کرکٹ میں سیاسی مداخلت کیا گل کھلائے گی
’’جس کی لاٹھی، اس کی بھینس‘‘ کے مصداق، جس کی حکومت، اس کا کرکٹ بورڈ کا فارمولا بھی ہمارے ریکارڈ کا حصہ ہے
پاکستان میں سیاسی کھیلوں کی طویل داستانیں رقم ہوتی رہیں تو دوسری طرف کھیلوں میں سیاست کا چلن بھی عام رہا ہے۔
''جس کی لاٹھی، اس کی بھینس'' کے مصداق، جس کی حکومت، اس کا کرکٹ بورڈ کا فارمولا بھی ہمارے ریکارڈ کا حصہ ہے،اس بار تو سیاسی تبدیلی پی سی بی پر زیادہ ہی بھاری ثابت ہوئی ہے،حکومت کی تبدیلی کے بعد ایک سال میں چھٹی بار بورڈ کا سربراہ تبدیل ہوچکا، مئی 2013 میں ذکاء اشرف کا بطور چیئرمین انتخاب ہائیکورٹ کی طرف سے غیر شفاف قرار دیتے ہوئے ان کو کام کرنے سے روک دیا گیا، بین الصوبائی رابطہ امور کی وزارت نے نجم سیٹھی کو عبوری سربراہ مقرر کیا۔
انہوں نے معین خان کو چیف سلیکٹر بنانے سمیت کئی اقدامات کئے تھے کہ عدالت نے بڑے فیصلوں کو دائرہ اختیار سے تجاوز قرار دیتے ہوئے تقرریوں پر پابندی لگادی، نجم سیٹھی ایک طرف عدم اختیار کی وجہ سے ہاتھ پاؤں بندھے ہونے کے گلوے شکوے کرتے رہے، دوسری طرف میڈیا رائٹس کی فروخت سمیت اہم فیصلے بھی کردیئے گئے، ذکاء اشرف رواں سال 15جنوری اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے پر بحال ہوئے۔
تاہم چیف پیٹرن نواز شریف نے 10فروری کو ہی انہیں فارغ کرکے نجم سیٹھی کی سربراہی میں عبوری کمیٹی قائم کردی، ذکاء اشرف ایک بار پھر اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم پر بحال ہوئے لیکن 4روز بعد ہی 21مئی کو سپریم کورٹ کے فیصلے پر عہدہ چھوڑنا پڑا، میوزیکل چیئر گیم میں دونوں کے چارج سنبھالنے کی ہیٹ ٹرک مکمل ہوچکی جو اپنی جگہ ایک ریکارڈ ہے۔
تیسری بار بحالی کے بعد نجم سیٹھی آئین کی تیاری اور عبوری مدت ختم ہونے سے قبل الیکشن کے 9جون تک انعقاد کا بار بار ذکر کرتے رہے، ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے دو سابق جج صاحبان کے تیارکردہ آئین کا مسودہ بین الصوبائی رابطے کی وزارت اور چیف پیٹرن وزیر اعظم کو ارسال کیا جاچکا، منظوری ملتے ہی الیکشن کے ذریعے حقیقی جمہوری سیٹ اپ لانے کے لیے کام شروع کردیں گے،انہوں نے لاہور میں پریس کانفرنس کے دوران یہ بھی کہا کہ انتخابات مکمل ہونے کے بعد چیئرمین کا عہدہ پاس رکھنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔
وزیر اعظم کو لکھا ہے کہ میری عبوری مدت میں توسیع نہ کی جائے، آئین جلد منظور کردیں تاکہ مینجمنٹ کمیٹی اپنی ذمہ داری پوری کرسکے، وفاقی وزیر برائے بین الصوبائی رابطہ امور ریاض حسین پیرزادہ کا کہنا تھا کہ پی سی بی کو انتخابات کے لیے 12جون کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے،اب صورتحال یہ ہے کہ ان کی وزارت نے عبوری مینجمنٹ کمیٹی کی مدت ختم ہونے سے قبل ہی 4 ماہ توسیع کے لیے سمری وزیر اعظم کو ارسال کردی۔ ذرائع کے مطابق منظوری کے بعد نوٹیفکیشن کی کاپی پی سی بی کو موصول ہوچکی۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں عبوری طور پر بحال ہونے والے عبوری چیئرمین کی مدت میں توسیع حیران کن ہے،گذشتہ ماہ ملازمین کی جانب سے برطرفی کیخلاف کیس کی سماعت2ہفتے کے لیے ملتوی کرتے ہوئے حکم امتناعی کے تحت نجم سیٹھی کو کام جاری رکھنے کی اجازت ملی تھی۔
مقدمہ میں ذکا اشرف کے فریق بننے کی درخواست بھی قبول کی جاچکی، وہ اب بھی ایک بار پھر بورڈ کا سربراہ بننے کے لیے پر امید ہیں، 12 جون کو اگلی سماعت میں فریقین کا موقف سننے کے بعد مزید پیش رفت ہوگی، عدالتی فیصلے سے ہی نجم سیٹھی کے مستقبل کا حتمی فیصلہ ہونا ہے،دلچسپ امر یہ ہے کہ جس چیئرمین کی پہلی عبوری مدت پر سوالیہ نشان موجود ہے، اس کو توسیع دینے میں اتنی جلد بازی کیوں کی جارہی ہے؟ کم از کم سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار ہی کرلیا جاتا۔
نجم سیٹھی نئے آئین کے تحت انتخابات کروانے کے دعویدار ہیں لیکن اس کے حوالے سے بھی سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینے کی ضروت محسوس نہیں کی گئی جس کی وجہ سے متضاد اطلاعات سامنے آرہی ہیں،کچھ ذرائع کا دعویٰ تھا کہ زیادہ تر اختیارات چیف پیٹرن وزیر اعظم کی طرف سے براہ راست نامزد کردہ چیف ایگزیکٹو یا منیجنگ ڈائریکٹر کو حاصل ہوں گے اور منتخب چیئرمین کا عہدہ برائے نام رہ جائے گا۔
آئی سی سی کی طرز پر صدر کا عہدہ متعارف کروائے جانے کی باتیں بھی ہوئیں،اس سے قبل پی سی بی کا اولین آئین ذکاء اشرف نے مئی 2013 میں پیش کیا جس کو اس وقت کی حکومت نے منظور جبکہ آئی سی سی نے اطمینان کا اظہار کیا تھا،اس کو غیر منصفانہ، غیر جمہوری اور ذاتی مفادات کے تحفظ کے لیے بدنیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے نیا آئین تیار کروایا گیا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اختیارات میں مرضی کی اکھاڑ پچھاڑ کے بعد نظر ثانی شدہ نیا آئین منظوری کے لیے آئی سی سی کو بھیجے جانے پر اس کا کیا ردعمل ہوگا؟ نجم سیٹھی کا کہنا ہے کہ کرکٹ کی عالمی باڈی میں پاکستان میں داخلی تبدیلیوں کے حوالے سے کوئی شکایت نہیںلیکن حقیقت یہ ہے کہ انتظامی سیٹ اپ میں بار بار تبدیلیوں پر پاکستانی عوام حیرت میں مبتلا ہوکر پوچھتے ہیں کہ ''آج بورڈ کا چیئرمین کون ہے'' تو آئی سی سی اور کرکٹ کھیلنے والے ملکوں کے سربراہ بھی ضرور پوچھتے ہوں گے کہ پاکستان ٹیم کے ساتھ معاملات آگے بڑھانے ہیں تو کس سے بات کریں؟
دوسری طرف اس کشمکش میں پی سی بی مسائل میں الجھا اور غیر یقینی کیفیت سے دوچار نظر آتا ہے، نجم سیٹھی نے چیف سلیکٹر اور منیجر کی ذمہ داریاں معین خان کو سونپنے کے بعد اشتہار دینے کی رسمی کارروائی پوری کرتے ہوئے 2 سال کے لیے وقار یونس کو ہیڈ کوچ جبکہ مشتاق احمد کو سپن بولنگ اور گرانٹ فلاور کو بیٹنگ میں ان کا معاون مقرر کیا۔
