ناک سے لکیریں

اگر سر کٹ جائے تو اس کا ذکر یوں نہیں کیا جاتا جس طرح ناک کٹنے کا ذکر ہوتا ہے

barq@email.com

سیاسی سیلبرٹی کا ''کہا ہوا'' مستند ہوتا ہے چنانچہ ایک سیاسی سیلبرٹی نے فرمایا ہے کہ آئی ایم ایف نے ناک سے لکیریں نکلوا کر قرضہ دیا ہے۔

اگرچہ اس بیان میں ناک سے لکیریں''نکلوانا'' کہا گیا ہے جو محاورے کے لحاظ سے''غیر فصیح'' ہے اصل اور درست محاورہ لکیریں کھنچنا یا کھنچوانا ہے۔لیکن اسے ہم اخباری یا کمپوزنگ کی غلطی قرار دے کر نظر انداز کیے دیتے ہیں لفظ نکلوانے سے ایسا تاثر ملتا ہے جیسے ناک میں لکیریں بھری ہوئی ہوں اور کوئی اسے جھٹکے دے دے کر لکیریں نکلواتا ہو۔

البتہ لکیریں کھنچنے یا کھنچوانے کا محاورہ اور روزمرہ فصیح بھی ہے اور بلیغ بھی۔اور چونکہ آئی ایم ایف کو لکیریں کھنچوانے کا اچھا خاصا تجربہ ہے اور ادھر فریق دوم کو بھی اس''فن'' میں چھتر سالا تجربہ ہے اس لیے لکیریں نکلوائی نہیں بلکہ کھنچوائی گئی ہوں گی البتہ یہ بات واضح نہیں ہوئی ہے کہ کتنی لکیریں کھنچوائی گئی ہیں کیونکہ بیان میں ڈالروں کی تعداد کا ذکر تو ہے لیکن لکیروں کی تعداد نہیں بتائی گئی ہے۔

اس لیے کہا نہیں جاسکتا ہے کہ فی ڈالر کتنی لکیریں۔یا فی لکیر کتنے ڈالر؟کہانیوں میں جب بھی لکیروں کا ذکر آتا ہے تو زیادہ ترتین یا سات لکیروں کا ذکر کیا جاتا ہے لیکن وہ عام لکیریں ہوتی ہیں جو کسی بھی چیز سے کھینچی جاتی ہیں جب کہ یہاں ناک سے لکیریں کھنچوانے کا ذکر ہے اور یہ ایک ''فن'' ہے۔

ہنر ہے خصوصیت ہے۔ ناک سے لکیریں کھنچنا اگر ہر کسی کے بس کا روگ ہوتا۔تو ہر جگہ لکیریں ہی لکیریں ہوتیں اور ہر کوئی ہر وقت کسی نہ کسی کے آگے ناک سے لکیریں کھینچتا ہوا نظر آتا۔سب سے پہلے تو سارا پاکستان باجماعت طور پر(تاجروں دکانداروں اور لیڈروں کو چھوڑ کر) اس کم بخت مہنگائی کے آگے لکیریں کھینچتا ہوا نظر آتا یا روپے کے آگے ناک رگڑ رگڑ کر چیختا کہ اب بس بھی کرو اور کتنا کروگے۔ پاتال تک پہنچ چکے ہو ہمیں ساتھ لے کر۔لیکن ایسا نہیں ناک سے لکیریں کھنچنے کا ہنر نہ ہر کسی کو آتا ہے نہ ہر کوئی یہ سکھاتا ہے

یونہی آتا نہیں انداز سجدہ

بہت کھیلا ہوں پیشانی سے پہلے


کہیے تو یہ کوئی انفرادی فن ہے بھی نہیں بلکہ اسے اگر جدی پشتی اور خاندانی فن قرار دیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔کیونکہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ موجودہ وقت میں جو لوگ''ناک'' کے اس فن میں ماہر ہیں وہ پشتاپشت سے اس ہنر کی مشق کرتے رہے ہیں۔ایک روایت کے مطابق اس''فن شریف'' کی ابتدا مغلیہ دورمیں ہوئی تھی۔اور جو لوگ ناک سے جتنی اچھی لکیریں کھینچتے ان کو اتنی ہی زیادہ جاگیریں مناصب اور انعامات اور خطابات دیے جاتے تھے۔

یہ جو پنچ ہزاری دس ہزاری وغیرہ مناصب ہوتے تھے یہ بھی ناک کی لکیروں کے حساب سے دیے جاتے تھے مغلیہ دور کے بعد سکھوں نے بھی اس روایت کو برقرار رکھا لیکن سب سے اونچا مقام اس فن کو انگریزوں کے بعد ملا۔ اکثر خطابات کے لیے باقاعدہ لکیروں کی تعداد مقرر تھی چنانچہ اس دور میں یہ فن انتہائی عروج کو پہنچ گیا اور بہت سارے خاندان اس فن میں مہارت حاصل کرکے کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔آنریبل آئی ایم ایف نے نئے سرے سے اس سلسلے کا آغاز کیا ہے۔

اس میں بھی ان تمام خاندانی ناک والوں کو کریڈٹ جاتا ہے۔اگرچہ اکا دکا نئے لوگ بھی اس پیشے اور فن میں آتے رہتے ہیں لیکن زیادہ تر اب بھی اس فن میں سرفہرست ہیں ویسے ہمیں آئی ایم ایف کا بھی ممنون ہونا چاہیے کہ اس نے ہمارے اس قدیم فن کا دوبارہ اجرا کردیا ہے۔اور یوں ہم پاکستانیوں کو دنیا بھر میں ممتاز کردیا ہے کیونکہ اب تقریباً ساری دنیا یہ مان چکی ہے کہ ناک سے لکیریں کھنچنے میں پاکستان کو ورلڈ چیمپئین کا درجہ حاصل ہے۔کوشش تو بہت سے لوگ کررہے ہیں۔

سنا ہے ہمارا پڑوسی ملک بھی ان تھک کوشش کررہاہے کہ ہم سے یہ اعزاز چھین کر اپنے نام کرلے۔لیکن کامیاب نہیں ہوپا رہا ہے وہ بھی دوسروں کی طرح پیروں میں ناک رگڑنے تک پہنچا ہے، ناک سے لکیریں کھنچنے کا ہنر اسے ابھی نہیں آیا ہے۔لیکن ان تمام حالات و واقعات سے قطع نظر ہمیں آج تک یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ آخر انسانی اعضا میں ناک کی اتنی اہمیت کیوں ہے اور بھی تو اچھے اچھے اور کام کے اعضا انسان کے پاس ہیں لیکن ذکر جب بھی آتا ہے ناک کا آتا ہے آخر کیوں؟

اگر سر کٹ جائے تو اس کا ذکر یوں نہیں کیا جاتا جس طرح ناک کٹنے کا ذکر ہوتا ہے بلکہ پشتو میں تو باقاعدہ قانون ہے کہ سر کٹے تو کٹ جائے لیکن ناک نہ کٹنے پائے۔ کوئی اچھا سا کارنامہ کرے تو واہ واہ اس نے قوم کی، خاندان کی یا وطن کی ناک رکھ لی۔لیکن کبھی کبھی اس کے ساتھ عجیب و غریب واقعات بھی ہوجاتے ہیں مثلاً پشتو کے ایک شاعر نے پشتو کی ایک کاہوت کو اردوشعرمیںیوں ڈھالا ہے

میں ہوں تمہاری ناک کٹانے کی فکر میں

تو کہہ رہی ہے میرے لیے نتھ بنا کے لا
Load Next Story