الفاظ کا سفر نامہ…اڑ پہلا حصہ
پہاڑوں میں’’پنیری‘‘ پنپتی رہی اور ادھر کھیت تیار ہوتا رہا اور جب کھیت تیار تو موسم بھی سازگار ہوگیا
پہلے مضامین میں بتاچکا ہوں کہ حرف(اڑ) انسانیت کے بچپن کی پہلی آواز یا حرف ہے جب انسان کا مخرج یا آلات نطق کچے اور کھردرے تھے۔اور ایسی ساری زبانیں اس خطے میں پائی جاتی ہیں جسے علماء نے جوف الارض قرار دیا ہے۔ جہاں سے انسانوں بلکہ سفیدکاکشن نسل کے خروج نکل کر دنیا میں پھیلتے رہے ہیں۔
یعنی ہندوکش اور اردگرد کی اونچی زمینیں۔ دراصل یہاں سے انسانی خروجوں کے نکلنے کی وجوہات میں کثرت آبادی اور قلت خوراک سب سے زیادہ کارفرما ہے لیکن کثرت آبادی اور قلت خوراک کی بھی ایک وجہ تھی۔
یہ پہاڑی سلسلہ جو برما کے قریب دریائے برہم پترا سے شروع ہوکر ایران میں کوہ بابا تک دراز ہے اور ہندوستان کے گرد ایک ہلالی دیوار کی شکل میں کھڑا ہے علمائے ارضیات کے مطابق جب چالیس کروڑ سال پہلے کے ٹیکٹانک موومنٹ میں براعظم ایشیا اور ہندوستان کے ٹکرانے سے ابھرا تھا۔ابتدا میں اتنا اونچا نہ تھا بلکہ بتدریج اونچا ہوتا گیا ہے۔اندازہ اس سے لگائیں کہ ارضیات کے مطابق اب بھی یہ سالانہ دو سنٹی میٹر اونچا ہورہاہے اور اتنا ہی ہندوستان ایشیا میں گھس رہا ہے۔
اول اول یہ سلسلہ کوہ کثرت خوراک اور قلت آبادی کے باعث جنت کا نمونہ تھا۔لیکن جیسے ہی یہ سلسلہ کوہ اونچا ہوتا گیا تو ایک طرف اس کی چوٹیاں اور وادیاں برفستانوں میں بدلتی گئیں جب کہ سمندر کی طرف سے بارشوں اور مرطوب ہواؤں کے لیے بھی ایک دیوار بن گئیں چنانچہ اس کے پیچھے وسطی ایشیا کے جنگلات اور چراگاہیں بنجر ہوکر ریگستانوں میں بدلتی رہیں چنانچہ یہاں کے انسانوں اور حیوانوں کے لیے خوراک کم ہوتی گئی اور نتیجے میں یہاں سے خروجوں اور نقل مکانیوں کا سلسلہ چل نکلا۔اس پورے سلسلے پر اگر گہرائی میں غور کیا جائے تو ایک عظیم انجینئر آبادکار اور منتظم کا قائل ہونا پڑتا ہے۔
عام طور پر جب کھیت تیار اور موسم سازگار نہ ہو تو کاشت کار کسی محفوظ جگہ پر پنیری کو کھیت میں پھیلانا شروع کردیتا ہے۔ دیکھا جائے تو دنیا میں انسانوں اور حیوانوں کے پھیلانے میں بھی یہی سلسلہ کار فرما نظر آتا ہے۔لاکھوں کروڑوں سال میں جب کرہ ارض کا زیادہ حصہ زیرآب تھا۔اور خشکی کے جانداروں کی رہائش کے لیے موزوں نہیں تھا تو ''پنیری'' اس محفوظ سلسلہ کوہ میں پلتی اور پنپتی رہی۔ساتھ ہی لاکھوں سالوں پر مشتمل برفانی یا آئس ایج بھی جلتا رہا اور اونچائیوں میں برف کے ذخیرے جمع ہوتے رہے۔دو انگریزوں نے جن کے نام اس وقت مجھے یاد نہیں آرہے ہیں،نے ایک مشترکہ کتاب لکھی ہے۔ انڈس سویلائزیشن''۔