ذکاء اشرف کی بحالی سے تمام فیصلے اور معاہدے غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہوئے، سابق چیئرمین نے چند روز قبل ہی مشکوک ماضی کے حامل کرکٹرز کی خدمات حاصل کئے جانے پر تحفظات کا اظہار کیا تھا، بحال ہونے کے بعد پہلی پریس کانفرنس میں بھی ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے 17اپریل کو اپنے فیصلے میں مینجمنٹ کمیٹی کے تمام فیصلے بھی کالعدم قرار دے دیئے تھے۔
کرکٹ میں کرپشن کی وجہ سے سزا یافتہ سابق کرکٹرز سمیت تمام تقرریوں کا از سرنو جائزہ لیتے ہوئے صرف اب اُن فیصلوں کو ہی برقرار رکھیں گے جو پاکستان کرکٹ کے مفاد میں ہوں گے، ان معاملات پر غور کرنے کے لیے انہوں نے گورننگ بورڈ کے ارکان پورے ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے اجلاس بھی طلب کرلیا تھا لیکن ایک گھنٹہ قبل ہی سپریم کورٹ کا عبوری فیصلہ آنے پر ان کو عہدہ چھوڑنا پڑا۔ان حالات میں غیر ملکی کوچ گرانٹ فلاور کے ساتھ معاہدہ تعطل کا شکار ہونے کے بعد نجم سیٹھی کی واپسی پر مکمل ہوا۔
رچرڈ ہلسال کے انکار نے گرانٹ لیوڈن کی راہ ہموار کی، کل کیا ہوگا؟ اب بھی کچھ یقین سے نہیں کہا جاسکتا؟ دنیا کی دیگر ٹیمیں جہاں ورلڈکپ کے لیے اپنی پلاننگ کو حتمی شکل دینے میں مصروف ہیں، وہاں پاکستانی شائقین کرسی کے لیے رسہ کشی کے مناظر دیکھ دیکھ کر اکتا چکے ہیں۔
داخلی مسائل کی وجہ سے غیر مستحکم پی سی بی کا کمزور موقف قوم کو مستقبل کے حوالے سے دعووں اور دلاسوں کے سوا کچھ نہیں دے پارہا،یہی وجہ ہے دنیا کے بیشتر کرکٹرز پاکستانیوں کے لیے شجر ممنوعہ آئی پی ایل کے ذریعے مال کمانے میں مصروف رہے، دوسری طرف گرین شرٹس کی اگست میں دورہ سری لنکا سے قبل کوئی انٹرنیشنل مصروفیت نہ ہونے کی وجہ سے میچز ٹی وی پر دیکھنے پر مجبور رہے، بولنگ کوچ کے عہدے سے ہٹا کر نیشنل کرکٹ اکیڈمی کے ہیڈ کوچ بنائے جانے والے محمد اکرم نے فراغت کے اس دور میں لاہور کے سخت گرم موسم میں کھلاڑیوں کے پسینے چھڑا کر ''سپر فٹ'' بنانے کا پروگرام تیار کرلیا۔
منتخب 40کرکٹرز میں سے کئی بار بار آزمائے جانے کے بعد قومی ٹیم کے لیے ناموزوں قرار دیئے جاچکے، تاہم اس ''پیتل'' کو کندن بناکر مستقبل کے لیے دستیاب وسائل میں اضافہ کی کوشش کی گئی، آئندہ ایونٹس کے لیے ممکنہ کھلاڑیوں کی فٹنس پر کام کرنے کی سوچ غلط نہیں تھی لیکن سلیکشن کے مقاصد اور معیار پر سوالیہ نشان ضرور ثبت ہوا،ابھرتے ہوئے کرکٹرز کی زیادہ تعداد اچھی کارکردگی کے حوالے سے رول ماڈل قرار دیئے جانے والے سینئرز کے ساتھ ٹریننگ کرتی تو مستقبل کی اچھی تیاری ہوجاتی۔ سمر کیمپ کے دوران بار بار سنٹرل کنٹریکٹ کو فٹنس سے مشروط کرنے کا اعلان کیا جاتا رہا لیکن فیصلوں کے وقت اس میرٹ کی کہیں عملداری نظر نہ آئی۔
