اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے
مقدمہ کہیں اور درج ہو چکا ہےاس بار گاہ میں جس کے سامنے پیمرا‘ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ پَرِکاہ کی بھی حیثیت نہیں رکھتے
WASHINGTON:
مقدمہ کہیں اور درج ہو چکا ہے۔ اس بار گاہ میں جس کے سامنے پیمرا' ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ پَرِ کاہ کی بھی حیثیت نہیں رکھتے۔ جو جس کے ساتھ کھڑا ہو گا اس کا انجام بھی اس کے ساتھ ہو گا۔ یہ مقدمہ اس مالکِ کائنات کے ایک دہائی تک تحمل اور دی جانے والی مہلت کے بعد درج ہوا ہے۔اسے کسی گواہ' وکیل یا بحث کی حاجت نہیں۔ وہ سب جانتا ہے جو تمہارے دلوں میں چھپا ہوا ہے اور جو تمہارے افعال سے ظاہر ہے۔ وہ حکم دے تو تمہارے ہاتھ' پائوں اور جسم کے اعضا گواہی دینے لگ جائیں۔ اس کا اپنا تعزیراتی قانون ہے۔
اس تعزیراتی قانون کے تحت کچھ جرائم کی فردِ جرم روزِ حشر کھلے گی۔ لیکن چند جرائم ایسے ہیں جن کا فیصلہ وہ اسی دنیا میں کرتا ہے۔ ان جرائم میں سے ایک جرم سورہ ''النور'' کی آیت نمبر19 میں درج ہے۔ اللہ فرماتا ہے ''یاد رکھو جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی پھیلے' ان کے لیے دنیا اور آخرت میں درد ناک عذاب ہے' اور اللہ جانتا ہے' اور تم نہیں جانتے''۔ یہ وہ فردِ جرم ہے جواس قوم کے دروازوں پر چسپاں ہو چکی۔ ان سب دروازوں پر جو گیس کی بندش پر' بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لیے' تنخواہوں میں اور مراعات کی خاطر' جمہوریت کی بقا اور آمریت کے خاتمے کے لیے سڑکوں پر نکلتے رہے۔
کبھی کسی رہنما یا پارٹی کے کہنے پر اور کبھی خود بخود غصے کے عالم میں جو انتقام اور انصاف کی خاطر لاشیں سڑکوں پر رکھ کر احتجاج بھی کرتے رہے اور مخالفین کی لاشیں بھی گراتے رہے لیکن اللہ کے اس تعزیراتی قانون جزا و سزا پر ان کا نہ دل خوف سے کانپا اور نہ ان کی زبانوں میں جنبش ہوئی۔ بلکہ انھوں نے ایسے لوگوں کا تمسخر اڑایا جو اس گناہ کو ہاتھ سے روکنے کے لیے آگے بڑھے۔ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے لوگوں نے جب فحش فلموں کو نذر آتش کیا تو آزادی اظہار کے نام پر ایک طوفان کھڑا ہوا۔
