اصل فاتح بلاول بھٹو زرداری ہیں
مرکزی اقتدار اور وفاقی سیاست میں جناب بلاول بھٹو زرداری نیوکلیس کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں
حالیہ قومی انتخابات سے قبل یوں تو پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین، جناب بلاول بھٹو زرداری ،نے کئی قومی اور بین الاقوامی میڈیاز کو تفصیلی انٹرویوز دیے مگر انتخابات سے تین ہفتے قبل (19جنوری 2024 کو) اُنھوں نے پاکستان کے ایک نجی ٹی وی کو جو انٹرویو دیا، وہ خاصا اہم یوں تھا کہ اِس مصاحبے میں اُنھوں نے بالتفصیل انتخابات کے بعد پیدا ہونے والے حالات سے نمٹنے کے لیے پیپلز پارٹی کے عزائم ظاہر کیے تھے۔
جب انٹرویو نگار نے اُن سے پوچھاکہ '' اگر ان انتخابات کے نتیجے میں کسی بھی بڑی پارٹی کو اکثریت نہ ملی تو کیا آپ دوسری سیاسی پارٹیوں سے مل کر مخلوط حکومت بنائیں گے ؟'' تو بلاول بھٹو نے کہا تھا:'' آپ کو کس نے بتایا ہے کہ پیپلز پارٹی اُن ( نون لیگ) سے مل کر حکومت سازی کرے گی؟ مَیں پہلے بھی کہہ چکا ہُوں کہ اکثریت ملنے پر ہی مَیں حکومت بناؤں گا، بصورتِ دیگر مخلوط حکومت میں نہیں بیٹھوں گا۔''
مگر 20فروری کی شب نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان (طول طویل ملاقاتوں، مشوروں اور بیٹھکوں کے بعد) جو معاہدہ سامنے آیا ہے، وہ درحقیقت جناب بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے ، بالواسطہ، نون لیگ کے ساتھ مخلوط حکومت میں بیٹھنے کے مترادف ہے۔ اگرچہ پیپلز پارٹی، فی الحال، وفاقی وزارتوں کے قلمدان نہیں سنبھال رہی ، مگر معاہدے کے مطابق وہ صدرِ پاکستان، پنجاب و خیبر پختونخوا کی گورنر شپ اور سینیٹ چیئرمین کے بلند اور آئینی عہدے سنبھال رہی ہے۔
علاوہ ازیں ڈھائی سال کے لیے بلوچستان کی وزارتِ اعلیٰ بھی پیپلز پارٹی کے حصے میں آئے گی۔ جناب بلاول بھٹو زرداری نے تسلسل کے ساتھ وفاقی وزارتوں میں حصہ دار نہ بننے کا راگ الاپ کر جودباؤ نون لیگی قیادت پر بڑھا رکھا تھا، کامیابی سے ہمکنار ہُوا ہے۔ اگر یہ معاہدہ اِسی طرح اپنی رُوح کے عین مطابق آگے بڑھتا رہا تو مورّخ لکھے گا کہ یہ دراصل بلاول بھٹو زرداری کی زبردست سیاسی فتح ہے۔
سابق وزیر خارجہ ، پیپلز پارٹی کے35سالہ چیئرمین، جناب بلاول بھٹو زرداری، نے اپنے پتّے خوب ذہانت کے ساتھ کھیلے ہیں۔ وہ ایک خاص حکمت کے تحت انتخابات سے قبل ہی پوری تندہی اور توانائی کے ساتھ نون لیگی قائد، جناب نواز شریف، اور نون لیگ کے خلاف بیان بازی کرتے رہے ہیں۔ انتخابات سے پہلے ہی اُنھوں نے خاص اہداف کے حصول کے لیے اپنا ذہن بنا لیا تھا اور وہ مسلسل اُسی جانب بڑھتے گئے۔
انتخابی نتائج کے بعد اُنھوں نے اکثریتی سیٹیں لینے والے آزاد ارکان کی محبتیں سمیٹنے کا کھیل کھیلا اور خفیہ پیغام رسانی سے ساتھ مل کر حکومت بنانے کی کوشش بھی کی لیکن خاطر خواہ کامیاب نہ ہو سکے ۔ ساتھ ہی ہوشیاری کے ساتھ وہ نون لیگی قیادت کے ساتھ پتنگ بازی کرتے ہُوئے نون لیگیوں کی اُمید بھی قائم رکھے رہے۔
