پاکستان ایک نظر میں ہاں میں مجرم ہوں
جس روز سے میں نے سڑک کنارے اس کی لاش دیکھی ہے اُس روز سے مجھے اپنے آپ سے کراہت محسوس ہو رہی ہے ۔
دل دہلا دینے والے واقعے کودیکھ کر دور جاہلیت کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ لیکن دور جاہلیت میں بھی ایسا کہاں ہو تا تھا؟ ۔نبی مہر بان ﷺ کی بعثت سے قبل گنوار اور وحشی کہلائے جانے والے لوگ بھی اپنی بیٹیوں کے ساتھ روح کو زخمی کر نے والے ظلم روا نہیں رکھتے تھے جو امت محمدﷺ کے دعویدار ، ماڈرن اور روشن خیال دور کے باسیوں نے حواکی بیٹی کے ساتھ کیا ہے۔
فیصل آباد کی تحصیل گجر انوالہ میں کچھ عرصہ قبل یہاں کے چوہدری کی ایما ء پر اپنی شہوانی طاقتوں کے نشے میں مبتلا ہو کر بپھرے ہوئے انسان نما دردندوں نے گائوں کی ایک نا بالغ لڑکی کو پھندا دے کر قتل کر دیا تھا اور اب فرازانہ بھی ''ایوان عدل'' کی چار دیواری کے باہر انصاف کے ''گدی نشینوں''کے کمروں کے آس پاس بھائیوں کے غضب کا شکار ہوگئی، اس حاملہ خاتون کو بے دردی سے اینٹیں مار مار کر موت کے گھاٹ اتا دیا ا گیا۔گھنٹوں پر محیط اس خونی کھیل کوکھیلے جانے کے موقع پر پولیس کے ساتھ مجھ جیسے لوگ بھی اندھے،گونگے اور بہرے بنے اسے روکنے کی بجائے اسے انجوائے کرتے رہے۔بے بس و لا چار حواکی بیٹی اپنی جان بخشی کے لئے چیختی چلاتی رہی، معافیوں اور واسطوں کے ذریعے ان ظالموں کے غضب کو ٹھنڈا کر نے کو کوش کرتی رہی،پیروں کو ہاتھ لگائے اپنے نا کردہ گناہوں کی معافی مانگتی رہی، لیکن آہوں اور سسکیوں کے درد میں ڈوبے معافیوں اور واسطوں کے الفاظ نہ ا ن ظالموں کے غضب کو ٹھنڈا کر سکے اور نہ ہی یہاں مو جود محافطوں کی غیرت کو جگا سکے بلکہ ایک معصوم حوا کی بیٹی کے سنگساری کے منظر کو دیکھتے ہوئے ''عوام'' کہلانے والے مجھ جیسے لوگ بھی اس سارے خونی کھیل کو انجوائے کر تے رہے۔
صد شکر کہ فرازنہ کی لاش کو مردہ خانے میں رکھے ابھی دو ہی دن گزرے تھے کہ ہمارے محترم وزیراعظم نے اس کا نوٹس لیتے ہوئے فوری رپورٹ طلب کر لی اور اس کے کچھ ہی دیر بعد جناب چیف جسٹس نے بھی اس واقعے پر از خود نوٹس لیاہے۔ سمجھ سے بالا ہے کہ یہ کیسا مذاق ہے جو پچھلی کئی دہائیوں سے اس ملک کے حکمران یہاں کی رعایا کے ساتھ کرتے چلے آئے ہیں ۔ ان کے بنائے ہو ئے انصاف کے نظام میں انصاف کے حصول کی خاطر انصاف ہی کے دروازے پرفرزانہ جیسی لڑکی کو اینٹیں مار مار کے سنگسار کر دیا جاتا ہے۔ اور عوام کی حفاظت کے جھوٹے دعویداروں کالی پٹیاں آنکھوں پر باندھے ظالموں کیخلاف کارروائی کی بجائے صرف رپورٹ طلب کر کے فرزانہ کی لاش کی طرح اس کے کیس کو بھی سرد خانے کی نظر کردیتے ہیں۔ جبکہ تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے ملک میں ان جیسی رپورٹوں پر آج تک نہ تو کو ئی کارروائی ہو ئی اور نہ ذمہ داروں کا تعین کر تے ہوئے ان کے خلاف ایکشن لیا گیا۔
