’بچوں کے لیے کاغذ پر لکھنا اور چھپی ہوئی کتاب سے پڑھنا ضروری ہے‘

’اسکرین‘ بچوں کا ذخیرۂ الفاظ ختم، پڑھنے کی صلاحیت متاثر کرنے اور سستی کا باعث ہے

دماغی نشوونما کے لیے روایتی طریقۂ تعلیم ہی مفید ہے، امریکی و یورپی ماہرین کا انکشاف ۔ فوٹو : فائل

یہ گذشتہ سال کی بات ہے کہ ایک مقامی اسکول کے منتظم جدید طریقہ کار اختیار کرنے کے حوالے سے فخریہ انداز میں فرما رہے تھے کہ وہ بہت جلد چھوٹے بچوں کی کلاسوں کو 'بے کتاب' یعنی کتابوں سے مکمل آزاد کر رہے ہیں۔ پھر چھوٹے بچے سب کچھ کلاس میں بڑی اسکرینوں پر دیکھ، سن اور پڑھ سکیں گے۔

ہمیں یہ بات سن کر بہت اچنبھا ہوا تھا اور ہم سوچنے لگے تھے کہ یہ بات ٹھیک ہے کہ دنیا ضرور آگے بڑھ رہی ہے، اور اب سب چیزیں ان جلتی بجھتی اور روشن اسکرینوں پر سمٹ رہی ہیں، لیکن ایک ننھے بچے کے سیکھنے کے عمل میں طبعیی (Physicla) چیزوں اور بالخصوص ایک مجسم کتاب کا ہونا کس قدر اہم ہوتا ہے، وہ ان اسکول کے ناخداؤں کے دھیان میں کیوں نہیں۔۔۔؟

کیا بچوں کے لیے مختلف تعلیمی کھلونے، رنگ برنگے بلاکس، اور کھیلنے کی دیگر اشیا پر حروف تہجی وغیرہ موجود ہونا اس بات کا ثبوت نہیں کہ کسی مجسم چیز کی اہمیت اپنی جگہ برقرار ہے۔

ایسے ہی 'اسکرین' کے بہ جائے کیا چَھپی ہوئی کتاب کا ہونا کیا اس کے لیے تعلیم کی اہمیت میں اضافہ نہیں کرے گا؟ اس کے سامنے کسی محدود اسکرین کے بہ جائے پوری ایک کتاب موجود ہوگی، اور وہ کتاب کسی چارجنگ، بجلی یا بٹن دبانے کے تکلف کے بغیر اس کے لیے بہ آسانی دست یاب اور پڑھنے کے لائق ہوگی۔

یہ سارے امور ایک محدود سی برقی اسکرین سے کیسے پورے ہو سکتے ہیں؟ اسکول کے بچے کے لیے اپنی تدریسی کتابوں کے صفحات کو چھونے کا تجربہ کرنا اور انھیں الٹنا پلٹنا ایک بہت بھرپور چیز ہے، اس سے بچہ اپنے سبق کی جانب زیادہ متوجہ اور منہمک ہوتا ہے، یقیناً رنگ بدلتی اور جلتی بجھتی سی 'اسکرین' اس کا اتنا بھرپور متبادل نہیں ہو سکتی۔

ہم دیکھتے ہیں کہ بچوں کو اپنے کچھ کھلونے اتنے اچھے لگتے ہیں کہ وہ انھیں ہمیشہ اپنے پاس رکھتے ہیں، یہاں تک کہ اپنے بستوں میں ڈال کر اسکول بھی لے جاتے ہیں۔ یہ ان کے سیکھنے اور تعلق پیدا کرنے کی ابتدا ہوتی ہے۔ ایسے ہی اگر انھیں کسی کتاب سے دل چسپی ہوگی تو پھر ایسا ہی رشتہ اور تعلق اس درسی کتاب سے بھی بننے لگے گا۔

