چیلنجوں میں گھری محترمہ مریم نواز شریف
پنجاب اسمبلی سے وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے لیے مطلوبہ ووٹ لیتے ہی محترمہ کو پہلے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا ہے
26فروری2024کو جناب نواز شریف کی صاحبزادی، محترمہ مریم نواز شریف، کو وہی منفرد اور عظیم اعزاز مل گیا جو کئی دہائیاں قبل بھارت کی سوچیتا کرپلانی کو ملا تھا۔
سوچیتا کرپلانی وہ بھارتی خاتون تھیں جنہیں کسی بھارتی صوبے(اُترپردیش) کی پہلی وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کا اعزاز ملا تھا۔اب تک 16بھارتی خواتین سیاستدان مختلف بھارتی صوبوں کی وزرائے اعلیٰ منتخب ہو چکی ہیں۔ اِن میںجے للیتا،مایاوتی، راجندر کور،ربڑی دیوی،شیلا ڈکشٹ، اومابھارتی نے ناموری حاصل کی۔
اب بھی مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ایک بہادر خاتون(ممتا بینر جی) ہیں۔وہ بی جے پی اور نریندر مودی کی آنکھوں میں کھٹکتی رہتی ہیں۔
ایک خاتون سیاستدان ہونے کے ناتے پاکستان کی سیاسی، انتخابی اور اقتداری تاریخ میں، سوچیتا کرپلانی کی مانند، یہ منفرد اعزاز پنجاب اور محترمہ مریم نواز شریف کے حصے میں آیا ہے۔ یہ اعزاز شریف خاندان کا بھی ہے اور میاں محمد شریف مرحوم کا بھی کہ جن کے دو صاحبزادگان اور ایک پوتا پہلے ہی پنجاب کے وزرائے اعلیٰ رہ چکے ہیں۔ اب میاں محمد شریف مرحوم کی پوتی بھی باقاعدہ اقتدار کے بلند اور رشک آمیز ایوانوں میں بڑے وقار کے ساتھ داخل ہو گئی ہیں ۔
پنجاب اسمبلی سے وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے لیے مطلوبہ ووٹ لیتے ہی محترمہ کو پہلے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ اُن کے مدِ مقابل رانا آفتاب صاحب تھے۔ رانا صاحب فیصل آباد سے منتخب ہونے والے جہاندیدہ سیاستدان ہیں۔ تجربے اور عمر میں وہ محترمہ مریم نواز سے خاصے سینئر ہیں ۔ اُن کی زیادہ تر سیاسی زندگی پیپلز پارٹی میں گزری ہے ۔ کئی بار فیصل آباد سے ایم پی اے منتخب ہُوئے۔ صوبائی وزیر بھی رہے ۔
اب کچھ برسوں سے پی ٹی آئی سے وابستہ ہیں ۔ 8فروری کے انتخابات میں اُنھوں نے نون لیگ کے اجمل عاصی کو ہرایا ہے ۔ سیاست و اقتدار کے کئی موسموں کے آشنا اِنہی رانا آفتاب صاحب کو پی ٹی آئی یعنی ''سنی اتحاد کونسل'' یعنی بانی پی ٹی آئی نے مجبوراً، پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے لیے، محترمہ مریم نواز شریف کے مقابل پنجاب اسمبلی میں کھڑا کیا تھا ۔
پہلے یہ قرعہ میاں اسلم صاحب کے نام نکلا تھا ۔ مگر یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی کہ کئی طاقتیں ''ملزم'' میاں اسلم کے تعاقب میں تھیں ۔ رانا آفتاب صاحب پنجاب اسمبلی میں مقابلہ کرتے تو خوب ہوتا مگر وہ سُنی اتحاد کونسل کے متفقہ فیصلے کے تحت، بہانہ بنا کر، وزارتِ اعلیٰ کے لیے ووٹنگ کے عمل سے پہلے ہی، سبھی ارکان سمیت، اسمبلی سے واک آؤٹ کر گئے۔ پھر یہ واک آؤٹ، بائیکاٹ میں بدل گیا۔