کئی کرکٹرز کو حیران کن انداز میں نوازا دیا گیا،کئی خلاف توقع تنزلی کا شکار ہوگئے،محمد اکرم کی طرف سے ''سپر فٹ'' اور نوجوانوں کے لیے مثال قرار دیئے جانے والے یونس خان ''اے'' سے بی کیٹگری میں دھکیل دیئے گئے،سال میں کئی بار پلیئنگ الیون سے ڈراپ کئے جانے والے جنید خان کو اے میں ترقی دے دی گئی، رواں سال واحد میچ کھیلنے کا موقع ملنے پر تینوں گیندیں غیر قانونی کرکے 8رنز دینے کا منفرد کارنامہ سرانجام دینے والے عبدا لرحمان کو سی کیٹگری میں شامل رکھا گیا۔
سمر کیمپ کے 40کھلاڑیوں میں بھی نظر انداز کئے جانے کے بعد کال کئے جانے والے عمر امین کو ڈی میں شامل کیا گیا، شعیب ملک، فیصل اقبال، کامران اکمل، توفیق عمر،عمران فرحت اور اعزاز چیمہ کو کنٹریکٹ کی فہرست میں شامل نہ کرکے کیریئر کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی گئی، ماہانہ تنخواہوں اور ٹیسٹ معاوضے میں 25 ، ون ڈے میچزفیس میں 10 فیصد اضافہ کرکے ٹاپ تھری ٹیموں اور بھارت کے خلاف سیریز جیتنے پر بونس اور سپانسر لوگو منی کا حصہ بھی بڑھا دیا گیا لیکن نظر انداز کئے جانے والے کئی نوجوان باصلاحیت کرکٹرز کا حوصلہ کون بڑھائے گا،اس کا جواب کنٹریکٹ کی فہرست مرتب کرنے والی کمیٹی کے ارکان ہی دے سکتے ہیں، ڈومیسٹک کرکٹ میں پرفارم کرنے والوں کو نظر انداز کرنے سے نوجوانوں میں آگے بڑھنے کی تحریک ختم ہوگی،اس خطرناک رجحان کو تقویت پکڑنے سے روکنے کے لیے میرٹ کی پاسداری ضروری ہے۔
''جس کی لاٹھی، اس کی بھینس'' کے مصداق، جس کی حکومت، اس کا کرکٹ بورڈ کا فارمولا بھی ہمارے ریکارڈ کا حصہ ہے،اس بار تو سیاسی تبدیلی پی سی بی پر زیادہ ہی بھاری ثابت ہوئی ہے،حکومت کی تبدیلی کے بعد ایک سال میں چھٹی بار بورڈ کا سربراہ تبدیل ہوچکا، مئی 2013 میں ذکاء اشرف کا بطور چیئرمین انتخاب ہائیکورٹ کی طرف سے غیر شفاف قرار دیتے ہوئے ان کو کام کرنے سے روک دیا گیا، بین الصوبائی رابطہ امور کی وزارت نے نجم سیٹھی کو عبوری سربراہ مقرر کیا۔
انہوں نے معین خان کو چیف سلیکٹر بنانے سمیت کئی اقدامات کئے تھے کہ عدالت نے بڑے فیصلوں کو دائرہ اختیار سے تجاوز قرار دیتے ہوئے تقرریوں پر پابندی لگادی، نجم سیٹھی ایک طرف عدم اختیار کی وجہ سے ہاتھ پاؤں بندھے ہونے کے گلوے شکوے کرتے رہے، دوسری طرف میڈیا رائٹس کی فروخت سمیت اہم فیصلے بھی کردیئے گئے، ذکاء اشرف رواں سال 15جنوری اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے پر بحال ہوئے۔
تاہم چیف پیٹرن نواز شریف نے 10فروری کو ہی انہیں فارغ کرکے نجم سیٹھی کی سربراہی میں عبوری کمیٹی قائم کردی، ذکاء اشرف ایک بار پھر اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم پر بحال ہوئے لیکن 4روز بعد ہی 21مئی کو سپریم کورٹ کے فیصلے پر عہدہ چھوڑنا پڑا، میوزیکل چیئر گیم میں دونوں کے چارج سنبھالنے کی ہیٹ ٹرک مکمل ہوچکی جو اپنی جگہ ایک ریکارڈ ہے۔
