ایک وٹامن جب زہر بن گیا
امریکی عطائی ڈاکٹر نے اپنی ناتجربہ کاری کے سبب مریضہ کو موت کے کنارے پہنچا دیا … سبق آموز داستان
یہ چند ماہ قبل کی بات ہے، ڈاکٹر سسمیت رائے 'سینٹرا لنچ برگ جنرل اسپتال' (Centra Lynchburg General Hospital ) صبح سویرے پہنچے اور اپنے کام میں مصروف ہو گئے۔
یہ علاج گاہ امریکی ریاست ورجینیا کے شہر لنچ برگ میں واقع ہے۔ ڈاکٹر سسمیت رائے ماہر امراض گردہ ہیں۔ دوران کار ان کے سامنے ایک ستر سالہ خاتون، جینی کی فائل آئی۔ جینی کو پچھلی رات ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔ مریضہ کے گردے درست طریقے سے کام نہیںکر رہے تھے۔
کام سے فارغ ہو کر وہ جینی سے ملنے اس کے کمرے پہنچے۔ ڈاکٹر سسمیت کو اس کا چہرہ دیکھتے ہی اندازہ ہو گیا کہ یہ عورت تکلیف میں ہے۔ جینی کے رحم کے استر (lining of the uterus)میں کینسر پیدا ہو گیا تھااور اس کا علاج جاری تھا۔ اب اس کے گردے صحیح طرح کام نہیں کررہے تھے۔ یوں بیچاری عورت نئی مصبیت میں گرفتار ہو گئی۔ عنقریب جینی کی پوتی کی شادی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ تندرستی کے عالم میں خوشی کی اس تقریب میں شرکت کرے۔ مگر زندگی تو کچھ اور ہی تہیہ کیے بیٹھی تھی۔
مریضہ کے سرطان کا علاج کرتے ڈاکٹر نے اسے ہسپتال بھجوایا تھا کیونکہ ٹیسٹوں سے پتا چلا کہ جینی کے خون میں کریٹینین (creatinine)کی سطح کافی زیادہ ہو چکی۔ جب کھایا گیا پروٹین جسم میں ریزہ ریزہ ہو تو یہ مادہ جنم لیتا ہے۔ عام حالات میں انسانی خون میں اس مادے کی مقدار 0.5 تا 1.1 ملی گرام فی ڈیسی لیٹر ہوتی ہے۔ مگر جینی کے خون میں مقدار سات گنا زیادہ یعنی 6.8 ملی گرام پائی گئی۔
یہ تشویش ناک بات تھی۔ وجہ یہ کہ خون میں موجود کریٹینین کی زیادہ مقدار کو ہمارے گردے جسم سے باہر نکال دیتے ہیں۔ یوں یہ مادہ انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ثابت نہیں ہوتا۔ چونکہ مریضہ کے جسم میں یہ مادہ بڑی مقدار میں ملا ، اس کا مطلب تھا کہ گردے صحیح طرح کام نہیں کر رہے۔ اسی لیے ڈاکٹر نے فوراً جینی کو ہسپتال بھجوا دیا۔
ڈاکٹر سسمیت رائے نے سب سے پہلے جینی سے معلومات لیں۔ مثلاً دریافت کیا کہ وہ مناسب تعداد میں پانی پی رہی ہے؟ دراصل جو لوگ کینسر کا علاج کراتے ہوئے کیمیوتھراپی سے گذریں، تو اکثر ان کی بھوک پیاس مر جاتی ہے۔ جینی نے بتایا کہ وہ پانی پیتی ہے۔ ڈاکٹر نے پھر بھی اسے نمکین پانی کی ڈرپ لگا دی۔ پھر یہ دیکھنے کے لیے اس کا الٹراساؤنڈ کرایا کہ گردوں میں رسولیاں تو پیدا نہیں ہو گئیں۔