یوں اُنھوں نے سیاسی بساط پر اپنے مہرے خوب مہارت سے آگے پیچھے بڑھائے ۔ پی پی پی کے سبھی سینئر ارکان اُن کے ہمنوا بن کر اُن کی طاقت بڑھاتے رہے۔یوں اِس دباؤ اور اسٹریٹجی کا نتیجہ یہ نکلا کہ 20فروری کی رات کا معاہدہ جناب بلاول بھٹو زرداری کے حسبِ منشا برآمد ہُوا ہے ۔
اب حکومت کی جملہ ذمے داریوں کا جواب دِہ نون لیگی وزیر اعظم ہوگا اور عوامی غیض و غضب کے سامنے بھی نون لیگی قیادت ہوگی۔ پیپلز پارٹی مزے سے صدارت، سینیٹ اور گورنریوں کے مزے اُڑائے گی۔ پنجاب کے گورنر ہاؤس میں اپنا کوئی جیالا بٹھا کر بلاول بھٹو پنجاب میں پیپلز پارٹی کے اثرو رسوخ میں اضافہ بھی کر سکیں گے۔
تقابلی جائزہ لینے سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ حالیہ انتخابات کے دوران جناب بلاول بھٹو زرداری نے بقیہ تمام سیاسی لیڈروں سے زیادہ جلسے بھی کیے، میڈیا کو زیادہ انٹرویوز بھی دیے اورایک اہم سیاسی جماعت اور اُس کے مرکزی قائد کے خلاف جارحانہ رویہ بھی اختیار کیے رکھا۔ اُن کا خیال تھا کہ اِسی رویئے سے وہ اپنے متعینہ اہداف حاصل کر پائیں گے ۔جب کہ اُن کے والد گرامی، اپنے سیاسی حریفوں بارے، بدستور متحمل ، متوازن اور بین السطور رویہ اختیار کیے رہے ۔
20فروری 2024کی نصف شب پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے درمیان جو معاہدہ ہُوا ہے، یہ دراصل اِسی کھیل کا شاخسانہ ہے۔ اِس کھیل کا نتیجہ بلاول بھٹو زرداری کے حق میں نکلا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ جناب بلاول بھٹو زرداری کی سیاسی و انتخابی اسٹریٹجی بالا دست اور کامیاب رہی ہے۔ نوجوان سیاست کار بلاول بھٹو صاحب مذاکرات کے دھنی بھی ثابت ہُوئے ہیں۔نون لیگ کے سابق وفاقی وزیر، خرم دستگیر، نے بھی تسلیم کیا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری نے اپنے مفادات کے لیے خوب بارگیننگ کی ہے ۔
اپنے سیاسی امیج بارے یوں تو ہر سیاسی رہبر و رہنما کو چوکنا اور چوکس(Vigilant)رہنا چاہیے۔ بلاول بھٹو زرداری صاحب مگر اپنے سیاسی امیج بارے نسبتاً بے حد حساس واقع ہُوئے ہیں ۔وہ اپنے بارے میں غلط حوالہ دیے جانے کو نظر انداز نہیں کرتے بلکہ بروقت اور ترنت جواب دینے کو ترجیح دیتے ہیں ۔
مثال کے طور پر انتخابات سے ڈیڑھ ہفتے بعد جب بلاول بھٹو صاحب اپنے نانا مرحوم کے ایک مقدمے کی ازسرِ نَو سماعت کے حوالے سے سپریم کورٹ آئے تو عدالت سے باہر ایک صحافی کے سوال پوچھنے پر اُسی وقت مذکورہ اخبار نویس کو ٹوکتے ہُوئے جواب دیا ۔ تاریخ کی درستی کے لیے ایسا کرنا لازم بھی تھا۔ اُن کے اِس جواب پر الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے خبریں شائع اور نشر کیں۔
