پسند کی شادیاں اور ان کا انجام
آج کل اولاد کا ماں باپ سے بغاوت کرکے کورٹ میرج کرنے کا جو طوفانی سلسلہ چل نکلا ہے۔۔۔
KARACHI:
ملک میں قتل و غارت گری اور ظلم و سفاکی کی وارداتیں معمول کا حصہ بن چکی ہیں جنھیں دیکھ کر یا سن کر بعض اوقات عقل دنگ اور اعصاب شل ہوجاتے ہیں۔ ان میں سے بعض واقعات میڈیا کوریج، این جی اوز کی پشت پناہی و دلچسپی اور غیر ملکی اداروں اور حکومتوں کی دلچسپی و دخل اندازی کی وجہ سے بڑی شہرت و اہمیت حاصل کرجاتے ہیں۔ پچھلے دنوں ایسے ہی دو واقعات کو ملکی و بین الاقوامی سطح پر بڑی شہرت ملی، ان واقعات کا حکومتی سطح پر نوٹس لیا گیا، سپریم کورٹ نے بھی اس پر سوموٹو ایکشن لیا، ہائیکورٹ بار نے متاثرہ خاندان کو مفت قانونی امداد دینے کا اعلان کردیا۔
ایک واقعے میں پسند کی شادی کرنے والی لڑکی کو اس کے بھائیوں نے گولیوں سے بھون ڈالا۔ دوسرے واقعے میں پسند کی شادی کرنے والی لڑکی کو عدالت میں پیشی پر آنے کے موقع پر اس کے بھائی باپ اور رشتے داروں نے اینٹیں مار مار کر ہلاک کردیا۔ ان واقعات کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق اوالذکر واقعے میں مقتول خاتون نے اپنی سگی بہن کے شوہر سے ناجائز مراسم استوار کرلیے تھے، جب بہن کو اس کا علم ہوا تو وہ ان کے راستے میں رکاوٹ بنی اور والدین کو بھی اس بات سے آگاہ کیا۔ والدین نے بیٹی کو سمجھانے کی بہت کوششیں کیں لیکن لڑکی نہ مانی اور فرار ہوکر بہنوئی کے گھر چلی گئی۔
جس نے اس کی بہن کو طلاق دے کر عدت مکمل ہونے سے پہلے ہی اپنی سالی سے شادی رچالی، جس کے مطابق بتایا گیا ہے کہ وہ پہلے سے نکاح شدہ تھی۔ اس کے خاندان کو واقعے کا بڑا ملال تھا، ملزمان کے خلاف زنا کا مقدمہ درج ہوا۔ مقتولہ کو اس کے بھائیوں نے گولیاں مار کر ہلاک کر ڈالا۔ قتل کی دوسری واردات کی تفصیلات کے مطابق مقتولہ نے عمر میں اپنے سے 20، 22 سال بڑے شادی شدہ شخص سے تعلقات استوار کرلیے تھے، پہلی بیوی نے احتجاج و اعتراض کیا تو اس شخص نے بیوی کو گلاگھونٹ کر مار ڈالا۔ عدالت میں مقتولہ ماں کے بیٹوں نے وارث ہونے کے ناتے باپ سے خون بہا لے کر معاف کردیا۔ اس طرح قاتل آزاد ہوگیا اور پھر دونوں نے شادی رچالی۔
لڑکی کے بھائیوں کو اس بات کا رنج تھا کہ بہن نے ایک بدکردار اور قاتل شخص سے شادی کرلی ہے۔ عدالت میں پیشی کے موقع پر فریقین کے افراد کے مابین تلخ کلامی، مارپیٹ ہوئی اینٹیں چلائی گئیں اور متوفیہ اینٹ لگنے سے ہلاک ہوگئی۔ وارداتوں کی تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں مقتولہ اس قدر معصوم اور بے گناہ نہیں تھیں، جیسا انھیں ظاہر کیا جا رہا ہے بلکہ ان کے پیچھے بہت سے محرکات کارفرما ہیں۔
