مولانا فضل الرحمن اور اسٹیبلشمنٹ
ایک ٹی وی انٹرویو میں انکشاف کیا کہ اسٹیبلشمنٹ تحریک انصاف کی حکومت کو لائی تھی اور اس نے ہی ان کی حکومت ختم کی
''جمہوریت وہ ہوتی ہے جو حقیقی جمہوریت ہو، یہ نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ ہاتھ میں نتیجہ پکڑا دیتی ہے، انتخابات کے نتائج شفاف تھے تو 9 مئی کا بیانیہ دفن ہوگیا۔ شہباز شریف نے مجھے صبح کہا تھا کہ آپ کے بغیر مجلس مکمل نہیں ہو رہی۔ میں نے شہباز شریف کو انکارکیا کہ میری اس مجلس میں جگہ نہیں ہے۔'' جمعیت علمائے اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے پریس کانفرنس میں یہ بیانیہ اختیار کر کے اپنے پرانے اتحادی کو خدا حافظ کہہ دیا۔
انھوں نے پھر ایک ٹی وی انٹرویو میں انکشاف کیا کہ اسٹیبلشمنٹ تحریک انصاف کی حکومت کو لائی تھی اور اس نے ہی ان کی حکومت ختم کی۔ مولانا نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی عدم اعتماد کی تحریک لائی تھی مگر میں اس تحریک کا مخالف تھا، البتہ میں نے تحریک کی حمایت اس بناء پر کی کہ مجھے عمران خان کا حامی نہ سمجھا جائے۔ مولانا فضل الرحمن نے انتخابی نتائج مسترد کرتے ہوئے میاں نواز شریف کو دعوت دی کہ وہ بھی ان کے ساتھ حزب اختلاف کا حصہ بن جائیں اور اعلان کیا کہ وہ اور ان کے ساتھی میاں شہباز شریف کو ووٹ نہیں دیں گے۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ موجودہ انتخابات نے 2018کے انتخابات میں ہونے والی دھاندلیوں کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ مولانا نے اس عزم کا اظہارکیا کہ اب فیصلے پارلیمنٹ میں نہیں میدانوں میں ہوںگے۔
مولانا فضل الرحمن کا یہ بیانیہ ماضی کے بیانیہ سے مختلف ہے ۔ وہ تحریک انصاف سے اشتراک کے لیے قدم بڑھا رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے والد مولانا مفتی محمود 70 کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف 9جماعتیں اتحاد پی این اے کے سربراہ تھے، 1977 میں مولانا مفتی محمود کی قیادت میں پی این اے نے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف زبردست مہم چلائی' 5 جولائی 1977 کو جب پی این اے اور وزیر اعظم بھٹو معاہدہ پر متفق ہوئے تو اسی رات گئے جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کردیا ۔
بھٹو دور میںمولانا مفتی محمود نیشنل عوامی پارٹی (نیپ )کے ساتھ اتحاد کر کے صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ بنے تھے جب کہ بلوچستان میں سردار عطاء اللہ مینگل وزیراعلیٰ بنے۔ مگر جب بھٹو دور میں بلوچستان حکومت کو برطرف کیا گیا تو مولانا مفتی محمود نے بھی احتجاجاً استعفیٰ دیدیا تھا۔
مفتی محمود اور نوابزادہ نصراﷲ خان وغیرہ پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کرضیاء الحق کے خلاف ایک متحدہ محاذ قائم کرنے کی جستجو میں تھے کہ مولانا مفتی محمود کراچی کے دارالعلوم بنوریہ ٹاؤن کے ایک حجرے میں انتقال کرگئے تھے۔
یوں مولانا فضل الرحمن نے نا صرف جمعیت علماء اسلام کی قیادت کا منصب سنبھالنے کا فیصلہ کیا بلکہ جنرل ضیاء الحق حکومت کے مخالف اتحاد ایم آر ڈی میں شامل ہوگئے۔
اس وقت جمعیت علماء اسلام میں کئی سینئر علماء موجود تھے جن کی قیادت مولانا سمیع الحق کررہے تھے۔ یہ گروپ جنرل ضیاء الحق کی حمایت کر رہا تھا، یوں مولانا فضل الرحمن کو اپنے سینئر علماء کرام کے خلاف جدوجہد کرنا پڑی تو وہ ایم آر ڈی میں شامل ہوگئے۔ 80کی دہائی ان کی اسیری کا دور تھا۔ انھوں نے اسیری کا وقت ثابت قدمی سے گزارا۔