انھوں نے لکھا ہے کہ ایسا لگتا ہے جیسے اس پہاڑی سلسلے میں ایک بہت بڑا ڈیم ہو اور اچانک ٹوٹ گیا ہو۔اور یہ بات بڑی حد تک درست ہے لیکن وہ''ڈیم'' پانی کا نہیں ''برف'' کا تھا۔جب آج سے آٹھ دس ہزار سال قبل زمین کا درجہ حرارت بڑھنا شروع ہوا تو برف کا دور ختم ہوگیا اور ایک بارانی اور سیلابی دور شروع ہوگیا۔وہ برف پگھلتی رہی اور سیلاب کی صورت ان اونچائیوں سے ملبے لے جاکر نیچے پھیلانے لگی۔
جس کے نتیجے میں ہموار میدانی علاقے ابھرنے لگے۔پھر پانی نے اپنی گزرگاہیں دریاؤں اور ندی نالوں کی صورت میں بنائیں، پانی کچھ ملاقات میں سمٹ کر سمندر بناتا رہا اور ہموار میدانی زمین یا ریگستان ابھرتے رہے دوسرے الفاظ میں ''کھیت'' تیار ہونے لگا۔دنیا کی تقریباً پانچ اقوام کی اساطیر میں''سیلاب عظیم'' کی کہانیاں اسی ''سیلابی دور'' کے استعارے ہیں۔قدیم بابل میں سیلاب عظیم کا یہ قصہ داستان گلگامش میں آیا ہے۔
سامی مذاہب میں یہ کہانی ''طوفان نوح'' کی شکل میں موجود ہے۔یونان میں اس سیلاب کا قصہ یوں ہے کہ دیوتاؤں نے انسانی نسل کو تباہ کرنے کے لیے سیلاب عظیم بھیجا تو انسان دوست ''پرومیتھس''نے اپنے بیٹے ڈیوکلین اور بھتیجی''پررہ'' کو جو کم عقل اپی متھس اور پنڈورا کی بیٹی تھی ایک لکڑی کے صندوق میں بٹھا کر بچالیا پھر ان سے انسانی نسل چلی۔ ہندوستان میں اس سیلاب کا ہیرو منوہاراج ہے۔
مطلب یہ اس سیلاب کے ذریعے اونچائیوں سے ملبے بہاکر نیچے کے علاقوں میں پھیلائے گئے اور اس بات کا ثبوت آج بھی موجود ہے کہ پشاور، مردان اور نوشہرہ جیسے دوردراز علاقوں میں جب بھی کنواں وغیرہ کھودا جاتا ہے تو تیس چالیس فٹ نیچے بھالو ریت اور آبی مخلوقات کی سیپیاں اور ماسلز ملتے ہیں، اس کے اوپر انھی سیلابوں کی بنائی ہوئی زمینیں ہیں۔خلاصہ اس ساری بحث کا یہ ہے کہ ادھر پہاڑوں میں''پنیری'' پنپتی رہی اور ادھر کھیت تیار ہوتا رہا اور جب کھیت تیار تو موسم بھی سازگار ہوگیا۔پہاڑ اونچے ہوکر قلت خوراک اور کثرت آبادی کی وجہ سے ''خروج'' اگلنے لگے۔
پہلے بھی بتاچکا ہوں کہ یہ میں صرف دنیا کی تین بڑی نسلوں زرد،سیاہ اور سفید میں سے صرف سفید نسل کی بات کررہا ہوں انسانوں کی بھی اور زمانوں کی بھی۔کہ انسان اور زمان ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں انسان کے بچپن۔اور کچے مخرج میں حرف(اڑ) کا ذکر کرچکا ہوں اور انسان کا پہلا واسطہ زمین سے پڑا تھا۔
چنانچہ زمین کے لیے اس ابتدائی زبان میں''اڑ'' کا لفظ بولا گیا۔ جس کے معنی ہیں رکنے یا ٹھہرنے کی جگہ۔یہ لفظ''اڑ'' اب بھی برصغیر کی زبانوں میں استعمال ہوتا ہے، معنی وہی رکنے اور ٹھہرنے کے ہیں کوئی جانور کام کرنے یا چلنے سے انکار کرکے رک جائے یا لیٹ جائے تو اسے بھی ''اڑی'' کہتے ہیں اور اس جانور کو بھی اڑی یا اڑی مار کہتے ہیں ،کسی بات پر''ضد'' کو بھی''اڑنا'' کہتے ہیں ایک اور لفظ جو اردو اور ہندی زبانوں میں کثیرالاستعمال ہے ''اناڑی'' یہ اس زمانے کا لفظ ہے جب زراعت ایک بہت بڑا ہنر تھی۔