تیسری بار بحالی کے بعد نجم سیٹھی آئین کی تیاری اور عبوری مدت ختم ہونے سے قبل الیکشن کے 9جون تک انعقاد کا بار بار ذکر کرتے رہے، ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے دو سابق جج صاحبان کے تیارکردہ آئین کا مسودہ بین الصوبائی رابطے کی وزارت اور چیف پیٹرن وزیر اعظم کو ارسال کیا جاچکا، منظوری ملتے ہی الیکشن کے ذریعے حقیقی جمہوری سیٹ اپ لانے کے لیے کام شروع کردیں گے،انہوں نے لاہور میں پریس کانفرنس کے دوران یہ بھی کہا کہ انتخابات مکمل ہونے کے بعد چیئرمین کا عہدہ پاس رکھنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔
وزیر اعظم کو لکھا ہے کہ میری عبوری مدت میں توسیع نہ کی جائے، آئین جلد منظور کردیں تاکہ مینجمنٹ کمیٹی اپنی ذمہ داری پوری کرسکے، وفاقی وزیر برائے بین الصوبائی رابطہ امور ریاض حسین پیرزادہ کا کہنا تھا کہ پی سی بی کو انتخابات کے لیے 12جون کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے،اب صورتحال یہ ہے کہ ان کی وزارت نے عبوری مینجمنٹ کمیٹی کی مدت ختم ہونے سے قبل ہی 4 ماہ توسیع کے لیے سمری وزیر اعظم کو ارسال کردی۔ ذرائع کے مطابق منظوری کے بعد نوٹیفکیشن کی کاپی پی سی بی کو موصول ہوچکی۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں عبوری طور پر بحال ہونے والے عبوری چیئرمین کی مدت میں توسیع حیران کن ہے،گذشتہ ماہ ملازمین کی جانب سے برطرفی کیخلاف کیس کی سماعت2ہفتے کے لیے ملتوی کرتے ہوئے حکم امتناعی کے تحت نجم سیٹھی کو کام جاری رکھنے کی اجازت ملی تھی۔
مقدمہ میں ذکا اشرف کے فریق بننے کی درخواست بھی قبول کی جاچکی، وہ اب بھی ایک بار پھر بورڈ کا سربراہ بننے کے لیے پر امید ہیں، 12 جون کو اگلی سماعت میں فریقین کا موقف سننے کے بعد مزید پیش رفت ہوگی، عدالتی فیصلے سے ہی نجم سیٹھی کے مستقبل کا حتمی فیصلہ ہونا ہے،دلچسپ امر یہ ہے کہ جس چیئرمین کی پہلی عبوری مدت پر سوالیہ نشان موجود ہے، اس کو توسیع دینے میں اتنی جلد بازی کیوں کی جارہی ہے؟ کم از کم سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار ہی کرلیا جاتا۔
نجم سیٹھی نئے آئین کے تحت انتخابات کروانے کے دعویدار ہیں لیکن اس کے حوالے سے بھی سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینے کی ضروت محسوس نہیں کی گئی جس کی وجہ سے متضاد اطلاعات سامنے آرہی ہیں،کچھ ذرائع کا دعویٰ تھا کہ زیادہ تر اختیارات چیف پیٹرن وزیر اعظم کی طرف سے براہ راست نامزد کردہ چیف ایگزیکٹو یا منیجنگ ڈائریکٹر کو حاصل ہوں گے اور منتخب چیئرمین کا عہدہ برائے نام رہ جائے گا۔