1988میں پیپلز پارٹی کی اس وقت کی شریک چیئرپرسن بے نظیر بھٹو نے انتخابات میں کامیابی کے بعد وزیر اعظم کا منصب سنبھالامگر فضل الرحمان نے روشن خیال موقف اپنایا اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی مخالفت نہیں کی۔ مولانا فضل الرحمن بعد میں اسلامی جمہوری اتحاد کا حصہ ہوگئے تھے، یوں 90کی دہائی کے آغاز پر میاں نواز شریف کی قیادت میں قائم ہونے والی حکومت کا وہ حصہ بن گئے۔
وہ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں میں کبھی قومی اسمبلی کی کشمیرکمیٹی اور کبھی خارجہ امورکی کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے شامل رہے، جب پیپلز پارٹی کے وزیر داخلہ میجر جنرل ریٹائرڈ نصیراﷲ بابر نے ملک کے مختلف مدرسوں کے نوجوانوں پر مشتمل طالبان فورس تیار کی اور طالبان نے کابل پر حکومت قائم کی تو طالبان کی قیادت میں مولانا فضل الرحمن کے شاگرد شامل تھے۔
امریکا میں نائن الیون کی دہشت گردی کے بعد جب امریکا اور اتحادی افواج نے افغانستان پر حملہ کیا اور حامد کرزئی کی حکومت قائم کی تو مولانا فضل الرحمن نے مذہبی جماعتوں کا اتحاد قائم کر کے افغانستان میں امریکی مداخلت کے خلاف زبردست احتجاجی مظاہرے منظم کیے۔ ان مظاہروںمیں مولانا سمیع الحق بھی شریک تھے۔
مولانا فضل الرحمن نے2002کے انتخابات سے پہلے تمام فرقوں کی مذہبی جماعتوں کو ملا کر متحدہ مجلس عمل قائم کی اور انتخابات کے بعد صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت قائم ہوئی۔ مولانا فضل الرحمن نے اس وقت کوشش کی تھی کہ پیپلز پارٹی کی حمایت حاصل کر کے وہ وزیر اعظم منتخب ہوسکتے تھے مگر بے نظیر بھٹو نے ان کی حمایت نہیں کی، جس کے بعد مولانا فضل الرحمن اس وقت کی قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بن گئے ۔
مولانا فضل الرحمن کی قیادت نے ایک معاہدے کے تحت صدر پرویز مشرف پر قومی اسمبلی میں اعتماد کا اظہار کیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت صدر پرویز مشرف کو کچھ عرصے بعد چیف آف آرمی اسٹاف کا عہدہ چھوڑنا پڑا۔ جنرل مشرف نے یہ وعدہ پورا نا کیا مگر جنرل پرویز مشرف کی وعدہ خلافی کے باوجود مولانا فضل الرحمن اور ان کے ساتھیوں نے پارلیمنٹ اور سرحد اسمبلی میں کوئی احتجاج نہیں کیا۔ اگرچہ مولانا فضل الرحمن افغانستان میں امریکا کی مداخلت کے شدید مخالف تھے مگر انھوں نے اس وقت کے امریکی سفیر Anne Patterson کو عشایئے میں مدعوکیا۔
2007میں شایع ہونے والے وکی لیکس کے مطابق مولانا فضل الرحمن نے امریکی سفیر سے ملاقات میں وزیراعظم بننے کے لیے امریکا کی مدد طلب کی تھی۔ سابق صدر پرویز مشرف نے 2002 میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کی تعدد میں اضافہ کیا۔ مولانا فضل الرحمن نے اپنے قریبی رشتے دار خواتین کو مخصوص نشستوں پر کامیاب کرایا۔ سرحد میں قائم ہونے والی متحدہ مجلس عمل کی حکومت کی کارکردگی مایوس کن رہی۔ تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے کھل کر طالبان کی تحریک کی حمایت کی تھی۔
اس بناء پر 2013ء کے انتخابات میں جمعیت علمائے اسلام( ف) کو شکست ہوئی۔ 2018 کے انتخابات میں بھی جے یو آئی خاطرخواہ کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرسکی۔ مولانا فضل الرحمن نے 2018کے انتخابات کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کیا اور اسمبلیوں سے مستعفیٰ ہونے کی تجویز پیش کی تھی مگر دیگر جماعتوں نے اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا تھا۔ مولانا فضل الرحمن نے اپنے سیکڑوں حامیوں کے ساتھ اسلام آباد میں دھرنا دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے استعفیٰ کے بغیر واپس نہیں جائیں گے مگر پھر کچھ عرصے بعد مولانا فضل الرحمن نے دھرنا ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔
مولانا کا کہنا تھا کہ انھیں تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے، بعد ازاں مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں پی ڈی ایم کا اتحاد قائم ہوا۔پیپلز پارٹی نے کچھ عرصے بعد مختلف جماعتوں کے اس اتحاد سے علیحدگی اختیار کر لی مگر مولانا فضل الرحمن نے تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں بھرپور حصہ لیا اور پی ڈی ایم کی حکومت سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ مولانا نے اپنے قریبی عزیز کو صوبہ خیبر پختون خوا کا گورنر مقرر کروایا۔
اپنے بیٹے اور بھائی کو وفاق میں اہم وزارتیں دیں۔ مولانا فضل الرحمن نے 2024 کے انتخابات کے انعقاد کی بھرپور مخالفت کی تھی، وہ چند ماہ قبل کابل گئے تھے۔ مبصرین کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمن کو کابل میں پذیرائی نہیں ملی، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مولانا فضل الرحمن اس دفعہ ملک کا صدر بننے کی خواہش رکھتے تھے مگر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان اتفاق رائے کے بعد وہ مایوس ہوگئے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ وہ جس شخص کو یہودیوں کا ایجنٹ قرار دیتے تھے اس کی جماعت سے تعلقات قائم کرنے پر تیار ہوگئے ہیں۔ کچھ صحافیوں کا کہنا ہے کہ ان کی نظر قومی اسمبلی کے نئے قائد حزب اختلاف کے عہدے پر بھی ہوسکتی ہے، مگر مولانا تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کر پائیں گے یا پرانے اتحادیوں کی طرف لوٹ جائیں گے اورکیا واقعی آیندہ کبھی اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات نہیں رکھیں گے؟ ان سوالات کا جواب اگلے چند مہینوں میں ظاہر ہوجائے گا۔
انھوں نے پھر ایک ٹی وی انٹرویو میں انکشاف کیا کہ اسٹیبلشمنٹ تحریک انصاف کی حکومت کو لائی تھی اور اس نے ہی ان کی حکومت ختم کی۔ مولانا نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی عدم اعتماد کی تحریک لائی تھی مگر میں اس تحریک کا مخالف تھا، البتہ میں نے تحریک کی حمایت اس بناء پر کی کہ مجھے عمران خان کا حامی نہ سمجھا جائے۔ مولانا فضل الرحمن نے انتخابی نتائج مسترد کرتے ہوئے میاں نواز شریف کو دعوت دی کہ وہ بھی ان کے ساتھ حزب اختلاف کا حصہ بن جائیں اور اعلان کیا کہ وہ اور ان کے ساتھی میاں شہباز شریف کو ووٹ نہیں دیں گے۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ موجودہ انتخابات نے 2018کے انتخابات میں ہونے والی دھاندلیوں کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ مولانا نے اس عزم کا اظہارکیا کہ اب فیصلے پارلیمنٹ میں نہیں میدانوں میں ہوںگے۔
مولانا فضل الرحمن کا یہ بیانیہ ماضی کے بیانیہ سے مختلف ہے ۔ وہ تحریک انصاف سے اشتراک کے لیے قدم بڑھا رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے والد مولانا مفتی محمود 70 کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف 9جماعتیں اتحاد پی این اے کے سربراہ تھے، 1977 میں مولانا مفتی محمود کی قیادت میں پی این اے نے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف زبردست مہم چلائی' 5 جولائی 1977 کو جب پی این اے اور وزیر اعظم بھٹو معاہدہ پر متفق ہوئے تو اسی رات گئے جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کردیا ۔
