ادب میں اسلوب کی اہمیت

اسلوب بنیادی طور پر اظہار خیالات اور احساسات کا دوسروں تک پہنچانے کا ایک وسیلہ ہے

jabbar01@gmail.com

ایک فلاسفر آپ کو زندگی گزارنے کے بہترین رہنما اصول دے سکتا ہے، ایک سیاستدان ان رہنما اصولوں کو عملی جامہ پہنا کر معاشرے کو اس کے ضابطے کا پابند کر سکتا ہے۔ ایک معیشت دان، معاشی پالیسی مرتب کرکے آپ کو خوشحالی کے راستے پر گامزن کر سکتا ہے۔

ایک فوجی جنرل آپ کو جنگی تربیت دے کر آپ کو جنگ جو بنا سکتا ہے، لیکن غریبوں سے ہمدردی کا جذبہ اور جنگ میں شمولیت پر آمادہ آپ کو ماہر معیشت اور فوجی جنرل نہیں کر سکتا لیکن یہ کام اپنے ناول، افسانہ، ڈرامہ، شاعری، گیت اور نظموں کے ذریعے ایک ادیب ہی کر سکتا ہے۔ اس لیے معاشرہ میں ادیب کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

اب سوال یہ ہے کہ یہ ادب کس طرح تخلیق پاتا ہے اور اس کی بنیادیں کیا ہیں۔ اس سوال کے جواب سے پہلے ہمیں ادب میں اسلوب کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا۔ ادبی تحریر میں دلکشی اور اس کا پر اثر ہونا لازمی ہے۔ جب یہ خاص چیز تحریر کے ہر لفظ اور ہر جملے میں رچ بس جاتی ہے تو اسلوب پیدا ہوتا ہے۔

اسلوب بنیادی طور پر اظہار خیالات اور احساسات کا دوسروں تک پہنچانے کا ایک وسیلہ ہے۔ یہ اظہار خیال برائے راست نہیں بالواسطہ ہوتا ہے اگر ادیب اس میں ناکام ہے تو اس کو اسلوب کا نقص سمجھا جائے گا گویا ابلاغ اسلوب کی بنیادی صفت ہے، اس کے بغیر اسلوب کا تصور ممکن نہیں۔

صحیح ادبی اسلوب وہی ہے جو انسان کے تمام حواس کو متاثر کرے اس میں ظاہری حسن بھی ہو، پڑھ کر ذوق نظر کی تشکیل ہو سکے۔ ہر تحریر کو ادب نہیں کہتے، وہی تحریر ادب کے دائرے میں داخل ہوتی ہے جو ہماری احساس کی قوت کو جگا کر ہمیں عمل پر آمادہ کرتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ادب کی بنیادیں کیا ہیں؟

ادب کی بنیادوں میں اولین حیثیت خیال کی ہے، ادب میں خیال بنیادی شے ہے، اگر تحریر میں کوئی نئی بات نہیں، اس میں اگر کسی کو دو قدم آگے بڑھانے کی صلاحیت نہیں تو اظہار کی کوشش بے مصرف اور بے کار ہے۔

خیال کے بعد اولین حیثیت زبان کو حاصل ہے۔ ادب کی تشکیل زبان کے ذریعے عمل میں آتی ہے۔ عام بول چال سیدھی اسپاٹ اور ترسیلی ہوتی ہے اس کا بنیادی مقصد ادائے مطلب یا ابلاغ ہے، یہ مروجہ لسانی قاعدوں، ضابطوں اور اصولوں کی پابند ہوتی ہے۔

اس کے برعکس ادبی زبان علامتی زبان ہوتی ہے جس کو تشبیہ، استعارہ، کنایہ اور مجاز مرسل جس سے ادبی اصلاحات کے ذریعے ادب میں دلکشی، خوبصورتی پیدا کی جاتی ہے اور اسے پراثر بنایا جاتا ہے۔ ادب میں الفاظ کی ترتیب اور انتخاب کا سلیقہ بنیادی حیثیت رکھتا ہے اس پر ادب کا دار ومدار ہے، ادیب کا کام ہے کہ وہ اپنے خیالات اور جذبات کو مناسب ترین اور موزوں ترین الفاظ کے ذریعے ادا کرے۔


زبان خیالات کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے۔ ادبی اسلوب اس وقت نمودار ہوتا ہے جب کوئی ادیب اپنے خیالات کے اظہار کے لیے موزوں زبان پا لیتا ہے۔ خیال، سوچ اور تصور سب لفظوں میں ڈھل کر اپنا وجود پاتے ہیں، زبان اور الفاظ کے بغیر ہم کسی خارجی حقیقت تو کیا اپنے آپ کو بھی نہیں سمجھ سکتے۔ ادب کا مقصد لطیف پیرائے میں ابلاغ کرنا ہے، ایسا ابلاغ جو باعث مسرت بھی ہو اور اثر پذیر بھی۔ اگر کوئی ادبی تحریر ابلاغ میں ناقص ہے تو اس کے اچھا اور برا ہونا دور کی بات ہے اسے ادب ہی شمار نہیں کیا جاسکتا۔