بلاول بھٹو زرداری صاحب کا ایسا کرنا اس لیے بھی ناگزیر تھا کہ اگر وہ صحافی کے اشتعال انگیز سوال کو ''لائیٹ'' لیتے تو یہ اُن کی پسپائی بھی ہوتی اور سوال کے جواب سے فرار بھی۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے صاحبزادے نے مگر اپنے امیج بلڈنگ کے لیے دستیاب سنہری موقع ضایع نہ ہونے دیا ۔اُن کے اِس ترنت اور تاریخ ساز جواب پر ایک انگریزی معاصر نے ایڈیٹوریل نوٹ بھی شائع کیا ہے ۔
حالیہ سیاست اور تازہ ترین قومی انتخابات بارے بہت سی متضاد ، متنازع اور متصادم مثالیں سامنے آئی ہیں۔ مثال کے طور پر دھاندلی کے الزامات ، الیکشن کمیشن آف پاکستان کے کردار پر تنقید، کئی سیاسی جماعتوں اور سیاسی قائدین کی جانب سے چیف الیکشن کمشنر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ، انتخابات کے ایام میں ایک سیاسی جماعت کے وابستگان کو کھل کھلا کر انتخابی جلسے نہ کرنے دینے کے الزامات وغیرہ ۔ مگر اِنہی کے بطن سے کچھ مستحسن عناصر بھی برآمد ہُوئے ہیں۔
مثال کے طور پر نوجوان سیاسی قیادت نے قدم آگے بڑھائے ہیں۔ نون لیگ کی جانب سے محترمہ مریم نواز شریف پنجاب کا اقتدار سنبھالنے جا رہی ہیں ۔
مرکزی اقتدار اور وفاقی سیاست میں جناب بلاول بھٹو زرداری نیوکلیس کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں ۔ پی ٹی آئی بانی کے پسِ دیوارِ زندان چلے جانے کے بعد پی ٹی آئی کی قیادت و سیادت نوجوان اور پُر جوش وکلا کے ہاتھوں میں آئی ہے۔
اگر حالات نرم اور رواں دواں رہے تو اگلے پانچ برس تک بلاول بھٹو زرداری صاحب اسلام آباد میں اہم فیصلوں کے اہم ترین کردار ہوں گے۔ اِس حیثیت میں اُنہیںاپنی شخصیت کو مزید مضبوط اور مستحکم بنانے کے وسیع مواقع میسر آئیں گے ۔جناب آصف زرداری کے ''پرنس چارمنگ'' کی نظریں جس کرسی پر مرتکز ہیں، شائد اس کے حصول کے لیے مراحل بھی سہل ہو جائیں ۔
جب انٹرویو نگار نے اُن سے پوچھاکہ '' اگر ان انتخابات کے نتیجے میں کسی بھی بڑی پارٹی کو اکثریت نہ ملی تو کیا آپ دوسری سیاسی پارٹیوں سے مل کر مخلوط حکومت بنائیں گے ؟'' تو بلاول بھٹو نے کہا تھا:'' آپ کو کس نے بتایا ہے کہ پیپلز پارٹی اُن ( نون لیگ) سے مل کر حکومت سازی کرے گی؟ مَیں پہلے بھی کہہ چکا ہُوں کہ اکثریت ملنے پر ہی مَیں حکومت بناؤں گا، بصورتِ دیگر مخلوط حکومت میں نہیں بیٹھوں گا۔''
مگر 20فروری کی شب نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان (طول طویل ملاقاتوں، مشوروں اور بیٹھکوں کے بعد) جو معاہدہ سامنے آیا ہے، وہ درحقیقت جناب بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے ، بالواسطہ، نون لیگ کے ساتھ مخلوط حکومت میں بیٹھنے کے مترادف ہے۔ اگرچہ پیپلز پارٹی، فی الحال، وفاقی وزارتوں کے قلمدان نہیں سنبھال رہی ، مگر معاہدے کے مطابق وہ صدرِ پاکستان، پنجاب و خیبر پختونخوا کی گورنر شپ اور سینیٹ چیئرمین کے بلند اور آئینی عہدے سنبھال رہی ہے۔
