سب سے پہلے پاکستان
پاکستانی عوام بلکہ پوری قوم اِس کی وجہ سے گہری تشویش میں مبتلا ہے
بدقسمتی سے وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا، وطن عزیز میں 2024 کے انتخابات ہوئے نتیجہ سب کے سامنے ہے، کچھ سیاسی جماعتیں الیکشن کے نتائج تسلیم کرنے کے لیے آمادہ نظر نہیں آرہیں۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تمام سیاسی جماعتیں نتائج کو قبول کرلیتیں تا کہ مسائل گرفتہ ملک میں استحکام ہوجاتا جو ملک و قوم کی سلامتی اور پیش رفت کے لیے ازحد ضروری ہے۔
پاکستانی عوام بلکہ پوری قوم اِس کی وجہ سے گہری تشویش میں مبتلا ہے۔ دوسری جانب سیاسی رہنما ہیں کہ تشویشناک صورتحال سے قطع نظر وہ روایتی جوڑ توڑ میں مصروف ہیں اور کسی کو ملک و قوم کی کوئی فکر لاحق نہیں ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ انتخابات ایک مشقِ رائیگاں کے سوا اور کچھ بھی نہیں تھے۔
جس وقت یہ کالم تحریر کیا جارہا ہے اُس وقت بھی سیاسی کشمکش جاری ہے اور گتھی کو جتنا سلجھانے کی کوشش کی جارہی ہے اُتنا ہی الجھتی جارہی ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ حامی و ناصر ہو اور سیاسی اونٹ کسی اچھی کروٹ بیٹھ جائے۔
اِس مرتبہ کے الیکشن سابقہ انتخابات سے اِس لیے مختلف ہیں کہ اب کی بار ان میں نوجوان قیادت نے بھی حصہ لیا ہے۔حکومت سے باہر ہو جانے والی جماعتیں ہمیشہ کی طرح اس بار بھی حالیہ انتخابات کو آزادانہ، منصفانہ، غیر جانبدارانہ اور شفاف نہیں تسلیم کر رہیں۔پھر وہی شور شرابا اور جھگڑے، اَے بَسا آرْزُو کہ خاک شُدَہ یعنی پھر وہی ڈھاک کے تین پات۔
افسوس صد افسوس کہ پاکستان کی تاریخ میں اب تک ایسا کبھی نہیں ہوا کہ انتخابات کے نتائج کو خوشدلی سے قبول کرلیا گیا ہو۔ عام انتخابات کا انعقاد کوئی ہنسی کھیل یا مذاق نہیں ہے کیونکہ عوام کی توقعات اِن سے وابستہ ہوتی ہیں اور اِن کے انعقاد پر بھاری رقوم خرچ ہوتی ہیں جب کہ ملک و قوم پہلے ہی بے تحاشہ مالی مسائل کا شکار ہیں۔
الیکشن میں ہونے والی شکایات کے جلد از جلد ازالہ کے لیے قواعد اور ضوابط کے مطابق تمام ممکنہ کوششیں جاری ہیں لیکن اِس کام کے لیے کچھ نہ کچھ وقت تو درکار ہوگا کیونکہ کسی بھی ادارہ یا عدالت کے پاس نہ تو الہ دین کا چراغ ہے اور نہ کوئی جادوئی چھڑی۔
تاہم ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں ضروری ہے کہ الیکشن سے متعلق اعتراضات اور شکایات کے عمل کی تکمیل کے بعد نئی پارلیمان اور حکومت کے قیام کے سلسلہ میں ذرا سی بھی تاخیر نہ ہو تاکہ پٹری سے اُترے ہوئے نظام کو فوری بحال کیا جاسکے۔ امید کی جاتی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اِس سلسلہ میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کریں گی۔
جمہوری کلچر کے عدم فروغ کی وجہ سے ایسے مسائل پیدا ہوگئے جو جمہوریت کی راہ میں رکاوٹ بن گئے۔ اِس صورتحال کا بہترین علاج یہی ہے کہ ملک میں بار بار الیکشن کا انعقاد ہوتا رہے، اگر دنیا کے جمہوری ممالک پر نظر ڈالی جائے تو یہی سبق سیکھنے کو ملتا ہے۔ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت کی مثال کو ہی لے لیجیے جہاں آزادی کے بعد سے انتخابات کا تسلسل برقرار ہے۔
پاکستان کے حالیہ عام انتخابات جمہوری روایات کی عدم موجودگی کی وجہ سے رسوائی اور جگ ہنسائی کا نشانہ بنے۔ تاہم اِن انتخابات میں رائے دہندگان کی جوق در جوق شرکت اور غیر معمولی دلچسپی نے ایک ریکارڈ قائم کردیا ہے جو مستقبل کے لیے ایک نیک شگون ہے۔امید کی جاتی ہے کہ اِس سے محض انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کی بلکہ رائے دہندگان کی بلوغت میں مدد ملے گی۔