پھر کیا ہم اپنے بچپن میں نئی کتابوں کو چھونے اور اس صاف ستھرے اور اجلے صفحات کی خوش بو محسوس کرنے کے ایک مسرت انگیز تجربے کو آج بھی یاد نہیں کرتے؟ ذرا سوچیے، اگر یہ سب کچھ ایک 'اسکرین' پر ہوگا، تو بچہ اس سے کوئی لگن محسوس کرے گا، تو کیا اسے اپنے اسمارٹ فون، 'ٹیبلٹ' یا 'لیپ ٹاپ' کو سینے سے لگائے گا۔۔۔؟ یقیناً ایسا بالکل نہیں ہوگا، کیوں کہ وہ ڈیجیٹل آلہ اس کے لیے بہ یک وقت بہت سی چیزوں کا ملغوبہ ہے، لیکن کتاب، اس کے لیے صرف کتاب ہے، اسے پسند ہے تو وہ اس سے وابستہ ہوسکتا ہے۔

اس کے مقابلے میں اس کا سبق فقط چند لمحوں کے لیے کسی 'اسکرین' پر آیا اور پھر بجھ گیا، گویا کہ ہوا میں تحلیل ہی ہوگیا، اس کا کوئی مجسم وجود سرے سے ہے ہی نہیں۔ یہ امر سیکھنے اور تعلیم کے لیے 'طبعیی طریقے' کی اہمیت سمجھانے کے لیے کافی ہے۔

یہاں ایسی مائیں جو اب اپنے بچوںکو تعلیم جیسا اہم 'فریضہ' بھی بہ ذریعہ 'اسکرین' دلوانے لگی ہیں، وہ ایک بار پھر غور کرلیں کہ اب ماہرین اس نتیجے پر پہنچنے لگے ہیں کہ یہ چھوٹے بچوں کے لیے کچھ زیادہ مفید نہیں۔ سوئیڈن کی یہ خبر ملاحظہ کیجیے کہ وہاں کی وزارت تعلیم نے آج سے پانچ سال قبل اپنے پرائمری اسکولوں کے لیے بھی ڈیجیٹل طریقہ کار اور 'لیپ ٹاپ' تجویز کر دیے تھے، لیکن اب سوئیڈین میں کتابوں کاپیوں اور پینسل کی واپسی ہونے لگی ہے، اس منصوبے کے تحت سوئیڈن کی حکومت اس سال 60 ملین یورو کی کتابیں خریدے گی۔

وہاں کی ایک اسکول ٹیچر جینیٹ ولبرگ پڑھائی کے لیے 'اسکرین' پر مکمل انحصار درست قرار نہیں دیتیں، ان کا کہنا ہے کہ ''بچے پڑھنے میں سست ہو چکے ہیں، ان کا الفاظ کا ذخیرہ بھی مختصر ہے، ان کی فہم بھی متاثر ہو رہی ہے۔ میرے خیال میں بہت زیادہ 'ڈیجٹیلازیشن' کی وجہ سے ایسا ہوا ہے۔ اگرچہ مستقبل ڈیجیٹل ہی ہے، اس لیے ہمیںبچوں کو یہ جدید طریقہ بھی سکھانا چاہیے، لیکن کتاب اور اسکرین کے درمیان ایک توازن ہونا چاہیے۔''

جنوبی سوئیڈن میں بچوں کو اسکول آنے کے بعد اپنا موبائل فون کلاس سے باہر ہی رکھوانا پڑتا ہے، کیوں کہ یہاں انھیں 'لیپ ٹاپ' یا کسی برقی آلے کے بہ جائے پڑھنے کے لیے کاغذ پر چھپی ہوئی کتاب فراہم کی جاتی ہے۔ اس تجربے کے حوالے سے ایک بچی بتاتی ہے کہ 'لیپ ٹاپ' کے مقابلے میں کتاب میں زیادہ تفصیل ہے، نیز کتاب میں انھیں خود پڑھنا پڑتا ہے، کیوں کہ پہلے تو 'لیپ ٹاپ' خود ہی پڑھ کر سنا دیتا تھا، اس بچی نے یہ شکایت بھی کہ اسے ہاتھ سے لکھنے میں مشکل ہوتی ہے۔