ہمارے گردوں کا بنیادی کام خون کو ہر قسم کے فضلے اور ردی اشیا سے پاک صاف کرنا ہے۔ ہر ایک منٹ میں آدھا کپ خون گردوں سے چھن کر نکلتا اور صاف ہو جاتا ہے۔ گردے خون سے چوسا زہریلا مائع پیشاب کے ذریعے جسم سے باہر نکال دیتے ہیں۔ گردوں میں خون 'نیفرون' (nephron) نامی ڈھانچے سے گذرتا ہے جس کے دو حصے ہیں: گلومیرولو (glomerulu) اور ٹیوبل (tubule)۔ پہلا حصہ خون کی صفائی کرتا ہے۔ دوسرا صاف شدہ خون واپس جسم میں پھینک دیتا ہے۔
ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر اور لوپوس ( lupus) جیسے امراض رفتہ رفتہ گردوں کا یہ قدرتی خصوصی ڈھانچا خراب کر دیتے ہیں۔ بعض اقسام کے کینسر، چھوت اور کچھ ادویہ نیفرون ڈھانچے میں سوزش پیدا کر دیتی ہیں جو طبی اصطلاح میں نیفریٹیس' (nephritis) کہلاتی ہے۔ اس طبی خلل سے بھی گردے خراب ہو جاتے ہیں۔
مسئلہ کیوں پیدا ہوا؟
طبی معائنوں سے مگر معلوم نہیں ہو سکا کہ جینی کے جسم میں کریٹینین مادے کی زیادتی نے کیوں جنم لیا۔ اس دوران دو دن گذر گئے۔ جب ڈاکٹر سسمیت اس سے ملنے آیا تو اسے محسوس ہوا کہ پچھلی بار کے مقابلے میں جینی زیادہ کمزور ہو چکی۔ اس کا رنگ بھی پیلا پڑ گیا تھا۔ وہ سست بھی نظر آئی۔ گویا اس کی صحت کو لاحق خطرہ بڑھ رہا تھا۔ ڈاکٹر نے خیال کیا کہ شاید اسے کیمیوتھراپی کی ادویہ راس نہیں آ رہیں جو وہ پچھلے چھ ماہ سے لے رہی تھی۔
مسئلہ مگر یہی تھا کہ جینی کے تمام ٹیسٹ درست آئے تھے، گو اس کی جسمانی حالت بدتر ہو رہی تھی۔ خطرے کی بات یہ کہ خون میں کریٹینین کی مقدار مسلسل بڑھ رہی تھی۔ یہ نشانی تھی کہ کچھ خرابی ضرور ہے۔ ٹیسٹوں سے البتہ یہ بھی معلوم ہوا کہ جینی کے خون میں تیزابیت بڑھ رہی ہے۔ یہ گردوں کے خراب ہونے کی ایک اور اہم علامت تھی۔ معنی یہ کہ اس کے گردوں نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ اب ضروری ہو گیا کہ جینی کا ڈائیلاسز کرایا جائے تاکہ جسم زہریلے عناصر سے پاک ہو سکے۔ اگر یہ فضلہ جسم سے باہر نہ نکلتا تو وہ دل و جگر پہ اثرانداز ہو کر جینی کو موت کی نیند سلا سکتا تھا۔
یہ عیاں تھا کہ ستر سال خاتون دیکھتے ہی دیکھتے موت کی سرحد پہ پہنچ گئی تھی۔ اس بات نے ڈاکٹر سسمیت سمیت جینی کے سبھی معالجین کو حیران پریشان کر دیا۔ آخر ڈاکٹر سسمیت سراغ رساں بن گیا۔ اس نے کرید کرید کر جینی سے روزمرہ زندگی کے معمول کی بابت سوال کیے۔ اسے یقین تھا کہ بوڑھی خاتون کوئی اہم بات بھول رہی ہے۔ اس کا اندازہ درست ثابت ہوا۔
گتھی سلجھ گئی
انکشاف ہوا کہ چند ماہ سے وہ قریبی شہر، چارلٹسویل میں مقیم ایک ڈاکٹر کے پاس جا رہی تھی۔ وہ ڈاکٹر اسے وٹامن سی کے انجکشن لگا رہا تھا۔ اس کا دعوی تھا کہ ان انجکشنوں سے جینی کو بھوک لگے گی اور مجموعی صحت بھی بہتر ہو گی۔ جب ڈاکٹر سسمیت کو علم ہوا کہ جینی کو کتنا وٹامن سی دیا جا رہا تھا تو اس نے صدمے و حیرت کے مارے اپنا سر پیٹ لیا۔ بہرحال اس انکشاف سے یہ گتھی سلجھ گئی کہ جینی کے جسم میں کریٹینین کی مقدار کیوں بڑھی اور کیسے گردوں نے کام کرنا چھوڑ دیا۔
