اسرائیلی درندگی پر مجرمانہ خاموشی
جو اسرائیل کو ظلم و ستم سے باز رکھنے کی پوری طاقت اور وسائل رکھتے ہیں، فوری جنگ بندی بھی کروا سکتے ہیں
اسرائیلی بمباری سے مزید 76 فلسطینی شہید ہوگئے، سعودی عرب نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل میں غزہ کی تباہی پر عالمی برادری کی خاموشی پر کڑی تنقید کرتے ہوئے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔
دوسری جانب اب تک تقریباً تیس ہزار لوگ جاں بحق اور ستر ہزار زخمی ہوچکے ہیں۔ غزہ میں آبادی کا پچیس فی صد یعنی تقریباً پانچ لاکھ 76 ہزار افراد قحط کے دہانے پر ہیں۔
دنیا میں بہت سے طاقتور ممالک ایسے ہیں، جو اسرائیل کو ظلم و ستم سے باز رکھنے کی پوری طاقت اور وسائل رکھتے ہیں، فوری جنگ بندی بھی کروا سکتے ہیں، مگر اس وقت ان میں سے کوئی ایک بھی مظلوم فلسطینیوں کے لیے بات کرنے پر تیار نہیں ہے، گویا ایک شکست خوردگی کا عالم ہے۔
امریکا کے لیے اسرائیل کو روکنا بہت آسان تھا لیکن امریکا خود اس جنگ میں کود پڑا ہے جو اس کی اپنی جنگ نہیں لیکن وہ اسرائیل کی جنگ کو اپنی جنگ سمجھتا ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی تنظیموں نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اسرائیل حماس کو ختم کرنے کے نام پر فلسطینیوں کی نسل کشی کررہا ہے۔
امریکا، برطانیہ اور فرانس کی پشت پناہی اور سرپرستی کی وجہ سے اسرائیل کے وزیراعظم اور وزرا کھل کر یہ کہنے لگے ہیں کہ محصور غزہ کی پوری آبادی کو ہلاک کرنا پڑا تو وہ یہ کام کر گزریں گے۔ اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیوں اور نسل کشی کے اقدامات پر امریکا میں بھی تنقید بڑھ رہی ہے۔ اب دنیا کھلے الفاظ میں یہ کہہ رہی ہے کہ اسرائیل فلسطینی علاقوں میں شہریوں، عورتوں اور بچوں کو بلا کسی امتیاز کے نشانہ بنارہا ہے۔
یہاں تک کہ شہریوں تک امدادی تنظیموں کی رسائی بھی ناممکن بنائی جا رہی ہے۔ امریکا میں اس احساس میں شدت بھی آرہی ہے کہ اسرائیل کے جرائم امریکا کے کھاتے میں بھی پڑ سکتے ہیں۔
امریکی سینیٹر اور سابق صدارتی نامزدگی کے امیدوار برنی سینڈرز نے غزہ میں معصوم شہریوں کے خلاف اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیوں اور فلسطینیوں کی نسل کشی کی مذمت کرتے ہوئے کانگریس سے مطالبہ کیا ہے کہ اسے اسرائیل کی فنڈنگ فوری طور پر روک دینی چاہیے اس لیے کہ غزہ میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر اخلاقی فوجی آپریشن جاری ہے۔
انھوں نے کہا کہ امریکیوں کو سمجھنا چاہیے کہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جنگ امریکی بمبوں، گولوں اور دیگر ہتھیاروں سے لڑی جارہی ہے۔
اب بس ہوگیا، امریکی ٹیکس دہندگان کو غزہ میں مزید خواتین، بچوں اور معصوم فلسطینیوں کے قتل عام پر شریک جرم نہ بنایا جائے، جب کہ اسرائیل یہ سمجھتا تھا کہ وہ ہفتے 15 دن میں حماس کا مکمل خاتمہ کردے گا لیکن دنیا میں پہلی بار رسوا ہونے کے باوجود حماس کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔
امریکا اور اسرائیل اس کوشش میں تو کامیاب ہوئے ہیں کہ کوئی دوسرا ملک اس جنگ میں شریک نہ ہو اور حماس کو تنہا مقابلہ کرنا پڑے اس لیے اس نے لبنان میں مقیم حماس کے اہم رہنماؤں کو ڈرون کا نشانہ بنا کر شہید کردیا لیکن حماس کی جانب سے کسی کمزوری کا اظہار نہیں ہوا۔