ہر کوئی گلا پھاڑ پھاڑ کر چیخ رہا تھا۔ جب انھیں رسولﷺ کی یہ حدیث سنائی گئی کہ ''جب کوئی برائی دیکھو تو ہاتھ سے روک دو' اگر استطاعت نہیں رکھتے تو زبان سے روکو' اگر پھر بھی استطاعت نہیں رکھتے تو دل میں برا کہو اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے' تو ایسے میں انھیں ریاست اور اس کی عملداری یاد آ گئی لیکن اللہ اور اس کے رسولؐ کے قوانین اور اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کا موقع ہاتھ آیا تو منافقت کی انتہا دیکھیں کہ ہائی کورٹ میں قتل ہونے والی فرزانہ پر وہی لکھنے والے یہی حدیث لکھ کر طعنے دیتے رہے۔ اللہ قیامت کے دن ان کی نیتوں پر فیصلے کرے گا۔ لیکن دنیا میں جن جرائم پر فیصلہ ہونا ہے وہ لوگوں کے ظاہر پر ہو گا۔ یہ فیصلہ بحیثیتِ مجموعی قوم' علاقے اور بستی پر نافذ ہوتا ہے۔ اس کا ارشاد ہے ''اور ڈرو اس وبال سے جو تم میں سے صرف ظالموں ہی کو لاحق نہ ہو گا'' (الانفال 25)۔
یہ وبال قوموں کی کسی جرم پر بدترین خاموشی پر بھی آیا کرتا ہے۔ اللہ سورہ النحل کی 48 ویں آیت میں فرماتا ہے ''اور اس شہر میں نو(9) لوگ ایسے تھے جو فساد برپا کرتے تھے اور اصلاح سے کام نہیں لیتے تھے'' یہ وہ لوگ تھے جن کو پوری قوم نے اپنا رہنما تسلیم کر لیا تھا۔ وہ ان کی بداعمالیوں پر خاموش تھی اور ان کے ظلم پر آواز بلند نہیں کرتی تھی۔ یوں اللہ نے ان پر اپنا فیصلہ مسلط کر دیا اور بستی میں ہر خاص و عام کو عذاب کا مزا چکھا دیا۔ آج سے تقریباً دو سال قبل جب اس چینل پر شہزاد رائے کا یہ گانا بار بار نشر ہو رہا تھا تو خوف سے دل کانپ اٹھتا تھا۔
جو لوگ میڈیا کی باریکیوں کو جانتے ہیں' وہ سمجھتے ہیں کہ کسی فقرے یا گانے میں وقفہ (Pause) ایک خاص مقصد کے لیے دیا جاتا ہے تا کہ لوگ اس دوران اپنے دماغ میں جو خیال آئے سوچیں۔ گانے میں شہزاد رائے گاتا ہے ''چند لوگوں نے... پوری قوم کی ...''...(اس کے بعد ایک لمبا وقفہ) پھر ''قسمت اپنے ہاتھ میں''۔ اس وقفے کے دوران ہر کوئی جانتا ہے کہ لوگوں کے ذہن میں کیا آئے گا۔ پنجاب حکومت کے ایک درد دل رکھنے والے افسر نے چینل کے مالک سے فون کر کے سوال کیا کہ تم سمجھتے ہو کہ اس سے لوگوں کے دماغ میں اشارہ کس فحاشی کی طرف ہوتا ہے' اس افسر کے بقول مالک نے ڈھٹائی کے ساتھ جواب دیا' ہاں جانتا ہوں اور یہی حقیقت ہے۔
افسر کے بقول ایک دن ایک اعلٰ سطح کی تعلیمی مہم کے دوران شہزاد رائے کو پنجاب حکومت نے بلایا۔ اس نے اسے علیحدہ کر کے کہا تمہیں معلوم ہے تمہارے اس گانے سے لوگ کس قدر مشتعل ہو رہے ہیں۔ میرے پاس رپورٹس ہیں کہ تمہاری جان کو خطرہ ہے۔ اس کے اگلے دن گانا بند ہو گیا۔ میں اس افسر کا نام اس لیے نہیں لکھ سکتا کہ مجھے اس کی استطاعت کا علم ہے۔ اس نے اپنی استطاعت کے مطابق فرض ادا کر دیا اور اللہ اسے اس کا اجر عطا فرمائے گا۔ لیکن وہ جو استطاعت رکھتے تھے انھوں نے شہزاد رائے کو ہیرو بنایا۔ نہ اہل اقتدار کے پائوں میں لغزش آئی اور نہ ہی میڈیا کے کارپردازوں کے دل کانپے بلکہ 7 فروری 2013ء کو اسی گلوکار کو ایک مقبول ٹاک شو میں ایک قومی ہیرو بنا کر پیش کیا گیا۔