بھٹو دور میںمولانا مفتی محمود نیشنل عوامی پارٹی (نیپ )کے ساتھ اتحاد کر کے صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ بنے تھے جب کہ بلوچستان میں سردار عطاء اللہ مینگل وزیراعلیٰ بنے۔ مگر جب بھٹو دور میں بلوچستان حکومت کو برطرف کیا گیا تو مولانا مفتی محمود نے بھی احتجاجاً استعفیٰ دیدیا تھا۔
مفتی محمود اور نوابزادہ نصراﷲ خان وغیرہ پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کرضیاء الحق کے خلاف ایک متحدہ محاذ قائم کرنے کی جستجو میں تھے کہ مولانا مفتی محمود کراچی کے دارالعلوم بنوریہ ٹاؤن کے ایک حجرے میں انتقال کرگئے تھے۔
یوں مولانا فضل الرحمن نے نا صرف جمعیت علماء اسلام کی قیادت کا منصب سنبھالنے کا فیصلہ کیا بلکہ جنرل ضیاء الحق حکومت کے مخالف اتحاد ایم آر ڈی میں شامل ہوگئے۔
اس وقت جمعیت علماء اسلام میں کئی سینئر علماء موجود تھے جن کی قیادت مولانا سمیع الحق کررہے تھے۔ یہ گروپ جنرل ضیاء الحق کی حمایت کر رہا تھا، یوں مولانا فضل الرحمن کو اپنے سینئر علماء کرام کے خلاف جدوجہد کرنا پڑی تو وہ ایم آر ڈی میں شامل ہوگئے۔ 80کی دہائی ان کی اسیری کا دور تھا۔ انھوں نے اسیری کا وقت ثابت قدمی سے گزارا۔
1988میں پیپلز پارٹی کی اس وقت کی شریک چیئرپرسن بے نظیر بھٹو نے انتخابات میں کامیابی کے بعد وزیر اعظم کا منصب سنبھالامگر فضل الرحمان نے روشن خیال موقف اپنایا اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی مخالفت نہیں کی۔ مولانا فضل الرحمن بعد میں اسلامی جمہوری اتحاد کا حصہ ہوگئے تھے، یوں 90کی دہائی کے آغاز پر میاں نواز شریف کی قیادت میں قائم ہونے والی حکومت کا وہ حصہ بن گئے۔
وہ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں میں کبھی قومی اسمبلی کی کشمیرکمیٹی اور کبھی خارجہ امورکی کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے شامل رہے، جب پیپلز پارٹی کے وزیر داخلہ میجر جنرل ریٹائرڈ نصیراﷲ بابر نے ملک کے مختلف مدرسوں کے نوجوانوں پر مشتمل طالبان فورس تیار کی اور طالبان نے کابل پر حکومت قائم کی تو طالبان کی قیادت میں مولانا فضل الرحمن کے شاگرد شامل تھے۔
امریکا میں نائن الیون کی دہشت گردی کے بعد جب امریکا اور اتحادی افواج نے افغانستان پر حملہ کیا اور حامد کرزئی کی حکومت قائم کی تو مولانا فضل الرحمن نے مذہبی جماعتوں کا اتحاد قائم کر کے افغانستان میں امریکی مداخلت کے خلاف زبردست احتجاجی مظاہرے منظم کیے۔ ان مظاہروںمیں مولانا سمیع الحق بھی شریک تھے۔
مولانا فضل الرحمن نے2002کے انتخابات سے پہلے تمام فرقوں کی مذہبی جماعتوں کو ملا کر متحدہ مجلس عمل قائم کی اور انتخابات کے بعد صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت قائم ہوئی۔ مولانا فضل الرحمن نے اس وقت کوشش کی تھی کہ پیپلز پارٹی کی حمایت حاصل کر کے وہ وزیر اعظم منتخب ہوسکتے تھے مگر بے نظیر بھٹو نے ان کی حمایت نہیں کی، جس کے بعد مولانا فضل الرحمن اس وقت کی قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بن گئے ۔