صالح العاروری کی شہادت پر لبنان کی حکومت نے اسے بین الاقوامی سرحدوں کی خلاف ورزی قرار دیا۔ عالمی عدالت کے اسرائیل کے خلاف فیصلے کے بعد آنے والے سیاسی اور سفارتی ردعمل کے لحاظ سے اصل اثرات مختلف ہو سکتے ہیں۔ اس فیصلے سے فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت کرنے والی عالمی وکالت اور سرگرمی کو تقویت مل رہی ہے ۔
بین الاقوامی سول سوسائٹی گروپس، این جی اوز، اور کارکن اس فیصلے کو بنیاد کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں تاکہ وہ غزہ اور مقبوضہ علاقوں میں ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف اپنی مہم تیز کر سکیں۔ تاہم، یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ عالمی عدالت کے فیصلے کی اہمیت کا زیادہ تر انحصار بین الاقوامی برادری اور اس میں شامل فریقین کے ردعمل اور اقدامات پر ہوگا۔
پچھلے کچھ عشروں کے دوران عالمی اداروں اور سول سوسائٹی کے سامنے جو ایک بڑا اہم مسئلہ رہا ہے وہ امن اور جنگ کے مختلف حالات میں میڈیا اہلکاروں کی حفاظت کا ہے، سات اکتوبر کو طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بہانے غزہ پر صیہونی حکومت کے حملے کے بعد، اس حکومت کے تشدد اور سفاکی کا نشانہ میڈیا اہلکار بھی بنے ہیں، چنانچہ اعداد و شمار کے مطابق کچھ مہینے سے جاری اس جنگ میں مارے جانے والے میڈیا اہلکاروں کی تعداد، پچھلے کئی برسوں سے بھی زیادہ ہے جس پر قانون دان سوسائٹی اور عالمی اداروں نے سخت اعتراض کیا ہے۔
فلسطین میں اخبار نویسوں کو جان بوجھ کر قتل کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مشہور رپورٹر شیرین ابو عاقلہ کی شہادت، جن کے پاس امریکی شہریت بھی تھی، اس سلسلے میں سب سے مشہور کیسز میں سے ایک ہے۔
''رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز'' تنظیم نے رپورٹرز کو جان بوجھ کر قتل کرنے کی وجہ سے اب تک تین بار عالمی فوجداری عدالت میں صیہونی حکومت کے خلاف مقدمہ دائرکیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ تل ابیب، جس کے لیے اس مقدمے سے گلو خلاصی آسان نہیں ہے، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ فلسطین، ملک نہیں ہے، اس سلسلے میں اپنے جرائم کا جواب دینے کے لیے تیار نہیں ہوا ہے۔
درحقیقت کہا جا سکتا ہے کہ صیہونی حکومت چاہتی ہے کہ غزہ کی جنگ کے سلسلے میں دنیا میں وہ تصویر پیش کی جائے جو اس کے پیش نظر ہے، وہ ایسی تصویر ہے جس میں اس کے جرائم کو تو سنسر کیا ہی جاتا ہے، ساتھ ہی اس کی شکستوں اور جانی و مالی نقصان کو بھی جہاں تک ممکن ہو چھپایا جاتا ہے۔
بعض بین الاقوامی نشریاتی ادارے اور میڈیا گروپس اس میں شامل ہیں جنھیں صیہونی فوج کا ساتھ دینے اور خاص حالات کو تسلیم کرنے کی شرط پر غزہ میں جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔ انھیں صیہونی فوج کو ساتھ لیے بغیر غزہ میں کہیں بھی جانے کی اجازت نہیں ہوتی اور تمام مضامین اور ویڈیو کلپس کو نشر کرنے سے پہلے اجازت کے لیے صیہونی فوج کو بھیجنا پڑتا ہے۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ بہت کم صیہونی ذرائع ابلاغ اور میڈیا اہلکار بھی جو کسی حد تک اس جنگ کی ایک الگ تصویر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، شدید دباؤ میں ہیں، یہاں تک کہ ان پر جسمانی حملے بھی ہوتے ہیں۔
