نقوی کیا کرکٹ کے محسن بنیں گے
جو کام کرنے والے لوگ ہیں ان کو ساتھ رکھیں،تب ہی کامیاب ہو سکیں گے
''یہ نقوی صاحب کھلاڑیوں سے کب ملاقات کریں گے، ان سے بہت سی باتیں کرنی ہیں''
جب ایک کرکٹر نے مجھ سے یہ پوچھا تو میں نے جواب دیا کہ سیاسی مصروفیات کی وجہ سے ابھی تو ان کی اپنے مکمل اسٹاف سے بھی باضابطہ میٹنگ نہیں ہوئی،ان دنوں وہ جھنڈے والی گاڑی میں بیٹھے ہیں، ایک وزیر ہی کسی کے ہاتھ نہیں آتا وہ تو وزیر اعلیٰ ہیں، اس منصب سے فراغت کے بعد ہی کرکٹ بورڈ کے معاملات مکمل طور پر سنبھالیں گے، ویسے مسئلہ کیا ہے، جب میں نے یہ کہا تو اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ''ہاں سب آپ کو بتا دوں تاکہ پھر بریکنگ نیوز سامنے آئے،ویسے آپ تو خبریں ڈھونڈ لیتے ہیں پلیئرز کی شکایات کا بھی پتا لگا لیں''
میں نے اسے کوئی جواب نہ دیا لیکن مجھے قومی کرکٹرز کی پی سی بی سے دوریوں کا بخوبی اندازہ ہے، سابقہ مینجمنٹ کمیٹی کے دور میں بابر اعظم کی جگہ شاہین آفریدی کو قومی ٹی ٹوئنٹی اسکواڈ کی قیادت سونپی گئی، اسٹار بیٹر کو ٹیسٹ کا کپتان برقرار رہنے کا کہا گیا مگر انھوں نے انکار کر دیا جس پر شان مسعود کو کپتان بنا دیا گیا، حیران کن طور پر انھیں پہلے ہی لاہور مدعو کیا جا چکا تھا، بابر اب تک اپنے ساتھ ہونے والے اس سلوک کو فراموش نہیں کر سکے۔
انھوں نے پاکستان کی نمائندگی جاری رکھی مگر بورڈ کے ساتھ دوریاں بڑھ چکی ہیں، ذاتی واٹس ایپ پیغام لیک ہونے سے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچی تھی، ٹیم ڈائریکٹر محمد حفیظ نے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں سینئر کرکٹرز کے ساتھ محاذ آرائی سے گریز کیا لیکن عہدہ گنواتے ہی ٹی وی پر بطور مبصر کئی ''راز'' فاش کر دیے، انھوں نے سابق کوچ،ٹیم ڈائریکٹر اور کپتان پر فٹنس کلچر سے انحراف کا الزام لگایا، پھر یہ بھی کہا کہ بابر کو اوپننگ پوزیشن چھوڑنے سے قائل کرنے میں 2 ماہ لگ گئے، کئی کرکٹرز اس صورتحال سے مایوس ہیں،وہ بورڈ تک اپنی شکایت بھی پہنچا چکے۔
اس پر براڈ کاسٹر کو ''ان آفیشل '' پیغام دیا گیا کہ محمد حفیظ کو تبصروں میں محتاط رکھتے ہوئے پی ایس ایل تک محدود رہنے کی ہدایت دیں،بورڈ کی جانب سے لیگ شروع ہونے سے 2 روز قبل حارث رؤف کا سینٹرل کنٹریکٹ معطل کرنے نے بھی صورتحال بگاڑ دی، نئے چیئرمین کی اب تک بابر اعظم یا دیگر سینئر کرکٹرز سے کوئی تفصیلی ملاقات نہیں ہوئی، یہ دوریاں محسن نقوی کو ہی ختم کرنا ہوں گی،انھیں چاہیے کہ بابر اعظم، محمد رضوان، شاہین آفریدی و دیگر کرکٹرز کو الگ الگ میٹنگ کیلیے بلائیں ان کے مسائل سنیں اور حل کرنے کی کوشش کریں، کھلاڑی اپنے بورڈ سے عزت چاہتے ہیں انھیں وہ دیں، کرکٹ بورڈ کی رونقیں کرکٹرز کے دم سے ہی ہیں، ان کو خوش رکھنا چاہیے۔