اس قسم کے واقعات پر ایک مخصوص سوچ اور عزم کا حامل طبقہ، میڈیا اور این جی او سے متعلق افراد اور غیر ملکی ادارے اور حکومتیں، ان کا تعلق پاکستانی معاشرے اور اسلام سے جوڑ کر مبالغہ آرائی کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ہیں۔ وہ اس کی آڑ میں اسلامی قوانین کو بھی آڑے ہاتھوں لیتے ہیں کہ قصاص کے اسلامی اصول کی وجہ سے ریمنڈ ڈیوس آزاد ہوگیا یا کہ حالیہ قتل کی واردات میں بھی ماں باپ بہن بھائی قاتل کو خون معاف کرکے آزاد کرا لیں گے۔
وہ ایسے واقعات صنفی جبرو استحصال سے تعبیر کرکے خواتین کی ہمدردیاں سمیٹتے ہیں۔ مجرموں کے لیے سخت سزاؤں کے واجبی سے مطالبات تو کرتے ہیں مگر سزائے موت کی مخالفت کرتے ہیں، بعض اسلامی تعزیرات و سزاؤں کو بربریت و جاہلیت قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ اس قسم کے واقعات کو صنف یا مذہب سے جوڑنا سراسر ناانصافی ہے۔ شوہر کو زہر دے کر، گلا گھونٹ کر، سوتے میں مار ڈالنے یا آشناؤں کے ساتھ مل کر شوہر کو قتل کرکے ڈکیتی کا رنگ دینے یا زمین میں دفنا دینے، شوہر کے سر پر توا مار کر ہلاک کردینے اور اس کو قتل کرکے اس کا گوشت پکانے جیسے جرائم کی مرتکب خواتین کے جرم کو بھی صنفی و مذہبی جرم یا معاشرتی کلچر نہیں کہا جاسکتا ہے۔ اس قسم کے واقعات بلالحاظ جنس و مذہب صرف اور صرف جاہلانہ و مجرمانہ ذہنیت کی وجہ سے ظہور پذیر ہوتے ہیں۔
متذکرہ دونوں واقعات انتہائی سنگین اور قابل مذمت ہیں، کسی شخص کو بھی قانون ہاتھ میں لینے، سڑکوں پر فیصلہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ قانون کے رکھوالوں کی بے حسی اور تماش بینی بھی قابل مذمت اور قابل گرفت ہے جو میاں بیوی کی تکرار میں تو فائرنگ کرکے شوہر کو قتل کرنے سے بھی نہیں چوکتے مگر اس بلوے کو تماش بینوں کی طرح دیکھتے رہے۔
انسانی و نسوانی حقوق کی علمبردار شخصیات، اداروں اور حکومتوں کو سونیا ناز، ڈاکٹر شازیہ، چیچن خواتین، مزار قائد پر اغوا اور درندگی کا نشانہ بننے والی دوشیزہ، جنسی درندگی کے بعد جناح اسپتال کی بالائی منزل سے پھینکی جانے والی نرس جیسے لاتعداد جرائم نظر کیوں نہیں آتے۔ انھیں جرمن عدالت میں حجاب کا دفاع کرنے والی مرواح اشربینی کیوں نظر نہیں آتی، جسے بھری عدالت میں جج اور سیکیورٹی کی موجودگی میں خنجر کے پہ درپے 18 وار کرکے ہلاک کردیا جاتا ہے لیکن جب اس کا شوہر بچانے کے لیے آگے بڑھتا ہے تو سیکیورٹی فوراً حرکت میں آتی ہے اور اسے گولیوں سے چھلنی کردیا جاتا ہے۔ اس کمرہ عدالت میں حاملہ خاتون اور اس کے شوہر سمیت تین جانوں کے قاتلوں کی کوئی مذمت نہیں کرتا۔