سوئیڈن میں اسکولوں کی وزیر لأوٹا اڈہوم میرے کے خیال میں ڈیجیٹل طریقہ ذرا بڑے بچوں کے لیے ہونا چاہیے۔ تحقیق یہ بتاتی ہے کہ چھوٹے بچوں کو بہت زیادہ دیر 'اسکرین' کے سامنے نہیں گزارنا چاہیے۔

انھیں کتابوں سے پڑھنا زیادہ ضروری ہے۔ اس طرح بچے آسانی سے سمجھ لیتے ہیں، انھیں کسی تعلیمی ٹیسٹ کی تیاری کے لیے صرف کوئی ڈیجیٹل لنک (Link) دے دینا مناسب نہیں۔ سوئیڈین کے وزیراعظم اُلف کرسٹریسون (Ulf Kristersson) بھی اپنے ملک میں روایتی تعلیم کے حق میں ہیں، انھوں نے 'پڑھنے' کے ایک مقابلے میں کام یاب بچوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ایک خصوصی پروگرام بھی رکھا۔


آج سوئیڈن جیسے ترقی یافتہ ملک میں یہ حقیقت آشکار ہو چکی ہے کہ اسکول کے بچوں کو کتابیں اور کاپیوں ہی سے پڑھانا زیادہ بہتر عمل ہے۔ اس لیے تعلیمی مقصد کے لیے بچوں کو 'اسکرین' کی اجازت اور آزادی دینے والے والدین ایک بار پھر اپنے طرز عمل پر نظرثانی کرلیجیے۔ کہیں وہ اپنے تئیں کسی اچھے عمل سے الٹا بچوں کی نشوونما اور ان کے تعلیمی فہم پر مضر اثرات ڈالنے کا باعث تو نہیں بن رہے؟

جدید تدریسی نظام میں جہاں طبع شدہ کتابوں سے دوری ہو رہی ہے، وہیں بچے لکھنے کے عمل سے بھی دور ہوتے جا رہے ہیں۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ جب ہم ہاتھ سے لکھ رہے ہوتے ہیں، تو اس دوران ہمارے دماغ کے 12 حصے متحرک ہوتے ہیں۔ یہی نہیں ہاتھ سے کچھ بھی لکھتے ہوئے ہمارے ہاتھ کے 30 سے زیادہ پٹّھے اور ہاتھ کے 17سے زیادہ جوڑوں کو مل کر کام کرنا ہوتا ہے۔ اس طرح یہ بہترین جسمانی سرگرمی بھی بن جاتی ہے۔

ہاتھ سے لکھتے ہوئے ہمارے دماغ میں لفظوں کی ایک یادداشت بھی مرتب ہوتی ہے اور ہمارے ذہن میں مختلف حروف ایک خاص خیال کے مطابق تخلیق پاتے ہیں، اس طرح بچوں کے لیے سیکھنے کا عمل آسان ہو جاتا ہے۔ ایک یورپی سروے کے مطابق آج کے بچے ہاتھ سے لکھنا نہیں چاہتے، انھیں اس حوالے سے شدید دقت کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔

ریڈیو جرمن کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق نوزائیدہ بچے چیزوں پر گرفت کرنے کی فطری کوشش کرتے ہیں۔ پنسر گریسپ (Pincer Grasp) یعنی ایک ایسی گرفت جس میں ہاتھ کا انگوٹھا بھی استعمال ہوتا ہے۔ وہ بچے میں چھے ماہ کی عمر سے شروع ہو جاتی ہے۔ چار برس کی عمر میں بچے جوتوں کی فیتے باندھنا اور پھر توجہ دی جائے تو لکھنا سیکھ لیتے ہیں، یعنی یہ نشوونما بالواسطہ یا بلاواسطہ بچوں کے ہاتھ سے لکھنے سے بھی منسلک ہے۔

