بہروپیے
رب کریم کا احسان ہے کہ اس نے مجھے اپنے سوا کسی کا محتاج نہیں کیا...
ڈارون صاحب کے بقول ہم انسان بندروں کی ایک ترقی یافتہ نسل ہیں اس پر بہترین تبصرہ تو اکبرؔ الٰہ آبادی کا ہی ہے سو میں اسی کو دوہرا دیتا ہوں کہ
کہا منصور نے خدا ہوں میں
ڈارون بولا، بوزنا ہوں میں
ہنس کے کہنے لگے مرے اک دوست
''فکر ہر کس بقدر ہمت اوست''
لیکن اس میں شک نہیں کہ تمام مخلوقات میں سے بندروں کے بعض خصائص نسبتاً انسان سے ملتے جلتے ہیں جن میں سے ایک ان کا بہروپیا ہونا بھی ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کچھ برس پہلے تک مداری بندروں کو لے کر گلی گلی تماشا دکھاتے تھے اور ان کے سدھائے ہوئے بندر طرح طرح کے بہروپ بنا کر تماشائیوں کا دل لبھاتے تھے۔ یہ بہروپیئے زندگی کے ہر شعبے میں بھی پائے جاتے ہیں اور ان کی تاریخ بھی بنی نوع انسان کی تاریخ کے ابتدائی زمانوں سے جا ملتی ہے۔ مختلف زبانوں کے ادب میں بھی ان کا تذکرہ جابجا ملتا ہے۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ صاحب طرز کہانی کار غلام عباس نے بھی اس عنوان سے ایک افسانہ لکھا تھا جس میں ایک ایسے بہروپیے کا ذکر تھا جو کچھ دیر کے لیے کوئی بہروپ بھر کر ایک سوانگ رچاتا تھا اور پھر اپنے اس ہنر کی داد ستائش کے جملوں اور تماشائیوں کے حسب توفیق دیے گئے سکوں سے پاتا تھا۔ اگر یہ بات یہیں تک رہتی تو خیریت تھی مگر ہوا یوں کہ یار لوگوں نے اسے ایک مستقل پیشہ اور طرز حیات بنا لیا اور نسل در نسل اپنا یہ غیر شفاف اثاثہ آئندگان کو منتقل کرنے لگے۔ یہ بادشاہتیں، مذہب کے نام پر قائم گدیاں اور دور حاضر کے سیاسی خانوادے، مستثنیات سے قطع نظر، اسی ڈرامے کے مختلف سین ہیں۔
یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ کسی بہادر جنگجو یا طالع آزما نے اپنی ذاتی غیر معمولی صلاحیتوں کی بنیاد پر ایک سلطنت قائم کر لی مگر اس کی اولاد میں اس ''روپ'' کی خوبیاں عام طور پر دیکھی نہیں گئیں سو یہ اس کے ''بہروپ'' سے اس وقت تک کام چلاتی رہی جب تک ان کے مورثِ اعلیٰ جیسا کوئی دوسرا کہیں سے ظاہر نہ ہو گیا۔ اسی طرح یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اکثر ایسے مزارات جن میں خوابیدہ بزرگوں کے حوالے سے نسل در نسل گدیاں قائم ہوئیں ایک طرح کے کاروباری اڈے بن گئے کہ ان کی اولادوں میں سے بہت کم لوگ ان غیر معمولی اوصاف سے کسی نہ کسی حد تک بہرہ ور تھے ۔