حال ہی میں شعبہ انٹرنیشنل کرکٹ نے لیگز کے این او سی کو مذاق بنا دیا تھا، کسی کو 2ایونٹس میں شرکت کی اجازت دی گئی تو کوئی زیادہ بھی کھیل گیا،قانون ایسا بنائیں جس پر سب عمل کریں، جب قومی ٹیم کی کوئی مصروفیت نہیں ہوں تو لیگز کھیلنے دیں، یہ مسئلہ فوری حل طلب ہے ورنہ یقین مانیے میں نے خود کھلاڑیوں کے منہ سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ اور سینٹرل کنٹریکٹ پر دستخط نہ کرنے کی باتیں سنی ہیں، اسی کے ساتھ پلیئرز کو بھی اپنے رویے میں بہتری لانا ہوگی، کھیل سے بڑا کوئی نہیں ہوتا، شکایات جائز ہونی چاہیئں، اپنے قدم زمین پر رکھیں، اس دنیا میں بڑے بڑے لوگ آئے اور چلے گئے، اپنے ہی ملک میں دیکھ لیں ماضی کے اسٹارز کو اب کوئی نہیں پوچھتا،چڑھتے سورج کی پوجا ہوتی ہے۔
اس لیے اچھے وقت میں لوگوں کے ساتھ اچھا رویہ رکھیں تو برے وقت میں وہی آپ کا ساتھ دیں گے۔ چیئرمین بورڈ کے حالیہ اقدامات سے واضح ہے کہ وہ بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کریں گے، پنجاب گورنمنٹ کے بعض افسران ڈیپوٹیشن پر آنے والے ہیں، غیر یقینی صورتحال سے بورڈ کے افسران بھی پریشان ہیں، اب یہاں بھی محسن نقوی کو چاہیے کہ سب کو بلائیں اور یقین دلائیں کہ وہ ہول سیل تبدیلیاں نہیں کرنے والے، صرف کام نہ کرنے والوں کی ہی چھٹی ہو گی،کرکٹ بورڈ میں سارے نئے لوگ لے آئے تو اسے کون سنبھالے گا؟ دیکھ بھال کر تبدیلیوں کی ضرورت ہے، پی ایس ایل ختم ہونے تک انتظار مناسب ہوگا،سی او او سلمان نصیر ان دنوں سائے کی طرح قذافی اسٹیڈیم میں چیئرمین کے ساتھ ہوتے ہیں لیکن یہ قربت شاید ان کے کام نہ آ سکے، نیا سی او او لانے کی باتیں ہو رہی ہیں،یا پھر ایم ڈی یا آئین میں تبدیلی کر کے سی او او کو لایا جا سکتا ہے۔
سلمان جیسے آفیشلز ہر چیئرمین کے ساتھ فٹ ہو جاتے ہیں ،البتہ ان کی ذکا اشرف سے بالکل نہیں بنی تھی، دیکھتے ہیں اب کیا ہوتا ہے، محسن نقوی نے پنجاب میں کئی ترقیاتی منصوبے شروع کیے، سنا ہے انفرااسٹرکچر میں ان کی خصوصی دلچسپی ہے، ایسا لگتا ہے کہ ملکی اسٹیڈیمز کو اپ گریڈ کیا جائے گا، آئندہ برس چیمپئنز ٹرافی ہونی ہے اس سے پہلے ایسا کرنا ضروری بھی ہے، البتہ اربوں روپے خرچ کرنے سے پہلے چیئرمین کو چیمپئنز ٹرافی کا ملک میں انعقاد یقینی بنانا چاہیے، بھارتی ٹیم آنے کو تیار نہیں، ایسے میں ہائبرڈ ماڈل اپنایا جائے گا یا کوئی اور حل نکلے گا، ایک بڑا چیلنج محسن نقوی کا منتظر ہے، وہ شاید پیر یا منگل تک وزارت اعلیٰ کی پوسٹ سے فارغ ہوجائیں۔
اس کے بعد انھیں سیاسی معاملات سے خود کو دور رکھنا ہوگا، ان کی شہرت ایک ایماندار اور قابل شخص کی ہے، پنجاب میں کام پر بھی تعریفیں ہو رہی ہیں، انھیں تمام اہم شخصیات کی سپورٹ حاصل ہے، پی سی بی کو ٹھیک کرنے کا شاید ہی اس سے اچھا موقع مل سکے، البتہ ان کو تھوڑا احتیاط سے بھی کام لینا پڑے گا،پوری اپنی ٹیم نہ لائیں۔
جو کام کرنے والے لوگ ہیں ان کو ساتھ رکھیں،تب ہی کامیاب ہو سکیں گے، انھیں یہ بات یاد رکھنا ہوگی کہ اب جھنڈے والی گاڑی جانے والی ہے، اختیارات نئی حکومت کو ملنے والے ہیں، اس لیے قدم زمین پر رکھتے ہوئے جو لوگ آپ کو لائے ہیں انھیں یہ کہنے کا موقع دیں کہ ''دیکھا ہم صحیح بندے کو لائے تھے ناں''۔ نقوی کیا کرکٹ کے محسن بنیں گے؟ اس کا جواب ہمیں آئندہ چند ماہ میں مل جائے گا۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
