ہم فساد اور انتشار کے مزید متحمل نہیں ہوسکتے
ہماری ترقی کی راہ میں دوسری سب سے بڑی رکاوٹ یہاں کسی نظام کا تسلسل کے ساتھ نہ چلنا ہے
ہمسایہ ملک بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کی شخصیت بظاہر اتنی جاذب نظر نہیں ہے، وہ نہ ہمارے ایک سابقہ وزیراعظم کی طرح اسمارٹ اور ہینڈسم ہیں اور نہ خوبصورت لیکن اُنکی قوم انھیں تیسری بار وزیراعظم بنانے جارہی ہے۔
اُن کا ماضی بھی کوئی اتناخاص اورحسین نہیں ہے ، وہ بلاتکلف اور برملایہ اعتراف کرنے میں کوئی شرم اورعار بھی محسوس نہیں کرتے کہ وہ کبھی چائے بیچاکرتے تھے۔ مگر اپنے حالیہ دس سالہ دور میں انھوں نے بلاشبہ بھارت کو ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل کروا دیا ہے، انھوں نے اپنی قابلیت اورکارکردگی سے بھارتی قوم کا سر فخر سے بلند کردیا ہے۔ بھارت کا عام آدمی جو کبھی ہمار ے مقابلے میں زیادہ غریب اورمفلس تھا آج ہم سے زیادہ خوشحال ہے۔
اُن کا زرمبادلہ آج اپنی تاریخ کی بلندی پر ہے ،جب کہ ہم آج مانگے تانگے کے چودہ ارب ڈالرکو لے کر مطمئن ہورہے اوروہ 1000 ارب ڈالر کی سطح کو پہنچ گیا ہے۔ وہاں ایک نہیں کئی کھرب پتی سرمایہ دار پیدا ہوچکے ہیں جو اپنے ساتھ ساتھ بھارت کو بھی مضبوط اورمستحکم بھی بنارہے ہیں، انھیں وہاں کوئی پریشان کرنے والا نہیں ہے۔ وہاں کوئی نیب اُن کے گرد گھیرا تنگ نہیں کررہی ہے بلکہ سب حوصلہ افزائی کررہے ہیں۔ بھارت کا مال ساری دنیا میں ایکسپورٹ ہورہا ہے۔
مڈل ایسٹ ممالک میں ہر دکان اورہر شاپنگ سینٹر میں بھارت کا ہی مال نظر آتا ہے۔اُس نے وہاں کی منڈیوں پرکیسے قبضہ کیاہے ، ہم یہ جاننا ہی نہیں چاہتے۔ترقی پذیر اس دنیا میں چائنہ کے بعد اگر کسی قوم نے اس طرح ترقی کی ہے تو وہ بلاشبہ بھارتی قوم ہے۔اس نے چائنہ کامقابلہ کرکے یہ مقام حاصل کیا ہے۔
اس نے اپنے ملک میں غربت مٹانے کے لیے لنگر خانے اورشیلٹر ہومزنہیں بنائے ۔اس نے اپنی قوم کومرغی اورانڈوں سے ترقی کرنے کے منصوبے نہیں دیے،بلکہ اس نے قوم کو IT کے میدان میں آگے بڑھنے کا وژن دیا۔اس نے زراعت کے ساتھ ساتھ صنعتی شعبہ میں بھی بے حساب ترقی کی ۔ وہاں کی ریلوے اورایئر لائن ہماری طرح خسارے سے دوچار نہیں ہے۔ تیزرفتار ٹرینوں میں بھی وہ ہم سے بہت آگے ہے۔
انفرا اسٹرکچر کے میدان میں بھی اس نے بہت ترقی کی ہے۔زیرسمندر انڈر پاس تک اس نے اپنے بل بوتے پربنالی ہے۔ ہم شخصیت پرستی اورجذباتیت میںاس قدر آگے بڑھ چکے ہیںکہ ہمیں کوئی اورایک نظر بھاتا ہی نہیں ۔ہمیں اس سے غرض نہیں کہ اس کی کارکردگی کیا ہے۔ بس وہ ہمیں اچھا لگناچاہیے، وہ اسمارٹ اور خوبصورت ہونا چاہیے، وہ انگریزی بھی اچھی بولتا ہو، پرچی والا نہ ہو۔
ہماری ترقی کی راہ میں دوسری سب سے بڑی رکاوٹ یہاں کسی نظام کا تسلسل کے ساتھ نہ چلنا ہے۔ ہم نے یہاں دو دو اورڈھائی ڈھائی سال میں اپنی جمہوری حکومتوں کو چلتاکیا، کسی کو اپنے پانچ سال پورے کرنے ہی نہیں دیے۔ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا، ہم یہی کرتے رہے۔