یہ تو فرد جرم کی ایک چھوٹی سی گواہی ہے۔ اس ملک میں فحش کو عام کرنے کے لیے گزشتہ دس سالوں کے خبروں کے بلیٹن نکال لیے جائیں تو ثبوتوں کے انبار لگ جاتے ہیں۔ وہ لوگ جو نیت باندھ کر صرف خبریں سننے بیٹھتے تھے ان کے سامنے اچانک ایک نیم برہنہ بھارتی اداکارہ ''آئٹم سانگ'' کرتی نظر آنے لگتی تھی۔ دنیا کا کونسا ایسا ''ماڈرن'' گھرانہ ہے جس میں ایک لڑکی باتھ روم سے ٹانگوں کے بال صاف کرتی نکلے اور گھر والوں کو دکھائے کہ اس کی ٹانگیں کتنی ملائم ہو چکیں ہیں۔ ہم نے اشتہارات کے نام پر یہ سب دیکھا۔
ایک فرد جرم اور بھی ہے۔ اس فرد جرم کا تعلق اس پاکستان کے حوالے سے اللہ کی غیرت سے وابستہ ہے۔ دنیا میں دو سو کے قریب ممالک رنگ' نسل اور زبان کی بنیاد پر وجود میں آئے' لیکن یہ واحد ملک ہے جو اللہ کے نام پر وجود میں آیا۔ اللہ اپنی نشانیوں سے ثابت کرتا ہے کہ اس ملک کے ساتھ کھلواڑ کرنے والوں کا وہ کیا حشر کرتا ہے۔ کیا اندرا گاندھی کو سزا سکھوں کے گولڈن ٹمپل کی وجہ سے ملی' نہیں' آج تک اس خاندان کا کوئی فرد طبعی موت نہ مر سکا۔ کیا شیخ مجیب الرحمن اور اس کے خاندان کی لاشیں ایک طویل عرصہ اس لیے پڑی رہیں کہ اس نے بنگالیوں کے خواب پورے نہیں کیے تھے۔
کیا ذوالفقار علی بھٹو اور اس کے پورے خاندان کو احمد رضا قصوری کو قتل کرنے کی سزا ملی کہ آج تک گڑھی خدا بخش ایک طبعی موت مرنے والے کے جنازے کو ترس رہا ہے۔ اللہ کا اپنا اصولِ سزا ہے۔ میرے شہر کے بزرگ ایک سچا واقعہ سناتے ہیں۔ ایک بھینس چور آہستہ آہستہ قاتل اور ڈاکو بن گیا۔ پولیس کی ملی بھگت سے بچ جاتا۔ ایک دن کسی بڑے شخص کے قتل کے الزام میں گرفتار ہوا۔ پھانسی کی سزا ہوئی' سپریم کورٹ تک قائم رہی۔ ماں ملاقات کرنے گئی تو اس نے کہا کہ میں نے بہت قتل کیے لیکن یہ قتل نہیں کیا۔ ماں دریائے چناب کے کنارے بیٹھے ایک درویشِ خدا مست کے پاس چلی گئی۔ قصہ سنایا۔
درویش نے نظریں زمین پر گاڑھے کہا' کہ جائو اسے بولو بھینس معاف نہیں کرتی۔ اس نے بیٹے سے کہا تو اس نے سر جھکا لیا اور کہا اب مجھے ضرور پھانسی ہو جائے گی۔ یہ شروع شروع کا قصہ ہے' میں نے ایک گائوں سے بھینس چوری کی' اس کا بچھڑا ساتھ چلنے لگا۔ اتنے میں گائوں والوں کو پتہ چل گیا وہ میرے پیچھے دوڑ پڑے اور ان کی آوازیں مجھ تک آنے لگیں۔ بچھڑا آہستہ آہستہ چلتا تھا اور گائے رک کر اس کا انتظار کرتی۔ مجھ پر خوف سوار ہوا۔ میں نے بندوق سے فائر کر کے بچھڑے کو مار دیا۔ بھینس نے بس ایک دفعہ منہ اٹھا کر آسمان کی جانب دیکھا اور ہمارے ساتھ چلنے لگی۔