ڈاکٹر عافیہ اور اس کے بچوں کا مسئلہ بھی انھیں انسانی یا نسوانی نظر نہیں آتا ہے۔ دنیا بھر میں جنگوں، بغاوتوں، فسادات اور ریاستی جبر کے نتیجے میں ہونے والی لاکھوں عورتوں اور بچوں کی ہلاکتیں بھی ان کے ضمیر کو نہیں جھنجھوڑتیں۔ ایدھی ذرائع کے مطابق اس کے قبرستان میں 38 ہزار لاوارث افراد کی قبریں ہیں، دیگر اداروں اور قبرستانوں میں ایسے لاوارث افراد اور لاپتہ ہوجانے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔ اس پر کسی کو تشویش نہیں ہوتی ہے۔
تیزاب سے متاثرہ خاتون پر بنائی گئی فلم پر آسکر ایوارڈ تو حاصل کرلیا یا نواز دیا جاتا ہے لیکن جب متاثرہ خاتون معاوضہ نہ ملنے اور دھمکیاں ملنے پر بین کرتی ہے تو کوئی اس کی مدد کو نہیں آتا۔ ایک سیٹھ کی ہوس زر کی بھینٹ چڑھ جانے والے 250 محنت کشوں کی خاک پر فوٹو سیشن کرانے اور شہرت و نیک نامی حاصل کرنے والے ان کے لواحقین ان کی خاک پر بے یارومددگار چھوڑ کر شہرت کے دوسرے تھیٹروں کی تلاش کیوں شروع کردیتے ہیں۔
یہ سب کچھ ان کے دہرے معیار اور مذموم مقاصد کی نشاندہی کرتا ہے۔ پاکستان کے کچھ قبائلی ذات اور برادریاں رسومات اور روایات میں جکڑے ہوئے ہیں جن کی باگ ڈور اس قسم کے جاگیرداروں، سرداروں، وڈیروں اور سیاستدانوں کے ہاتھوں میں ہیں، ان کو چھوڑ کر عام پاکستانی معاشرے میں ماں، بہن اور بیٹیوں کو خاص اہمیت اور آزادی بھی حاصل ہے، باپ بھائی بیٹوں اور بہنوں کے لیے قربانیاں دیتے ہیں، اپنی عمریں گنوا دیتے ہیں، پہلے بہنوں کی شادی کرتے ہیں، اس پر آنے والے لاکھوں روپے کے اخراجات کی خاطر دن رات محنت کرتے ہیں، قرض لیتے ہیں، گھر تک بیچ دیتے ہیں، ان کی خواہش ہوتی ہے کہ اپنی بہن بیٹی کو حیثیت سے بڑھ کر شان و شوکت کے ساتھ رخصت کریں، اس کے دل میں کوئی خواہش یا احساس محرومی نہ رہ جائے۔ پھر ان کا یہ حق تو بنتا ہے کہ بیٹی بہن بھی ان کی عزت کا پاس رکھے۔
آج کل اولاد کا ماں باپ سے بغاوت کرکے کورٹ میرج کرنے کا جو طوفانی سلسلہ چل نکلا ہے اور پھر اس کے نتیجے میں طلاق و خلع کی خطرناک شرح نے والدین کو دہری سولی پر لٹکا دیا ہے، اس میں خود والدین، معاشرے اور حکومت کا بڑا ہاتھ ہے۔ مخلوط تعلیمی و ملازمت کا نظام، بے حجابی، ٹی وی کے واہیات پروگرام، غیر ملکی ثقافت کی یلغار، نیٹ کیفے، صبح سویرے کھلنے والے آئس کریم پارلرز، موبائل فونز، مغرب کی نقالی، فریب دھوکہ دہی، نمودو نمائش، اسٹیٹس اور جہیز کی دوڑ، بڑی عمروں تک شادی کا نہ ہونا، وہ عوامل ہیں جو خاندان کے بنیادی ادارے کو تباہ اور معاشرت کو ملیا میٹ کر رہے ہیں اور یہی کچھ قوتوں کا مطمع نظر اور پلاننگ کا حصہ ہے۔ جب تک ان اسباب کا تدارک کرنے کے لیے والدین، معاشرہ اور حکومتی ادارے اپنا کردار ادا نہیں کریں گے اس سے بڑے بڑے اور سنگین واقعات رونما ہوتے رہیں گے اور ان کی شرح میں بھی روزافزوں ہوتی جائے گی۔
