سیاسی محاذ آرائی
جن سے عوام کو فائدہ ہوا جو دوسرے گورنروں کے لیے قابل تقلید ضرور ہیں
عام انتخابات کے دوران پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان جو محاذ آرائی شروع ہوئی تھی اس میں انتخابی نتائج کے بعد اضافہ ہو گیا ہے اور دونوں طرف سے الزام تراشی بڑھ گئی ہے جس پر ایم کیو ایم کے رہنما مصطفیٰ کمال نے کہا ہے کہ لگتا ہے کہ بلاول بھٹو کو ایم کیو ایم سے لڑنے کے لیے کوئی اکسا رہا ہے۔
اس سے قبل ایم کیو ایم کے سینیٹر فیصل سبزواری نے کہا تھا کہ بلاول بھٹو ایم کیو ایم سے مزاحمت کے باعث وزیر اعظم بننے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ پیپلز پارٹی کے سندھ کے رہنماؤں نے بھی ایم کیو ایم کے بیانات کا جواب دینے میں کوئی رعایت نہیں برتی اور ان کے ہر الزام کا منہ توڑ جواب دیا۔
انتخابات سے قبل ہی مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم کے درمیان بعض معاملات طے ہو گئے تھے اور ایم کیو ایم کے تین مطالبات میں ایک مطالبہ سندھ کے بلدیاتی نظام کو آئین کے مطابق بنانے کا بھی تھا جو صوبائی معاملہ ہے اور مسلم لیگ (ن) وزارت عظمیٰ حاصل کرکے بھی یہ بلدیاتی معاملہ طے نہیں کرا سکتی اور صرف پیپلز پارٹی ہی اس سلسلے میں ایم کیو ایم کا کوئی مطالبہ مان سکتی ہے۔
سندھ میں جو بلدیاتی نظام موجود ہے وہ پیپلز پارٹی نے اپنی مرضی سے بنایا تھا جس کی ایم کیو ایم، جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی مخالف ضرور ہیں مگر موجودہ بلدیاتی سسٹم میں ایم کیو ایم نے بلدیاتی الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا۔
کراچی میں بلدیہ عظمیٰ کا میئر پیپلز پارٹی کا ہے اور 26 ٹاؤنز کی سربراہی پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کے پاس ہے اور پیپلز پارٹی نے کراچی کا بلدیاتی اقتدار اپنی حکومت میں سالوں کی کامیاب منصوبہ بندی کے نتیجے میں پہلی بار حاصل کیا ہے جس کو وہ کسی صورت نہیں چھوڑے گی اور یہ بلدیاتی سسٹم برقرار رہے گا جو کمزور، بے اختیار اور آئین کے مطابق نہیں ہے۔
کراچی میں ایم کیو ایم کی محاذ آرائی صرف پیپلز پارٹی کے ساتھ نہیں جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کے ساتھ بھی ہے اور حالیہ انتخابات کے جو نتائج آئے ہیں اس میں ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی کی 17، صوبائی اسمبلی کی 28نشستیں ضرور جیتی ہیں مگر پی پی، جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی اسے تسلیم نہیں کر رہی اور دھاندلی کرا کر یہ کامیابی حاصل کرنے کا ایم کیو ایم پر الزام لگا رہی ہے۔
ایم کیو ایم سے 8 فروری کے بعد جے یو آئی بھی ناراض ہے البتہ ایم کیو ایم کی مرکزی قیادت نے شاہی سید کے پاس جا کر اسے اے این پی سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی ہے۔
کراچی میں اے این پی کے حامی بڑی تعداد میں موجود ہیں مگر سندھ میں اے این پی سندھ اسمبلی میں موجود ہے نہ اس کے پاس کراچی کا کوئی ٹاؤن ہے۔وفاق میں ایم کیو ایم مسلم لیگ (ن) کی حمایت کا اعلان کر چکی ہے اور وزیر اعظم منتخب ہو کر میاں شہباز شریف حکومت میں ایم کیو ایم کو وزارتیں بھی مل جائیں گی مگر سندھ میں ایم کیو ایم کو سرکاری طور پر کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
ممکن ہے موجودہ گورنر کامران ٹیسوری کو پیپلز پارٹی برقرار رکھنے پر راضی ہو جائے کیونکہ گورنر سندھ متنازع نہیں ہوئے اور انھوں نے سابق صدر آصف علی زرداری سمیت سندھ کی تمام اہم شخصیات سے رابطہ رکھا ہے اور عوامی سطح پر بھی لوگ ان سے مطمئن ہیں۔ انھوں نے گورنر ہاؤس کے دروازے نہ صرف کھول رکھے ہیں بلکہ ایسے اچھے اقدامات کیے ہیں۔
جن سے عوام کو فائدہ ہوا جو دوسرے گورنروں کے لیے قابل تقلید ضرور ہیں۔جب تک سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے موجودہ بے اختیار بلدیاتی نظام برقرار رہے گا اور پی پی حکومت میئر کراچی اپنا ہی رکھے گی اس لیے میئر یا بلدیاتی نظام کی تبدیلی ممکن نہیں جو ایم کیو ایم کا مطالبہ ہے۔