اس ملک کے اس آفاقی نظریے کا جس قدر مذاق' تضحیک اور تمسخر اڑایا گیا گزشتہ ستر سال کی تاریخ میں ایسا نہیں ہوا۔ یہ پاکستان کا نہیں ان دس لاکھ شہیدوں کی روحوں کا تمسخر تھا۔ جن کی جانیں اس ملک کی تخلیق پر قربان ہوئیں۔ شہید مرتے نہیں' زندہ ہوتے ہیں اور وہ دس لاکھ اس ملک کی سرحدوں پر موجود یہ تماشہ دیکھتے رہے۔ پاکستان کا مطلب کیا لا الا اللہ کے نعرے کو اپنے آقائوں کی خوشنودی کے لیے ایک نئے نعرے میں بدلنے کی کوشش کی گئی۔
مقدمہ کہیں اور درج ہو چکا ہے۔ یہ مقدمہ آئی ایس آئی اور فوج کی تضحیک کا مقدمہ نہیں۔ اس مقدمے کا کوئی ایک مجرم نہیں۔ اس مقدمے کا پہلا عذاب ہم گزشتہ کئی سالوں سے بھگت رہے ہیں۔ اللہ اس عذاب کے بارے میں فرماتا ہے ''اور تمہیں مختلف ٹولیوں اور گروہوں میں بانٹ کر ایک دوسرے سے لڑا دے اور ایک دوسرے کی طاقت کا مزا چکھائے (الانعام 65)۔ لیکن شاید ہم نے اس عذاب کو اللہ کی نشانی نہیں سمجھا۔ فیصلہ تو صرف اللہ جانتا ہے۔ لیکن اہل نظر زمین کی جنبش کو خوفناک دیکھ رہے ہیں۔ زمین تھرتھراتی ہے تو سب کلمہ پڑھتے ہوئے بھاگ نکلتے ہیں۔ زلزلوں کا شور بڑھتا چلا آ رہا ہے۔ کیا ہو گا۔ صرف اللہ جانتا ہے لیکن خوف سے زبانیں گنگ ہیں اور آنکھیں پتھرائی ہوئی۔
مقدمہ کہیں اور درج ہو چکا ہے۔ اس بار گاہ میں جس کے سامنے پیمرا' ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ پَرِ کاہ کی بھی حیثیت نہیں رکھتے۔ جو جس کے ساتھ کھڑا ہو گا اس کا انجام بھی اس کے ساتھ ہو گا۔ یہ مقدمہ اس مالکِ کائنات کے ایک دہائی تک تحمل اور دی جانے والی مہلت کے بعد درج ہوا ہے۔اسے کسی گواہ' وکیل یا بحث کی حاجت نہیں۔ وہ سب جانتا ہے جو تمہارے دلوں میں چھپا ہوا ہے اور جو تمہارے افعال سے ظاہر ہے۔ وہ حکم دے تو تمہارے ہاتھ' پائوں اور جسم کے اعضا گواہی دینے لگ جائیں۔ اس کا اپنا تعزیراتی قانون ہے۔
اس تعزیراتی قانون کے تحت کچھ جرائم کی فردِ جرم روزِ حشر کھلے گی۔ لیکن چند جرائم ایسے ہیں جن کا فیصلہ وہ اسی دنیا میں کرتا ہے۔ ان جرائم میں سے ایک جرم سورہ ''النور'' کی آیت نمبر19 میں درج ہے۔ اللہ فرماتا ہے ''یاد رکھو جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی پھیلے' ان کے لیے دنیا اور آخرت میں درد ناک عذاب ہے' اور اللہ جانتا ہے' اور تم نہیں جانتے''۔ یہ وہ فردِ جرم ہے جواس قوم کے دروازوں پر چسپاں ہو چکی۔ ان سب دروازوں پر جو گیس کی بندش پر' بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لیے' تنخواہوں میں اور مراعات کی خاطر' جمہوریت کی بقا اور آمریت کے خاتمے کے لیے سڑکوں پر نکلتے رہے۔