جس کی وجہ سے مزار میں خوابیدہ شخصیت کا احترام اس کے ماننے اور جاننے والے لوگوں کے دلوں میں جڑ پکڑ گیا باقی سب کے سب بہروپیے ہیں اور تھے کہ کم از کم برصغیر کی حد تک یہ گدیاں ایک بہت منافع بخش کاروبار ہیں لیکن اس وقت میں جن بہروپیوں کی بات کرنا چاہتا ہوں ان کا تعلق ان سیاسی خانوادوں سے ہے جن کی نسلیں اپنی کسی ذاتی صلاحیت کے بجائے ساری زندگی اسی نسبی تعلق کو استحصال کا ذریعہ بنا کر گزارتی ہیں اور یہ سلسلہ مسلسل جاری رہتا ہے۔ اکثر صورتوں میں یہاں بھی ''بادشاہتوں'' والا اصول چلتا ہے کہ ایک اصلی یا نیم اصلی سیاسی لیڈر کا پورا خاندان اپنی قوم سے وہ ''تاوان'' وصول کرتا ہے جو کسی صورت بھی اس کا حق نہیں ہوتا۔ میرے نزدیک یہ لوگ بھی کسی بہروپیئے سے کم نہیں۔
ہمارے جیسے ملکوں میں بعض اوقات شخصیات سے زیادہ ان کے دیے ہوئے سیاسی نعرے اور دکھائے ہوئے خواب بھی ان کی جگہ لے لیتے ہیں۔ دور حاضر میں اس کی مثالیں بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، مصر، شام اور دیگر کئی ممالک میں بآسانی دیکھی جا سکتی ہیں۔ حال ہی میں، میں نے اس موضوع پر ایک نظم لکھی ہے لیکن اسے درج کرنے سے پہلے ہی اس بات کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس کا مخاطب کوئی ایک مخصوص خاندان یا ملک نہیں ہے۔ یہ تیسری دنیا کے حوالے سے گھر گھر کی کہانی ہے۔ یہ وضاحت میں اس لیے نہیں کر رہا کہ شاید کچھ حاکمان وقت اسے اپنے خلاف ایک سوچی سمجھی سازش قرار دے کر مجھے سبق سکھانے پر اتر آئیں اور ان کے حواری اس کے لیے انھیں طرح طرح کی تاویلیں گھڑگھڑ کر مہیا کریں۔
رب کریم کا احسان ہے کہ اس نے مجھے اپنے سوا کسی کا محتاج نہیں کیا اور نہ ہی میں اس کے علاوہ کسی اور کے خوف کو اپنے دل میں جگہ دیتا ہوں امر واقعہ یہی ہے کہ میرا موضوع ہر طرح، ہر جگہ اور ہر دور کے بہروپیئے ہیں اور یہ بھی نہیں کہ میرے قارئین ان بہروپیوں سے واقف نہیں ہیں۔ سو اس کے باوجود اگر کوئی خاندان یا اس کے حاشیہ نشین اسے اپنے سے منسوب کرنے پر اصرار کریں تو یہ ان کی اپنی صوابدید ہے۔ آئیے اب اس نظم کی طرف چلتے ہیں ممکن ہے یہ آپ کو میرے مخصوص استعاراتی انداز اور اسلوب کی نسبت زیادہ تلخ اور براہ راست محسوس ہو لیکن کیا کیا جائے کہ بقول کسے ہر فن پارہ اپنا اسلوب ساتھ لے کر آتا ہے۔ میرے نزدیک اس کی زبان یہی ہونی چاہیے تھی اگر کوئی اختلاف کرنا چاہے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ جس طرح مجھے ''اظہار'' کا حق ہے۔ اس طرح کسی دوسرے کے اختلاف کا حق بھی محفوظ ہے۔
بہروپییے
یہ لوگ کون ہیں!
یہ کس طرح کے لوگ ہیں!
یہ چلتی پھرتی پتلیاں
ہے ان کا کون سا جہاں!
کہاں ہیں ان کے رابطے
کدھر ہیں ان کی ڈوریاں!
بنے ہوئے ہیں ناخدا
نہیں جنھیں گریز کرتے پانیوں کی کچھ خبر
نہ ساحلوں سے آشنا!
نہ ان کو ہے پتہ کوئی، نہ ان کو کچھ شعور ہے
کہ ان کی کھوپڑی میں بس غرور ہی غرور ہے
نگاہ ان کی دس قدم سے دور دیکھتی نہیں
دماغ میں فساد ہے
بس اپنے ہی مفاد کا
اور اس سے ماورا، ان کی سوچ ہی نہیں
کہ سب کے سب یہ بادشہ،
ہیں نام پر عوام کے
یہ اپنے کام کے سوا
نہیں کسی بھی کام کے!