اسمبلی کے نَو منتخب اسپیکر، جناب ملک احمد خان، نے چار رکنی ارکانِ اسمبلی کی کمیٹی کے ذریعے واک آؤٹ کرنے والوں کو منانے کی سعی تو کی ، لیکن یہ کوشش لاحاصل رہی ؛ چنانچہ اپوزیشن کے بغیر ہی ووٹنگ ہُوئی اور محترمہ مریم نواز شریف 220ووٹ لے کر وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب ہو گئیں ۔
رانا آفتاب نے کہا ہے کہ '' ہم اخلاقی، آئینی اورجمہوری اعتبار سے مریم نواز شریف کو وزیر اعلیٰ تسلیم نہیں کرتے ۔'' اِن الفاظ کے باطن ہی میں ہم محترمہ مریم نواز شریف کے لیے کئی مخفی چیلنجوں کی چاپ سُن سکتے ہیں۔ مریم نواز شریف اب مگر پوری طاقت اور اعتماد سے پنجاب کی وزیر اعلیٰ بن چکی ہیں۔وہ استقامت کے ساتھ رزم گاہِ سیاست میں کھڑی ہیں۔ اُن کے پائے استقامت میں لغزش پیدا کرنا مخالفین کے لیے قطعی سہل نہیں ہوگا۔
یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مریم نواز شریف صاحبہ پنجاب کی اعلیٰ ترین سیاست میں خواتین کے لیے بارش کا پہلا قطرہ بنی ہیں۔ واقعتاً اُنھوں نے ایک غیر معمولی مثال قائم کی ہے۔ اِس موقع پر ہمیں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید یاد آتی ہیں۔
اگرچہ ابھی محترمہ مریم نواز شریف کا محترمہ بے نظیر بھٹو سے تقابل قبل از وقت ہے، مگر کئی باتیں دونوں خواتین سیاستدانوں میں مشترکہ ہیں : دونوں کے والد صاحب وزرائے اعظم پاکستان منتخب ہُوئے، دونوں نے قید و بند اور جیل کی صعوبتیں برداشت کیں، مخالفین نے دونوں کی کردار کشی کے لیے نامناسب حربے استعمال کیے اور منہ کی کھائی، دونوں کے تین تین بچے ہیں ۔
محترمہ بے نظیر بھٹو 35سال کی عمر میں پاکستان سمیت عالمِ اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم منتخب ہُوئیں ۔ محترمہ مریم نواز شریف تقریباً50سال کے سِن میں پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ منتخب ہُوئی ہیں ۔
محترمہ بے نظیر بھٹو ہر چیلنج میں سرخرو ہُوئیں ۔ اب توقع ہے کہ محترمہ مریم نواز بھی حکمت اور جرأت و بہادری کے ساتھ درپیش چیلنجوں سے سرخرو ہوں گی۔
محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے احسن اسلوب میں پارٹی انکلوں سے نجات حاصل کرکے اپنا راستہ صاف کیا تھا۔ محترمہ مریم نواز شریف کے راستے سے کئی نون لیگی پارٹی انکلز (از قسم چوہدری نثار ، شاہد خاقان عباسی ،مفتاح اسماعیل، سردار مہتاب عباسی) از خود ہی دُور ہٹ گئے۔ جناب پرویز رشید، رانا ثناء اللہ صاحب اور جناب خواجہ محمد آصف ایسے انکلز اب بھی پارٹی میں موجود ہیں ۔ مگر یہ صاحبان محترمہ مریم نواز کے لیے سدِ راہ بننے کی بجائے میڈم چیف منسٹر کو رہبری اور رہنمائی فراہم کررہے ہیں۔
محترمہ مریم نواز شریف پنجاب میں خواتین کے لیے Symblo of Women Empowermentکی صورت میں اُبھر کر سامنے آئی ہیں ۔اُنھوں نے اپنے پہلے خطاب کے دوران جس طرح اپنی مرحومہ والدہ محترمہ کی تصویر اپنے سامنے رکھی، جس انداز میں اپنی والدہ صاحبہ کے ساتھ اپنے اساتذہ کرام کو خراجِ تحسین پیش کیا، یہ ایک مستحسن رمزو کنایہ (Gesture) سمجھا گیا۔مریم نواز کے پاس انتظامی اعتبار سے کوئی بڑا تجربہ نہیں ہے ، لیکن اُنھوں نے آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا انتظامی بوجھ اُٹھا لیا ہے۔