کبھی کسی رہنما یا پارٹی کے کہنے پر اور کبھی خود بخود غصے کے عالم میں جو انتقام اور انصاف کی خاطر لاشیں سڑکوں پر رکھ کر احتجاج بھی کرتے رہے اور مخالفین کی لاشیں بھی گراتے رہے لیکن اللہ کے اس تعزیراتی قانون جزا و سزا پر ان کا نہ دل خوف سے کانپا اور نہ ان کی زبانوں میں جنبش ہوئی۔ بلکہ انھوں نے ایسے لوگوں کا تمسخر اڑایا جو اس گناہ کو ہاتھ سے روکنے کے لیے آگے بڑھے۔ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے لوگوں نے جب فحش فلموں کو نذر آتش کیا تو آزادی اظہار کے نام پر ایک طوفان کھڑا ہوا۔
ہر کوئی گلا پھاڑ پھاڑ کر چیخ رہا تھا۔ جب انھیں رسولﷺ کی یہ حدیث سنائی گئی کہ ''جب کوئی برائی دیکھو تو ہاتھ سے روک دو' اگر استطاعت نہیں رکھتے تو زبان سے روکو' اگر پھر بھی استطاعت نہیں رکھتے تو دل میں برا کہو اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے' تو ایسے میں انھیں ریاست اور اس کی عملداری یاد آ گئی لیکن اللہ اور اس کے رسولؐ کے قوانین اور اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کا موقع ہاتھ آیا تو منافقت کی انتہا دیکھیں کہ ہائی کورٹ میں قتل ہونے والی فرزانہ پر وہی لکھنے والے یہی حدیث لکھ کر طعنے دیتے رہے۔ اللہ قیامت کے دن ان کی نیتوں پر فیصلے کرے گا۔ لیکن دنیا میں جن جرائم پر فیصلہ ہونا ہے وہ لوگوں کے ظاہر پر ہو گا۔ یہ فیصلہ بحیثیتِ مجموعی قوم' علاقے اور بستی پر نافذ ہوتا ہے۔ اس کا ارشاد ہے ''اور ڈرو اس وبال سے جو تم میں سے صرف ظالموں ہی کو لاحق نہ ہو گا'' (الانفال 25)۔
یہ وبال قوموں کی کسی جرم پر بدترین خاموشی پر بھی آیا کرتا ہے۔ اللہ سورہ النحل کی 48 ویں آیت میں فرماتا ہے ''اور اس شہر میں نو(9) لوگ ایسے تھے جو فساد برپا کرتے تھے اور اصلاح سے کام نہیں لیتے تھے'' یہ وہ لوگ تھے جن کو پوری قوم نے اپنا رہنما تسلیم کر لیا تھا۔ وہ ان کی بداعمالیوں پر خاموش تھی اور ان کے ظلم پر آواز بلند نہیں کرتی تھی۔ یوں اللہ نے ان پر اپنا فیصلہ مسلط کر دیا اور بستی میں ہر خاص و عام کو عذاب کا مزا چکھا دیا۔ آج سے تقریباً دو سال قبل جب اس چینل پر شہزاد رائے کا یہ گانا بار بار نشر ہو رہا تھا تو خوف سے دل کانپ اٹھتا تھا۔