سوئیڈن کے اسکولوں میں کتابوں کی واپسی کے ساتھ یہ امر بھی دل چسپ ہے کہ جرمنی کے سب سے بڑے صوبے بویریا (Bavaria) کے ایک اسکول میں اب بچوں کو باقاعدہ ہاتھ کی لکھائی سکھانے پر توجہ دی جا رہی ہے۔ وہاں بچوں کی لکھائی پر تحقیق کے بعد ایک ایسا طریقہ کار وضع کیا گیا ہے کہ جس سے کھیل ہی کھیل میں بچے اپنے ہاتھ کی انگلیوں کا درست استعمال اور ان کی حرکت میں مہارت حاصل کر سکتے ہیں، تاکہ انھیں لکھنے کے عمل میں بھی معاونت حاصل ہو۔

جرمنی میں 'اسکول ٹیچر ایسوسی ایشن' کے مطابق پرائمری اسکولوں میں لڑکوں میں سے نصف اور تین میں سے ایک لڑکی کو ہاتھ سے لکھنے میں دشواری ہوتی ہے۔ اس ضمن میں ایک خصوصی ڈیجیٹل قلم کی مدد سے ان کے ہاتھ سے لکھنے کی کمزوریوں کا پتا لگایا جاتا ہے۔ یہ خصوصی قلم اسکرین پر وہ ساری تحریریں دکھاتا جاتا ہے، جو بچہ اس قلم سے کسی کاغذ پر لکھ رہا ہوتا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ لکھتے ہوئے بچے کے ہاتھ کے دباؤ، اس کی حرکت اور رفتار وغیرہ کی مدد سے راہ نما معلومات بھی جمع کر لیتا ہے، جس سے لکھنے کے لیے اس بچے کی اصلاح ممکن ہوتی ہے۔ اس موضوع پر خصوصی تحقیق کرنے والی ایک جرمن محقق ماریا نیلا ڈیاز مائر اس بات کا جائزہ لیتی ہیں کہ قلم کیسے پکڑتے ہیں اور لکھنے میں روانی کتنی ہے۔ وہ کہتی ہیں 'جب ہم ہاتھ سے لکھنے کی بات کرتے ہیں، تو ہماری مراد یہ پوری سرگرمی ہوتی ہے، جس سے لکھنے کا عمل مکمل ہوتا ہے۔'

بچوں میں لکھنے سے عدم دل چسپی کے حوالے 'ماریا نیلا' کہتی ہیں کہ اب بچوں کی لکھائی خراب ہو رہی ہے، وہ دباؤ میں لکھتے ہیں اور ان کا لکھا ہوا پڑھا نہیں جاتا، لیکن جب ان کی حوصلہ افزائی کی جائے، تو یہ بہتر لکھنے لگتے ہیں۔ اس طریقۂ کار کی مدد سے اساتذہ بچوں کو لکھنے کی تربیت فراہم کر سکتے ہیں۔ تعلیمی نظام میں ہاتھ کی لکھائی کا نعم البدل نہیں ہونا چاہیے، یہ ہمارے دماغ کے لیے انتہائی ضروری عمل ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ہر ہفتے ایک گھنٹے ہاتھ سے لکھنے سے بھی لکھنے کی صلاحیت بہتر ہوتی ہے۔ اس سے بچے لکھنا پسند بھی کرنے لگتے ہیں۔