آئی سی سی کی طرز پر صدر کا عہدہ متعارف کروائے جانے کی باتیں بھی ہوئیں،اس سے قبل پی سی بی کا اولین آئین ذکاء اشرف نے مئی 2013 میں پیش کیا جس کو اس وقت کی حکومت نے منظور جبکہ آئی سی سی نے اطمینان کا اظہار کیا تھا،اس کو غیر منصفانہ، غیر جمہوری اور ذاتی مفادات کے تحفظ کے لیے بدنیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے نیا آئین تیار کروایا گیا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اختیارات میں مرضی کی اکھاڑ پچھاڑ کے بعد نظر ثانی شدہ نیا آئین منظوری کے لیے آئی سی سی کو بھیجے جانے پر اس کا کیا ردعمل ہوگا؟ نجم سیٹھی کا کہنا ہے کہ کرکٹ کی عالمی باڈی میں پاکستان میں داخلی تبدیلیوں کے حوالے سے کوئی شکایت نہیںلیکن حقیقت یہ ہے کہ انتظامی سیٹ اپ میں بار بار تبدیلیوں پر پاکستانی عوام حیرت میں مبتلا ہوکر پوچھتے ہیں کہ ''آج بورڈ کا چیئرمین کون ہے'' تو آئی سی سی اور کرکٹ کھیلنے والے ملکوں کے سربراہ بھی ضرور پوچھتے ہوں گے کہ پاکستان ٹیم کے ساتھ معاملات آگے بڑھانے ہیں تو کس سے بات کریں؟
دوسری طرف اس کشمکش میں پی سی بی مسائل میں الجھا اور غیر یقینی کیفیت سے دوچار نظر آتا ہے، نجم سیٹھی نے چیف سلیکٹر اور منیجر کی ذمہ داریاں معین خان کو سونپنے کے بعد اشتہار دینے کی رسمی کارروائی پوری کرتے ہوئے 2 سال کے لیے وقار یونس کو ہیڈ کوچ جبکہ مشتاق احمد کو سپن بولنگ اور گرانٹ فلاور کو بیٹنگ میں ان کا معاون مقرر کیا۔
ذکاء اشرف کی بحالی سے تمام فیصلے اور معاہدے غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہوئے، سابق چیئرمین نے چند روز قبل ہی مشکوک ماضی کے حامل کرکٹرز کی خدمات حاصل کئے جانے پر تحفظات کا اظہار کیا تھا، بحال ہونے کے بعد پہلی پریس کانفرنس میں بھی ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے 17اپریل کو اپنے فیصلے میں مینجمنٹ کمیٹی کے تمام فیصلے بھی کالعدم قرار دے دیئے تھے۔
کرکٹ میں کرپشن کی وجہ سے سزا یافتہ سابق کرکٹرز سمیت تمام تقرریوں کا از سرنو جائزہ لیتے ہوئے صرف اب اُن فیصلوں کو ہی برقرار رکھیں گے جو پاکستان کرکٹ کے مفاد میں ہوں گے، ان معاملات پر غور کرنے کے لیے انہوں نے گورننگ بورڈ کے ارکان پورے ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے اجلاس بھی طلب کرلیا تھا لیکن ایک گھنٹہ قبل ہی سپریم کورٹ کا عبوری فیصلہ آنے پر ان کو عہدہ چھوڑنا پڑا۔ان حالات میں غیر ملکی کوچ گرانٹ فلاور کے ساتھ معاہدہ تعطل کا شکار ہونے کے بعد نجم سیٹھی کی واپسی پر مکمل ہوا۔
رچرڈ ہلسال کے انکار نے گرانٹ لیوڈن کی راہ ہموار کی، کل کیا ہوگا؟ اب بھی کچھ یقین سے نہیں کہا جاسکتا؟ دنیا کی دیگر ٹیمیں جہاں ورلڈکپ کے لیے اپنی پلاننگ کو حتمی شکل دینے میں مصروف ہیں، وہاں پاکستانی شائقین کرسی کے لیے رسہ کشی کے مناظر دیکھ دیکھ کر اکتا چکے ہیں۔