ملک میں قتل و غارت گری اور ظلم و سفاکی کی وارداتیں معمول کا حصہ بن چکی ہیں جنھیں دیکھ کر یا سن کر بعض اوقات عقل دنگ اور اعصاب شل ہوجاتے ہیں۔ ان میں سے بعض واقعات میڈیا کوریج، این جی اوز کی پشت پناہی و دلچسپی اور غیر ملکی اداروں اور حکومتوں کی دلچسپی و دخل اندازی کی وجہ سے بڑی شہرت و اہمیت حاصل کرجاتے ہیں۔ پچھلے دنوں ایسے ہی دو واقعات کو ملکی و بین الاقوامی سطح پر بڑی شہرت ملی، ان واقعات کا حکومتی سطح پر نوٹس لیا گیا، سپریم کورٹ نے بھی اس پر سوموٹو ایکشن لیا، ہائیکورٹ بار نے متاثرہ خاندان کو مفت قانونی امداد دینے کا اعلان کردیا۔
ایک واقعے میں پسند کی شادی کرنے والی لڑکی کو اس کے بھائیوں نے گولیوں سے بھون ڈالا۔ دوسرے واقعے میں پسند کی شادی کرنے والی لڑکی کو عدالت میں پیشی پر آنے کے موقع پر اس کے بھائی باپ اور رشتے داروں نے اینٹیں مار مار کر ہلاک کردیا۔ ان واقعات کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق اوالذکر واقعے میں مقتول خاتون نے اپنی سگی بہن کے شوہر سے ناجائز مراسم استوار کرلیے تھے، جب بہن کو اس کا علم ہوا تو وہ ان کے راستے میں رکاوٹ بنی اور والدین کو بھی اس بات سے آگاہ کیا۔ والدین نے بیٹی کو سمجھانے کی بہت کوششیں کیں لیکن لڑکی نہ مانی اور فرار ہوکر بہنوئی کے گھر چلی گئی۔
جس نے اس کی بہن کو طلاق دے کر عدت مکمل ہونے سے پہلے ہی اپنی سالی سے شادی رچالی، جس کے مطابق بتایا گیا ہے کہ وہ پہلے سے نکاح شدہ تھی۔ اس کے خاندان کو واقعے کا بڑا ملال تھا، ملزمان کے خلاف زنا کا مقدمہ درج ہوا۔ مقتولہ کو اس کے بھائیوں نے گولیاں مار کر ہلاک کر ڈالا۔ قتل کی دوسری واردات کی تفصیلات کے مطابق مقتولہ نے عمر میں اپنے سے 20، 22 سال بڑے شادی شدہ شخص سے تعلقات استوار کرلیے تھے، پہلی بیوی نے احتجاج و اعتراض کیا تو اس شخص نے بیوی کو گلاگھونٹ کر مار ڈالا۔ عدالت میں مقتولہ ماں کے بیٹوں نے وارث ہونے کے ناتے باپ سے خون بہا لے کر معاف کردیا۔ اس طرح قاتل آزاد ہوگیا اور پھر دونوں نے شادی رچالی۔
لڑکی کے بھائیوں کو اس بات کا رنج تھا کہ بہن نے ایک بدکردار اور قاتل شخص سے شادی کرلی ہے۔ عدالت میں پیشی کے موقع پر فریقین کے افراد کے مابین تلخ کلامی، مارپیٹ ہوئی اینٹیں چلائی گئیں اور متوفیہ اینٹ لگنے سے ہلاک ہوگئی۔ وارداتوں کی تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں مقتولہ اس قدر معصوم اور بے گناہ نہیں تھیں، جیسا انھیں ظاہر کیا جا رہا ہے بلکہ ان کے پیچھے بہت سے محرکات کارفرما ہیں۔