غزہ میں میڈیا اہلکاروں کے وسیع قتل سے لے کر جنگ کی خبروں کے سنسر اور غلط اور جھوٹی خبریں اور رپورٹیں پھیلانے تک ان ساری کوششوں کے باوجود صیہونی حکومت، عالمی رائے عامہ میں بری طرح سے بدنام ہو چکی ہے۔
اسرائیلی حکام نے فلسطینیوں پر متعدد مظالم کا ارتکاب کیا ہے۔ مقبوضہ علاقوں میں ان میں سے کئی مظالم بنیادی حقوق کی پامالی اور غیر انسانی افعال کا حصہ ہیں اور نسلی امتیاز کے زمرے میں آتے ہیں۔
ان میں درج ذیل مظالم شامل ہیں۔ غزہ کی بندش اور اجازت ناموں سے انکار کی شکل میں نقل و حمل پر وسیع تر پابندیاں، مغربی کنارے میں ایک تہائی سے زائد اراضی کی ضبطی، مغربی کنارے میں انتہائی کٹھن حالات جنھوں نے ہزاروں فلسطینیوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا، سیکڑوں فلسطینیوں اور ان کے رشتے داروں کو رہائش کے حقوق سے انکار، اور لاکھوں فلسطینیوں کو بنیادی شہری سہولیات دینے سے انکار۔ اسی طرح ایک اور معاملہ سفید فاسفورس کے استعمال کا ہے۔
اسرائیل ویسے تو غزہ پر ہر قسم کے ہتھیاروں سے گولہ باری کر رہا ہے، لیکن اس میں ایک ہتھیار ایسا ہے جس پر انسانی حقوق کے مختلف اداروں کو سب سے زیادہ اعتراض ہے۔ یہ ہتھیار سفید فاسفورس کے بم ہیں۔
انسانی حقوق کے بڑے ادارے ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل دونوں ہی نے تصدیق کی ہے کہ اسرائیل نے غزہ پر حالیہ حملوں کے دوران یہ ہتھیار استعمال کیے۔ ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ اس نے ویڈیوز اور انٹرویوز کی مدد سے شواہد اکٹھے کیے ہیں کہ اسرائیل نے غزہ شہر میں دو جگہوں پر سفید فاسفورس استعمال کیا۔
اس کے بعد ایمنسٹی انٹرنیشنل کی کرائسس ایویڈنس لیبارٹری نے بھی شواہد فراہم کیے کہ اسرائیلی ڈیفنس فورس نے غزہ کے گنجان آباد علاقوں میں فاسفورس بم برسائے۔ ایمنسٹی نے M825 اور M825A1 گولوں کی تصویریں دکھائی جو امریکی محکمہ دفاع کا سفید فاسفورس پر مبنی اسلحے کا شناختی کوڈ ہے۔
دراصل اہل فلسطین کے دشمن انسانیت کے دائرے سے باہر نکل چکے ہیں۔ اسرائیلی سیاستدانوں کو تو چھوڑیں، امریکی رکنِ کانگریس اینڈی اوگلز نے کہا ہے کہ غزہ میں تمام فلسطینیوں کو ہلاک کر دینا چاہیے۔ امریکی کانگریس کے رکن کی یہ رائے ہے تو آپ اسرائیلی فیصلہ سازوں کے بارے میں بہتر سوچ سکتے ہیں کہ ان کی رائے کیا ہوگی؟
مظلوم سے محبت انسان کا فطری جذبہ ہے، یہ ممکن نہیں کہ کوئی نارمل انسان ہو اور وہ مظلوم سے محبت اور ظالم سے نفرت نہ کرے۔ سات اکتوبر 2023 سے شروع ہونے والی جنگ میں غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق اب تک تقریباً 30,000 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔
یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے زیادہ شہادتیں ہیں، جو اتنے مختصر سے علاقے میں موجود و محصور لوگوں نے دی ہیں۔ غزہ سے آنے والی ویڈیوز دل دہلا دینے والی ہیں، انسان دیکھ نہیں سکتا۔ غزہ کے ریفریجریٹرز معصوم بچوں کی لاشوں سے بھر چکے ہیں۔ مائیں اپنے لخت جگروں کی لاشیں سینوں سے لگا کر نوحے پڑھ رہی ہیں۔ ہر سو خاموشی ہے، ایک وحشت ناک اور مجرمانہ خاموشی۔
دوسری جانب اب تک تقریباً تیس ہزار لوگ جاں بحق اور ستر ہزار زخمی ہوچکے ہیں۔ غزہ میں آبادی کا پچیس فی صد یعنی تقریباً پانچ لاکھ 76 ہزار افراد قحط کے دہانے پر ہیں۔
دنیا میں بہت سے طاقتور ممالک ایسے ہیں، جو اسرائیل کو ظلم و ستم سے باز رکھنے کی پوری طاقت اور وسائل رکھتے ہیں، فوری جنگ بندی بھی کروا سکتے ہیں، مگر اس وقت ان میں سے کوئی ایک بھی مظلوم فلسطینیوں کے لیے بات کرنے پر تیار نہیں ہے، گویا ایک شکست خوردگی کا عالم ہے۔
امریکا کے لیے اسرائیل کو روکنا بہت آسان تھا لیکن امریکا خود اس جنگ میں کود پڑا ہے جو اس کی اپنی جنگ نہیں لیکن وہ اسرائیل کی جنگ کو اپنی جنگ سمجھتا ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی تنظیموں نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اسرائیل حماس کو ختم کرنے کے نام پر فلسطینیوں کی نسل کشی کررہا ہے۔
امریکا، برطانیہ اور فرانس کی پشت پناہی اور سرپرستی کی وجہ سے اسرائیل کے وزیراعظم اور وزرا کھل کر یہ کہنے لگے ہیں کہ محصور غزہ کی پوری آبادی کو ہلاک کرنا پڑا تو وہ یہ کام کر گزریں گے۔ اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیوں اور نسل کشی کے اقدامات پر امریکا میں بھی تنقید بڑھ رہی ہے۔ اب دنیا کھلے الفاظ میں یہ کہہ رہی ہے کہ اسرائیل فلسطینی علاقوں میں شہریوں، عورتوں اور بچوں کو بلا کسی امتیاز کے نشانہ بنارہا ہے۔
یہاں تک کہ شہریوں تک امدادی تنظیموں کی رسائی بھی ناممکن بنائی جا رہی ہے۔ امریکا میں اس احساس میں شدت بھی آرہی ہے کہ اسرائیل کے جرائم امریکا کے کھاتے میں بھی پڑ سکتے ہیں۔
امریکی سینیٹر اور سابق صدارتی نامزدگی کے امیدوار برنی سینڈرز نے غزہ میں معصوم شہریوں کے خلاف اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیوں اور فلسطینیوں کی نسل کشی کی مذمت کرتے ہوئے کانگریس سے مطالبہ کیا ہے کہ اسے اسرائیل کی فنڈنگ فوری طور پر روک دینی چاہیے اس لیے کہ غزہ میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر اخلاقی فوجی آپریشن جاری ہے۔
انھوں نے کہا کہ امریکیوں کو سمجھنا چاہیے کہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جنگ امریکی بمبوں، گولوں اور دیگر ہتھیاروں سے لڑی جارہی ہے۔
اب بس ہوگیا، امریکی ٹیکس دہندگان کو غزہ میں مزید خواتین، بچوں اور معصوم فلسطینیوں کے قتل عام پر شریک جرم نہ بنایا جائے، جب کہ اسرائیل یہ سمجھتا تھا کہ وہ ہفتے 15 دن میں حماس کا مکمل خاتمہ کردے گا لیکن دنیا میں پہلی بار رسوا ہونے کے باوجود حماس کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔
امریکا اور اسرائیل اس کوشش میں تو کامیاب ہوئے ہیں کہ کوئی دوسرا ملک اس جنگ میں شریک نہ ہو اور حماس کو تنہا مقابلہ کرنا پڑے اس لیے اس نے لبنان میں مقیم حماس کے اہم رہنماؤں کو ڈرون کا نشانہ بنا کر شہید کردیا لیکن حماس کی جانب سے کسی کمزوری کا اظہار نہیں ہوا۔