سمے کا اب ہے فیصلہ
جو ہو چکا سو ہو چکا
بچے گا اب تو صرف وہ کہ جس کے صبح و شام میں
رہے گی سب سے معتبر
بجھے دلوں کی روشنی
کٹے گی جس کی زندگی دلوں کے احترام میں
عوام کے لیے ہی جو
عوام کی طرح سے جو، جیئے گا اب عوام میں۔
کہا منصور نے خدا ہوں میں
ڈارون بولا، بوزنا ہوں میں
ہنس کے کہنے لگے مرے اک دوست
''فکر ہر کس بقدر ہمت اوست''
لیکن اس میں شک نہیں کہ تمام مخلوقات میں سے بندروں کے بعض خصائص نسبتاً انسان سے ملتے جلتے ہیں جن میں سے ایک ان کا بہروپیا ہونا بھی ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کچھ برس پہلے تک مداری بندروں کو لے کر گلی گلی تماشا دکھاتے تھے اور ان کے سدھائے ہوئے بندر طرح طرح کے بہروپ بنا کر تماشائیوں کا دل لبھاتے تھے۔ یہ بہروپیئے زندگی کے ہر شعبے میں بھی پائے جاتے ہیں اور ان کی تاریخ بھی بنی نوع انسان کی تاریخ کے ابتدائی زمانوں سے جا ملتی ہے۔ مختلف زبانوں کے ادب میں بھی ان کا تذکرہ جابجا ملتا ہے۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ صاحب طرز کہانی کار غلام عباس نے بھی اس عنوان سے ایک افسانہ لکھا تھا جس میں ایک ایسے بہروپیے کا ذکر تھا جو کچھ دیر کے لیے کوئی بہروپ بھر کر ایک سوانگ رچاتا تھا اور پھر اپنے اس ہنر کی داد ستائش کے جملوں اور تماشائیوں کے حسب توفیق دیے گئے سکوں سے پاتا تھا۔ اگر یہ بات یہیں تک رہتی تو خیریت تھی مگر ہوا یوں کہ یار لوگوں نے اسے ایک مستقل پیشہ اور طرز حیات بنا لیا اور نسل در نسل اپنا یہ غیر شفاف اثاثہ آئندگان کو منتقل کرنے لگے۔ یہ بادشاہتیں، مذہب کے نام پر قائم گدیاں اور دور حاضر کے سیاسی خانوادے، مستثنیات سے قطع نظر، اسی ڈرامے کے مختلف سین ہیں۔
یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ کسی بہادر جنگجو یا طالع آزما نے اپنی ذاتی غیر معمولی صلاحیتوں کی بنیاد پر ایک سلطنت قائم کر لی مگر اس کی اولاد میں اس ''روپ'' کی خوبیاں عام طور پر دیکھی نہیں گئیں سو یہ اس کے ''بہروپ'' سے اس وقت تک کام چلاتی رہی جب تک ان کے مورثِ اعلیٰ جیسا کوئی دوسرا کہیں سے ظاہر نہ ہو گیا۔ اسی طرح یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اکثر ایسے مزارات جن میں خوابیدہ بزرگوں کے حوالے سے نسل در نسل گدیاں قائم ہوئیں ایک طرح کے کاروباری اڈے بن گئے کہ ان کی اولادوں میں سے بہت کم لوگ ان غیر معمولی اوصاف سے کسی نہ کسی حد تک بہرہ ور تھے ۔
جس کی وجہ سے مزار میں خوابیدہ شخصیت کا احترام اس کے ماننے اور جاننے والے لوگوں کے دلوں میں جڑ پکڑ گیا باقی سب کے سب بہروپیے ہیں اور تھے کہ کم از کم برصغیر کی حد تک یہ گدیاں ایک بہت منافع بخش کاروبار ہیں لیکن اس وقت میں جن بہروپیوں کی بات کرنا چاہتا ہوں ان کا تعلق ان سیاسی خانوادوں سے ہے جن کی نسلیں اپنی کسی ذاتی صلاحیت کے بجائے ساری زندگی اسی نسبی تعلق کو استحصال کا ذریعہ بنا کر گزارتی ہیں اور یہ سلسلہ مسلسل جاری رہتا ہے۔ اکثر صورتوں میں یہاں بھی ''بادشاہتوں'' والا اصول چلتا ہے کہ ایک اصلی یا نیم اصلی سیاسی لیڈر کا پورا خاندان اپنی قوم سے وہ ''تاوان'' وصول کرتا ہے جو کسی صورت بھی اس کا حق نہیں ہوتا۔ میرے نزدیک یہ لوگ بھی کسی بہروپیئے سے کم نہیں۔
