جیو نیوز کو دی گئی سزا کم ہے اضافے کیلئے عدالت جاسکتے ہیں وزیر دفاع
وزارت دفاع جیو کی جانب سے ہرجانے کے دعوے کا بھی مناسب جواب دے گی، خواجہ آصف
MANCHESTER:
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پیمرا کی جانب سے جیو کو دی گئی سزا بہت کم ہے وزارت دفاع اس سے مطمئن نہیں اورسزا میں اضافے کے لئے عدالت سے رجوع کرسکتی ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق وزارت دفاع کی جانب سے جاری بیان میں وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ 19 اپریل کو معروف صحافی حامد میر پر کراچی میں قاتلانہ حملے کے بعد جیو نے آئی ایس آئی کے سربراہ کا جو میڈیا ٹرائل کیا اس پر پیمرا کی سزا سے مطمئن نہیں، وزارت دفاع اس سزا میں اضافے کے لئے قانونی چارہ جوئی کا حق محفوظ رکھتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جیو کی جانب سے وزارت دفاع ، پیمرا اور آئی ایس آئی پر ہرجانے کا جو دعویٰ کیا ہے اس سلسلے میں بھی وزارت دفاع نے اپنا جواب تیار کرلیا ہے۔
آئی ایس آئی کے سربراہ کے میڈیا ٹرائل کے خلاف وزارت دفاع نے پیمرا میں جیو کے خلاف درخواست دائر کی تھی جس پر گزشتہ روز قائم مقام چیرمین پیمرا پرویز راٹھور کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں جیو نیوز کا لائسنس 15 روز کے لئے معطل کرکے ایک کروڑ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ جیو نیوز کے اینکر پرسن حامد میر پر 19 اپریل کو کراچی میں ایئرپورٹ کے قریب فائرنگ کی گئی تھی جس کے نتیجے میں وہ زخمی ہوگئے تاہم اس کے بعد جیو نیوز نے اس کا الزام نہ صرف آئی ایس آئی پر لگایا بلکہ اس کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام کو بھی قصوروار ٹھہرا کر پورا دن اس اہم قومی ادارے اور اس کے سربراہ کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کیا جاتا رہا اور حامد میر کی جانب سے ایف آئی آر درج کرانے سے قبل جیو نے اپنے ہی اسکرین پر ایف آئی آر در ج کرکے اپنے نیوز سینٹر کو تفتیشی سینٹر بنادیا اور اس کے نیوز اینکرز نے گویا چیف جسٹس بن کر آئی ایس آئی اور اس کے سربراہ کو مجرم قرار دے دیا۔
دوسری جانب جیو نیوز کی طرف سے پاکستانی فوج اور ملک کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی پر بلا سوچے سمجھے الزام تراشی سے گویا بھارتی میڈیا کی دلی مراد بر آئی اور اس نے چیخ چیخ کر زخمی صحافی سے اظہار یکجہتی سے زیادہ آئی ایس آئی کو ملوث کرنے کے پہلو کو نمایاں کیا۔ بھارتی چینلوں میں نام نہاد بریکنگ نیوز کا مرکزی نکتہ ہی پاکستانی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو بدنام کرنا تھا اور یہ سلسلہ پرنٹ میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹوں میں بھی نظر آیا۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے بھارتی میڈیا ایسے ہی کسی موقع کی تلاش میں تھا تاکہ وہ پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی کو بدنام کرسکے،بھارتی میڈیاکے بعد پاکستان دشمن بھارتی سیاستدان بھی جیو کی حمایت میں سامنے آگئے تھے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پیمرا کی جانب سے جیو کو دی گئی سزا بہت کم ہے وزارت دفاع اس سے مطمئن نہیں اورسزا میں اضافے کے لئے عدالت سے رجوع کرسکتی ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق وزارت دفاع کی جانب سے جاری بیان میں وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ 19 اپریل کو معروف صحافی حامد میر پر کراچی میں قاتلانہ حملے کے بعد جیو نے آئی ایس آئی کے سربراہ کا جو میڈیا ٹرائل کیا اس پر پیمرا کی سزا سے مطمئن نہیں، وزارت دفاع اس سزا میں اضافے کے لئے قانونی چارہ جوئی کا حق محفوظ رکھتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جیو کی جانب سے وزارت دفاع ، پیمرا اور آئی ایس آئی پر ہرجانے کا جو دعویٰ کیا ہے اس سلسلے میں بھی وزارت دفاع نے اپنا جواب تیار کرلیا ہے۔
آئی ایس آئی کے سربراہ کے میڈیا ٹرائل کے خلاف وزارت دفاع نے پیمرا میں جیو کے خلاف درخواست دائر کی تھی جس پر گزشتہ روز قائم مقام چیرمین پیمرا پرویز راٹھور کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں جیو نیوز کا لائسنس 15 روز کے لئے معطل کرکے ایک کروڑ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ جیو نیوز کے اینکر پرسن حامد میر پر 19 اپریل کو کراچی میں ایئرپورٹ کے قریب فائرنگ کی گئی تھی جس کے نتیجے میں وہ زخمی ہوگئے تاہم اس کے بعد جیو نیوز نے اس کا الزام نہ صرف آئی ایس آئی پر لگایا بلکہ اس کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام کو بھی قصوروار ٹھہرا کر پورا دن اس اہم قومی ادارے اور اس کے سربراہ کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کیا جاتا رہا اور حامد میر کی جانب سے ایف آئی آر درج کرانے سے قبل جیو نے اپنے ہی اسکرین پر ایف آئی آر در ج کرکے اپنے نیوز سینٹر کو تفتیشی سینٹر بنادیا اور اس کے نیوز اینکرز نے گویا چیف جسٹس بن کر آئی ایس آئی اور اس کے سربراہ کو مجرم قرار دے دیا۔
دوسری جانب جیو نیوز کی طرف سے پاکستانی فوج اور ملک کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی پر بلا سوچے سمجھے الزام تراشی سے گویا بھارتی میڈیا کی دلی مراد بر آئی اور اس نے چیخ چیخ کر زخمی صحافی سے اظہار یکجہتی سے زیادہ آئی ایس آئی کو ملوث کرنے کے پہلو کو نمایاں کیا۔ بھارتی چینلوں میں نام نہاد بریکنگ نیوز کا مرکزی نکتہ ہی پاکستانی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو بدنام کرنا تھا اور یہ سلسلہ پرنٹ میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹوں میں بھی نظر آیا۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے بھارتی میڈیا ایسے ہی کسی موقع کی تلاش میں تھا تاکہ وہ پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی کو بدنام کرسکے،بھارتی میڈیاکے بعد پاکستان دشمن بھارتی سیاستدان بھی جیو کی حمایت میں سامنے آگئے تھے۔