دوسری قوموں کی ترقی کی مثال دیتے ہوئے ہم ترکی کے طیب اردگان ، ملائشیاکے مہاتیرمحمد اوربنگلا دیش کی حسینہ واجد کا ذکرتو ضرور کرتے ہیں لیکن یہ غور نہیں کرتے کہ وہاں ہر کسی کو دس دس سال یا اس سے بھی زیادہ اپنی پالیسیوں پر عملدرآمد کا بھرپور موقعہ دیا گیا، مگر ہم چند سالوں میں ہی اپنے حکمرانوں کی شکلوں سے بیزار ہوجاتے ہیں۔ انھیں قبل ازووقت اقتدار سے باہر کرکے اپنی ترقی اورخوشحالی کے دروازے خود بند کردیتے ہیں۔
یہ نہیں سوچتے کہ کیا وجہ ہے کہ عوامی لیگ کی حسینہ واجد اورطیب اردگان آج بھی اپنے عوام کے پسندیدہ لیڈر ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ صرف ذاتی پسند اورناپسند کی وجہ سے وہاں وہ مسلسل انتخابات جیت رہے ہیں،وہ اپنی پرفارمنس کی وجہ سے جیت رہے ہیں۔ دنیا میں لوگ کارکردگی کو مدنظر رکھ کر اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں اوریہی اُنکی ترقی کاراز ہے۔ہم جب تک اپنی سوچ نہیں بدلیںگے ترقی نہیں کر پائیں گے۔
جمہوریت جمہوریت کے نعرے تو بہت لگاتے ہیں لیکن اس کی افادیت کو آج تک سمجھ نہیںپائے ہیں۔ ہم صرف یہ جانتے ہیں کہ جمہوریت میں بندوں کو گنا جاتا ہے تولہ نہیں جاتا۔8فروری 2024 کے انتخابات میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ہم نے کارکردگی کے بجائے ذاتی پسند اور ناپسند کو ترجیح دی۔
ہم یہ بھول گئے کہ 2018 ء سے پہلے اس ملک کے حالات کیا تھے، یہاں مہنگائی اوربیروزگاری کتنی تھی۔کس نے اپنے دوراقتدار میں کیاکام کیا۔کس نے یہاں دہشت گردی کا خاتمہ کیا، کس نے بجلی کے بحران کو حل کیا، کس نے کراچی میں امن وامان قائم کیا، کس نے سارے ملک میں انفرااسٹرکچرٹھیک کیا ، کس نے موٹرویز اورسڑکوں کے جال بچھائے، کس نے سی پیک معاہدے پر تیزی سے عملدرآمد کیا۔ کس نے ڈالرکو قابو میںرکھااورکس نے مہنگائی کے جن کو بوتل میں بندکیے رکھا۔
آج اگر ایک نئی حکومت بن پائی ہے تو سب کو ملکر اس ملک کی خوشحالی کے لیے آگے بڑھنا ہوگا۔ یہ نہیں کہ ہمیں اقتدار نہیں ملا ہے تو کوئی اوربھی حکومت نہیں کرسکتا۔ اس سوچ کو اب چھوڑنا ہوگا۔ ملک اورقوم کی خاطرکام کرنا ہوگا۔
تحریک انصاف کو اِن انتخابات میںعددی اعتبارسے اکثریت حاصل تھی لیکن اس نے اپنی ہٹ دھرمی سے حکومت بنانے کا موقعہ گنوادیا، وہ چاہتی تو پاکستان پیپلزپارٹی کے ساتھ ملکر وفاق میں حکومت بنا سکتی تھی لیکن کسی کے ساتھ بھی ساتھ نہ چلنے کی ضد نے اسے باہر کردیا،وہ شاید اس زعم میں مبتلارہی کہ فساد اورانتشار کے ذریعے وہ 180 نشستیں حاصل کرلے گی۔
PTI کا انداز فکر ابھی تک تبدیل نہیں ہوا ہے ، اس نے سابقہ تجربے سے بھی کوئی سبق حاصل نہیںکیا ہے۔اس کی قیادت اگرچہ اڈیالہ جیل میں قید ہے لیکن تمام پالیسیاں اب بھی وہی بنا رہے ہیں۔
KPKمیں وزارت اعلیٰ کے لیے جس شخص کاانتخاب انھوں نے کیا ہے اسی سے اُن کے انداز فکر بارے میں رائے قائم کی جاسکتی ہے، وہ تشدد اورتصادم کی پالیسیوں پر اب بھی اسی طرح قائم اوردائم ہیں جس طرح پہلے قائم تھے۔