صالح العاروری کی شہادت پر لبنان کی حکومت نے اسے بین الاقوامی سرحدوں کی خلاف ورزی قرار دیا۔ عالمی عدالت کے اسرائیل کے خلاف فیصلے کے بعد آنے والے سیاسی اور سفارتی ردعمل کے لحاظ سے اصل اثرات مختلف ہو سکتے ہیں۔ اس فیصلے سے فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت کرنے والی عالمی وکالت اور سرگرمی کو تقویت مل رہی ہے ۔
بین الاقوامی سول سوسائٹی گروپس، این جی اوز، اور کارکن اس فیصلے کو بنیاد کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں تاکہ وہ غزہ اور مقبوضہ علاقوں میں ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف اپنی مہم تیز کر سکیں۔ تاہم، یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ عالمی عدالت کے فیصلے کی اہمیت کا زیادہ تر انحصار بین الاقوامی برادری اور اس میں شامل فریقین کے ردعمل اور اقدامات پر ہوگا۔
پچھلے کچھ عشروں کے دوران عالمی اداروں اور سول سوسائٹی کے سامنے جو ایک بڑا اہم مسئلہ رہا ہے وہ امن اور جنگ کے مختلف حالات میں میڈیا اہلکاروں کی حفاظت کا ہے، سات اکتوبر کو طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بہانے غزہ پر صیہونی حکومت کے حملے کے بعد، اس حکومت کے تشدد اور سفاکی کا نشانہ میڈیا اہلکار بھی بنے ہیں، چنانچہ اعداد و شمار کے مطابق کچھ مہینے سے جاری اس جنگ میں مارے جانے والے میڈیا اہلکاروں کی تعداد، پچھلے کئی برسوں سے بھی زیادہ ہے جس پر قانون دان سوسائٹی اور عالمی اداروں نے سخت اعتراض کیا ہے۔
فلسطین میں اخبار نویسوں کو جان بوجھ کر قتل کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مشہور رپورٹر شیرین ابو عاقلہ کی شہادت، جن کے پاس امریکی شہریت بھی تھی، اس سلسلے میں سب سے مشہور کیسز میں سے ایک ہے۔
''رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز'' تنظیم نے رپورٹرز کو جان بوجھ کر قتل کرنے کی وجہ سے اب تک تین بار عالمی فوجداری عدالت میں صیہونی حکومت کے خلاف مقدمہ دائرکیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ تل ابیب، جس کے لیے اس مقدمے سے گلو خلاصی آسان نہیں ہے، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ فلسطین، ملک نہیں ہے، اس سلسلے میں اپنے جرائم کا جواب دینے کے لیے تیار نہیں ہوا ہے۔
درحقیقت کہا جا سکتا ہے کہ صیہونی حکومت چاہتی ہے کہ غزہ کی جنگ کے سلسلے میں دنیا میں وہ تصویر پیش کی جائے جو اس کے پیش نظر ہے، وہ ایسی تصویر ہے جس میں اس کے جرائم کو تو سنسر کیا ہی جاتا ہے، ساتھ ہی اس کی شکستوں اور جانی و مالی نقصان کو بھی جہاں تک ممکن ہو چھپایا جاتا ہے۔
بعض بین الاقوامی نشریاتی ادارے اور میڈیا گروپس اس میں شامل ہیں جنھیں صیہونی فوج کا ساتھ دینے اور خاص حالات کو تسلیم کرنے کی شرط پر غزہ میں جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔ انھیں صیہونی فوج کو ساتھ لیے بغیر غزہ میں کہیں بھی جانے کی اجازت نہیں ہوتی اور تمام مضامین اور ویڈیو کلپس کو نشر کرنے سے پہلے اجازت کے لیے صیہونی فوج کو بھیجنا پڑتا ہے۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ بہت کم صیہونی ذرائع ابلاغ اور میڈیا اہلکار بھی جو کسی حد تک اس جنگ کی ایک الگ تصویر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، شدید دباؤ میں ہیں، یہاں تک کہ ان پر جسمانی حملے بھی ہوتے ہیں۔