اس قسم کے واقعات پر ایک مخصوص سوچ اور عزم کا حامل طبقہ، میڈیا اور این جی او سے متعلق افراد اور غیر ملکی ادارے اور حکومتیں، ان کا تعلق پاکستانی معاشرے اور اسلام سے جوڑ کر مبالغہ آرائی کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ہیں۔ وہ اس کی آڑ میں اسلامی قوانین کو بھی آڑے ہاتھوں لیتے ہیں کہ قصاص کے اسلامی اصول کی وجہ سے ریمنڈ ڈیوس آزاد ہوگیا یا کہ حالیہ قتل کی واردات میں بھی ماں باپ بہن بھائی قاتل کو خون معاف کرکے آزاد کرا لیں گے۔
وہ ایسے واقعات صنفی جبرو استحصال سے تعبیر کرکے خواتین کی ہمدردیاں سمیٹتے ہیں۔ مجرموں کے لیے سخت سزاؤں کے واجبی سے مطالبات تو کرتے ہیں مگر سزائے موت کی مخالفت کرتے ہیں، بعض اسلامی تعزیرات و سزاؤں کو بربریت و جاہلیت قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ اس قسم کے واقعات کو صنف یا مذہب سے جوڑنا سراسر ناانصافی ہے۔ شوہر کو زہر دے کر، گلا گھونٹ کر، سوتے میں مار ڈالنے یا آشناؤں کے ساتھ مل کر شوہر کو قتل کرکے ڈکیتی کا رنگ دینے یا زمین میں دفنا دینے، شوہر کے سر پر توا مار کر ہلاک کردینے اور اس کو قتل کرکے اس کا گوشت پکانے جیسے جرائم کی مرتکب خواتین کے جرم کو بھی صنفی و مذہبی جرم یا معاشرتی کلچر نہیں کہا جاسکتا ہے۔ اس قسم کے واقعات بلالحاظ جنس و مذہب صرف اور صرف جاہلانہ و مجرمانہ ذہنیت کی وجہ سے ظہور پذیر ہوتے ہیں۔
متذکرہ دونوں واقعات انتہائی سنگین اور قابل مذمت ہیں، کسی شخص کو بھی قانون ہاتھ میں لینے، سڑکوں پر فیصلہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ قانون کے رکھوالوں کی بے حسی اور تماش بینی بھی قابل مذمت اور قابل گرفت ہے جو میاں بیوی کی تکرار میں تو فائرنگ کرکے شوہر کو قتل کرنے سے بھی نہیں چوکتے مگر اس بلوے کو تماش بینوں کی طرح دیکھتے رہے۔
انسانی و نسوانی حقوق کی علمبردار شخصیات، اداروں اور حکومتوں کو سونیا ناز، ڈاکٹر شازیہ، چیچن خواتین، مزار قائد پر اغوا اور درندگی کا نشانہ بننے والی دوشیزہ، جنسی درندگی کے بعد جناح اسپتال کی بالائی منزل سے پھینکی جانے والی نرس جیسے لاتعداد جرائم نظر کیوں نہیں آتے۔ انھیں جرمن عدالت میں حجاب کا دفاع کرنے والی مرواح اشربینی کیوں نظر نہیں آتی، جسے بھری عدالت میں جج اور سیکیورٹی کی موجودگی میں خنجر کے پہ درپے 18 وار کرکے ہلاک کردیا جاتا ہے لیکن جب اس کا شوہر بچانے کے لیے آگے بڑھتا ہے تو سیکیورٹی فوراً حرکت میں آتی ہے اور اسے گولیوں سے چھلنی کردیا جاتا ہے۔ اس کمرہ عدالت میں حاملہ خاتون اور اس کے شوہر سمیت تین جانوں کے قاتلوں کی کوئی مذمت نہیں کرتا۔