9 مئی کے مقدموں کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔اُن کے پاس مفاہمت کے سواکوئی اور راستہ نہیں ہے، وہ جتنی جلدی یہ اُصول اپنا نہیں لیتے اورمعافی تلافی نہیں کرلیتے اُنکی رہائی کے امکانات معدوم ہی رہیں گے، ویسے بھی ہم نے اپنے دس سال اس انتشار اورفتنہ انگیزی میں برباد کرچکے ہیںاوریاد رہے کہ مزید اس کے متحمل نہیںہوسکتے ہیں۔
اُن کا ماضی بھی کوئی اتناخاص اورحسین نہیں ہے ، وہ بلاتکلف اور برملایہ اعتراف کرنے میں کوئی شرم اورعار بھی محسوس نہیں کرتے کہ وہ کبھی چائے بیچاکرتے تھے۔ مگر اپنے حالیہ دس سالہ دور میں انھوں نے بلاشبہ بھارت کو ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل کروا دیا ہے، انھوں نے اپنی قابلیت اورکارکردگی سے بھارتی قوم کا سر فخر سے بلند کردیا ہے۔ بھارت کا عام آدمی جو کبھی ہمار ے مقابلے میں زیادہ غریب اورمفلس تھا آج ہم سے زیادہ خوشحال ہے۔
اُن کا زرمبادلہ آج اپنی تاریخ کی بلندی پر ہے ،جب کہ ہم آج مانگے تانگے کے چودہ ارب ڈالرکو لے کر مطمئن ہورہے اوروہ 1000 ارب ڈالر کی سطح کو پہنچ گیا ہے۔ وہاں ایک نہیں کئی کھرب پتی سرمایہ دار پیدا ہوچکے ہیں جو اپنے ساتھ ساتھ بھارت کو بھی مضبوط اورمستحکم بھی بنارہے ہیں، انھیں وہاں کوئی پریشان کرنے والا نہیں ہے۔ وہاں کوئی نیب اُن کے گرد گھیرا تنگ نہیں کررہی ہے بلکہ سب حوصلہ افزائی کررہے ہیں۔ بھارت کا مال ساری دنیا میں ایکسپورٹ ہورہا ہے۔
مڈل ایسٹ ممالک میں ہر دکان اورہر شاپنگ سینٹر میں بھارت کا ہی مال نظر آتا ہے۔اُس نے وہاں کی منڈیوں پرکیسے قبضہ کیاہے ، ہم یہ جاننا ہی نہیں چاہتے۔ترقی پذیر اس دنیا میں چائنہ کے بعد اگر کسی قوم نے اس طرح ترقی کی ہے تو وہ بلاشبہ بھارتی قوم ہے۔اس نے چائنہ کامقابلہ کرکے یہ مقام حاصل کیا ہے۔
اس نے اپنے ملک میں غربت مٹانے کے لیے لنگر خانے اورشیلٹر ہومزنہیں بنائے ۔اس نے اپنی قوم کومرغی اورانڈوں سے ترقی کرنے کے منصوبے نہیں دیے،بلکہ اس نے قوم کو IT کے میدان میں آگے بڑھنے کا وژن دیا۔اس نے زراعت کے ساتھ ساتھ صنعتی شعبہ میں بھی بے حساب ترقی کی ۔ وہاں کی ریلوے اورایئر لائن ہماری طرح خسارے سے دوچار نہیں ہے۔ تیزرفتار ٹرینوں میں بھی وہ ہم سے بہت آگے ہے۔
انفرا اسٹرکچر کے میدان میں بھی اس نے بہت ترقی کی ہے۔زیرسمندر انڈر پاس تک اس نے اپنے بل بوتے پربنالی ہے۔ ہم شخصیت پرستی اورجذباتیت میںاس قدر آگے بڑھ چکے ہیںکہ ہمیں کوئی اورایک نظر بھاتا ہی نہیں ۔ہمیں اس سے غرض نہیں کہ اس کی کارکردگی کیا ہے۔ بس وہ ہمیں اچھا لگناچاہیے، وہ اسمارٹ اور خوبصورت ہونا چاہیے، وہ انگریزی بھی اچھی بولتا ہو، پرچی والا نہ ہو۔
ہماری ترقی کی راہ میں دوسری سب سے بڑی رکاوٹ یہاں کسی نظام کا تسلسل کے ساتھ نہ چلنا ہے۔ ہم نے یہاں دو دو اورڈھائی ڈھائی سال میں اپنی جمہوری حکومتوں کو چلتاکیا، کسی کو اپنے پانچ سال پورے کرنے ہی نہیں دیے۔ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا، ہم یہی کرتے رہے۔
دوسری قوموں کی ترقی کی مثال دیتے ہوئے ہم ترکی کے طیب اردگان ، ملائشیاکے مہاتیرمحمد اوربنگلا دیش کی حسینہ واجد کا ذکرتو ضرور کرتے ہیں لیکن یہ غور نہیں کرتے کہ وہاں ہر کسی کو دس دس سال یا اس سے بھی زیادہ اپنی پالیسیوں پر عملدرآمد کا بھرپور موقعہ دیا گیا، مگر ہم چند سالوں میں ہی اپنے حکمرانوں کی شکلوں سے بیزار ہوجاتے ہیں۔ انھیں قبل ازووقت اقتدار سے باہر کرکے اپنی ترقی اورخوشحالی کے دروازے خود بند کردیتے ہیں۔