علاوہ ازیں ڈھائی سال کے لیے بلوچستان کی وزارتِ اعلیٰ بھی پیپلز پارٹی کے حصے میں آئے گی۔ جناب بلاول بھٹو زرداری نے تسلسل کے ساتھ وفاقی وزارتوں میں حصہ دار نہ بننے کا راگ الاپ کر جودباؤ نون لیگی قیادت پر بڑھا رکھا تھا، کامیابی سے ہمکنار ہُوا ہے۔ اگر یہ معاہدہ اِسی طرح اپنی رُوح کے عین مطابق آگے بڑھتا رہا تو مورّخ لکھے گا کہ یہ دراصل بلاول بھٹو زرداری کی زبردست سیاسی فتح ہے۔
سابق وزیر خارجہ ، پیپلز پارٹی کے35سالہ چیئرمین، جناب بلاول بھٹو زرداری، نے اپنے پتّے خوب ذہانت کے ساتھ کھیلے ہیں۔ وہ ایک خاص حکمت کے تحت انتخابات سے قبل ہی پوری تندہی اور توانائی کے ساتھ نون لیگی قائد، جناب نواز شریف، اور نون لیگ کے خلاف بیان بازی کرتے رہے ہیں۔ انتخابات سے پہلے ہی اُنھوں نے خاص اہداف کے حصول کے لیے اپنا ذہن بنا لیا تھا اور وہ مسلسل اُسی جانب بڑھتے گئے۔
انتخابی نتائج کے بعد اُنھوں نے اکثریتی سیٹیں لینے والے آزاد ارکان کی محبتیں سمیٹنے کا کھیل کھیلا اور خفیہ پیغام رسانی سے ساتھ مل کر حکومت بنانے کی کوشش بھی کی لیکن خاطر خواہ کامیاب نہ ہو سکے ۔ ساتھ ہی ہوشیاری کے ساتھ وہ نون لیگی قیادت کے ساتھ پتنگ بازی کرتے ہُوئے نون لیگیوں کی اُمید بھی قائم رکھے رہے۔
یوں اُنھوں نے سیاسی بساط پر اپنے مہرے خوب مہارت سے آگے پیچھے بڑھائے ۔ پی پی پی کے سبھی سینئر ارکان اُن کے ہمنوا بن کر اُن کی طاقت بڑھاتے رہے۔یوں اِس دباؤ اور اسٹریٹجی کا نتیجہ یہ نکلا کہ 20فروری کی رات کا معاہدہ جناب بلاول بھٹو زرداری کے حسبِ منشا برآمد ہُوا ہے ۔
اب حکومت کی جملہ ذمے داریوں کا جواب دِہ نون لیگی وزیر اعظم ہوگا اور عوامی غیض و غضب کے سامنے بھی نون لیگی قیادت ہوگی۔ پیپلز پارٹی مزے سے صدارت، سینیٹ اور گورنریوں کے مزے اُڑائے گی۔ پنجاب کے گورنر ہاؤس میں اپنا کوئی جیالا بٹھا کر بلاول بھٹو پنجاب میں پیپلز پارٹی کے اثرو رسوخ میں اضافہ بھی کر سکیں گے۔
تقابلی جائزہ لینے سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ حالیہ انتخابات کے دوران جناب بلاول بھٹو زرداری نے بقیہ تمام سیاسی لیڈروں سے زیادہ جلسے بھی کیے، میڈیا کو زیادہ انٹرویوز بھی دیے اورایک اہم سیاسی جماعت اور اُس کے مرکزی قائد کے خلاف جارحانہ رویہ بھی اختیار کیے رکھا۔ اُن کا خیال تھا کہ اِسی رویئے سے وہ اپنے متعینہ اہداف حاصل کر پائیں گے ۔جب کہ اُن کے والد گرامی، اپنے سیاسی حریفوں بارے، بدستور متحمل ، متوازن اور بین السطور رویہ اختیار کیے رہے ۔
20فروری 2024کی نصف شب پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے درمیان جو معاہدہ ہُوا ہے، یہ دراصل اِسی کھیل کا شاخسانہ ہے۔ اِس کھیل کا نتیجہ بلاول بھٹو زرداری کے حق میں نکلا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ جناب بلاول بھٹو زرداری کی سیاسی و انتخابی اسٹریٹجی بالا دست اور کامیاب رہی ہے۔ نوجوان سیاست کار بلاول بھٹو صاحب مذاکرات کے دھنی بھی ثابت ہُوئے ہیں۔نون لیگ کے سابق وفاقی وزیر، خرم دستگیر، نے بھی تسلیم کیا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری نے اپنے مفادات کے لیے خوب بارگیننگ کی ہے ۔
