتا۔ یہ کتاب اردو میں سماجیات اور سماجی رکھ رکھاﺅ کے موضوع پر ایک اہم حوالہ اور قابل قدر اضافہ شمار کیا جانا چاہیے، جو مستقبل کے محقق کو یہاں کی مخصوص سماجیات کے باب میں بہت سی باتوں کی 'خبر' فراہم کرے گا۔ اس کتاب کا انتساب بھی مصنفہ کی وضع داری اور ایک تہذیب کا پتا دیتا ہے، غزالہ جاوید اس حوالے سے اپنے الفاظ کچھ اس طرح نذر کرتی ہیں کہ 'ابو کی ان انگلیوں کے نام، جس کی تکلیف ہمیں رزق حلال فراہم کرنے میں انھوں نے اٹھائی ماں کی اس آرزو کے نام، جو ہماری ضرورت پر انھوں نے قربان کر دی!' اب جدیدیت کے نام پر ہمیں یہ سوچ اور اپنے بڑوں سے ایسی لگن خال خال ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ یہ کتاب معیاری چکنے کاغذ پر شایع کی گئی ہے اور اس کی قیمت 1500 روپے ہے، جب کہ اس کتاب کی ضخامت 284 صفحات ہے، یہ کتاب فضلی بکس کراچی سے حاصل کی جا سکتی ہے۔

'محبت کا فسانہ'

کہاں پاﺅ گے الفت کو ہمارے پاس ہے وافر
محبت ایک دریا ہے محبت ایک خزانہ ہے
پرانی یاد کو لے کر چلو گلشن میں ملتے ہیں
ضروری ہے ہمیں ملنا محبت کا فسانہ ہے

یہ وہ کلام ہے، جس سے زیر تبصرہ کتاب کا عنوان بھی ترتیب دیا گیا ہے، یعنی 'محبت کا فسانہ' اور یہ 'فسانہ' اس اعتبار سے دل چسپ ہے کہ افسانوں کی طرح نثری ہونے کے بہ جائے مکمل طور پر شعری اظہار خیال ہے۔ یہ احمد مسعود قریشی کا دوسرا شعری مجموعہ ہے۔ اس سے قبل ان کی ایک کتاب بہ عنوان 'ناممکن' شایع ہو چکی ہے۔ ان کے والد مقبول قریشی بھی شعر وسخن کی دنیا سے تعلق رکھتے تھے، ان کا تعارف بننے والا یہ شعر یقیناً آپ کی نگاہ سے بھی گزرا ہوگا

جنھیں حقیر سمجھ کر بجھا دیا تم نے
وہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی

200 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں 150 سے زائد غزلیں شامل کی گئی ہیں، جس میں اظہار خیال چھوٹی بحروں اور نہایت سہل انداز میں کیا گیا ہے، کتاب کی ابتدا حمد اور نعت سے کی گئی ہے۔ جب کہ کتاب کے شروع میں رحمان حفیظ، شگفتہ شفیق، شاعر علی شاعر اور ڈاکٹر فرحت عباس نے بھی احمد مسعود قریشی کی شاعری پر اظہار خیال کیا ہے۔ سیوا پبلی کیشنز لاہور سے شایع ہونے والی اس کتاب کی قیمت 1000 روپے ہے۔

ادب اطفال میں دو اہم اضافے

بچوں کے لیے لکھنا زبان وادب کی ایک ایسی خدمت ہے، جس پر ہمارے شعرا وادیبوں کی مجموعی طور پر اب بہت کم توجہ دکھائی دیتی ہے، لیکن جاوید بسام کا شمار آج کے دور کے ان چند کہانی کاروں اور ادیبوں میں ہوتا ہے کہ جو مستقل مزاجی سے بچوں کے لیے کہانیاں لکھنے کا محاذ سنبھالے ہوئے ہیں۔ یوں تو ان کے رشحات قلم 'فنون'، 'صریر' اور ماہ نامہ 'اردو ڈائجسٹ' جیسے سنجیدہ اور معیاری پرچوں میں بھی شایع ہوتے رہتے ہیں، لیکن اس سے زیادہ ان کی توجہ کا مرکز بچوں کے مختلف رسائل و جرائد ہیں، جن کے لیے وہ بہ یک وقت مختلف موضوعات پر کہانیاں لکھتے رہتے ہیں۔

ان کی شایع ہونے والی دونوں کتابیں ان کی کچھ ایسی ہی شایع شدہ کہانیوں کے مجموعے ہیں۔ یہ کتابیں 'بچوں کا کتاب گھر' لاہور سے شایع ہوئی ہیں۔ پہلی کتاب بہ عنوان 'لکڑی کے سپاہی' میں 24 کہانیاں، جب کہ 'خرگوش کا پراسرار مہمان' میں 25 کہانیاں شامل اشاعت کی گئی ہیں۔ 'لکڑی کے سپاہی' کا عنوان اس کتاب میں شامل پہلی کہانی سے اخذ کیا گیا ہے، جب کہ اس کتاب میں 'وقت کی پٹائی'، 'پہاڑی بلی کا راز'، 'کڑوے پھولوں کی شاخ'، 'بونے سپاہی اور کبوتری' وغیرہ جیسی دیگر دل چسپ کہانیاں بھی شامل ہیں۔

کہانیوں کے دوسرے مجموعے میں 'خرگوش نے سواری کی'، 'جب خرگوش بہرا ہوا'، 'لالو کھیت کے آلو'، 'نادیدہ دوست' اور 'خرگوش نے کھولی دکان' وغیرہ جیسی کہانیاں شامل ہیں۔ ان کہانیوں کے ساتھ اگرچہ تصاویر تو شامل نہیں کی گئیں، تاہم دونوں ہی کتابوں میں بچوں کی دل چسپی کے لحاظ سے نہایت دیدہ زیب اور پرکشش سرورق کا انتخاب کیا گیا ہے۔ بچوں میں اردو زبان اور پڑھنے کا شوق پیدا کرنے کی خاطر یہ کتابیں ان کے لیے ایک اچھا تحفہ ثابت ہو سکتی ہیں۔ ایک گوشہ نشیں، کم گو اور متحرک ادیب جاوید بسام کی جانب سے اس وقت ادب اطفال میں یہ بہت اہم اضافہ ہے۔ ان کتب کے صفحات بالترتیب 144 اور 128 ہیں، قیمت فی کتاب 450 روپے رکھی گئی ہے۔
Load Next Story