وٹامن سی انسانی تندرستی کے لیے درکار ایک اہم غذائی عنصر ہے۔ اس کی مدد سے ہمارا جسم ایسے مرکبات بناتا ہے جو دل، دماغ، نسوں اور اعصاب کو صحت مند رکھتے ہیں۔ یہ انسانی خلیوں کو مضر اشیا سے بچاتا ہے۔ پروٹین اور فولاد جسم میں جذب کراتا ہے۔ زخم اس کی وجہ سے بہ آسانی مندمل ہوتے ہیں۔ یہ وٹامن ہمیں غذاؤں سے حاصل ہوتا ہے۔ اس کی گولیاں بھی ملتی ہیں۔
ایک بالغ انسان کو روزانہ 75 سے 90 ملی گرام وٹامن درکار ہوتا ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ 1800 ملی گرام لے سکتا ہے۔ بچوں اور نوجوانوں کو اس وٹامن کی کم مقدار درکار ہوتی ہے۔ ڈاکٹر سسمیت کو پتا چلا کہ جینی ہر ہفتے ٹیکوں کے ذریعے وٹامن کی ایک ہزار گرام مقدار لے رہی تھی۔ ڈاکٹر نے خاتون کو یہ بھی یقین دلایا تھا کہ اس علاج سے کینسر ختم ہو سکتا ہے۔
یہ حیرانی کی بات ہے ، اس نالائق ڈاکٹر کو یہ بات معلوم نہیں تھی کہ انسان زیادہ مقدار میں وٹامن سی لے تو یہ زہر بن جاتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جب جسم میں وٹامن سی کی مقدار زیادہ ہو جائے تو گردے اسے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تب گردوں میں جمع شدہ یہ وٹامن ایک مادے، آکسلیٹ (oxalate) میں بدل جاتا ہے۔ یہ تیز دھار رکھنے والا کرسٹل مادہ ہے۔
آکسلیٹ عموماً گردوں پہ اثرانداز نہیں ہوتا، البتہ پتھری ضرور بناتا ہے۔ مگر خون میں وٹامن سی کی مقدار خاص حد سے بڑھ جائے تو پیدا شدہ آکسلیٹ گردوں کے نیفرون ڈھانچے کو نقصان پہنچانے لگتا ہے۔ وہ گلومیرولو اور ٹیوبل کے خلیے مار ڈالتا ہے۔ یوں گردے ناکارہ ہو جاتے ہیں۔ یہی عمل جینی کے جسم میں انجام پایا کیونکہ وہ بذریعہ انجکشن وٹامن سی کی بہت زیادہ مقدار لے رہی تھی۔
ڈاکٹر سسمیت نے فوراً جینی کو ڈائیلاسز پہ ڈال دیا تاکہ خون کی صفائی ہو اور گردوں کو آرام مل سکے۔ ایک ہی دن میں خاتون کی حالت سنبھل گئی۔ چند دن بعد وہ تندرست ہو گئی۔ مگر آکسلیٹ نے اس کے گردے خراب کر دئیے۔ چناں چہ اسے اب ہفتے میں تین بار ڈائیلاسز کرانا پڑتا ہے تاکہ جسم زہریلے عناصر سے پاک ہو جائے اور وہ زندہ رہے۔
تین سبق
درج بالا واقعہ ہمیں تین اہم سبق دیتا ہے۔ اول یہ کہ روزانہ غذا یا گولیوں کے ذریعے وٹامن سی کی مطلوبہ مقدار ہی لیجیے۔ زیادہ مقدار لینے سے طبی پیچیدگیاں پیدا ہوں گی۔ مثلاً آج کل کنو و مالٹے کا موسم ہے جس میں وٹامن سی کافی ملتا ہے۔ لہذا انھیں اعتدال سے کھائیے۔ دوم یہ کہ امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی عطائی ڈاکٹر ملتے ہیں جو اپنی ناتجربے کاری اور ناسمجھی کی بدولت قیمتی انسانی زندگیاں خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔ سوم یہ کہ ڈاکٹر کو ہمیشہ مریض سے تفصیلی بات چیت اور سوال جواب کرنے چاہیں تاکہ وہ مرض کی ماہیت اچھی طرح سمجھ سکے۔ ڈاکٹر اور مریض کا قریبی ربط ضبط مرض جلد ختم کر کے تندرستی کی نعمت انسان کو عطا کر دیتا ہے۔