داخلی مسائل کی وجہ سے غیر مستحکم پی سی بی کا کمزور موقف قوم کو مستقبل کے حوالے سے دعووں اور دلاسوں کے سوا کچھ نہیں دے پارہا،یہی وجہ ہے دنیا کے بیشتر کرکٹرز پاکستانیوں کے لیے شجر ممنوعہ آئی پی ایل کے ذریعے مال کمانے میں مصروف رہے، دوسری طرف گرین شرٹس کی اگست میں دورہ سری لنکا سے قبل کوئی انٹرنیشنل مصروفیت نہ ہونے کی وجہ سے میچز ٹی وی پر دیکھنے پر مجبور رہے، بولنگ کوچ کے عہدے سے ہٹا کر نیشنل کرکٹ اکیڈمی کے ہیڈ کوچ بنائے جانے والے محمد اکرم نے فراغت کے اس دور میں لاہور کے سخت گرم موسم میں کھلاڑیوں کے پسینے چھڑا کر ''سپر فٹ'' بنانے کا پروگرام تیار کرلیا۔
منتخب 40کرکٹرز میں سے کئی بار بار آزمائے جانے کے بعد قومی ٹیم کے لیے ناموزوں قرار دیئے جاچکے، تاہم اس ''پیتل'' کو کندن بناکر مستقبل کے لیے دستیاب وسائل میں اضافہ کی کوشش کی گئی، آئندہ ایونٹس کے لیے ممکنہ کھلاڑیوں کی فٹنس پر کام کرنے کی سوچ غلط نہیں تھی لیکن سلیکشن کے مقاصد اور معیار پر سوالیہ نشان ضرور ثبت ہوا،ابھرتے ہوئے کرکٹرز کی زیادہ تعداد اچھی کارکردگی کے حوالے سے رول ماڈل قرار دیئے جانے والے سینئرز کے ساتھ ٹریننگ کرتی تو مستقبل کی اچھی تیاری ہوجاتی۔ سمر کیمپ کے دوران بار بار سنٹرل کنٹریکٹ کو فٹنس سے مشروط کرنے کا اعلان کیا جاتا رہا لیکن فیصلوں کے وقت اس میرٹ کی کہیں عملداری نظر نہ آئی۔
کئی کرکٹرز کو حیران کن انداز میں نوازا دیا گیا،کئی خلاف توقع تنزلی کا شکار ہوگئے،محمد اکرم کی طرف سے ''سپر فٹ'' اور نوجوانوں کے لیے مثال قرار دیئے جانے والے یونس خان ''اے'' سے بی کیٹگری میں دھکیل دیئے گئے،سال میں کئی بار پلیئنگ الیون سے ڈراپ کئے جانے والے جنید خان کو اے میں ترقی دے دی گئی، رواں سال واحد میچ کھیلنے کا موقع ملنے پر تینوں گیندیں غیر قانونی کرکے 8رنز دینے کا منفرد کارنامہ سرانجام دینے والے عبدا لرحمان کو سی کیٹگری میں شامل رکھا گیا۔
سمر کیمپ کے 40کھلاڑیوں میں بھی نظر انداز کئے جانے کے بعد کال کئے جانے والے عمر امین کو ڈی میں شامل کیا گیا، شعیب ملک، فیصل اقبال، کامران اکمل، توفیق عمر،عمران فرحت اور اعزاز چیمہ کو کنٹریکٹ کی فہرست میں شامل نہ کرکے کیریئر کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی گئی، ماہانہ تنخواہوں اور ٹیسٹ معاوضے میں 25 ، ون ڈے میچزفیس میں 10 فیصد اضافہ کرکے ٹاپ تھری ٹیموں اور بھارت کے خلاف سیریز جیتنے پر بونس اور سپانسر لوگو منی کا حصہ بھی بڑھا دیا گیا لیکن نظر انداز کئے جانے والے کئی نوجوان باصلاحیت کرکٹرز کا حوصلہ کون بڑھائے گا،اس کا جواب کنٹریکٹ کی فہرست مرتب کرنے والی کمیٹی کے ارکان ہی دے سکتے ہیں، ڈومیسٹک کرکٹ میں پرفارم کرنے والوں کو نظر انداز کرنے سے نوجوانوں میں آگے بڑھنے کی تحریک ختم ہوگی،اس خطرناک رجحان کو تقویت پکڑنے سے روکنے کے لیے میرٹ کی پاسداری ضروری ہے۔