مولانا فضل الرحمن کی قیادت نے ایک معاہدے کے تحت صدر پرویز مشرف پر قومی اسمبلی میں اعتماد کا اظہار کیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت صدر پرویز مشرف کو کچھ عرصے بعد چیف آف آرمی اسٹاف کا عہدہ چھوڑنا پڑا۔ جنرل مشرف نے یہ وعدہ پورا نا کیا مگر جنرل پرویز مشرف کی وعدہ خلافی کے باوجود مولانا فضل الرحمن اور ان کے ساتھیوں نے پارلیمنٹ اور سرحد اسمبلی میں کوئی احتجاج نہیں کیا۔ اگرچہ مولانا فضل الرحمن افغانستان میں امریکا کی مداخلت کے شدید مخالف تھے مگر انھوں نے اس وقت کے امریکی سفیر Anne Patterson کو عشایئے میں مدعوکیا۔
2007میں شایع ہونے والے وکی لیکس کے مطابق مولانا فضل الرحمن نے امریکی سفیر سے ملاقات میں وزیراعظم بننے کے لیے امریکا کی مدد طلب کی تھی۔ سابق صدر پرویز مشرف نے 2002 میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کی تعدد میں اضافہ کیا۔ مولانا فضل الرحمن نے اپنے قریبی رشتے دار خواتین کو مخصوص نشستوں پر کامیاب کرایا۔ سرحد میں قائم ہونے والی متحدہ مجلس عمل کی حکومت کی کارکردگی مایوس کن رہی۔ تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے کھل کر طالبان کی تحریک کی حمایت کی تھی۔
اس بناء پر 2013ء کے انتخابات میں جمعیت علمائے اسلام( ف) کو شکست ہوئی۔ 2018 کے انتخابات میں بھی جے یو آئی خاطرخواہ کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرسکی۔ مولانا فضل الرحمن نے 2018کے انتخابات کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کیا اور اسمبلیوں سے مستعفیٰ ہونے کی تجویز پیش کی تھی مگر دیگر جماعتوں نے اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا تھا۔ مولانا فضل الرحمن نے اپنے سیکڑوں حامیوں کے ساتھ اسلام آباد میں دھرنا دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے استعفیٰ کے بغیر واپس نہیں جائیں گے مگر پھر کچھ عرصے بعد مولانا فضل الرحمن نے دھرنا ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔
مولانا کا کہنا تھا کہ انھیں تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے، بعد ازاں مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں پی ڈی ایم کا اتحاد قائم ہوا۔پیپلز پارٹی نے کچھ عرصے بعد مختلف جماعتوں کے اس اتحاد سے علیحدگی اختیار کر لی مگر مولانا فضل الرحمن نے تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں بھرپور حصہ لیا اور پی ڈی ایم کی حکومت سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ مولانا نے اپنے قریبی عزیز کو صوبہ خیبر پختون خوا کا گورنر مقرر کروایا۔
اپنے بیٹے اور بھائی کو وفاق میں اہم وزارتیں دیں۔ مولانا فضل الرحمن نے 2024 کے انتخابات کے انعقاد کی بھرپور مخالفت کی تھی، وہ چند ماہ قبل کابل گئے تھے۔ مبصرین کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمن کو کابل میں پذیرائی نہیں ملی، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مولانا فضل الرحمن اس دفعہ ملک کا صدر بننے کی خواہش رکھتے تھے مگر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان اتفاق رائے کے بعد وہ مایوس ہوگئے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ وہ جس شخص کو یہودیوں کا ایجنٹ قرار دیتے تھے اس کی جماعت سے تعلقات قائم کرنے پر تیار ہوگئے ہیں۔ کچھ صحافیوں کا کہنا ہے کہ ان کی نظر قومی اسمبلی کے نئے قائد حزب اختلاف کے عہدے پر بھی ہوسکتی ہے، مگر مولانا تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کر پائیں گے یا پرانے اتحادیوں کی طرف لوٹ جائیں گے اورکیا واقعی آیندہ کبھی اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات نہیں رکھیں گے؟ ان سوالات کا جواب اگلے چند مہینوں میں ظاہر ہوجائے گا۔