یہ علاج گاہ امریکی ریاست ورجینیا کے شہر لنچ برگ میں واقع ہے۔ ڈاکٹر سسمیت رائے ماہر امراض گردہ ہیں۔ دوران کار ان کے سامنے ایک ستر سالہ خاتون، جینی کی فائل آئی۔ جینی کو پچھلی رات ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔ مریضہ کے گردے درست طریقے سے کام نہیںکر رہے تھے۔
کام سے فارغ ہو کر وہ جینی سے ملنے اس کے کمرے پہنچے۔ ڈاکٹر سسمیت کو اس کا چہرہ دیکھتے ہی اندازہ ہو گیا کہ یہ عورت تکلیف میں ہے۔ جینی کے رحم کے استر (lining of the uterus)میں کینسر پیدا ہو گیا تھااور اس کا علاج جاری تھا۔ اب اس کے گردے صحیح طرح کام نہیں کررہے تھے۔ یوں بیچاری عورت نئی مصبیت میں گرفتار ہو گئی۔ عنقریب جینی کی پوتی کی شادی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ تندرستی کے عالم میں خوشی کی اس تقریب میں شرکت کرے۔ مگر زندگی تو کچھ اور ہی تہیہ کیے بیٹھی تھی۔
مریضہ کے سرطان کا علاج کرتے ڈاکٹر نے اسے ہسپتال بھجوایا تھا کیونکہ ٹیسٹوں سے پتا چلا کہ جینی کے خون میں کریٹینین (creatinine)کی سطح کافی زیادہ ہو چکی۔ جب کھایا گیا پروٹین جسم میں ریزہ ریزہ ہو تو یہ مادہ جنم لیتا ہے۔ عام حالات میں انسانی خون میں اس مادے کی مقدار 0.5 تا 1.1 ملی گرام فی ڈیسی لیٹر ہوتی ہے۔ مگر جینی کے خون میں مقدار سات گنا زیادہ یعنی 6.8 ملی گرام پائی گئی۔
یہ تشویش ناک بات تھی۔ وجہ یہ کہ خون میں موجود کریٹینین کی زیادہ مقدار کو ہمارے گردے جسم سے باہر نکال دیتے ہیں۔ یوں یہ مادہ انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ثابت نہیں ہوتا۔ چونکہ مریضہ کے جسم میں یہ مادہ بڑی مقدار میں ملا ، اس کا مطلب تھا کہ گردے صحیح طرح کام نہیں کر رہے۔ اسی لیے ڈاکٹر نے فوراً جینی کو ہسپتال بھجوا دیا۔
ڈاکٹر سسمیت رائے نے سب سے پہلے جینی سے معلومات لیں۔ مثلاً دریافت کیا کہ وہ مناسب تعداد میں پانی پی رہی ہے؟ دراصل جو لوگ کینسر کا علاج کراتے ہوئے کیمیوتھراپی سے گذریں، تو اکثر ان کی بھوک پیاس مر جاتی ہے۔ جینی نے بتایا کہ وہ پانی پیتی ہے۔ ڈاکٹر نے پھر بھی اسے نمکین پانی کی ڈرپ لگا دی۔ پھر یہ دیکھنے کے لیے اس کا الٹراساؤنڈ کرایا کہ گردوں میں رسولیاں تو پیدا نہیں ہو گئیں۔
ہمارے گردوں کا بنیادی کام خون کو ہر قسم کے فضلے اور ردی اشیا سے پاک صاف کرنا ہے۔ ہر ایک منٹ میں آدھا کپ خون گردوں سے چھن کر نکلتا اور صاف ہو جاتا ہے۔ گردے خون سے چوسا زہریلا مائع پیشاب کے ذریعے جسم سے باہر نکال دیتے ہیں۔ گردوں میں خون 'نیفرون' (nephron) نامی ڈھانچے سے گذرتا ہے جس کے دو حصے ہیں: گلومیرولو (glomerulu) اور ٹیوبل (tubule)۔ پہلا حصہ خون کی صفائی کرتا ہے۔ دوسرا صاف شدہ خون واپس جسم میں پھینک دیتا ہے۔
ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر اور لوپوس ( lupus) جیسے امراض رفتہ رفتہ گردوں کا یہ قدرتی خصوصی ڈھانچا خراب کر دیتے ہیں۔ بعض اقسام کے کینسر، چھوت اور کچھ ادویہ نیفرون ڈھانچے میں سوزش پیدا کر دیتی ہیں جو طبی اصطلاح میں نیفریٹیس' (nephritis) کہلاتی ہے۔ اس طبی خلل سے بھی گردے خراب ہو جاتے ہیں۔
مسئلہ کیوں پیدا ہوا؟
طبی معائنوں سے مگر معلوم نہیں ہو سکا کہ جینی کے جسم میں کریٹینین مادے کی زیادتی نے کیوں جنم لیا۔ اس دوران دو دن گذر گئے۔ جب ڈاکٹر سسمیت اس سے ملنے آیا تو اسے محسوس ہوا کہ پچھلی بار کے مقابلے میں جینی زیادہ کمزور ہو چکی۔ اس کا رنگ بھی پیلا پڑ گیا تھا۔ وہ سست بھی نظر آئی۔ گویا اس کی صحت کو لاحق خطرہ بڑھ رہا تھا۔ ڈاکٹر نے خیال کیا کہ شاید اسے کیمیوتھراپی کی ادویہ راس نہیں آ رہیں جو وہ پچھلے چھ ماہ سے لے رہی تھی۔
مسئلہ مگر یہی تھا کہ جینی کے تمام ٹیسٹ درست آئے تھے، گو اس کی جسمانی حالت بدتر ہو رہی تھی۔ خطرے کی بات یہ کہ خون میں کریٹینین کی مقدار مسلسل بڑھ رہی تھی۔ یہ نشانی تھی کہ کچھ خرابی ضرور ہے۔ ٹیسٹوں سے البتہ یہ بھی معلوم ہوا کہ جینی کے خون میں تیزابیت بڑھ رہی ہے۔ یہ گردوں کے خراب ہونے کی ایک اور اہم علامت تھی۔ معنی یہ کہ اس کے گردوں نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ اب ضروری ہو گیا کہ جینی کا ڈائیلاسز کرایا جائے تاکہ جسم زہریلے عناصر سے پاک ہو سکے۔ اگر یہ فضلہ جسم سے باہر نہ نکلتا تو وہ دل و جگر پہ اثرانداز ہو کر جینی کو موت کی نیند سلا سکتا تھا۔
یہ عیاں تھا کہ ستر سال خاتون دیکھتے ہی دیکھتے موت کی سرحد پہ پہنچ گئی تھی۔ اس بات نے ڈاکٹر سسمیت سمیت جینی کے سبھی معالجین کو حیران پریشان کر دیا۔ آخر ڈاکٹر سسمیت سراغ رساں بن گیا۔ اس نے کرید کرید کر جینی سے روزمرہ زندگی کے معمول کی بابت سوال کیے۔ اسے یقین تھا کہ بوڑھی خاتون کوئی اہم بات بھول رہی ہے۔ اس کا اندازہ درست ثابت ہوا۔
گتھی سلجھ گئی
انکشاف ہوا کہ چند ماہ سے وہ قریبی شہر، چارلٹسویل میں مقیم ایک ڈاکٹر کے پاس جا رہی تھی۔ وہ ڈاکٹر اسے وٹامن سی کے انجکشن لگا رہا تھا۔ اس کا دعوی تھا کہ ان انجکشنوں سے جینی کو بھوک لگے گی اور مجموعی صحت بھی بہتر ہو گی۔ جب ڈاکٹر سسمیت کو علم ہوا کہ جینی کو کتنا وٹامن سی دیا جا رہا تھا تو اس نے صدمے و حیرت کے مارے اپنا سر پیٹ لیا۔ بہرحال اس انکشاف سے یہ گتھی سلجھ گئی کہ جینی کے جسم میں کریٹینین کی مقدار کیوں بڑھی اور کیسے گردوں نے کام کرنا چھوڑ دیا۔