یہ نہیں سوچتے کہ کیا وجہ ہے کہ عوامی لیگ کی حسینہ واجد اورطیب اردگان آج بھی اپنے عوام کے پسندیدہ لیڈر ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ صرف ذاتی پسند اورناپسند کی وجہ سے وہاں وہ مسلسل انتخابات جیت رہے ہیں،وہ اپنی پرفارمنس کی وجہ سے جیت رہے ہیں۔ دنیا میں لوگ کارکردگی کو مدنظر رکھ کر اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں اوریہی اُنکی ترقی کاراز ہے۔ہم جب تک اپنی سوچ نہیں بدلیںگے ترقی نہیں کر پائیں گے۔
جمہوریت جمہوریت کے نعرے تو بہت لگاتے ہیں لیکن اس کی افادیت کو آج تک سمجھ نہیںپائے ہیں۔ ہم صرف یہ جانتے ہیں کہ جمہوریت میں بندوں کو گنا جاتا ہے تولہ نہیں جاتا۔8فروری 2024 کے انتخابات میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ہم نے کارکردگی کے بجائے ذاتی پسند اور ناپسند کو ترجیح دی۔
ہم یہ بھول گئے کہ 2018 ء سے پہلے اس ملک کے حالات کیا تھے، یہاں مہنگائی اوربیروزگاری کتنی تھی۔کس نے اپنے دوراقتدار میں کیاکام کیا۔کس نے یہاں دہشت گردی کا خاتمہ کیا، کس نے بجلی کے بحران کو حل کیا، کس نے کراچی میں امن وامان قائم کیا، کس نے سارے ملک میں انفرااسٹرکچرٹھیک کیا ، کس نے موٹرویز اورسڑکوں کے جال بچھائے، کس نے سی پیک معاہدے پر تیزی سے عملدرآمد کیا۔ کس نے ڈالرکو قابو میںرکھااورکس نے مہنگائی کے جن کو بوتل میں بندکیے رکھا۔
آج اگر ایک نئی حکومت بن پائی ہے تو سب کو ملکر اس ملک کی خوشحالی کے لیے آگے بڑھنا ہوگا۔ یہ نہیں کہ ہمیں اقتدار نہیں ملا ہے تو کوئی اوربھی حکومت نہیں کرسکتا۔ اس سوچ کو اب چھوڑنا ہوگا۔ ملک اورقوم کی خاطرکام کرنا ہوگا۔
تحریک انصاف کو اِن انتخابات میںعددی اعتبارسے اکثریت حاصل تھی لیکن اس نے اپنی ہٹ دھرمی سے حکومت بنانے کا موقعہ گنوادیا، وہ چاہتی تو پاکستان پیپلزپارٹی کے ساتھ ملکر وفاق میں حکومت بنا سکتی تھی لیکن کسی کے ساتھ بھی ساتھ نہ چلنے کی ضد نے اسے باہر کردیا،وہ شاید اس زعم میں مبتلارہی کہ فساد اورانتشار کے ذریعے وہ 180 نشستیں حاصل کرلے گی۔
PTI کا انداز فکر ابھی تک تبدیل نہیں ہوا ہے ، اس نے سابقہ تجربے سے بھی کوئی سبق حاصل نہیںکیا ہے۔اس کی قیادت اگرچہ اڈیالہ جیل میں قید ہے لیکن تمام پالیسیاں اب بھی وہی بنا رہے ہیں۔
KPKمیں وزارت اعلیٰ کے لیے جس شخص کاانتخاب انھوں نے کیا ہے اسی سے اُن کے انداز فکر بارے میں رائے قائم کی جاسکتی ہے، وہ تشدد اورتصادم کی پالیسیوں پر اب بھی اسی طرح قائم اوردائم ہیں جس طرح پہلے قائم تھے۔
9 مئی کے مقدموں کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔اُن کے پاس مفاہمت کے سواکوئی اور راستہ نہیں ہے، وہ جتنی جلدی یہ اُصول اپنا نہیں لیتے اورمعافی تلافی نہیں کرلیتے اُنکی رہائی کے امکانات معدوم ہی رہیں گے، ویسے بھی ہم نے اپنے دس سال اس انتشار اورفتنہ انگیزی میں برباد کرچکے ہیںاوریاد رہے کہ مزید اس کے متحمل نہیںہوسکتے ہیں۔