جاب کوٹہ مقرر ہونے کے باوجود ہزاروں خصوصی افراد سرکاری نوکریوں سے محروم
پنجاب میں مجموعی طور پر 3 لاکھ 38 ہزار 634 معذور افراد رجسٹرڈ ہیں
پاکستان میں خصوصی افراد کے لیے جاب کوٹہ مقرر ہونے کے باوجود ہزاروں خصوصی افراد سرکاری نوکریوں سے محروم ہیں جبکہ خواجہ سراؤں کے لیے کوئی جاب کوٹہ تو مقرر نہیں تاہم چند محکموں میں کنٹریکٹ کی بنیاد پر خواجہ سراؤں کو بھرتی کیا گیا ہے۔
خصوصی افراد کا کہنا ہے حقوق سے متعلق آگاہی کے فقدان، دفاتر میں آنے جانے کے لئے ٹرانسپورٹ میسر نہ ہونے اور دفاتر میں بھی خصوصی افراد کے لیے بنیادی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے خصوصی افراد نوکری نہیں کر پاتے ہیں۔
ذکیہ پروین کا تعلق لاہور سے ہے، پولیو کا شکار ہونے کی وجہ سے وہ بچپن سے چلنے سے معذور ہیں اور وہیل چیئر استعمال کرتی ہیں۔ ذکیہ پروین نے بتایا کہ ان کے شوہر بھی سننے اور بولنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ انہوں نے خود انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کر رکھا ہے، بوتیک کا کام بھی جانتی ہیں۔ وہ گزشتہ کئی برس سے سرکاری نوکری کے لیے کوشش کرچکی ہیں لیکن انہیں نوکری نہیں مل سکی۔
ذکیہ پروین کی طرح ہزاروں ایسے خصوصی افراد ہیں جو تعلیم، ہنرمندی اور صلاحیت ہونے کے باوجود سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں نوکری حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ رائٹس آف اسپیشل پرسنز ویلفیئر فاؤنڈیشن ( آر او ایس پی) کے صدر واجد حسین کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے اعداد وشمار کے مطابق پاکستان کی مجموعی آبادی کا 15 سے 20 فیصد افراد کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہیں جبکہ ان کے لیے جاب کوٹہ صرف تین فیصد ہے۔
واجد حسین نے بتایا کہ خصوصی افراد کے نوکری نہ کرنے کی ایک وجہ آگاہی نہ ہونا ہے، ایسے افراد کا خاندان یہ سمجھتا ہے کہ وہ آفس کیسے جائے گا۔ اس کے علاوہ دفاتر میں خصوصی افراد کے لیے بنیادی سہولتیں خاص طور پر واش روم میسر نہیں ہیں۔ پرائیویٹ اداروں میں خصوصی افراد کو جتنی تنخواہ آفر کی جاتی ہے وہ آدھی تو دفتر آنے جانے کے لیے ٹرانسپورٹ پر ہی خرچ ہو جاتی ہے۔
پاکستان پبلک ایڈمنسٹریشن ریسرچ سینٹر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی سال 2021-22 کی رپورٹ کے مطابق وفاقی محکموں میں دو فیصد کوٹہ کے تحت بھرتی کیے گئے خصوصی افراد کی تعداد 1704 ہے جبکہ وفاقی ملازمین کی کل تعداد 5لاکھ 75 ہزار 354 ہے۔ سب سے زیادہ خصوصی افراد پاکستان پوسٹ میں تعینات ہیں جن کی تعداد 357 ہے اور یہ محکمے کے مجموعی ملازمین کی تعداد کا 20 اعشاریہ 76 فیصد ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اسی طرح پاکستان نیوی سویلین اتھارٹی، نیول ہیڈکوارٹرز میں خصوصی افراد کی تعداد 252 ہے جو 14 اعشاریہ 65 فیصد ہیں۔ وفاقی دارالحکومت انتظامیہ میں 86 ملازم، فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں 83 جبکہ کنٹرولر جنرل آف کاؤنٹس ہیڈکوارٹر میں 51 خصوصی افراد ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔ کسی بھی وفاقی محکمے میں کوئی خواجہ سرا ملازم نہیں ہے۔
ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی بات کی جائے تو محکمہ سوشل ویلفیئر پنجاب کے اعداد وشمار کے مطابق صوبے میں مجموعی طور پر 3 لاکھ 38 ہزار 634 معذور افراد رجسٹرڈ ہیں۔ پنجاب میں خصوصی افراد کے لیے تین فیصد کوٹہ مختص ہے، اس کوٹے کے تحت 9ہزار 460 معذور افراد مختلف محکموں میں نوکریاں کر رہے ہیں جبکہ سیکڑوں پوسٹیں خالی ہیں۔ سرکاری ملازمت کرنے والے معذور افراد میں سے 7ہزار 477 جسمانی معذوری کا شکار ہیں۔ 987 نابینا، 853 بولنے اور سننے کی صلاحیت سے محروم جبکہ 143 دماغی معذوری کا شکار ہیں۔
انڈپینڈنٹ لیونگ ہوم کی بانی سیدہ امتیاز فاطمہ نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ''خصوصی افراد کو نوکری کے حصول کے لیے معذوری کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ یہ سرٹیفکیٹ حاصل کرنا ہی انتہائی مشکل ہے۔ لاہور جیسے شہر میں صرف سروسز اسپتال ہی معذوری کا سرٹیفکیٹ جاری کرسکتا ہے۔ خصوصی افراد کسی نہ کسی طرح یہاں پہنچتے ہیں اور سارا دن لگ جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب کے تمام تحصیل، ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز اسپتالوں سمیت بڑے سرکاری اسپتالوں کو معذوری کا سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا اختیار دیا جائے۔
معروف خواجہ سرا زعنائیہ چوہدری جو پنجاب پولیس میں کنٹرکٹ کی بنیاد پر بطور وکٹم سپورٹ آفیسر کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ خواجہ سراؤں کے لیے سرکاری نوکریوں میں کوئی کوٹہ مختص نہیں ہے۔ ان کی معلومات کے مطابق صرف پنجاب پولیس نے 40 خواجہ سراؤں کو کنٹریکٹ کی بنیاد پر بطور وکٹم سپورٹ آفیسر بھرتی کیا ہے۔
زعنائیہ چوہدری کہتی ہیں کہ سرکاری نوکری کے لیے تعلیمی ڈگری چاہیے ہوتی ہے۔ ان سمیت جتنی بھی پڑھی لکھی خواجہ سرا ہیں ان کے تعلیمی سرٹیفکیٹس پر ان کی جنس مرد لکھی ہوئی ہے۔ انہوں نے پہلے تو نادرا ریکارڈ میں اپنی جنس تبدیل کروائی، اس کے بعد تعلیمی اسناد میں جنس تبدیل کروانا پڑی لیکن یہ بہت طویل پراسیس ہے اور اس پر اخراجات بھی کافی زیادہ آتے ہیں۔ اس وجہ سے زیادہ تر خواجہ سراؤں نے اپنی تعلیمی اسناد میں جنس تبدیل نہیں کروائی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ممکن ہے کسی سرکاری محکمے میں کوئی خواجہ سرا ملازم ہوں لیکن وہ بطور خواجہ سرا نہیں بلکہ بطور مرد یا خاتون ہی بھرتی ہوئے ہوں گے۔
پنجاب سوشل پروٹیکشن اتھارٹی کی وائس چیئرپرسن جہان آرا وٹو نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب سوشل پروٹیکشن اتھارٹی ایک لاکھ کے قریب خصوصی افراد کو خدمت کارڈ کے ذریعے ماہانہ وظائف دیتی ہے، اس اتھارٹی کا سالانہ بجٹ ڈھائی ارب کے قریب ہے جو خصوصی افراد پر خرچ ہوتا ہے۔ محکمہ لیبر بھی خصوصی افراد کے حوالے سے کام کرتا ہے جو ملازمت میں ان کیلئے مختص 3 فیصد کوٹہ کو یقینی بنا رہی ہے جس پر 90 فیصد سے زائد کام ہوچکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب سوشل پروٹیکشن اتھارٹی اور اخوت نے مل کر 32 ہزار کے قریب خصوصی افراد کو بلاسود قرضے فراہم کیے جن کی ریکوری 100 فیصد ہے۔ افراد باہم معذوری کے لیے سب سے بڑا مسئلہ بنیادی تربیت، تعلیم، ٹیکنیکل اسکلز، انفراسٹرکچر تک رسائی، ٹرانسپورٹ اور علاج معالجے کی درست سہولیات کا نہ ہونا ہے۔