جو لوگ میڈیا کی باریکیوں کو جانتے ہیں' وہ سمجھتے ہیں کہ کسی فقرے یا گانے میں وقفہ (Pause) ایک خاص مقصد کے لیے دیا جاتا ہے تا کہ لوگ اس دوران اپنے دماغ میں جو خیال آئے سوچیں۔ گانے میں شہزاد رائے گاتا ہے ''چند لوگوں نے... پوری قوم کی ...''...(اس کے بعد ایک لمبا وقفہ) پھر ''قسمت اپنے ہاتھ میں''۔ اس وقفے کے دوران ہر کوئی جانتا ہے کہ لوگوں کے ذہن میں کیا آئے گا۔ پنجاب حکومت کے ایک درد دل رکھنے والے افسر نے چینل کے مالک سے فون کر کے سوال کیا کہ تم سمجھتے ہو کہ اس سے لوگوں کے دماغ میں اشارہ کس فحاشی کی طرف ہوتا ہے' اس افسر کے بقول مالک نے ڈھٹائی کے ساتھ جواب دیا' ہاں جانتا ہوں اور یہی حقیقت ہے۔
افسر کے بقول ایک دن ایک اعلٰ سطح کی تعلیمی مہم کے دوران شہزاد رائے کو پنجاب حکومت نے بلایا۔ اس نے اسے علیحدہ کر کے کہا تمہیں معلوم ہے تمہارے اس گانے سے لوگ کس قدر مشتعل ہو رہے ہیں۔ میرے پاس رپورٹس ہیں کہ تمہاری جان کو خطرہ ہے۔ اس کے اگلے دن گانا بند ہو گیا۔ میں اس افسر کا نام اس لیے نہیں لکھ سکتا کہ مجھے اس کی استطاعت کا علم ہے۔ اس نے اپنی استطاعت کے مطابق فرض ادا کر دیا اور اللہ اسے اس کا اجر عطا فرمائے گا۔ لیکن وہ جو استطاعت رکھتے تھے انھوں نے شہزاد رائے کو ہیرو بنایا۔ نہ اہل اقتدار کے پائوں میں لغزش آئی اور نہ ہی میڈیا کے کارپردازوں کے دل کانپے بلکہ 7 فروری 2013ء کو اسی گلوکار کو ایک مقبول ٹاک شو میں ایک قومی ہیرو بنا کر پیش کیا گیا۔
یہ تو فرد جرم کی ایک چھوٹی سی گواہی ہے۔ اس ملک میں فحش کو عام کرنے کے لیے گزشتہ دس سالوں کے خبروں کے بلیٹن نکال لیے جائیں تو ثبوتوں کے انبار لگ جاتے ہیں۔ وہ لوگ جو نیت باندھ کر صرف خبریں سننے بیٹھتے تھے ان کے سامنے اچانک ایک نیم برہنہ بھارتی اداکارہ ''آئٹم سانگ'' کرتی نظر آنے لگتی تھی۔ دنیا کا کونسا ایسا ''ماڈرن'' گھرانہ ہے جس میں ایک لڑکی باتھ روم سے ٹانگوں کے بال صاف کرتی نکلے اور گھر والوں کو دکھائے کہ اس کی ٹانگیں کتنی ملائم ہو چکیں ہیں۔ ہم نے اشتہارات کے نام پر یہ سب دیکھا۔
ایک فرد جرم اور بھی ہے۔ اس فرد جرم کا تعلق اس پاکستان کے حوالے سے اللہ کی غیرت سے وابستہ ہے۔ دنیا میں دو سو کے قریب ممالک رنگ' نسل اور زبان کی بنیاد پر وجود میں آئے' لیکن یہ واحد ملک ہے جو اللہ کے نام پر وجود میں آیا۔ اللہ اپنی نشانیوں سے ثابت کرتا ہے کہ اس ملک کے ساتھ کھلواڑ کرنے والوں کا وہ کیا حشر کرتا ہے۔ کیا اندرا گاندھی کو سزا سکھوں کے گولڈن ٹمپل کی وجہ سے ملی' نہیں' آج تک اس خاندان کا کوئی فرد طبعی موت نہ مر سکا۔ کیا شیخ مجیب الرحمن اور اس کے خاندان کی لاشیں ایک طویل عرصہ اس لیے پڑی رہیں کہ اس نے بنگالیوں کے خواب پورے نہیں کیے تھے۔
