سب جا رہے ہیں سایہ دیوار کی طرف

’’آج بھی ہم پر جاری ہے، خالی صدیوں کی بیداد‘‘ حق و باطل کا معرکہ بڑا پرانا ہے۔

''آج بھی ہم پر جاری ہے، خالی صدیوں کی بیداد'' حق و باطل کا معرکہ بڑا پرانا ہے۔ ہر دور میں ہر عہد میں یہ معرکہ جاری رہا اور دیوانے ظالم سے ٹکراتے رہے۔ حاکموں کے سامنے انکار کرتے رہے۔ پروفیسر کرار حسین صاحب نے ایک جگہ تحریر کیا تھا ''ہر عہد میں دو قطب موجود رہے ہیں، ایک بادشاہ کا دربار اور دوسرا درویش کی کٹیا، یہ درویش بھی اپنی جگہ خاص طاقت کا استعارہ ہوتا تھا۔ دربار نے ہمیشہ یہی چاہا کہ درویش اس کے دربار میں حاضری دے مگر اکثر یہی ہوا کہ بادشاہ کی یہ حسرت مچل مچل کر دم توڑتی رہی اور کبھی یوں بھی ہوا کہ بادشاہ خود چل کر درویش کی کٹیا میں حاضر ہوا۔''

یہ دونوں قطب آج بھی موجود ہیں۔ سرکار کی طرف سے آج بھی یہی فرمان جاری ہوتا ہے کہ ہم کچھ بھی کریں کوئی کچھ نہ بولے۔ آنکھیں کھلی رکھیں، مگر کچھ نہ دیکھیں، کان کھلے رکھیں مگر کچھ نہ سنیں اور زبان بند رکھیں۔ سرکار کا ساتھ دینے والے اندھے، بہرے، گونگے لوگوں کے لیے دنیا اور اس کی تمام آسائشیں موجود ہیں۔ اعلیٰ منصب، اعلیٰ مکانات، قیمتی تیز رفتار گاڑیاں اور بھی بہت کچھ، اور جس نے دیکھا، سنا اور وہ بولا تو اس کے لیے دنیا بھر کے عذاب ہیں۔ جو خوشامدی سرکار کی مدح سرائی میں حدیں بھی پار کرجاتے ہیں۔ ان کے عیش و آرام ہیں۔ اور جو بولا وہ کچھ اور نہیں صرف ''غدار'' ہے۔ جالب کے چار مصرعے سن لیجیے:

خوشامد کا صلا تمغہ خدمت

خوشامد سے ملے سفلوں کو عزت

خوشامد جو کرے فنکار ہے وہ

جو سچ بولے یہاں غدار ہے وہ

غداری کے سرٹیفکیٹ ہمارے ملک میں ملنا بہت آسان ہے۔ بس آپ سچ بات کریں، ادھر آپ نے ایسا کیا ادھر آپ کو غداری کا سرٹیفکیٹ ملا۔ اس وقت مجھے کیسے کیسے عظیم غدار یاد آرہے ہیں۔ ان کا جرم محض سچ بولنا ہی تھا، خان عبدالغفار خان، حسین شہید سہروردی، عبدالصمد خان اچکزئی، میر غوث بخش بزنجو، گل خان نصیر، خان عبدالولی خان، ازبات سکندر خلیل، مرزا ابراہیم، حبیب جالب، فیض احمد فیض، نواب اکبر بگٹی، میجر اسحاق۔ یہ تو وہ غدار ہیں جو اب اس دنیا سے جاچکے اور کچھ غدار ابھی زندہ ہیں جن میں سرفہرست نام 94 سالہ سوبھوگیان چندانی کا ہے، جنھیں پاکستان کے پہلے سیاسی قیدی ہونے کا بھی شرف حاصل ہے، ان کے علاوہ جام ساقی اور معراج محمد خان ہیں۔

مخدوم جاوید ہاشمی خود سے اپنے آپ کو باغی کہتے ہیں، ابھی ان کی بغاوت کا معاملہ چلنے دیں، دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ چند علما پر بھی غداری کا لیبل لگایا گیا، مولانا مفتی محمود، مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا عبدالستار خان نیازی، مولانا ابوالاعلیٰ مودودی۔ ان کے علاوہ کچھ صاحب کردار علمائے حق اور بھی گزرے ہیں، وہ غداری کے لیبل سے تو بچ گئے مگر ان کا نام آج بھی نہایت احترام سے لیا جاتا ہے۔ مولانا حامد علی خان، علامہ ابن حسن جارچوی، مفتی محمد شفیع، علامہ مصطفیٰ الازہری اور چند نام اور بھی ہوں گے۔ یہ وہ علمائے حق ہیں کہ جنھوں نے آگے بڑھ کر حق و سچ کے لیے قربانیاں دیں۔ ان کے علاوہ باقی ایک ہجوم ہے۔ علما، مشائخ، سجادہ نشین، گدی نشین، پیر، فقیر کہ جو ہر دور میں سرکار کے ساتھ رہے۔