اسی طرح ریڈیو 'وائس آف امریکا' نے بھی یہ انکشاف کیا ہے کہ گذشتہ ماہ امریکی ریاست کیلی فورنیا میں بھی اسکولوں میں ہاتھ کی لکھائی کو نصاب کا لازمی حصہ بنا دیا گیا ہے۔ امریکا کی بیش تر ریاستوں کے بچے ہاتھ کی لکھی ہوئی ایسی تحریر پڑھنے سے قاصر ہیں، جس میں حروف ذرا ملا ملا کر لکھے گئے ہوں، کیوں کہ یہ چیز ان کی تعلیم کا حصہ نہیں رہی۔ جدید دور میں اب یہ ہاتھ سے لکھنا اور پھر اچھی تحریر یا خوش خط لکھنا تیسری دنیا کی کوئی چیز سمجھی جاتی ہے۔ جدید دور کی تعلیم میں تو لکھنے کے لیے انگلی کی جُنبش کا تکلف بھی اب باقی نہیں رہا، محض آپ کی بات سن کر بھی 'خود کار' طریقے سے حروف لکھے جا رہے ہیں۔ اس لیے بچے اب اس ہاتھ سے لکھنے سے بالکل ناواقف ہو چکے ہیں اور تختی وغیرہ لکھنا تو اب اس سے بھی پہلے کی باتیں ہو چکی ہیں۔

2010-2011ء میں امریکا میں ایک مشترکہ تعلیمی نصاب دیا گیا، جس میں بچوں کے لیے ہاتھ کی لکھائی کا بالکل خاتمہ کر دیا گیا تھا۔ اس وقت امریکا کی 41 ریاستوں نے اس نصاب کو نافذ بھی کر دیا، لیکن اب 21 کے قریب امریکی ریاستوں نے دوبارہ ہاتھ سے لکھنے کو اپنے نصاب کا حصہ بنا لیا ہے، جب کہ دیگر کچھ ریاستوں میں بھی اس حوالے سے سوچ بچار جاری ہے۔

جو حلقے وہاں بچوں کے ہاتھ سے لکھنا سکھانے کے حق میں ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہاتھ کی لکھائی دماغ کی نشوونما اور انسانی یادداشت کے لیے بے حد مفید ہے اور ہاتھ کی مدد سے کیے جانے والے کاموں کی مہارت میں بھی اضافہ کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ قدیم تاریخی دستاویزات بھی اسی 'خط' (لکھائی) میں ہیں، اس لیے اگر بچے اس طرزِِ تحریر سے نابلد ہوئے، تو پھر اس سے براہ راست استفادے سے محروم رہ جائیں گے۔

جب کہ ناقدین کہتے ہیں کہ عام زندگی میں ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریر کی ضرورت نہ ہونے کے برابر ہے، اس لیے بچوں پر اس کا بوجھ ڈالنا وقت ضایع کرنے کے مترادف ہے۔ یقیناً ایسے لوگ بچوں کے سیکھنے اور جاننے کے عمل سے انصاف نہیں کر رہے۔ ایک جرمن ٹیچر کا کہنا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ بچے اسکرین کے سامنے کم وقت گزاریں۔ اس کے بہ جائے ایسے کام کریں جو انھیں کرنے چاہیئں، فطرت کے ساتھ وقت گزاریں، کھانا بنائیں یا ایسے کام کریں جس میں ہاتھوں کا زیادہ استعمال ہوتا ہے۔

ہر چند کہ زندگی کے بہت سے کام کوئی لفظ ہاتھ سے لکھے بغیر ہونے لگے ہیں، حتیٰ کہ ہمارے دستخط کی جگہ بھی ہماری انگلیوں کے نشان کام آنے لگے ہیں، ایسے میں والدین کو چاہیے کہ بچوں کو کسی نہ کسی سطح پر ہاتھ سے لکھنے اور چھپی ہوئی کتابوں سے پڑھنے سے منسلک رکھیں، بالخصوص جب وہ ابتدائی کلاسوں میں ہوں۔ باقی اس حقیقت سے مفر نہیں کہ ہم چاہے کتنے ہی مضر اثرات کی بات کرلیں، لیکن ہمارے ہاتھ کے موبائل سے لے کر دفاتر اور مختلف امور تک یہ 'اسکرین' ہم پر غالب ہو رہی ہے، لیکن اگر کم سنی سے بچے کو اسکرین میں جھونک دیا، تو یہ اس کی ذہنی صحت کے ساتھ مستقبل میں اس کی قابلیت اور لیاقت پر بھی اثرانداز ہو سکتا ہے۔
Load Next Story