یوں اُنہیں قدم قدم پر اپنے والد گرامی، چچا جان اور مذکورہ بالا سینئر سیاستدانوں(انکلز) کے مشوروں کی اشد ضرورت پڑے گی ۔ مریم نواز صاحبہ نے وزیر اعلیٰ منتخب ہوتے ہی، پنجاب اسمبلی کے فلور پر، اپنے مفصل خطاب میں جس انتظامی روڈ میپ کا اعلان کیا ہے، اِسی میں اُن کے لیے چیلنجوںکے کئی پہاڑ کھڑے ہیں ۔ یہ روڈ میپ مسلسل اُن کے تعاقب میں رہے گا۔اُنھوں نے جو وعدے کیے ہیں، انھیں پورا کرنا آسان نہیں ہے ۔
یہ وعدے کرنے سے قبل یقیناً اُنھوں نے ہزار بار سوچا ہوگا۔ قریبی دانشمندوں سے مشاورت کی ہوگی۔ اُن کے سامنے بانی پی ٹی آئی کے وعدوں کی ایک بھیانک مثال بھی ہے کہ جو پورے نہ ہونے پر اُنہیں پسِ دیوارِ زنداں بھی طعنے مہنے سُننا پڑ رہے ہیں ۔ جناب شہباز شریف اور پی ڈی ایم کی پیدا کردہ کمر شکن مہنگائی( جس نے انتخابات میں نون لیگ کی لُٹیا ڈبو دی ہے) کو فوری طور پر کم کرنا محترمہ کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے ۔ مہنگائی کم ہونے کے مگر کہیں بھی آثار نظر نہیں آ رہے ۔
کسی سیاسی مبصر نے شاید درست ہی( مگر تلخی سے) کہا ہے کہ جن طاقتوں نے شریف خاندان کو اقتدار سے محروم کیا تھا، اب انھی طاقتوں کے توسط و تعاون سے چچا، بھتیجی اقتدار میں آئے ہیں۔
ہماری سیاست میں، بوجوہ، جو بے انتہا اور ہمہ گیر تلخی زہر کی مانند گھل گئی ہے، ہر سنجیدہ فرد کی تمنا ہے کہ اِسے کم کیا جانا چاہیے۔ نَو منتخب وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف مکالمے، مصاحبے اور ملاقاتوں سے اِن تلخیوں کو فوراً مکمل طور پر ختم تو نہیں کر سکتیں ، مگر کم کرنے کی اپنی سی ممکنہ کوشش کر سکتی ہیں۔شاید اُن کے لیے یہی اوّلین چیلنج ہے۔
سوچیتا کرپلانی وہ بھارتی خاتون تھیں جنہیں کسی بھارتی صوبے(اُترپردیش) کی پہلی وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کا اعزاز ملا تھا۔اب تک 16بھارتی خواتین سیاستدان مختلف بھارتی صوبوں کی وزرائے اعلیٰ منتخب ہو چکی ہیں۔ اِن میںجے للیتا،مایاوتی، راجندر کور،ربڑی دیوی،شیلا ڈکشٹ، اومابھارتی نے ناموری حاصل کی۔
اب بھی مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ایک بہادر خاتون(ممتا بینر جی) ہیں۔وہ بی جے پی اور نریندر مودی کی آنکھوں میں کھٹکتی رہتی ہیں۔
ایک خاتون سیاستدان ہونے کے ناتے پاکستان کی سیاسی، انتخابی اور اقتداری تاریخ میں، سوچیتا کرپلانی کی مانند، یہ منفرد اعزاز پنجاب اور محترمہ مریم نواز شریف کے حصے میں آیا ہے۔ یہ اعزاز شریف خاندان کا بھی ہے اور میاں محمد شریف مرحوم کا بھی کہ جن کے دو صاحبزادگان اور ایک پوتا پہلے ہی پنجاب کے وزرائے اعلیٰ رہ چکے ہیں۔ اب میاں محمد شریف مرحوم کی پوتی بھی باقاعدہ اقتدار کے بلند اور رشک آمیز ایوانوں میں بڑے وقار کے ساتھ داخل ہو گئی ہیں ۔