کوئی شخص شعوری کوشش سے اعلیٰ ادب کی تخلیق تو کیا ادنیٰ ادب بھی تخلیق نہیں کرسکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے بے شمار محرکات ہوتے ہیں، اس میں جذبے کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ ایک اچھی تحریر کی بنیادی شرط خلوص اور جذبات ہیں۔ ادب میں دلکشی اور خوبصورتی زندگی کی گہرائیوں میں اترنے سے پیدا ہوتی ہے۔

ادیب کے ذاتی تجربے، جذبات اور خلوص میں کشادگی نہ ہو تو اسلوب محض الفاظ کا ایک بے جان اور بے رنگ پیکر بن کر رہ جاتا ہے۔ اس لیے اعلیٰ درجے کی ادبی تحریریں منطق کی کامیاب گرفت کے ساتھ جذبے کی آمیزش کا ہونا بھی ضروری ہے۔ یہ جذبات ہی ہوتے ہیں جو نہ صرف تحریر کو دلکش بناتے ہیں بلکہ اسے پراثر بھی بناتے ہیں۔ زبان اور جذبات کے بعد ادبی اسلوب کے لیے تیسرا اہم عنصر ادیب کی شخصیت ہے۔ اسلوب ادیب کی شخصیت کا عکس ہوتا ہے۔

ادبی اسلوب کی تشکیل میں لکھنے والے کی شخصیت، کردار، اس کے نقطہ نظر اور نظریات کا بہت دخل ہے۔ اس کی تشکیل میں یہ تمام پہلو بڑا کام کرتے ہیں۔ ادیب کا تربیتی ماحول، اس کی تعلیم، اس کا مطالعہ، اس کے ادب کی تمام فضا، اس کے معاشرتی حالات، سیاسی، اقتصادی اور مذہبی تصورات یہ جس طرح اس کی شخصیت متعین کرتے ہیں اسی حساب سے اس کی شخصیت کا انعکاس اس کے ادبی اسلوب میں بھی ہوتا ہے۔

ادبی اسلوب میں ان بنیادوں کے ساتھ موضوع اور مواد بھی اہمیت رکھتا ہے، اگر ایسا نہ ہو تو آج سے سیکڑوں برس کے ادبی کارنامے آج مقبول نہ ہوتے۔اسلوب کا بنیادی تصور یہ ہے کہ کوئی خیال، تصور، جذبہ یا احساس زبان میں کئی طرح سے بیان کیا جاسکتا ہے۔ زبان میں اظہار کے امکانات لامحدود ہوتے ہیں، کوئی ادیب ان ممکنہ امکانات میں صرف چند کا انتخاب کرتا ہے۔ یہ چناؤ کسی ادیب کے اسلوبی بیان، امتیازات اس ادیب کو انفرادیت بخشتے ہیں، اسے دوسرے ادیب یاادیبوں سے ممتاز بنا دیتے ہیں۔

آج کل کا سماج پہلے سماج سے زیادہ پیچیدہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہیں ہے کہ اس کا اظہار بھی پیچیدہ ہو۔ جس تناسب سے ہمارا سماج اور فرد کی نفسیات پیچیدہ ہے اسی تناسب سے ان کو سمجھنے کی صلاحیتیں بھی وسیع ہوئی ہیں۔ اس لیے اس پیچیدگی کو سمجھتے ہوئے ادب تخلیق کیا جائے اور عوام الناس کی زبان کو اظہار کا ذریعہ بنایا جائے۔ اس صورت میں ہی ادب کی ترقی ممکن ہے۔

کسی فن پارے کی کامیابی کا انحصار اس کی اثرانگیزی پر ہے، کوئی فن پارہ اثرانگیزی میں اس وقت تک مرتبہ کمال کو نہیں پہنچ سکتا، جب تک مواد کے ساتھ اس کے پیش کرنے کے اسلوب کے تقاضوں کو پورا نہ کیا جائے، اگر اسلوب کے تقاضوں کو پورا کرنے کے بجائے محض بات سے بات پیدا کرنے پر ہی انحصار کیا جائے گا تو اس تحریرکو نثر کا نام تو دیا جاسکے گا، اسے ادبی تحریر قرار نہیں دیا جاسکتا۔

یاد رکھیں فرد کی انا جب تک کائنات کی روح سے ہم آہنگ نہیں ہوتی، اعلیٰ ادب وجود میں نہیں آ سکتا۔
Load Next Story