جس روز سے میں نے سڑک کنارے فرزانہ کی لاش دیکھی ہے اُس روز سے مجھے اپنے آپ سے کراہت محسوس ہو رہی ہے ۔ میں جب بھی آنکھیں بند کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو میری نظروں کے سامنے فرزانہ کا چہرہ آجا تا ہے جو مجھ سے سوال کر تا ہے کہ اگر میری جگہ تمہاری بیٹی ہوتی تو کیا پھر بھی تم گونگے،بہرے اور اندھے بنے رہتے۔ میں بوکھلاہٹ کا شکار ہو کے اپنی بیٹی کے معصوم چہرے کی طرف نظر دوڑا تا ہوں اور پھر اپنے ضمیر سے اس کا جواب حاصل کر تاہوں کہ اگر فرازنہ میری بیٹی ہو تی تو کیا پھر بھی میں خاموش تما شائی کی طرح اسے سنگسار ہو تے دیکھتا رہتا۔ نہیں با لکل نہیں ۔میری بیٹی تو میری جان کا ٹکڑا ہے۔ جب کبھی یہ بیمار ہوتی ہے یا اسے کبھی تکلیف پہنچتی ہے تو میری روح و جسم شدید اذیت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔یہ جو بھی خواہش کرتی ہے اسے پورا کر نے کے لئے میں آخری حد تک چلا جا تا ہوں۔ اس کے منہ سے ابھی بات نکلتی ہے تو میں اسے پورا کر دیتاہوں۔
قارئین محترم ! فرازانہ کی درد ناک موت پر نہ ہی میری روح کانپی اور نہ ہی جسم کے کسی حصے میں غم کی لہر دوڑی اس لئے میں اپنے آپ کو فرازانہ کامجرم سمجھتا ہوں ۔ ایک فرزانہ کا ہی نہیں بلکہ بھوک، افلاس اور کئی دنوں کے فاقوں سے لڑتے اور ان سے ہار مان کے مجبوری کے تحت غلط رستوں کی مسافر بننے والی کتنی بیٹیوں کا مجرم ہوں۔ غربت کی وجہ سے اپنے بچوں کو فروخت کر نے اور انہیں بھوک کی وجہ سے بلکتے دیکھ کر گلا دبا کے ان کو موت کی وادی کا مسافر بنانے والی ان مجبور ماؤں کا بھی مجرم ہوں۔ بیمار ماں کے علاج، جوان بیٹی کی شادی اور روزگار کے حصول کی خاطر در بدر بھٹکنے والے ان جوانوں جنہوں نے مجبور ہو کے جرم کی دنیا کو اپنے سینے سے لگایا میں ان کا بھی مجرم ہوں، دو دن کے فاقوں کے بعد سوکھی روٹی پانی میں میں بھگوکے اپنی بھوک مٹانے والوں کا بھی مجرم ہوں۔ مجھے اعتراف ہے ہاں میں مجرم ہوں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
فیصل آباد کی تحصیل گجر انوالہ میں کچھ عرصہ قبل یہاں کے چوہدری کی ایما ء پر اپنی شہوانی طاقتوں کے نشے میں مبتلا ہو کر بپھرے ہوئے انسان نما دردندوں نے گائوں کی ایک نا بالغ لڑکی کو پھندا دے کر قتل کر دیا تھا اور اب فرازانہ بھی ''ایوان عدل'' کی چار دیواری کے باہر انصاف کے ''گدی نشینوں''کے کمروں کے آس پاس بھائیوں کے غضب کا شکار ہوگئی، اس حاملہ خاتون کو بے دردی سے اینٹیں مار مار کر موت کے گھاٹ اتا دیا ا گیا۔گھنٹوں پر محیط اس خونی کھیل کوکھیلے جانے کے موقع پر پولیس کے ساتھ مجھ جیسے لوگ بھی اندھے،گونگے اور بہرے بنے اسے روکنے کی بجائے اسے انجوائے کرتے رہے۔بے بس و لا چار حواکی بیٹی اپنی جان بخشی کے لئے چیختی چلاتی رہی، معافیوں اور واسطوں کے ذریعے ان ظالموں کے غضب کو ٹھنڈا کر نے کو کوش کرتی رہی،پیروں کو ہاتھ لگائے اپنے نا کردہ گناہوں کی معافی مانگتی رہی، لیکن آہوں اور سسکیوں کے درد میں ڈوبے معافیوں اور واسطوں کے الفاظ نہ ا ن ظالموں کے غضب کو ٹھنڈا کر سکے اور نہ ہی یہاں مو جود محافطوں کی غیرت کو جگا سکے بلکہ ایک معصوم حوا کی بیٹی کے سنگساری کے منظر کو دیکھتے ہوئے ''عوام'' کہلانے والے مجھ جیسے لوگ بھی اس سارے خونی کھیل کو انجوائے کر تے رہے۔