وطن عزیز کے سیاسی منظر نامہ کا تقاضہ ہے کہ انتخابات سے متعلق شکایات اور اعتراضات کا ازالہ ہونے کے بعد سیاسی پیش رفت میں ذرا سا بھی وقت ضایع نہ کیا جائے کیونکہ وقت اور حالات کے تقاضے بہت سخت ہیں۔ باالفاظِ دیگر وقت کم ہے اور مقابلہ سخت۔اِس لیے ارباب اختیار کو چاہیے کہ وہ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کے مدِنظر باہمی اشتراک سے ایسے فیصلے کریں جو جلد از جلد پایہ تکمیل کو پہنچ سکیں۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تمام سیاسی جماعتیں نتائج کو قبول کرلیتیں تا کہ مسائل گرفتہ ملک میں استحکام ہوجاتا جو ملک و قوم کی سلامتی اور پیش رفت کے لیے ازحد ضروری ہے۔
پاکستانی عوام بلکہ پوری قوم اِس کی وجہ سے گہری تشویش میں مبتلا ہے۔ دوسری جانب سیاسی رہنما ہیں کہ تشویشناک صورتحال سے قطع نظر وہ روایتی جوڑ توڑ میں مصروف ہیں اور کسی کو ملک و قوم کی کوئی فکر لاحق نہیں ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ انتخابات ایک مشقِ رائیگاں کے سوا اور کچھ بھی نہیں تھے۔
جس وقت یہ کالم تحریر کیا جارہا ہے اُس وقت بھی سیاسی کشمکش جاری ہے اور گتھی کو جتنا سلجھانے کی کوشش کی جارہی ہے اُتنا ہی الجھتی جارہی ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ حامی و ناصر ہو اور سیاسی اونٹ کسی اچھی کروٹ بیٹھ جائے۔
اِس مرتبہ کے الیکشن سابقہ انتخابات سے اِس لیے مختلف ہیں کہ اب کی بار ان میں نوجوان قیادت نے بھی حصہ لیا ہے۔حکومت سے باہر ہو جانے والی جماعتیں ہمیشہ کی طرح اس بار بھی حالیہ انتخابات کو آزادانہ، منصفانہ، غیر جانبدارانہ اور شفاف نہیں تسلیم کر رہیں۔پھر وہی شور شرابا اور جھگڑے، اَے بَسا آرْزُو کہ خاک شُدَہ یعنی پھر وہی ڈھاک کے تین پات۔
افسوس صد افسوس کہ پاکستان کی تاریخ میں اب تک ایسا کبھی نہیں ہوا کہ انتخابات کے نتائج کو خوشدلی سے قبول کرلیا گیا ہو۔ عام انتخابات کا انعقاد کوئی ہنسی کھیل یا مذاق نہیں ہے کیونکہ عوام کی توقعات اِن سے وابستہ ہوتی ہیں اور اِن کے انعقاد پر بھاری رقوم خرچ ہوتی ہیں جب کہ ملک و قوم پہلے ہی بے تحاشہ مالی مسائل کا شکار ہیں۔
الیکشن میں ہونے والی شکایات کے جلد از جلد ازالہ کے لیے قواعد اور ضوابط کے مطابق تمام ممکنہ کوششیں جاری ہیں لیکن اِس کام کے لیے کچھ نہ کچھ وقت تو درکار ہوگا کیونکہ کسی بھی ادارہ یا عدالت کے پاس نہ تو الہ دین کا چراغ ہے اور نہ کوئی جادوئی چھڑی۔
تاہم ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں ضروری ہے کہ الیکشن سے متعلق اعتراضات اور شکایات کے عمل کی تکمیل کے بعد نئی پارلیمان اور حکومت کے قیام کے سلسلہ میں ذرا سی بھی تاخیر نہ ہو تاکہ پٹری سے اُترے ہوئے نظام کو فوری بحال کیا جاسکے۔ امید کی جاتی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اِس سلسلہ میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کریں گی۔
جمہوری کلچر کے عدم فروغ کی وجہ سے ایسے مسائل پیدا ہوگئے جو جمہوریت کی راہ میں رکاوٹ بن گئے۔ اِس صورتحال کا بہترین علاج یہی ہے کہ ملک میں بار بار الیکشن کا انعقاد ہوتا رہے، اگر دنیا کے جمہوری ممالک پر نظر ڈالی جائے تو یہی سبق سیکھنے کو ملتا ہے۔ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت کی مثال کو ہی لے لیجیے جہاں آزادی کے بعد سے انتخابات کا تسلسل برقرار ہے۔
پاکستان کے حالیہ عام انتخابات جمہوری روایات کی عدم موجودگی کی وجہ سے رسوائی اور جگ ہنسائی کا نشانہ بنے۔ تاہم اِن انتخابات میں رائے دہندگان کی جوق در جوق شرکت اور غیر معمولی دلچسپی نے ایک ریکارڈ قائم کردیا ہے جو مستقبل کے لیے ایک نیک شگون ہے۔امید کی جاتی ہے کہ اِس سے محض انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کی بلکہ رائے دہندگان کی بلوغت میں مدد ملے گی۔
وطن عزیز کے سیاسی منظر نامہ کا تقاضہ ہے کہ انتخابات سے متعلق شکایات اور اعتراضات کا ازالہ ہونے کے بعد سیاسی پیش رفت میں ذرا سا بھی وقت ضایع نہ کیا جائے کیونکہ وقت اور حالات کے تقاضے بہت سخت ہیں۔ باالفاظِ دیگر وقت کم ہے اور مقابلہ سخت۔اِس لیے ارباب اختیار کو چاہیے کہ وہ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کے مدِنظر باہمی اشتراک سے ایسے فیصلے کریں جو جلد از جلد پایہ تکمیل کو پہنچ سکیں۔