ڈاکٹر عافیہ اور اس کے بچوں کا مسئلہ بھی انھیں انسانی یا نسوانی نظر نہیں آتا ہے۔ دنیا بھر میں جنگوں، بغاوتوں، فسادات اور ریاستی جبر کے نتیجے میں ہونے والی لاکھوں عورتوں اور بچوں کی ہلاکتیں بھی ان کے ضمیر کو نہیں جھنجھوڑتیں۔ ایدھی ذرائع کے مطابق اس کے قبرستان میں 38 ہزار لاوارث افراد کی قبریں ہیں، دیگر اداروں اور قبرستانوں میں ایسے لاوارث افراد اور لاپتہ ہوجانے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔ اس پر کسی کو تشویش نہیں ہوتی ہے۔
تیزاب سے متاثرہ خاتون پر بنائی گئی فلم پر آسکر ایوارڈ تو حاصل کرلیا یا نواز دیا جاتا ہے لیکن جب متاثرہ خاتون معاوضہ نہ ملنے اور دھمکیاں ملنے پر بین کرتی ہے تو کوئی اس کی مدد کو نہیں آتا۔ ایک سیٹھ کی ہوس زر کی بھینٹ چڑھ جانے والے 250 محنت کشوں کی خاک پر فوٹو سیشن کرانے اور شہرت و نیک نامی حاصل کرنے والے ان کے لواحقین ان کی خاک پر بے یارومددگار چھوڑ کر شہرت کے دوسرے تھیٹروں کی تلاش کیوں شروع کردیتے ہیں۔
یہ سب کچھ ان کے دہرے معیار اور مذموم مقاصد کی نشاندہی کرتا ہے۔ پاکستان کے کچھ قبائلی ذات اور برادریاں رسومات اور روایات میں جکڑے ہوئے ہیں جن کی باگ ڈور اس قسم کے جاگیرداروں، سرداروں، وڈیروں اور سیاستدانوں کے ہاتھوں میں ہیں، ان کو چھوڑ کر عام پاکستانی معاشرے میں ماں، بہن اور بیٹیوں کو خاص اہمیت اور آزادی بھی حاصل ہے، باپ بھائی بیٹوں اور بہنوں کے لیے قربانیاں دیتے ہیں، اپنی عمریں گنوا دیتے ہیں، پہلے بہنوں کی شادی کرتے ہیں، اس پر آنے والے لاکھوں روپے کے اخراجات کی خاطر دن رات محنت کرتے ہیں، قرض لیتے ہیں، گھر تک بیچ دیتے ہیں، ان کی خواہش ہوتی ہے کہ اپنی بہن بیٹی کو حیثیت سے بڑھ کر شان و شوکت کے ساتھ رخصت کریں، اس کے دل میں کوئی خواہش یا احساس محرومی نہ رہ جائے۔ پھر ان کا یہ حق تو بنتا ہے کہ بیٹی بہن بھی ان کی عزت کا پاس رکھے۔
آج کل اولاد کا ماں باپ سے بغاوت کرکے کورٹ میرج کرنے کا جو طوفانی سلسلہ چل نکلا ہے اور پھر اس کے نتیجے میں طلاق و خلع کی خطرناک شرح نے والدین کو دہری سولی پر لٹکا دیا ہے، اس میں خود والدین، معاشرے اور حکومت کا بڑا ہاتھ ہے۔ مخلوط تعلیمی و ملازمت کا نظام، بے حجابی، ٹی وی کے واہیات پروگرام، غیر ملکی ثقافت کی یلغار، نیٹ کیفے، صبح سویرے کھلنے والے آئس کریم پارلرز، موبائل فونز، مغرب کی نقالی، فریب دھوکہ دہی، نمودو نمائش، اسٹیٹس اور جہیز کی دوڑ، بڑی عمروں تک شادی کا نہ ہونا، وہ عوامل ہیں جو خاندان کے بنیادی ادارے کو تباہ اور معاشرت کو ملیا میٹ کر رہے ہیں اور یہی کچھ قوتوں کا مطمع نظر اور پلاننگ کا حصہ ہے۔ جب تک ان اسباب کا تدارک کرنے کے لیے والدین، معاشرہ اور حکومتی ادارے اپنا کردار ادا نہیں کریں گے اس سے بڑے بڑے اور سنگین واقعات رونما ہوتے رہیں گے اور ان کی شرح میں بھی روزافزوں ہوتی جائے گی۔