(جاری ہے)
یعنی ہندوکش اور اردگرد کی اونچی زمینیں۔ دراصل یہاں سے انسانی خروجوں کے نکلنے کی وجوہات میں کثرت آبادی اور قلت خوراک سب سے زیادہ کارفرما ہے لیکن کثرت آبادی اور قلت خوراک کی بھی ایک وجہ تھی۔
یہ پہاڑی سلسلہ جو برما کے قریب دریائے برہم پترا سے شروع ہوکر ایران میں کوہ بابا تک دراز ہے اور ہندوستان کے گرد ایک ہلالی دیوار کی شکل میں کھڑا ہے علمائے ارضیات کے مطابق جب چالیس کروڑ سال پہلے کے ٹیکٹانک موومنٹ میں براعظم ایشیا اور ہندوستان کے ٹکرانے سے ابھرا تھا۔ابتدا میں اتنا اونچا نہ تھا بلکہ بتدریج اونچا ہوتا گیا ہے۔اندازہ اس سے لگائیں کہ ارضیات کے مطابق اب بھی یہ سالانہ دو سنٹی میٹر اونچا ہورہاہے اور اتنا ہی ہندوستان ایشیا میں گھس رہا ہے۔
اول اول یہ سلسلہ کوہ کثرت خوراک اور قلت آبادی کے باعث جنت کا نمونہ تھا۔لیکن جیسے ہی یہ سلسلہ کوہ اونچا ہوتا گیا تو ایک طرف اس کی چوٹیاں اور وادیاں برفستانوں میں بدلتی گئیں جب کہ سمندر کی طرف سے بارشوں اور مرطوب ہواؤں کے لیے بھی ایک دیوار بن گئیں چنانچہ اس کے پیچھے وسطی ایشیا کے جنگلات اور چراگاہیں بنجر ہوکر ریگستانوں میں بدلتی رہیں چنانچہ یہاں کے انسانوں اور حیوانوں کے لیے خوراک کم ہوتی گئی اور نتیجے میں یہاں سے خروجوں اور نقل مکانیوں کا سلسلہ چل نکلا۔اس پورے سلسلے پر اگر گہرائی میں غور کیا جائے تو ایک عظیم انجینئر آبادکار اور منتظم کا قائل ہونا پڑتا ہے۔
عام طور پر جب کھیت تیار اور موسم سازگار نہ ہو تو کاشت کار کسی محفوظ جگہ پر پنیری کو کھیت میں پھیلانا شروع کردیتا ہے۔ دیکھا جائے تو دنیا میں انسانوں اور حیوانوں کے پھیلانے میں بھی یہی سلسلہ کار فرما نظر آتا ہے۔لاکھوں کروڑوں سال میں جب کرہ ارض کا زیادہ حصہ زیرآب تھا۔اور خشکی کے جانداروں کی رہائش کے لیے موزوں نہیں تھا تو ''پنیری'' اس محفوظ سلسلہ کوہ میں پلتی اور پنپتی رہی۔ساتھ ہی لاکھوں سالوں پر مشتمل برفانی یا آئس ایج بھی جلتا رہا اور اونچائیوں میں برف کے ذخیرے جمع ہوتے رہے۔دو انگریزوں نے جن کے نام اس وقت مجھے یاد نہیں آرہے ہیں،نے ایک مشترکہ کتاب لکھی ہے۔ انڈس سویلائزیشن''۔
انھوں نے لکھا ہے کہ ایسا لگتا ہے جیسے اس پہاڑی سلسلے میں ایک بہت بڑا ڈیم ہو اور اچانک ٹوٹ گیا ہو۔اور یہ بات بڑی حد تک درست ہے لیکن وہ''ڈیم'' پانی کا نہیں ''برف'' کا تھا۔جب آج سے آٹھ دس ہزار سال قبل زمین کا درجہ حرارت بڑھنا شروع ہوا تو برف کا دور ختم ہوگیا اور ایک بارانی اور سیلابی دور شروع ہوگیا۔وہ برف پگھلتی رہی اور سیلاب کی صورت ان اونچائیوں سے ملبے لے جاکر نیچے پھیلانے لگی۔