غزہ میں میڈیا اہلکاروں کے وسیع قتل سے لے کر جنگ کی خبروں کے سنسر اور غلط اور جھوٹی خبریں اور رپورٹیں پھیلانے تک ان ساری کوششوں کے باوجود صیہونی حکومت، عالمی رائے عامہ میں بری طرح سے بدنام ہو چکی ہے۔
اسرائیلی حکام نے فلسطینیوں پر متعدد مظالم کا ارتکاب کیا ہے۔ مقبوضہ علاقوں میں ان میں سے کئی مظالم بنیادی حقوق کی پامالی اور غیر انسانی افعال کا حصہ ہیں اور نسلی امتیاز کے زمرے میں آتے ہیں۔
ان میں درج ذیل مظالم شامل ہیں۔ غزہ کی بندش اور اجازت ناموں سے انکار کی شکل میں نقل و حمل پر وسیع تر پابندیاں، مغربی کنارے میں ایک تہائی سے زائد اراضی کی ضبطی، مغربی کنارے میں انتہائی کٹھن حالات جنھوں نے ہزاروں فلسطینیوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا، سیکڑوں فلسطینیوں اور ان کے رشتے داروں کو رہائش کے حقوق سے انکار، اور لاکھوں فلسطینیوں کو بنیادی شہری سہولیات دینے سے انکار۔ اسی طرح ایک اور معاملہ سفید فاسفورس کے استعمال کا ہے۔
اسرائیل ویسے تو غزہ پر ہر قسم کے ہتھیاروں سے گولہ باری کر رہا ہے، لیکن اس میں ایک ہتھیار ایسا ہے جس پر انسانی حقوق کے مختلف اداروں کو سب سے زیادہ اعتراض ہے۔ یہ ہتھیار سفید فاسفورس کے بم ہیں۔
انسانی حقوق کے بڑے ادارے ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل دونوں ہی نے تصدیق کی ہے کہ اسرائیل نے غزہ پر حالیہ حملوں کے دوران یہ ہتھیار استعمال کیے۔ ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ اس نے ویڈیوز اور انٹرویوز کی مدد سے شواہد اکٹھے کیے ہیں کہ اسرائیل نے غزہ شہر میں دو جگہوں پر سفید فاسفورس استعمال کیا۔
اس کے بعد ایمنسٹی انٹرنیشنل کی کرائسس ایویڈنس لیبارٹری نے بھی شواہد فراہم کیے کہ اسرائیلی ڈیفنس فورس نے غزہ کے گنجان آباد علاقوں میں فاسفورس بم برسائے۔ ایمنسٹی نے M825 اور M825A1 گولوں کی تصویریں دکھائی جو امریکی محکمہ دفاع کا سفید فاسفورس پر مبنی اسلحے کا شناختی کوڈ ہے۔
دراصل اہل فلسطین کے دشمن انسانیت کے دائرے سے باہر نکل چکے ہیں۔ اسرائیلی سیاستدانوں کو تو چھوڑیں، امریکی رکنِ کانگریس اینڈی اوگلز نے کہا ہے کہ غزہ میں تمام فلسطینیوں کو ہلاک کر دینا چاہیے۔ امریکی کانگریس کے رکن کی یہ رائے ہے تو آپ اسرائیلی فیصلہ سازوں کے بارے میں بہتر سوچ سکتے ہیں کہ ان کی رائے کیا ہوگی؟
مظلوم سے محبت انسان کا فطری جذبہ ہے، یہ ممکن نہیں کہ کوئی نارمل انسان ہو اور وہ مظلوم سے محبت اور ظالم سے نفرت نہ کرے۔ سات اکتوبر 2023 سے شروع ہونے والی جنگ میں غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق اب تک تقریباً 30,000 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔
یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے زیادہ شہادتیں ہیں، جو اتنے مختصر سے علاقے میں موجود و محصور لوگوں نے دی ہیں۔ غزہ سے آنے والی ویڈیوز دل دہلا دینے والی ہیں، انسان دیکھ نہیں سکتا۔ غزہ کے ریفریجریٹرز معصوم بچوں کی لاشوں سے بھر چکے ہیں۔ مائیں اپنے لخت جگروں کی لاشیں سینوں سے لگا کر نوحے پڑھ رہی ہیں۔ ہر سو خاموشی ہے، ایک وحشت ناک اور مجرمانہ خاموشی۔