پنجاب اسمبلی سے وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے لیے مطلوبہ ووٹ لیتے ہی محترمہ کو پہلے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ اُن کے مدِ مقابل رانا آفتاب صاحب تھے۔ رانا صاحب فیصل آباد سے منتخب ہونے والے جہاندیدہ سیاستدان ہیں۔ تجربے اور عمر میں وہ محترمہ مریم نواز سے خاصے سینئر ہیں ۔ اُن کی زیادہ تر سیاسی زندگی پیپلز پارٹی میں گزری ہے ۔ کئی بار فیصل آباد سے ایم پی اے منتخب ہُوئے۔ صوبائی وزیر بھی رہے ۔
اب کچھ برسوں سے پی ٹی آئی سے وابستہ ہیں ۔ 8فروری کے انتخابات میں اُنھوں نے نون لیگ کے اجمل عاصی کو ہرایا ہے ۔ سیاست و اقتدار کے کئی موسموں کے آشنا اِنہی رانا آفتاب صاحب کو پی ٹی آئی یعنی ''سنی اتحاد کونسل'' یعنی بانی پی ٹی آئی نے مجبوراً، پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے لیے، محترمہ مریم نواز شریف کے مقابل پنجاب اسمبلی میں کھڑا کیا تھا ۔
پہلے یہ قرعہ میاں اسلم صاحب کے نام نکلا تھا ۔ مگر یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی کہ کئی طاقتیں ''ملزم'' میاں اسلم کے تعاقب میں تھیں ۔ رانا آفتاب صاحب پنجاب اسمبلی میں مقابلہ کرتے تو خوب ہوتا مگر وہ سُنی اتحاد کونسل کے متفقہ فیصلے کے تحت، بہانہ بنا کر، وزارتِ اعلیٰ کے لیے ووٹنگ کے عمل سے پہلے ہی، سبھی ارکان سمیت، اسمبلی سے واک آؤٹ کر گئے۔ پھر یہ واک آؤٹ، بائیکاٹ میں بدل گیا۔
اسمبلی کے نَو منتخب اسپیکر، جناب ملک احمد خان، نے چار رکنی ارکانِ اسمبلی کی کمیٹی کے ذریعے واک آؤٹ کرنے والوں کو منانے کی سعی تو کی ، لیکن یہ کوشش لاحاصل رہی ؛ چنانچہ اپوزیشن کے بغیر ہی ووٹنگ ہُوئی اور محترمہ مریم نواز شریف 220ووٹ لے کر وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب ہو گئیں ۔
رانا آفتاب نے کہا ہے کہ '' ہم اخلاقی، آئینی اورجمہوری اعتبار سے مریم نواز شریف کو وزیر اعلیٰ تسلیم نہیں کرتے ۔'' اِن الفاظ کے باطن ہی میں ہم محترمہ مریم نواز شریف کے لیے کئی مخفی چیلنجوں کی چاپ سُن سکتے ہیں۔ مریم نواز شریف اب مگر پوری طاقت اور اعتماد سے پنجاب کی وزیر اعلیٰ بن چکی ہیں۔وہ استقامت کے ساتھ رزم گاہِ سیاست میں کھڑی ہیں۔ اُن کے پائے استقامت میں لغزش پیدا کرنا مخالفین کے لیے قطعی سہل نہیں ہوگا۔
یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مریم نواز شریف صاحبہ پنجاب کی اعلیٰ ترین سیاست میں خواتین کے لیے بارش کا پہلا قطرہ بنی ہیں۔ واقعتاً اُنھوں نے ایک غیر معمولی مثال قائم کی ہے۔ اِس موقع پر ہمیں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید یاد آتی ہیں۔
اگرچہ ابھی محترمہ مریم نواز شریف کا محترمہ بے نظیر بھٹو سے تقابل قبل از وقت ہے، مگر کئی باتیں دونوں خواتین سیاستدانوں میں مشترکہ ہیں : دونوں کے والد صاحب وزرائے اعظم پاکستان منتخب ہُوئے، دونوں نے قید و بند اور جیل کی صعوبتیں برداشت کیں، مخالفین نے دونوں کی کردار کشی کے لیے نامناسب حربے استعمال کیے اور منہ کی کھائی، دونوں کے تین تین بچے ہیں ۔
محترمہ بے نظیر بھٹو 35سال کی عمر میں پاکستان سمیت عالمِ اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم منتخب ہُوئیں ۔ محترمہ مریم نواز شریف تقریباً50سال کے سِن میں پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ منتخب ہُوئی ہیں ۔