اپنے سیاسی امیج بارے یوں تو ہر سیاسی رہبر و رہنما کو چوکنا اور چوکس(Vigilant)رہنا چاہیے۔ بلاول بھٹو زرداری صاحب مگر اپنے سیاسی امیج بارے نسبتاً بے حد حساس واقع ہُوئے ہیں ۔وہ اپنے بارے میں غلط حوالہ دیے جانے کو نظر انداز نہیں کرتے بلکہ بروقت اور ترنت جواب دینے کو ترجیح دیتے ہیں ۔
مثال کے طور پر انتخابات سے ڈیڑھ ہفتے بعد جب بلاول بھٹو صاحب اپنے نانا مرحوم کے ایک مقدمے کی ازسرِ نَو سماعت کے حوالے سے سپریم کورٹ آئے تو عدالت سے باہر ایک صحافی کے سوال پوچھنے پر اُسی وقت مذکورہ اخبار نویس کو ٹوکتے ہُوئے جواب دیا ۔ تاریخ کی درستی کے لیے ایسا کرنا لازم بھی تھا۔ اُن کے اِس جواب پر الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے خبریں شائع اور نشر کیں۔
بلاول بھٹو زرداری صاحب کا ایسا کرنا اس لیے بھی ناگزیر تھا کہ اگر وہ صحافی کے اشتعال انگیز سوال کو ''لائیٹ'' لیتے تو یہ اُن کی پسپائی بھی ہوتی اور سوال کے جواب سے فرار بھی۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے صاحبزادے نے مگر اپنے امیج بلڈنگ کے لیے دستیاب سنہری موقع ضایع نہ ہونے دیا ۔اُن کے اِس ترنت اور تاریخ ساز جواب پر ایک انگریزی معاصر نے ایڈیٹوریل نوٹ بھی شائع کیا ہے ۔
حالیہ سیاست اور تازہ ترین قومی انتخابات بارے بہت سی متضاد ، متنازع اور متصادم مثالیں سامنے آئی ہیں۔ مثال کے طور پر دھاندلی کے الزامات ، الیکشن کمیشن آف پاکستان کے کردار پر تنقید، کئی سیاسی جماعتوں اور سیاسی قائدین کی جانب سے چیف الیکشن کمشنر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ، انتخابات کے ایام میں ایک سیاسی جماعت کے وابستگان کو کھل کھلا کر انتخابی جلسے نہ کرنے دینے کے الزامات وغیرہ ۔ مگر اِنہی کے بطن سے کچھ مستحسن عناصر بھی برآمد ہُوئے ہیں۔
مثال کے طور پر نوجوان سیاسی قیادت نے قدم آگے بڑھائے ہیں۔ نون لیگ کی جانب سے محترمہ مریم نواز شریف پنجاب کا اقتدار سنبھالنے جا رہی ہیں ۔
مرکزی اقتدار اور وفاقی سیاست میں جناب بلاول بھٹو زرداری نیوکلیس کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں ۔ پی ٹی آئی بانی کے پسِ دیوارِ زندان چلے جانے کے بعد پی ٹی آئی کی قیادت و سیادت نوجوان اور پُر جوش وکلا کے ہاتھوں میں آئی ہے۔
اگر حالات نرم اور رواں دواں رہے تو اگلے پانچ برس تک بلاول بھٹو زرداری صاحب اسلام آباد میں اہم فیصلوں کے اہم ترین کردار ہوں گے۔ اِس حیثیت میں اُنہیںاپنی شخصیت کو مزید مضبوط اور مستحکم بنانے کے وسیع مواقع میسر آئیں گے ۔جناب آصف زرداری کے ''پرنس چارمنگ'' کی نظریں جس کرسی پر مرتکز ہیں، شائد اس کے حصول کے لیے مراحل بھی سہل ہو جائیں ۔