کتاب کے فروغ میں اشاعتی اداروں کا کردار

کتاب کا سرورق صرف اس کا چہرہ ہی نہیں ہوتا، بلکہ اس کا تعارف بھی ہوتا ہے۔ سرورق دیکھ کر قارئین مضمون بھانپ لیتے ہیں۔

khurram.sohail99@gmail.com

QUETTA:
کتاب کا سرورق صرف اس کا چہرہ ہی نہیں ہوتا، بلکہ اس کا تعارف بھی ہوتا ہے۔ سرورق دیکھ کر قارئین مضمون بھانپ لیتے ہیں۔ اس کے بعد کتاب کا متن اس کے اچھے اور برے ہونے کے نتیجے پر اثرانداز ہوتا ہے۔ کتاب اگر اچھی ہے تو قارئین نہ صرف اس کا ذکر کرتے ہیں، بلکہ اس کے متن سے لطف بھی اٹھاتے ہیں۔ اچھی کتاب تنہائی کو بانٹ لیتی ہے، جب کہ بری کتاب سے صرف وقت کازیاں ہوتا ہے۔

زندگی میں کتابوں اور چہروںکو پڑھنے والے بڑے ذہین ہوتے ہیں، لیکن یہ ضروری نہیں، جس کو چہرہ پڑھنا آتاہو، وہ کتاب بھی پڑھے اور یہ بھی ممکن نہیں، ہر کتاب پڑھنے والا چہروں کا شناسا بھی ہو۔ یہ دونوں خوبیاں کسی ایک شخصیت میں مشکل سے یکجا ہوتی ہیں، لیکن ہو جائیں، تو ایسے شخص کو کبھی نہیں بھلایا جاسکتا، اُس اچھی کتاب کی طرح، جو بند کر دینے کے بعد بھی ہمارے احساس میں شعور کی کھڑکی بن کر کھلی رہتی ہے۔ اچھی کتاب اور اچھے شخص میں یہی خوبی یکتا ہے۔

دنیا بھر میں کتب بینی کے رجحان میں تیزی آئی ہے۔ کلاسیکی کتابوں کے نت نئے ایڈیشنز شایع کیے جا رہے ہیں۔ جدید لکھنے والوں کی کتابیں بھی انھیں اتنا کما کر دے دیتی ہیں کہ انھیں لکھنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں کرنا پڑتا۔ جاپان کا ایک معروف ناول ''ہاروکی موراکامی'' جو گزشتہ کئی برس سے نوبیل ادبی انعام کے لیے بھی نامزد ہو رہا ہے اور یہ امید کی جا رہی ہے، وہ بہت جلد ادب کا یہ عالمی اعزاز حاصل کر لے گا۔

اس کے تمام ناول دنیا بھر کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہوتے ہیں، مگر بالخصوص جب اس کا کوئی نیا ناول جاپانی زبان میں شایع ہوتا ہے، تو اس ایک ہی ناول کے دو ایڈیشنز شایع کیے جاتے ہیں، جن کے سرورق کا صرف رنگ مختلف ہوتا ہے۔ میرے پاس اس کا ایک جاپانی زبان میں لکھا ہوا ناول''دی نارویجن ووڈ'' ہے، جو ایک جاپانی دوست نے مجھے جاپان سے لا کر دیا تھا۔ اس ناول کے سرورق ''سرخ'' اور ''سبز'' رنگ کے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اس کے ناول کو خریدنے کے لیے جاپان سمیت دنیا بھر میں قارئین پیشگی آڈر دیے، تاکہ جیسے ہی ناول شایع ہو، اس کے دونوں ایڈیشنز انھیں مل جائیں۔

باہر کی دنیا میں یہ عالم ہے کتاب سے محبت کا اور یہ میں ان ممالک کی بات کر رہا ہوں، جہاں سے ٹیکنالوجی نے جنم لیا ہے اور ہمارے لوگ یہ کہہ کر کتاب پڑھنے سے جان چھڑا لیتے ہیں کہ یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے، اب کون کتاب پڑھتا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتاہے کہ ہم تہذیبی طور پر کہاں کھڑے ہیں، اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