صد شکر کہ فرازنہ کی لاش کو مردہ خانے میں رکھے ابھی دو ہی دن گزرے تھے کہ ہمارے محترم وزیراعظم نے اس کا نوٹس لیتے ہوئے فوری رپورٹ طلب کر لی اور اس کے کچھ ہی دیر بعد جناب چیف جسٹس نے بھی اس واقعے پر از خود نوٹس لیاہے۔ سمجھ سے بالا ہے کہ یہ کیسا مذاق ہے جو پچھلی کئی دہائیوں سے اس ملک کے حکمران یہاں کی رعایا کے ساتھ کرتے چلے آئے ہیں ۔ ان کے بنائے ہو ئے انصاف کے نظام میں انصاف کے حصول کی خاطر انصاف ہی کے دروازے پرفرزانہ جیسی لڑکی کو اینٹیں مار مار کے سنگسار کر دیا جاتا ہے۔ اور عوام کی حفاظت کے جھوٹے دعویداروں کالی پٹیاں آنکھوں پر باندھے ظالموں کیخلاف کارروائی کی بجائے صرف رپورٹ طلب کر کے فرزانہ کی لاش کی طرح اس کے کیس کو بھی سرد خانے کی نظر کردیتے ہیں۔ جبکہ تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے ملک میں ان جیسی رپورٹوں پر آج تک نہ تو کو ئی کارروائی ہو ئی اور نہ ذمہ داروں کا تعین کر تے ہوئے ان کے خلاف ایکشن لیا گیا۔
جس روز سے میں نے سڑک کنارے فرزانہ کی لاش دیکھی ہے اُس روز سے مجھے اپنے آپ سے کراہت محسوس ہو رہی ہے ۔ میں جب بھی آنکھیں بند کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو میری نظروں کے سامنے فرزانہ کا چہرہ آجا تا ہے جو مجھ سے سوال کر تا ہے کہ اگر میری جگہ تمہاری بیٹی ہوتی تو کیا پھر بھی تم گونگے،بہرے اور اندھے بنے رہتے۔ میں بوکھلاہٹ کا شکار ہو کے اپنی بیٹی کے معصوم چہرے کی طرف نظر دوڑا تا ہوں اور پھر اپنے ضمیر سے اس کا جواب حاصل کر تاہوں کہ اگر فرازنہ میری بیٹی ہو تی تو کیا پھر بھی میں خاموش تما شائی کی طرح اسے سنگسار ہو تے دیکھتا رہتا۔ نہیں با لکل نہیں ۔میری بیٹی تو میری جان کا ٹکڑا ہے۔ جب کبھی یہ بیمار ہوتی ہے یا اسے کبھی تکلیف پہنچتی ہے تو میری روح و جسم شدید اذیت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔یہ جو بھی خواہش کرتی ہے اسے پورا کر نے کے لئے میں آخری حد تک چلا جا تا ہوں۔ اس کے منہ سے ابھی بات نکلتی ہے تو میں اسے پورا کر دیتاہوں۔
قارئین محترم ! فرازانہ کی درد ناک موت پر نہ ہی میری روح کانپی اور نہ ہی جسم کے کسی حصے میں غم کی لہر دوڑی اس لئے میں اپنے آپ کو فرازانہ کامجرم سمجھتا ہوں ۔ ایک فرزانہ کا ہی نہیں بلکہ بھوک، افلاس اور کئی دنوں کے فاقوں سے لڑتے اور ان سے ہار مان کے مجبوری کے تحت غلط رستوں کی مسافر بننے والی کتنی بیٹیوں کا مجرم ہوں۔ غربت کی وجہ سے اپنے بچوں کو فروخت کر نے اور انہیں بھوک کی وجہ سے بلکتے دیکھ کر گلا دبا کے ان کو موت کی وادی کا مسافر بنانے والی ان مجبور ماؤں کا بھی مجرم ہوں۔ بیمار ماں کے علاج، جوان بیٹی کی شادی اور روزگار کے حصول کی خاطر در بدر بھٹکنے والے ان جوانوں جنہوں نے مجبور ہو کے جرم کی دنیا کو اپنے سینے سے لگایا میں ان کا بھی مجرم ہوں، دو دن کے فاقوں کے بعد سوکھی روٹی پانی میں میں بھگوکے اپنی بھوک مٹانے والوں کا بھی مجرم ہوں۔ مجھے اعتراف ہے ہاں میں مجرم ہوں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