محترمہ بے نظیر بھٹو ہر چیلنج میں سرخرو ہُوئیں ۔ اب توقع ہے کہ محترمہ مریم نواز بھی حکمت اور جرأت و بہادری کے ساتھ درپیش چیلنجوں سے سرخرو ہوں گی۔
محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے احسن اسلوب میں پارٹی انکلوں سے نجات حاصل کرکے اپنا راستہ صاف کیا تھا۔ محترمہ مریم نواز شریف کے راستے سے کئی نون لیگی پارٹی انکلز (از قسم چوہدری نثار ، شاہد خاقان عباسی ،مفتاح اسماعیل، سردار مہتاب عباسی) از خود ہی دُور ہٹ گئے۔ جناب پرویز رشید، رانا ثناء اللہ صاحب اور جناب خواجہ محمد آصف ایسے انکلز اب بھی پارٹی میں موجود ہیں ۔ مگر یہ صاحبان محترمہ مریم نواز کے لیے سدِ راہ بننے کی بجائے میڈم چیف منسٹر کو رہبری اور رہنمائی فراہم کررہے ہیں۔
محترمہ مریم نواز شریف پنجاب میں خواتین کے لیے Symblo of Women Empowermentکی صورت میں اُبھر کر سامنے آئی ہیں ۔اُنھوں نے اپنے پہلے خطاب کے دوران جس طرح اپنی مرحومہ والدہ محترمہ کی تصویر اپنے سامنے رکھی، جس انداز میں اپنی والدہ صاحبہ کے ساتھ اپنے اساتذہ کرام کو خراجِ تحسین پیش کیا، یہ ایک مستحسن رمزو کنایہ (Gesture) سمجھا گیا۔مریم نواز کے پاس انتظامی اعتبار سے کوئی بڑا تجربہ نہیں ہے ، لیکن اُنھوں نے آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا انتظامی بوجھ اُٹھا لیا ہے۔
یوں اُنہیں قدم قدم پر اپنے والد گرامی، چچا جان اور مذکورہ بالا سینئر سیاستدانوں(انکلز) کے مشوروں کی اشد ضرورت پڑے گی ۔ مریم نواز صاحبہ نے وزیر اعلیٰ منتخب ہوتے ہی، پنجاب اسمبلی کے فلور پر، اپنے مفصل خطاب میں جس انتظامی روڈ میپ کا اعلان کیا ہے، اِسی میں اُن کے لیے چیلنجوںکے کئی پہاڑ کھڑے ہیں ۔ یہ روڈ میپ مسلسل اُن کے تعاقب میں رہے گا۔اُنھوں نے جو وعدے کیے ہیں، انھیں پورا کرنا آسان نہیں ہے ۔
یہ وعدے کرنے سے قبل یقیناً اُنھوں نے ہزار بار سوچا ہوگا۔ قریبی دانشمندوں سے مشاورت کی ہوگی۔ اُن کے سامنے بانی پی ٹی آئی کے وعدوں کی ایک بھیانک مثال بھی ہے کہ جو پورے نہ ہونے پر اُنہیں پسِ دیوارِ زنداں بھی طعنے مہنے سُننا پڑ رہے ہیں ۔ جناب شہباز شریف اور پی ڈی ایم کی پیدا کردہ کمر شکن مہنگائی( جس نے انتخابات میں نون لیگ کی لُٹیا ڈبو دی ہے) کو فوری طور پر کم کرنا محترمہ کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے ۔ مہنگائی کم ہونے کے مگر کہیں بھی آثار نظر نہیں آ رہے ۔
کسی سیاسی مبصر نے شاید درست ہی( مگر تلخی سے) کہا ہے کہ جن طاقتوں نے شریف خاندان کو اقتدار سے محروم کیا تھا، اب انھی طاقتوں کے توسط و تعاون سے چچا، بھتیجی اقتدار میں آئے ہیں۔
ہماری سیاست میں، بوجوہ، جو بے انتہا اور ہمہ گیر تلخی زہر کی مانند گھل گئی ہے، ہر سنجیدہ فرد کی تمنا ہے کہ اِسے کم کیا جانا چاہیے۔ نَو منتخب وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف مکالمے، مصاحبے اور ملاقاتوں سے اِن تلخیوں کو فوراً مکمل طور پر ختم تو نہیں کر سکتیں ، مگر کم کرنے کی اپنی سی ممکنہ کوشش کر سکتی ہیں۔شاید اُن کے لیے یہی اوّلین چیلنج ہے۔