ان تمام باتوں کے باوجود پاکستان میں گزشتہ کچھ عرصے سے کتابوں کی اشاعت، معیار اور فروخت میں بہتری آئی ہے، اس کی وجہ کچھ متحرک ادارے ہیں، جن کی حوصلہ افزائی ہمیں کرنی چاہیے۔ اصولی طور پر تو یہ کام حکومتوں کا ہوتا ہے، مگر نجی اداروں کی اس حوالے سے کافی خدمات ہیں، اس بات سے قطع نظر کہ کتاب چھاپنے کے حوالے سے کئی ادارے اور لوگ بدنام بھی ہیں اور میں نے جن بری کتابوں کا اوپر تذکرہ کیا، وہ ایسے ہی لوگوں کی بدولت مارکیٹ میں آتی ہیں، مگر کچھ بھلے مانس لوگ بھی ہیں، جنہوں نے کاروبار کے ساتھ ساتھ کتاب کی خدمت کی اور اس کے معیار کو بہتر بنایا۔ ایسے ہی کچھ لوگوں کا یہاں تذکرہ آپ سے کر رہا ہوں۔ اس وقت اچھے کام کی حوصلہ افزائی ضروری ہے، جب خاص طور پر ہر طرف سے اس کام کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہو۔ ایسے ماحول میں کتاب دوستوں کی پہچان ضروری ہے۔

کراچی میں انگریزی کتابوں کی اشاعت کے حوالے سے کئی معتبر نام ہیں، انھوں نے درسی کتابیں چھاپنے کے علاوہ فکشن اور نان فکشن میں انگریزی کتابیں چھاپنے کا سلسلہ ایک عرصے سے شروع کر رکھا ہے، اور کچھ عرصے سے یہ اردو کتابیں بھی چھاپنے لگے ہیں۔ کتابوں کی ترسیل کے حوالے سے لبرٹی بکس بھی ایک اہم نام ہے۔ اردو کتابوں کے حوالے سے نجی اشاعتی اداروں نے گزشتہ کچھ عرصے میں اچھی کتابیں شایع کی ہیں۔ ان کے علاوہ پاکستان اسٹڈی سینٹر، شعبہ تصنیف وتالیف وترجمہ جامعہ کراچی، محکمہ ثقافت سندھ، انجمن ترقی اردو کے علاوہ کئی نجی ادارے بھی اس کارخیر میں شریک ہیں۔


کوئٹہ میں پبلشرز نے بھی کئی عمدہ کتابیں شایع کی ہیں۔ قیام پاکستان سے پہلے اور بعد میں لاہور ایک بڑا اشاعتی مرکز رہا ہے۔ کئی ممتاز اشاعتی اداروں نے بہت عمدہ کتابیں چھاپیں۔ نئے ناشرین بھی نہایت عمدہ کتابیں شایع کر رہے ہیں۔

اسلام آباد میں نمایاں ناشر ادارے کتابوں کے فروغ میں اپنا کردار نبھا رہے ہیں۔ اسی شہر میں کتابوں کی ترسیل میں کتابوں کے مشہور مراکز بھی نمایاں ہیں۔ جہلم میں ایک ادارہ کتابوں کی اشاعت کے حوالے سے نیا نام ہے، مگر اس چھوٹے شہر سے بڑی کتابیں شایع کر رہا ہے، یہ قابل تحسین اقدام ہے۔ اسی طرح پشاور، راولپنڈی، چکوال، سرگودھا، ملتان، گوجرانوالہ، بہاولپور، سکھر، حیدر آباد اور دیگر چھوٹے شہروں میں بھی محدود پیمانے پر کئی لوگ کتابوں کی اشاعت اور ترسیل کا کام کر رہے ہیں، مگر ہم ان سے واقف نہیں ہیں۔

سیاسی مداریوں کی طرف سے جہاں عوام کو بہت سے تحفے ملے ہیں، اس میں ایک تحفہ مہنگائی بھی ہے۔ اس مہنگائی کا اثر کتابوں کی اشاعت پر بھی پڑا ہے، جس کی وجہ سے قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ میری ان تمام اداروں سے درخواست ہے، لوگ اب بھی کتابیں پڑھنا چاہتے ہیں، اگر آپ کتابوں کی قیمت کچھ کم رکھیں، یعنی اپنے منافعے کو کچھ کم کر لیں، باقاعدگی سے کتابیں خریدنے والوں کے لیے ممبرشپ کے ذریعے رعایت کا کوئی سلسلہ شروع کریں۔