وٹامن سی انسانی تندرستی کے لیے درکار ایک اہم غذائی عنصر ہے۔ اس کی مدد سے ہمارا جسم ایسے مرکبات بناتا ہے جو دل، دماغ، نسوں اور اعصاب کو صحت مند رکھتے ہیں۔ یہ انسانی خلیوں کو مضر اشیا سے بچاتا ہے۔ پروٹین اور فولاد جسم میں جذب کراتا ہے۔ زخم اس کی وجہ سے بہ آسانی مندمل ہوتے ہیں۔ یہ وٹامن ہمیں غذاؤں سے حاصل ہوتا ہے۔ اس کی گولیاں بھی ملتی ہیں۔
ایک بالغ انسان کو روزانہ 75 سے 90 ملی گرام وٹامن درکار ہوتا ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ 1800 ملی گرام لے سکتا ہے۔ بچوں اور نوجوانوں کو اس وٹامن کی کم مقدار درکار ہوتی ہے۔ ڈاکٹر سسمیت کو پتا چلا کہ جینی ہر ہفتے ٹیکوں کے ذریعے وٹامن کی ایک ہزار گرام مقدار لے رہی تھی۔ ڈاکٹر نے خاتون کو یہ بھی یقین دلایا تھا کہ اس علاج سے کینسر ختم ہو سکتا ہے۔
یہ حیرانی کی بات ہے ، اس نالائق ڈاکٹر کو یہ بات معلوم نہیں تھی کہ انسان زیادہ مقدار میں وٹامن سی لے تو یہ زہر بن جاتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جب جسم میں وٹامن سی کی مقدار زیادہ ہو جائے تو گردے اسے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تب گردوں میں جمع شدہ یہ وٹامن ایک مادے، آکسلیٹ (oxalate) میں بدل جاتا ہے۔ یہ تیز دھار رکھنے والا کرسٹل مادہ ہے۔
آکسلیٹ عموماً گردوں پہ اثرانداز نہیں ہوتا، البتہ پتھری ضرور بناتا ہے۔ مگر خون میں وٹامن سی کی مقدار خاص حد سے بڑھ جائے تو پیدا شدہ آکسلیٹ گردوں کے نیفرون ڈھانچے کو نقصان پہنچانے لگتا ہے۔ وہ گلومیرولو اور ٹیوبل کے خلیے مار ڈالتا ہے۔ یوں گردے ناکارہ ہو جاتے ہیں۔ یہی عمل جینی کے جسم میں انجام پایا کیونکہ وہ بذریعہ انجکشن وٹامن سی کی بہت زیادہ مقدار لے رہی تھی۔
ڈاکٹر سسمیت نے فوراً جینی کو ڈائیلاسز پہ ڈال دیا تاکہ خون کی صفائی ہو اور گردوں کو آرام مل سکے۔ ایک ہی دن میں خاتون کی حالت سنبھل گئی۔ چند دن بعد وہ تندرست ہو گئی۔ مگر آکسلیٹ نے اس کے گردے خراب کر دئیے۔ چناں چہ اسے اب ہفتے میں تین بار ڈائیلاسز کرانا پڑتا ہے تاکہ جسم زہریلے عناصر سے پاک ہو جائے اور وہ زندہ رہے۔
تین سبق
درج بالا واقعہ ہمیں تین اہم سبق دیتا ہے۔ اول یہ کہ روزانہ غذا یا گولیوں کے ذریعے وٹامن سی کی مطلوبہ مقدار ہی لیجیے۔ زیادہ مقدار لینے سے طبی پیچیدگیاں پیدا ہوں گی۔ مثلاً آج کل کنو و مالٹے کا موسم ہے جس میں وٹامن سی کافی ملتا ہے۔ لہذا انھیں اعتدال سے کھائیے۔ دوم یہ کہ امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی عطائی ڈاکٹر ملتے ہیں جو اپنی ناتجربے کاری اور ناسمجھی کی بدولت قیمتی انسانی زندگیاں خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔ سوم یہ کہ ڈاکٹر کو ہمیشہ مریض سے تفصیلی بات چیت اور سوال جواب کرنے چاہیں تاکہ وہ مرض کی ماہیت اچھی طرح سمجھ سکے۔ ڈاکٹر اور مریض کا قریبی ربط ضبط مرض جلد ختم کر کے تندرستی کی نعمت انسان کو عطا کر دیتا ہے۔