ہمارے جیسے ملکوں میں بعض اوقات شخصیات سے زیادہ ان کے دیے ہوئے سیاسی نعرے اور دکھائے ہوئے خواب بھی ان کی جگہ لے لیتے ہیں۔ دور حاضر میں اس کی مثالیں بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، مصر، شام اور دیگر کئی ممالک میں بآسانی دیکھی جا سکتی ہیں۔ حال ہی میں، میں نے اس موضوع پر ایک نظم لکھی ہے لیکن اسے درج کرنے سے پہلے ہی اس بات کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس کا مخاطب کوئی ایک مخصوص خاندان یا ملک نہیں ہے۔ یہ تیسری دنیا کے حوالے سے گھر گھر کی کہانی ہے۔ یہ وضاحت میں اس لیے نہیں کر رہا کہ شاید کچھ حاکمان وقت اسے اپنے خلاف ایک سوچی سمجھی سازش قرار دے کر مجھے سبق سکھانے پر اتر آئیں اور ان کے حواری اس کے لیے انھیں طرح طرح کی تاویلیں گھڑگھڑ کر مہیا کریں۔
رب کریم کا احسان ہے کہ اس نے مجھے اپنے سوا کسی کا محتاج نہیں کیا اور نہ ہی میں اس کے علاوہ کسی اور کے خوف کو اپنے دل میں جگہ دیتا ہوں امر واقعہ یہی ہے کہ میرا موضوع ہر طرح، ہر جگہ اور ہر دور کے بہروپیئے ہیں اور یہ بھی نہیں کہ میرے قارئین ان بہروپیوں سے واقف نہیں ہیں۔ سو اس کے باوجود اگر کوئی خاندان یا اس کے حاشیہ نشین اسے اپنے سے منسوب کرنے پر اصرار کریں تو یہ ان کی اپنی صوابدید ہے۔ آئیے اب اس نظم کی طرف چلتے ہیں ممکن ہے یہ آپ کو میرے مخصوص استعاراتی انداز اور اسلوب کی نسبت زیادہ تلخ اور براہ راست محسوس ہو لیکن کیا کیا جائے کہ بقول کسے ہر فن پارہ اپنا اسلوب ساتھ لے کر آتا ہے۔ میرے نزدیک اس کی زبان یہی ہونی چاہیے تھی اگر کوئی اختلاف کرنا چاہے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ جس طرح مجھے ''اظہار'' کا حق ہے۔ اس طرح کسی دوسرے کے اختلاف کا حق بھی محفوظ ہے۔
بہروپییے
یہ لوگ کون ہیں!
یہ کس طرح کے لوگ ہیں!
یہ چلتی پھرتی پتلیاں
ہے ان کا کون سا جہاں!
کہاں ہیں ان کے رابطے
کدھر ہیں ان کی ڈوریاں!
بنے ہوئے ہیں ناخدا
نہیں جنھیں گریز کرتے پانیوں کی کچھ خبر
نہ ساحلوں سے آشنا!
نہ ان کو ہے پتہ کوئی، نہ ان کو کچھ شعور ہے
کہ ان کی کھوپڑی میں بس غرور ہی غرور ہے
نگاہ ان کی دس قدم سے دور دیکھتی نہیں
دماغ میں فساد ہے
بس اپنے ہی مفاد کا
اور اس سے ماورا، ان کی سوچ ہی نہیں
کہ سب کے سب یہ بادشہ،
ہیں نام پر عوام کے
یہ اپنے کام کے سوا
نہیں کسی بھی کام کے!
سمے کا اب ہے فیصلہ
جو ہو چکا سو ہو چکا
بچے گا اب تو صرف وہ کہ جس کے صبح و شام میں
رہے گی سب سے معتبر
بجھے دلوں کی روشنی
کٹے گی جس کی زندگی دلوں کے احترام میں
عوام کے لیے ہی جو
عوام کی طرح سے جو، جیئے گا اب عوام میں۔