اردو یونیورسٹی ووٹنگ کی بنیاد پر وائس چانسلر کی دوڑ سے سندھ کا امیدوار آؤٹ
اساتذہ کے سلیکشن بورڈ کو برقرار رکھنے کا فیصلہ آنے والے نئے وائس چانسلر پر چھوڑ دیا گیا
وفاقی اردو یونیورسٹی کی سینیٹ نے ووٹنگ کی بنیاد پر سندھ سے وائس چانسلر کے امیدوار کو اس دوڑ سے باہر کر دیا ہے اور جن تین ناموں کو وائس چانسلر کے موزوں ناموں کے طور پر صدر مملکت/چانسلر یونیورسٹی ڈاکٹر عارف علوی کے حوالے کیا گیا ہے ان میں صف اول پر ڈاکٹر بخت جہاں، دوسرے پر ڈاکٹر محمد علی شاہ اور تیسرے پر ڈاکٹر ضابطہ خان شنواری شامل ہیں۔
اس بات کا فیصلہ ایوان صدر اسلام آباد میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی زیر صدارت منعقدہ یونیورسٹی سینیٹ کے اجلاس میں کیا گیا۔
اجلاس میں پیش کیے گئے پانچ ناموں میں سے ابتدائی دو ناموں ڈاکٹر بخت جہاں اور ڈاکٹر محمد علی شاہ پر سینیٹ کے تمام ہی اراکین نے اتفاق کیا تاہم بعض اراکین نے تیسرے نام ڈاکٹر ضابطہ خان کی جگہ ڈاکٹر اطہر محبوب کا نام پیش کیا جس پر کافی بحث کے بعد ووٹنگ کا فیصلہ کیا گیا اور ووٹنگ کے نتیجے کی صورت میں سندھ سے شامل واحد امیدوار ڈاکٹر اطہر محبوب 6 کے مقابلے میں 8 ووٹس سے فہرست سے نکال دیا گیا اور ڈاکٹر ضابطہ خان کو شامل رکھا گیا۔ اس ووٹنگ میں صدر مملکت نے حصہ نہیں لیا۔
اجلاس میں شامل ایک رکن نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ اجلاس میں لیکچرر اور اسسٹنٹ پروفیسر کے سلیکشن بورڈ پر جب فیصلہ کا وقت آیا تو کئی سینیٹر کی جانب سے کہا گیا کہ جس انکوائری رپورٹ پر اس بورڈ کو منسوخ کرنے کی بات ہو رہی ہے یہ رپورٹ تو ہم اراکین سے شیئر ہی نہیں کی گئی جس پر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے شدید ناگواری کا اظہار کیا جس کے بعد حتمی فیصلہ کیا گیا کہ فی الحال سلیکشن بورڈ کو برقرار رکھا جائے اور نئے وائس چانسلر کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ اپنی تقرری کے چھ ماہ میں اس حوالے سے فیصلہ کریں کہ آیا اسے برقرار رکھنا ہے یا پھر اسے منسوخ کرکے نیا بورڈ کرایا جائے۔
ادھر سینیٹ کا اجلاس یونیورسٹی کے مالی بحران پر کوئی فیصلہ نہیں کرسکا اور اس بحران کو بھی آنے والے نئے وائس چانسلر کے لیے ہی چھوڑ دیا گیا۔
''ایکسپریس'' نے وائس چانسلر کے امیدوار ڈاکٹر جہاں بخت سے سوال کیا کہ وہ یونیورسٹی کو مالی بحران سے کیسے نجات دلائیں گے جس پر ان کا کہنا تھا کہ وہ اسٹیک ہولڈر کو ساتھ لے کر چلیں گے اور ان کی مشاورت سے فیصلہ کریں گے، اسٹیک ہولڈر کو بھی چاہیے کہ قانون کی حکمرانی اور یونیورسٹی کو own کریں۔
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ جو قانون کہتا ہے میں وہیں سے بیٹھ کر یونیورسٹی چلاؤں گا اب قانون دیکھنا ہوگا کہ کیا لکھا ہے۔
وائس چانسلر کے دوسرے امیدوار ڈاکٹر محمد علی شاہ سے رابطہ کرکے پوچھا کہ وائس چانسلر بننے کی صورت میں یونیورسٹی کو مالی بحران سے نکالنے کے لیے ان کے پاس کیا حکمت عملی ہے؟ جس پر ان کا کہنا تھا کہ یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں اکثر پبلک سیکٹر جامعات اس مشکل میں گرفتار ہیں، ہمیں ذرائع بڑھانے اور اخراجات کو قابو کرنا ہوگا اور سرکاری و نجی شعبے سے اس سلسلے میں تعاون لینا ہوگا۔