جس کے نتیجے میں ہموار میدانی علاقے ابھرنے لگے۔پھر پانی نے اپنی گزرگاہیں دریاؤں اور ندی نالوں کی صورت میں بنائیں، پانی کچھ ملاقات میں سمٹ کر سمندر بناتا رہا اور ہموار میدانی زمین یا ریگستان ابھرتے رہے دوسرے الفاظ میں ''کھیت'' تیار ہونے لگا۔دنیا کی تقریباً پانچ اقوام کی اساطیر میں''سیلاب عظیم'' کی کہانیاں اسی ''سیلابی دور'' کے استعارے ہیں۔قدیم بابل میں سیلاب عظیم کا یہ قصہ داستان گلگامش میں آیا ہے۔
سامی مذاہب میں یہ کہانی ''طوفان نوح'' کی شکل میں موجود ہے۔یونان میں اس سیلاب کا قصہ یوں ہے کہ دیوتاؤں نے انسانی نسل کو تباہ کرنے کے لیے سیلاب عظیم بھیجا تو انسان دوست ''پرومیتھس''نے اپنے بیٹے ڈیوکلین اور بھتیجی''پررہ'' کو جو کم عقل اپی متھس اور پنڈورا کی بیٹی تھی ایک لکڑی کے صندوق میں بٹھا کر بچالیا پھر ان سے انسانی نسل چلی۔ ہندوستان میں اس سیلاب کا ہیرو منوہاراج ہے۔
مطلب یہ اس سیلاب کے ذریعے اونچائیوں سے ملبے بہاکر نیچے کے علاقوں میں پھیلائے گئے اور اس بات کا ثبوت آج بھی موجود ہے کہ پشاور، مردان اور نوشہرہ جیسے دوردراز علاقوں میں جب بھی کنواں وغیرہ کھودا جاتا ہے تو تیس چالیس فٹ نیچے بھالو ریت اور آبی مخلوقات کی سیپیاں اور ماسلز ملتے ہیں، اس کے اوپر انھی سیلابوں کی بنائی ہوئی زمینیں ہیں۔خلاصہ اس ساری بحث کا یہ ہے کہ ادھر پہاڑوں میں''پنیری'' پنپتی رہی اور ادھر کھیت تیار ہوتا رہا اور جب کھیت تیار تو موسم بھی سازگار ہوگیا۔پہاڑ اونچے ہوکر قلت خوراک اور کثرت آبادی کی وجہ سے ''خروج'' اگلنے لگے۔
پہلے بھی بتاچکا ہوں کہ یہ میں صرف دنیا کی تین بڑی نسلوں زرد،سیاہ اور سفید میں سے صرف سفید نسل کی بات کررہا ہوں انسانوں کی بھی اور زمانوں کی بھی۔کہ انسان اور زمان ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں انسان کے بچپن۔اور کچے مخرج میں حرف(اڑ) کا ذکر کرچکا ہوں اور انسان کا پہلا واسطہ زمین سے پڑا تھا۔
چنانچہ زمین کے لیے اس ابتدائی زبان میں''اڑ'' کا لفظ بولا گیا۔ جس کے معنی ہیں رکنے یا ٹھہرنے کی جگہ۔یہ لفظ''اڑ'' اب بھی برصغیر کی زبانوں میں استعمال ہوتا ہے، معنی وہی رکنے اور ٹھہرنے کے ہیں کوئی جانور کام کرنے یا چلنے سے انکار کرکے رک جائے یا لیٹ جائے تو اسے بھی ''اڑی'' کہتے ہیں اور اس جانور کو بھی اڑی یا اڑی مار کہتے ہیں ،کسی بات پر''ضد'' کو بھی''اڑنا'' کہتے ہیں ایک اور لفظ جو اردو اور ہندی زبانوں میں کثیرالاستعمال ہے ''اناڑی'' یہ اس زمانے کا لفظ ہے جب زراعت ایک بہت بڑا ہنر تھی۔
(جاری ہے)