موجودہ انتخابات میں جو وفاقی حکومت بنے گی وہ کمزور ہوگی اور بلدیاتی نظام کو مضبوط بنانے کے لیے کوئی آئینی ترمیم نہیں کرسکے گی۔ ملک کو جنرل پرویز مشرف جیسا بااختیار بلدیاتی نظام دینے کی ملک کی تینوں بڑی پارٹیاں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف حامی نہیں ہیں اور ارکان اسمبلی بھی ایسا نہیں چاہتے۔
اس سے قبل ایم کیو ایم کے سینیٹر فیصل سبزواری نے کہا تھا کہ بلاول بھٹو ایم کیو ایم سے مزاحمت کے باعث وزیر اعظم بننے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ پیپلز پارٹی کے سندھ کے رہنماؤں نے بھی ایم کیو ایم کے بیانات کا جواب دینے میں کوئی رعایت نہیں برتی اور ان کے ہر الزام کا منہ توڑ جواب دیا۔
انتخابات سے قبل ہی مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم کے درمیان بعض معاملات طے ہو گئے تھے اور ایم کیو ایم کے تین مطالبات میں ایک مطالبہ سندھ کے بلدیاتی نظام کو آئین کے مطابق بنانے کا بھی تھا جو صوبائی معاملہ ہے اور مسلم لیگ (ن) وزارت عظمیٰ حاصل کرکے بھی یہ بلدیاتی معاملہ طے نہیں کرا سکتی اور صرف پیپلز پارٹی ہی اس سلسلے میں ایم کیو ایم کا کوئی مطالبہ مان سکتی ہے۔
سندھ میں جو بلدیاتی نظام موجود ہے وہ پیپلز پارٹی نے اپنی مرضی سے بنایا تھا جس کی ایم کیو ایم، جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی مخالف ضرور ہیں مگر موجودہ بلدیاتی سسٹم میں ایم کیو ایم نے بلدیاتی الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا۔
کراچی میں بلدیہ عظمیٰ کا میئر پیپلز پارٹی کا ہے اور 26 ٹاؤنز کی سربراہی پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کے پاس ہے اور پیپلز پارٹی نے کراچی کا بلدیاتی اقتدار اپنی حکومت میں سالوں کی کامیاب منصوبہ بندی کے نتیجے میں پہلی بار حاصل کیا ہے جس کو وہ کسی صورت نہیں چھوڑے گی اور یہ بلدیاتی سسٹم برقرار رہے گا جو کمزور، بے اختیار اور آئین کے مطابق نہیں ہے۔
کراچی میں ایم کیو ایم کی محاذ آرائی صرف پیپلز پارٹی کے ساتھ نہیں جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کے ساتھ بھی ہے اور حالیہ انتخابات کے جو نتائج آئے ہیں اس میں ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی کی 17، صوبائی اسمبلی کی 28نشستیں ضرور جیتی ہیں مگر پی پی، جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی اسے تسلیم نہیں کر رہی اور دھاندلی کرا کر یہ کامیابی حاصل کرنے کا ایم کیو ایم پر الزام لگا رہی ہے۔
ایم کیو ایم سے 8 فروری کے بعد جے یو آئی بھی ناراض ہے البتہ ایم کیو ایم کی مرکزی قیادت نے شاہی سید کے پاس جا کر اسے اے این پی سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی ہے۔
کراچی میں اے این پی کے حامی بڑی تعداد میں موجود ہیں مگر سندھ میں اے این پی سندھ اسمبلی میں موجود ہے نہ اس کے پاس کراچی کا کوئی ٹاؤن ہے۔وفاق میں ایم کیو ایم مسلم لیگ (ن) کی حمایت کا اعلان کر چکی ہے اور وزیر اعظم منتخب ہو کر میاں شہباز شریف حکومت میں ایم کیو ایم کو وزارتیں بھی مل جائیں گی مگر سندھ میں ایم کیو ایم کو سرکاری طور پر کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
ممکن ہے موجودہ گورنر کامران ٹیسوری کو پیپلز پارٹی برقرار رکھنے پر راضی ہو جائے کیونکہ گورنر سندھ متنازع نہیں ہوئے اور انھوں نے سابق صدر آصف علی زرداری سمیت سندھ کی تمام اہم شخصیات سے رابطہ رکھا ہے اور عوامی سطح پر بھی لوگ ان سے مطمئن ہیں۔ انھوں نے گورنر ہاؤس کے دروازے نہ صرف کھول رکھے ہیں بلکہ ایسے اچھے اقدامات کیے ہیں۔
جن سے عوام کو فائدہ ہوا جو دوسرے گورنروں کے لیے قابل تقلید ضرور ہیں۔جب تک سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے موجودہ بے اختیار بلدیاتی نظام برقرار رہے گا اور پی پی حکومت میئر کراچی اپنا ہی رکھے گی اس لیے میئر یا بلدیاتی نظام کی تبدیلی ممکن نہیں جو ایم کیو ایم کا مطالبہ ہے۔
موجودہ انتخابات میں جو وفاقی حکومت بنے گی وہ کمزور ہوگی اور بلدیاتی نظام کو مضبوط بنانے کے لیے کوئی آئینی ترمیم نہیں کرسکے گی۔ ملک کو جنرل پرویز مشرف جیسا بااختیار بلدیاتی نظام دینے کی ملک کی تینوں بڑی پارٹیاں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف حامی نہیں ہیں اور ارکان اسمبلی بھی ایسا نہیں چاہتے۔