پرنسپل سیٹ کی منتقلی کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ وائس چانسلر بننے کی صورت میں کراچی اور اسلام آباد آنا جانا رہے گا جو دونوں شہروں میں کیمپسز ہیں تو کسی ایک جگہ قیام ممکن نہیں ہے۔
اس بات کا فیصلہ ایوان صدر اسلام آباد میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی زیر صدارت منعقدہ یونیورسٹی سینیٹ کے اجلاس میں کیا گیا۔
اجلاس میں پیش کیے گئے پانچ ناموں میں سے ابتدائی دو ناموں ڈاکٹر بخت جہاں اور ڈاکٹر محمد علی شاہ پر سینیٹ کے تمام ہی اراکین نے اتفاق کیا تاہم بعض اراکین نے تیسرے نام ڈاکٹر ضابطہ خان کی جگہ ڈاکٹر اطہر محبوب کا نام پیش کیا جس پر کافی بحث کے بعد ووٹنگ کا فیصلہ کیا گیا اور ووٹنگ کے نتیجے کی صورت میں سندھ سے شامل واحد امیدوار ڈاکٹر اطہر محبوب 6 کے مقابلے میں 8 ووٹس سے فہرست سے نکال دیا گیا اور ڈاکٹر ضابطہ خان کو شامل رکھا گیا۔ اس ووٹنگ میں صدر مملکت نے حصہ نہیں لیا۔
اجلاس میں شامل ایک رکن نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ اجلاس میں لیکچرر اور اسسٹنٹ پروفیسر کے سلیکشن بورڈ پر جب فیصلہ کا وقت آیا تو کئی سینیٹر کی جانب سے کہا گیا کہ جس انکوائری رپورٹ پر اس بورڈ کو منسوخ کرنے کی بات ہو رہی ہے یہ رپورٹ تو ہم اراکین سے شیئر ہی نہیں کی گئی جس پر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے شدید ناگواری کا اظہار کیا جس کے بعد حتمی فیصلہ کیا گیا کہ فی الحال سلیکشن بورڈ کو برقرار رکھا جائے اور نئے وائس چانسلر کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ اپنی تقرری کے چھ ماہ میں اس حوالے سے فیصلہ کریں کہ آیا اسے برقرار رکھنا ہے یا پھر اسے منسوخ کرکے نیا بورڈ کرایا جائے۔
ادھر سینیٹ کا اجلاس یونیورسٹی کے مالی بحران پر کوئی فیصلہ نہیں کرسکا اور اس بحران کو بھی آنے والے نئے وائس چانسلر کے لیے ہی چھوڑ دیا گیا۔
''ایکسپریس'' نے وائس چانسلر کے امیدوار ڈاکٹر جہاں بخت سے سوال کیا کہ وہ یونیورسٹی کو مالی بحران سے کیسے نجات دلائیں گے جس پر ان کا کہنا تھا کہ وہ اسٹیک ہولڈر کو ساتھ لے کر چلیں گے اور ان کی مشاورت سے فیصلہ کریں گے، اسٹیک ہولڈر کو بھی چاہیے کہ قانون کی حکمرانی اور یونیورسٹی کو own کریں۔
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ جو قانون کہتا ہے میں وہیں سے بیٹھ کر یونیورسٹی چلاؤں گا اب قانون دیکھنا ہوگا کہ کیا لکھا ہے۔
وائس چانسلر کے دوسرے امیدوار ڈاکٹر محمد علی شاہ سے رابطہ کرکے پوچھا کہ وائس چانسلر بننے کی صورت میں یونیورسٹی کو مالی بحران سے نکالنے کے لیے ان کے پاس کیا حکمت عملی ہے؟ جس پر ان کا کہنا تھا کہ یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں اکثر پبلک سیکٹر جامعات اس مشکل میں گرفتار ہیں، ہمیں ذرائع بڑھانے اور اخراجات کو قابو کرنا ہوگا اور سرکاری و نجی شعبے سے اس سلسلے میں تعاون لینا ہوگا۔
پرنسپل سیٹ کی منتقلی کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ وائس چانسلر بننے کی صورت میں کراچی اور اسلام آباد آنا جانا رہے گا جو دونوں شہروں میں کیمپسز ہیں تو کسی ایک جگہ قیام ممکن نہیں ہے۔