جب ایک کرکٹر نے مجھ سے یہ پوچھا تو میں نے جواب دیا کہ سیاسی مصروفیات کی وجہ سے ابھی تو ان کی اپنے مکمل اسٹاف سے بھی باضابطہ میٹنگ نہیں ہوئی،ان دنوں وہ جھنڈے والی گاڑی میں بیٹھے ہیں، ایک وزیر ہی کسی کے ہاتھ نہیں آتا وہ تو وزیر اعلیٰ ہیں، اس منصب سے فراغت کے بعد ہی کرکٹ بورڈ کے معاملات مکمل طور پر سنبھالیں گے، ویسے مسئلہ کیا ہے، جب میں نے یہ کہا تو اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ''ہاں سب آپ کو بتا دوں تاکہ پھر بریکنگ نیوز سامنے آئے،ویسے آپ تو خبریں ڈھونڈ لیتے ہیں پلیئرز کی شکایات کا بھی پتا لگا لیں''
میں نے اسے کوئی جواب نہ دیا لیکن مجھے قومی کرکٹرز کی پی سی بی سے دوریوں کا بخوبی اندازہ ہے، سابقہ مینجمنٹ کمیٹی کے دور میں بابر اعظم کی جگہ شاہین آفریدی کو قومی ٹی ٹوئنٹی اسکواڈ کی قیادت سونپی گئی، اسٹار بیٹر کو ٹیسٹ کا کپتان برقرار رہنے کا کہا گیا مگر انھوں نے انکار کر دیا جس پر شان مسعود کو کپتان بنا دیا گیا، حیران کن طور پر انھیں پہلے ہی لاہور مدعو کیا جا چکا تھا، بابر اب تک اپنے ساتھ ہونے والے اس سلوک کو فراموش نہیں کر سکے۔
انھوں نے پاکستان کی نمائندگی جاری رکھی مگر بورڈ کے ساتھ دوریاں بڑھ چکی ہیں، ذاتی واٹس ایپ پیغام لیک ہونے سے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچی تھی، ٹیم ڈائریکٹر محمد حفیظ نے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں سینئر کرکٹرز کے ساتھ محاذ آرائی سے گریز کیا لیکن عہدہ گنواتے ہی ٹی وی پر بطور مبصر کئی ''راز'' فاش کر دیے، انھوں نے سابق کوچ،ٹیم ڈائریکٹر اور کپتان پر فٹنس کلچر سے انحراف کا الزام لگایا، پھر یہ بھی کہا کہ بابر کو اوپننگ پوزیشن چھوڑنے سے قائل کرنے میں 2 ماہ لگ گئے، کئی کرکٹرز اس صورتحال سے مایوس ہیں،وہ بورڈ تک اپنی شکایت بھی پہنچا چکے۔
اس پر براڈ کاسٹر کو ''ان آفیشل '' پیغام دیا گیا کہ محمد حفیظ کو تبصروں میں محتاط رکھتے ہوئے پی ایس ایل تک محدود رہنے کی ہدایت دیں،بورڈ کی جانب سے لیگ شروع ہونے سے 2 روز قبل حارث رؤف کا سینٹرل کنٹریکٹ معطل کرنے نے بھی صورتحال بگاڑ دی، نئے چیئرمین کی اب تک بابر اعظم یا دیگر سینئر کرکٹرز سے کوئی تفصیلی ملاقات نہیں ہوئی، یہ دوریاں محسن نقوی کو ہی ختم کرنا ہوں گی،انھیں چاہیے کہ بابر اعظم، محمد رضوان، شاہین آفریدی و دیگر کرکٹرز کو الگ الگ میٹنگ کیلیے بلائیں ان کے مسائل سنیں اور حل کرنے کی کوشش کریں، کھلاڑی اپنے بورڈ سے عزت چاہتے ہیں انھیں وہ دیں، کرکٹ بورڈ کی رونقیں کرکٹرز کے دم سے ہی ہیں، ان کو خوش رکھنا چاہیے۔