کیا ذوالفقار علی بھٹو اور اس کے پورے خاندان کو احمد رضا قصوری کو قتل کرنے کی سزا ملی کہ آج تک گڑھی خدا بخش ایک طبعی موت مرنے والے کے جنازے کو ترس رہا ہے۔ اللہ کا اپنا اصولِ سزا ہے۔ میرے شہر کے بزرگ ایک سچا واقعہ سناتے ہیں۔ ایک بھینس چور آہستہ آہستہ قاتل اور ڈاکو بن گیا۔ پولیس کی ملی بھگت سے بچ جاتا۔ ایک دن کسی بڑے شخص کے قتل کے الزام میں گرفتار ہوا۔ پھانسی کی سزا ہوئی' سپریم کورٹ تک قائم رہی۔ ماں ملاقات کرنے گئی تو اس نے کہا کہ میں نے بہت قتل کیے لیکن یہ قتل نہیں کیا۔ ماں دریائے چناب کے کنارے بیٹھے ایک درویشِ خدا مست کے پاس چلی گئی۔ قصہ سنایا۔
درویش نے نظریں زمین پر گاڑھے کہا' کہ جائو اسے بولو بھینس معاف نہیں کرتی۔ اس نے بیٹے سے کہا تو اس نے سر جھکا لیا اور کہا اب مجھے ضرور پھانسی ہو جائے گی۔ یہ شروع شروع کا قصہ ہے' میں نے ایک گائوں سے بھینس چوری کی' اس کا بچھڑا ساتھ چلنے لگا۔ اتنے میں گائوں والوں کو پتہ چل گیا وہ میرے پیچھے دوڑ پڑے اور ان کی آوازیں مجھ تک آنے لگیں۔ بچھڑا آہستہ آہستہ چلتا تھا اور گائے رک کر اس کا انتظار کرتی۔ مجھ پر خوف سوار ہوا۔ میں نے بندوق سے فائر کر کے بچھڑے کو مار دیا۔ بھینس نے بس ایک دفعہ منہ اٹھا کر آسمان کی جانب دیکھا اور ہمارے ساتھ چلنے لگی۔
اس ملک کے اس آفاقی نظریے کا جس قدر مذاق' تضحیک اور تمسخر اڑایا گیا گزشتہ ستر سال کی تاریخ میں ایسا نہیں ہوا۔ یہ پاکستان کا نہیں ان دس لاکھ شہیدوں کی روحوں کا تمسخر تھا۔ جن کی جانیں اس ملک کی تخلیق پر قربان ہوئیں۔ شہید مرتے نہیں' زندہ ہوتے ہیں اور وہ دس لاکھ اس ملک کی سرحدوں پر موجود یہ تماشہ دیکھتے رہے۔ پاکستان کا مطلب کیا لا الا اللہ کے نعرے کو اپنے آقائوں کی خوشنودی کے لیے ایک نئے نعرے میں بدلنے کی کوشش کی گئی۔
مقدمہ کہیں اور درج ہو چکا ہے۔ یہ مقدمہ آئی ایس آئی اور فوج کی تضحیک کا مقدمہ نہیں۔ اس مقدمے کا کوئی ایک مجرم نہیں۔ اس مقدمے کا پہلا عذاب ہم گزشتہ کئی سالوں سے بھگت رہے ہیں۔ اللہ اس عذاب کے بارے میں فرماتا ہے ''اور تمہیں مختلف ٹولیوں اور گروہوں میں بانٹ کر ایک دوسرے سے لڑا دے اور ایک دوسرے کی طاقت کا مزا چکھائے (الانعام 65)۔ لیکن شاید ہم نے اس عذاب کو اللہ کی نشانی نہیں سمجھا۔ فیصلہ تو صرف اللہ جانتا ہے۔ لیکن اہل نظر زمین کی جنبش کو خوفناک دیکھ رہے ہیں۔ زمین تھرتھراتی ہے تو سب کلمہ پڑھتے ہوئے بھاگ نکلتے ہیں۔ زلزلوں کا شور بڑھتا چلا آ رہا ہے۔ کیا ہو گا۔ صرف اللہ جانتا ہے لیکن خوف سے زبانیں گنگ ہیں اور آنکھیں پتھرائی ہوئی۔