سرکار کی ہاں میں ہاں ملائی، جاگیرداروں، وڈیروں کے جرگوں میں بیٹھ کر غیر اسلامی، غیر انسانی فیصلوں کا حصہ بنے۔ ملکہ برطانیہ سے لے کر آج تک یہ علمائے سو ظلم کا ساتھ دے رہے ہیں۔ ایسے ہی ہمارے اہل قلم، دانشور ہیں، جو ظلم کے خلاف خاموش ہیں یا اپنی مراعات بچانے کی خاطر سرکار کے طرف دار بنے ہوئے ہیں۔ کسی کو خدا یاد نہیں ہے، آخر سب نے مرجانا ہے۔ مگر کسی کو موت بھی یاد نہیں۔ سرکار کی طرف سے بڑی بڑی تنخواہیں مل رہی ہیں، دیگر مراعات بھی ہیں، پھر بھلا آسودگی کو چھوڑ کر خواری کون اٹھائے۔ یہ تو دیوانوں کا کام ہے۔ دیوانے ہی نعرہ زن ہوتے رہے ہیں۔ ''ظلم کی بات کو، جہل کی رات کو، میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا''۔

آج بھی کچھ نہیں بدلا۔ سب کچھ ویسا ہی ہے کہ تاریخ کے صفحات جن حالات سے بھرے پڑے ہیں۔ سچ بولنے والے صعوبتوں میں مبتلا ہیں، سچ بولنے والوں کے اردگرد خوف کے سائے ہیں، ظلم کے پہرے ہیں، بندوقیں ہیں، چلتی گولیاں ہیں اور باقی سب اپنے اپنے مطلب کی باتوں میں مصروف ہیں، بولے چلے جا رہے ہیں، لکھے چلے جارہے ہیں، مگر ظالم کا ہاتھ کوئی نہیں پکڑ رہا۔ مظلوم کے حق میں کوئی نہیں بول رہا اور ہمیشہ کی طرح یہ لکھنے اور بولنے کے ''ماہر'' ان کے قلم مجبور، ان کے لب قیدی۔ یہ منظر ہمیشہ سے تھا، اور لگتا ہے ہمیشہ رہے گا۔

علی سردار جعفری کا شعر یاد آگیا۔


ہے ہمیشہ سے یہی افسانہ پست و بلند

حرف باطل زیب منبر، حرف حق بالائے دار

صاحبو! ظلم سے برسر پیکار ہمیشہ چند لوگ ہی رہے ہیں، منصور حلاج بھی اکیلا تھا۔ صاحبو! حسین بھی کربلا میں اکیلے تھے یا چند گنتی کے جاں نثار۔ یہ اکیلے مگر لاکھوں، کروڑوں پر بھاری۔ ان کے کردار کی روشنیاں آج بھی حق و سچ کی راہیں دکھاتی ہیں۔ جن پر ان ہی جیسے دیوانے چلتے ہیں اور ہمیشہ کے لیے امر ہوجاتے ہیں۔ باقی ایک ہجوم، ایک بھیڑ یہ گفتار کے غازی، یہ سب گم ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ان کے وجود مٹ جاتے ہیں، نہ کوئی نام لیوا، نہ پانی دیوا۔ نقش ان ہی کے باقی رہ جاتے ہیں جو حق گو اور بے باک ہوتے ہیں۔ سچ بولنے والوں کو مٹانے والے خود مٹ جاتے ہیں۔

آج بھی جو لوگ سرکار کے ساتھ ہیں، جانتے بوجھتے سچ سے گریزاں ہیں ''تم تو کسی کو بھولے سے بھی یاد نہیں آؤگے''۔

تین شعر جالب کے اور اجازت:

کتنا سکوت ہے رسن و دار کی طرف

آتا ہے کون جرأت اظہار کی طرف

دشت وفا میں آبلہ پا کوئی بھی نہیں

سب جا رہے ہیں سایہ دیوار کی طرف

قصر شہی سے کہتے ہیں نکلے گا مہر نو

اہل خرد ہیں، اس لیے سرکار کی طرف
Load Next Story