حال ہی میں شعبہ انٹرنیشنل کرکٹ نے لیگز کے این او سی کو مذاق بنا دیا تھا، کسی کو 2ایونٹس میں شرکت کی اجازت دی گئی تو کوئی زیادہ بھی کھیل گیا،قانون ایسا بنائیں جس پر سب عمل کریں، جب قومی ٹیم کی کوئی مصروفیت نہیں ہوں تو لیگز کھیلنے دیں، یہ مسئلہ فوری حل طلب ہے ورنہ یقین مانیے میں نے خود کھلاڑیوں کے منہ سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ اور سینٹرل کنٹریکٹ پر دستخط نہ کرنے کی باتیں سنی ہیں، اسی کے ساتھ پلیئرز کو بھی اپنے رویے میں بہتری لانا ہوگی، کھیل سے بڑا کوئی نہیں ہوتا، شکایات جائز ہونی چاہیئں، اپنے قدم زمین پر رکھیں، اس دنیا میں بڑے بڑے لوگ آئے اور چلے گئے، اپنے ہی ملک میں دیکھ لیں ماضی کے اسٹارز کو اب کوئی نہیں پوچھتا،چڑھتے سورج کی پوجا ہوتی ہے۔
اس لیے اچھے وقت میں لوگوں کے ساتھ اچھا رویہ رکھیں تو برے وقت میں وہی آپ کا ساتھ دیں گے۔ چیئرمین بورڈ کے حالیہ اقدامات سے واضح ہے کہ وہ بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کریں گے، پنجاب گورنمنٹ کے بعض افسران ڈیپوٹیشن پر آنے والے ہیں، غیر یقینی صورتحال سے بورڈ کے افسران بھی پریشان ہیں، اب یہاں بھی محسن نقوی کو چاہیے کہ سب کو بلائیں اور یقین دلائیں کہ وہ ہول سیل تبدیلیاں نہیں کرنے والے، صرف کام نہ کرنے والوں کی ہی چھٹی ہو گی،کرکٹ بورڈ میں سارے نئے لوگ لے آئے تو اسے کون سنبھالے گا؟ دیکھ بھال کر تبدیلیوں کی ضرورت ہے، پی ایس ایل ختم ہونے تک انتظار مناسب ہوگا،سی او او سلمان نصیر ان دنوں سائے کی طرح قذافی اسٹیڈیم میں چیئرمین کے ساتھ ہوتے ہیں لیکن یہ قربت شاید ان کے کام نہ آ سکے، نیا سی او او لانے کی باتیں ہو رہی ہیں،یا پھر ایم ڈی یا آئین میں تبدیلی کر کے سی او او کو لایا جا سکتا ہے۔
سلمان جیسے آفیشلز ہر چیئرمین کے ساتھ فٹ ہو جاتے ہیں ،البتہ ان کی ذکا اشرف سے بالکل نہیں بنی تھی، دیکھتے ہیں اب کیا ہوتا ہے، محسن نقوی نے پنجاب میں کئی ترقیاتی منصوبے شروع کیے، سنا ہے انفرااسٹرکچر میں ان کی خصوصی دلچسپی ہے، ایسا لگتا ہے کہ ملکی اسٹیڈیمز کو اپ گریڈ کیا جائے گا، آئندہ برس چیمپئنز ٹرافی ہونی ہے اس سے پہلے ایسا کرنا ضروری بھی ہے، البتہ اربوں روپے خرچ کرنے سے پہلے چیئرمین کو چیمپئنز ٹرافی کا ملک میں انعقاد یقینی بنانا چاہیے، بھارتی ٹیم آنے کو تیار نہیں، ایسے میں ہائبرڈ ماڈل اپنایا جائے گا یا کوئی اور حل نکلے گا، ایک بڑا چیلنج محسن نقوی کا منتظر ہے، وہ شاید پیر یا منگل تک وزارت اعلیٰ کی پوسٹ سے فارغ ہوجائیں۔
اس کے بعد انھیں سیاسی معاملات سے خود کو دور رکھنا ہوگا، ان کی شہرت ایک ایماندار اور قابل شخص کی ہے، پنجاب میں کام پر بھی تعریفیں ہو رہی ہیں، انھیں تمام اہم شخصیات کی سپورٹ حاصل ہے، پی سی بی کو ٹھیک کرنے کا شاید ہی اس سے اچھا موقع مل سکے، البتہ ان کو تھوڑا احتیاط سے بھی کام لینا پڑے گا،پوری اپنی ٹیم نہ لائیں۔
جو کام کرنے والے لوگ ہیں ان کو ساتھ رکھیں،تب ہی کامیاب ہو سکیں گے، انھیں یہ بات یاد رکھنا ہوگی کہ اب جھنڈے والی گاڑی جانے والی ہے، اختیارات نئی حکومت کو ملنے والے ہیں، اس لیے قدم زمین پر رکھتے ہوئے جو لوگ آپ کو لائے ہیں انھیں یہ کہنے کا موقع دیں کہ ''دیکھا ہم صحیح بندے کو لائے تھے ناں''۔ نقوی کیا کرکٹ کے محسن بنیں گے؟ اس کا جواب ہمیں آئندہ چند ماہ میں مل جائے گا۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)