قطر میں اقوام متحدہ کی کانفرنس سے طالبان کا بائیکاٹ ’ سفارتی غلطی‘ قرار
افغان طالبان نے دنیا سے اپنی دوری ختم کرنے کا ایک بڑا موقع گنوا دیا، سفارتی ذرائع
سفارتی ذرائع نے بتایا کہ افغان طالبان حکومت کا دوحہ میں منعقدہ اقوام متحدہ کی حالیہ کانفرنس کا بائیکاٹ کرنے کا اقدام ایک "بڑی غلطی" تھی کیونکہ ان کے اس عمل کے نیتجے میں وہ بین الاقوامی سطح پر مزید تنہائی کا شکار ہوجائیں گے۔
اقوام متحدہ کے زیر اہتمام 18 اور 19 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں دو روزہ کانفرنس ہوئی جس میں پاکستان سمیت دو درجن سے زائد ممالک کے خصوصی ایلچی نے شرکت کی تاکہ طالبان حکومت کے ساتھ مستقبل میں مشغولیت کے لیے روڈ میپ پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔
طالبان چاہتے تھے کہ انہیں افغانستان کا واحد نمائندہ کے طور دیکھا جائے اور انہیں ہی دیگرافغان مندوبین کو دعوت دینے کا اختیار حاصل ہو۔ لیکن دوحۃ میں منعقد اجلاس میں خواتین کے حقوق کے سرگرم افغان کارکنان سمیت طالبان مخالف گروپ کے نمائندے بھی موجود تھے جس کے بعد شرائط پوری نہ ہونے پر طالبان نے اقوام متحدہ کے دعوت نامہ کو مسترد کردیا تھا۔
سفارتی ذرائع نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ طالبان کا فیصلہ ایک اہم غلطی تھی، کیونکہ انہوں نے دنیا سے اپنی دوری ختم کرنے کا ایک بڑا موقع گنوا دیا۔ ایک سفارتی ذریعے نے کہا کہ یہ طالبان حکومت کے لیے اچھا نہیں ہو سکتا۔
اقوام متحدہ کا اجلاس ایک سال سے بھی کم عرصے میں دوسرا اجلاس تھا اور اس کا مقصد اقوام متحدہ کے خصوصی کوآرڈینیٹر کی تیار کردہ سفارشات پر تبادلہ خیال کرنا تھا۔ اقوام متحدہ کے رابطہ کار نے طالبان کے ساتھ مسلسل رابطے کی تجویز پیش کی، لیکن اس پر پیش رفت چند دیگر امور سے مشروط تھی۔
ایک تجویز میں افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی کی تقرری بھی شامل تھی۔ طالبان نے اس کی سختی سے مخالفت کی، اور یہ تجویز کیا کہ ایسے ایلچی اس وقت مقرر کیے جاتے ہیں جب کوئی ملک حالت جنگ یا اندرونی تنازع میں ہو۔
دو روزہ کانفرنس اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی کی تقرری کے بارے میں کسی حتمی فیصلے پر نہیں پہنچ سکی۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ وہ اس معاملے پر تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت شروع کریں گے۔
پاکستان نے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی کی تجویز کی حمایت کی، جس کی طالبان حکومت نے حمایت نہیں کی۔
پاکستانی وفد کی قیادت آصف درانی نے کی اور دوحہ میں افغان انسانی اور خواتین کے حقوق کے کارکنوں سے ملاقات کی جبکہ طالبان کی جانب سے ان کی موجودگی پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔
اس اقدام سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان اب طالبان حکومت کی ہدایات پر عمل نہیں کر رہا ہے۔ یہ تبدیلی اس لیے ہے کہ پاکستان کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف کارروائی کرنے سے طالبان کے انکار سے ناخوش ہے۔
اقوام متحدہ کے زیر اہتمام 18 اور 19 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں دو روزہ کانفرنس ہوئی جس میں پاکستان سمیت دو درجن سے زائد ممالک کے خصوصی ایلچی نے شرکت کی تاکہ طالبان حکومت کے ساتھ مستقبل میں مشغولیت کے لیے روڈ میپ پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔
طالبان چاہتے تھے کہ انہیں افغانستان کا واحد نمائندہ کے طور دیکھا جائے اور انہیں ہی دیگرافغان مندوبین کو دعوت دینے کا اختیار حاصل ہو۔ لیکن دوحۃ میں منعقد اجلاس میں خواتین کے حقوق کے سرگرم افغان کارکنان سمیت طالبان مخالف گروپ کے نمائندے بھی موجود تھے جس کے بعد شرائط پوری نہ ہونے پر طالبان نے اقوام متحدہ کے دعوت نامہ کو مسترد کردیا تھا۔
سفارتی ذرائع نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ طالبان کا فیصلہ ایک اہم غلطی تھی، کیونکہ انہوں نے دنیا سے اپنی دوری ختم کرنے کا ایک بڑا موقع گنوا دیا۔ ایک سفارتی ذریعے نے کہا کہ یہ طالبان حکومت کے لیے اچھا نہیں ہو سکتا۔
اقوام متحدہ کا اجلاس ایک سال سے بھی کم عرصے میں دوسرا اجلاس تھا اور اس کا مقصد اقوام متحدہ کے خصوصی کوآرڈینیٹر کی تیار کردہ سفارشات پر تبادلہ خیال کرنا تھا۔ اقوام متحدہ کے رابطہ کار نے طالبان کے ساتھ مسلسل رابطے کی تجویز پیش کی، لیکن اس پر پیش رفت چند دیگر امور سے مشروط تھی۔
ایک تجویز میں افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی کی تقرری بھی شامل تھی۔ طالبان نے اس کی سختی سے مخالفت کی، اور یہ تجویز کیا کہ ایسے ایلچی اس وقت مقرر کیے جاتے ہیں جب کوئی ملک حالت جنگ یا اندرونی تنازع میں ہو۔
دو روزہ کانفرنس اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی کی تقرری کے بارے میں کسی حتمی فیصلے پر نہیں پہنچ سکی۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ وہ اس معاملے پر تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت شروع کریں گے۔
پاکستان نے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی کی تجویز کی حمایت کی، جس کی طالبان حکومت نے حمایت نہیں کی۔
پاکستانی وفد کی قیادت آصف درانی نے کی اور دوحہ میں افغان انسانی اور خواتین کے حقوق کے کارکنوں سے ملاقات کی جبکہ طالبان کی جانب سے ان کی موجودگی پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔
اس اقدام سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان اب طالبان حکومت کی ہدایات پر عمل نہیں کر رہا ہے۔ یہ تبدیلی اس لیے ہے کہ پاکستان کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف کارروائی کرنے سے طالبان کے انکار سے ناخوش ہے۔