خصوصی افراد کا کہنا ہے حقوق سے متعلق آگاہی کے فقدان، دفاتر میں آنے جانے کے لئے ٹرانسپورٹ میسر نہ ہونے اور دفاتر میں بھی خصوصی افراد کے لیے بنیادی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے خصوصی افراد نوکری نہیں کر پاتے ہیں۔
ذکیہ پروین کا تعلق لاہور سے ہے، پولیو کا شکار ہونے کی وجہ سے وہ بچپن سے چلنے سے معذور ہیں اور وہیل چیئر استعمال کرتی ہیں۔ ذکیہ پروین نے بتایا کہ ان کے شوہر بھی سننے اور بولنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ انہوں نے خود انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کر رکھا ہے، بوتیک کا کام بھی جانتی ہیں۔ وہ گزشتہ کئی برس سے سرکاری نوکری کے لیے کوشش کرچکی ہیں لیکن انہیں نوکری نہیں مل سکی۔
ذکیہ پروین کی طرح ہزاروں ایسے خصوصی افراد ہیں جو تعلیم، ہنرمندی اور صلاحیت ہونے کے باوجود سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں نوکری حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ رائٹس آف اسپیشل پرسنز ویلفیئر فاؤنڈیشن ( آر او ایس پی) کے صدر واجد حسین کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے اعداد وشمار کے مطابق پاکستان کی مجموعی آبادی کا 15 سے 20 فیصد افراد کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہیں جبکہ ان کے لیے جاب کوٹہ صرف تین فیصد ہے۔
واجد حسین نے بتایا کہ خصوصی افراد کے نوکری نہ کرنے کی ایک وجہ آگاہی نہ ہونا ہے، ایسے افراد کا خاندان یہ سمجھتا ہے کہ وہ آفس کیسے جائے گا۔ اس کے علاوہ دفاتر میں خصوصی افراد کے لیے بنیادی سہولتیں خاص طور پر واش روم میسر نہیں ہیں۔ پرائیویٹ اداروں میں خصوصی افراد کو جتنی تنخواہ آفر کی جاتی ہے وہ آدھی تو دفتر آنے جانے کے لیے ٹرانسپورٹ پر ہی خرچ ہو جاتی ہے۔
پاکستان پبلک ایڈمنسٹریشن ریسرچ سینٹر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی سال 2021-22 کی رپورٹ کے مطابق وفاقی محکموں میں دو فیصد کوٹہ کے تحت بھرتی کیے گئے خصوصی افراد کی تعداد 1704 ہے جبکہ وفاقی ملازمین کی کل تعداد 5لاکھ 75 ہزار 354 ہے۔ سب سے زیادہ خصوصی افراد پاکستان پوسٹ میں تعینات ہیں جن کی تعداد 357 ہے اور یہ محکمے کے مجموعی ملازمین کی تعداد کا 20 اعشاریہ 76 فیصد ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اسی طرح پاکستان نیوی سویلین اتھارٹی، نیول ہیڈکوارٹرز میں خصوصی افراد کی تعداد 252 ہے جو 14 اعشاریہ 65 فیصد ہیں۔ وفاقی دارالحکومت انتظامیہ میں 86 ملازم، فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں 83 جبکہ کنٹرولر جنرل آف کاؤنٹس ہیڈکوارٹر میں 51 خصوصی افراد ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔ کسی بھی وفاقی محکمے میں کوئی خواجہ سرا ملازم نہیں ہے۔
ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی بات کی جائے تو محکمہ سوشل ویلفیئر پنجاب کے اعداد وشمار کے مطابق صوبے میں مجموعی طور پر 3 لاکھ 38 ہزار 634 معذور افراد رجسٹرڈ ہیں۔ پنجاب میں خصوصی افراد کے لیے تین فیصد کوٹہ مختص ہے، اس کوٹے کے تحت 9ہزار 460 معذور افراد مختلف محکموں میں نوکریاں کر رہے ہیں جبکہ سیکڑوں پوسٹیں خالی ہیں۔ سرکاری ملازمت کرنے والے معذور افراد میں سے 7ہزار 477 جسمانی معذوری کا شکار ہیں۔ 987 نابینا، 853 بولنے اور سننے کی صلاحیت سے محروم جبکہ 143 دماغی معذوری کا شکار ہیں۔
انڈپینڈنٹ لیونگ ہوم کی بانی سیدہ امتیاز فاطمہ نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ''خصوصی افراد کو نوکری کے حصول کے لیے معذوری کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ یہ سرٹیفکیٹ حاصل کرنا ہی انتہائی مشکل ہے۔ لاہور جیسے شہر میں صرف سروسز اسپتال ہی معذوری کا سرٹیفکیٹ جاری کرسکتا ہے۔ خصوصی افراد کسی نہ کسی طرح یہاں پہنچتے ہیں اور سارا دن لگ جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب کے تمام تحصیل، ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز اسپتالوں سمیت بڑے سرکاری اسپتالوں کو معذوری کا سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا اختیار دیا جائے۔
معروف خواجہ سرا زعنائیہ چوہدری جو پنجاب پولیس میں کنٹرکٹ کی بنیاد پر بطور وکٹم سپورٹ آفیسر کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ خواجہ سراؤں کے لیے سرکاری نوکریوں میں کوئی کوٹہ مختص نہیں ہے۔ ان کی معلومات کے مطابق صرف پنجاب پولیس نے 40 خواجہ سراؤں کو کنٹریکٹ کی بنیاد پر بطور وکٹم سپورٹ آفیسر بھرتی کیا ہے۔
زعنائیہ چوہدری کہتی ہیں کہ سرکاری نوکری کے لیے تعلیمی ڈگری چاہیے ہوتی ہے۔ ان سمیت جتنی بھی پڑھی لکھی خواجہ سرا ہیں ان کے تعلیمی سرٹیفکیٹس پر ان کی جنس مرد لکھی ہوئی ہے۔ انہوں نے پہلے تو نادرا ریکارڈ میں اپنی جنس تبدیل کروائی، اس کے بعد تعلیمی اسناد میں جنس تبدیل کروانا پڑی لیکن یہ بہت طویل پراسیس ہے اور اس پر اخراجات بھی کافی زیادہ آتے ہیں۔ اس وجہ سے زیادہ تر خواجہ سراؤں نے اپنی تعلیمی اسناد میں جنس تبدیل نہیں کروائی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ممکن ہے کسی سرکاری محکمے میں کوئی خواجہ سرا ملازم ہوں لیکن وہ بطور خواجہ سرا نہیں بلکہ بطور مرد یا خاتون ہی بھرتی ہوئے ہوں گے۔
پنجاب سوشل پروٹیکشن اتھارٹی کی وائس چیئرپرسن جہان آرا وٹو نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب سوشل پروٹیکشن اتھارٹی ایک لاکھ کے قریب خصوصی افراد کو خدمت کارڈ کے ذریعے ماہانہ وظائف دیتی ہے، اس اتھارٹی کا سالانہ بجٹ ڈھائی ارب کے قریب ہے جو خصوصی افراد پر خرچ ہوتا ہے۔ محکمہ لیبر بھی خصوصی افراد کے حوالے سے کام کرتا ہے جو ملازمت میں ان کیلئے مختص 3 فیصد کوٹہ کو یقینی بنا رہی ہے جس پر 90 فیصد سے زائد کام ہوچکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب سوشل پروٹیکشن اتھارٹی اور اخوت نے مل کر 32 ہزار کے قریب خصوصی افراد کو بلاسود قرضے فراہم کیے جن کی ریکوری 100 فیصد ہے۔ افراد باہم معذوری کے لیے سب سے بڑا مسئلہ بنیادی تربیت، تعلیم، ٹیکنیکل اسکلز، انفراسٹرکچر تک رسائی، ٹرانسپورٹ اور علاج معالجے کی درست سہولیات کا نہ ہونا ہے۔