سالانہ نمائشوں کے ذریعے کتابوں کی فروخت کو سستے داموں ممکن بنائیں، تو امید ہے کہ کتاب خریدنا عوام کے لیے ممکن ہو جائے گا۔ خاص طور پر طلبا کتابیں خرید کر پڑھنا چاہتے ہیں، مگر زمانہ طالب علمی میں کوئی ذریعہ معاش نہیں ہوتا، لہٰذا وہ کیسے کتابیں خریدیں۔ اس کے لیے بھی کوئی اقدام ہونا چاہیے، ہماری حکومتوں کو تو سیاسی کرتب بازی سے نہ جانے کب فرصت ملے گی، یہ کام ہمیں ہی مل جل کر کرنا ہے۔

باہر کے ممالک میں ایک روایت ہے، خاص طور پر یورپی ممالک کے بڑے بک اسٹورز میں، اگر کوئی خریدار بک اسٹور میں کتاب پڑھ رہا ہے اور کوئی دوسرا شخص وہی کتاب خریدنا چاہتا ہے، تو دکاندار اس کتاب پڑھنے والے کو یہ نہیں کہے گا کہ آپ کتاب واپس کر دیں، فلاں صاحب یہ خریدنا چاہتے ہیں، بلکہ وہ اس کا انتظار کرے گا، جب وہ مطالعہ ختم کر کے مطلوبہ کتاب واپس جگہ پر رکھ دے گا، تو جب دکاندار اس کتاب کو فروخت کرنے کا مجاز ہے۔ کیا ہی اچھا ہو، ہمارے ہاں اس طرح کی کوئی اخلاقی روایت قائم ہو جائے۔ کتابوں کی دکانوں پر کہیں چھوٹا سا چائے خانہ بنا دیا جائے، جہاں خریدار کتاب خریدنے سے پہلے تسلی سے پڑھ سکے کہ آیا وہ اس کے مطلب کی کتاب ہے بھی کہ نہیں۔ ناشرین کو کچھ ایسے اقدامات کرنے ہوں گے، جس سے کتاب کو مزید فروغ دیا جا سکے۔

ہمیں چاہیے کہ اپنے آپ کو اس مقولے سے آزاد کروائیں کہ ''دوسروں کو کتاب دینے والا بیوقوف اور واپس کرنے والا اس سے بڑا بیوقوف ہے۔'' اس کی بجائے ایک دوسرے کو تحفے میں کتاب دینے کی روایت قائم کرنی چاہیے۔ ایک دوسرے سے کتابیں لے کر پڑھنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ اسکول، کالج اور جامعات کا تدریسی عمل نوجوان نسل کو تعلیم یافتہ ضرور بناتا ہے، مگر سند حاصل کر لینا ہی عملی زندگی میں سب کچھ نہیں، بلکہ شعور کی منزلیں طے کرنے کے لیے غیرنصابی کتب کا مطالعہ بھی بے حد ضروری ہوتا ہے۔ پوری دنیا میں مقامی زبانوں میں ایسی کتابوں کے تراجم ہوتے ہیں۔ ان کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا کی ترقی کا سفر کہاں تک جا پہنچا ہے اورہمارے اخبارات میں لاشوں کی گنتی ہی ختم نہیں ہوتی۔

ہو سکتا ہے کہ اس مہنگائی کے دور میں کتاب سے محبت کا مشورہ آپ کو گھاٹے کا سودا لگے، مگر اس کے بڑے دوررس نتائج ہیں۔ درمیانے طبقے کے لوگوں کے پاس شعوری ترقی کرنے کا راستہ یہی ہے۔ عام آدمی لاکھوں روپے خرچ کر کے بیرون ملک پڑھنے نہیں جاسکتا، مگر ان کتابوں کے ذریعے عالمی تاریخ، ادب اور معاشرت کو یہی رہ کر سمجھ سکتا ہے۔ کتاب شعور کا ایک ایسا راستہ ہے، جس میں ہم ادراک، انکشاف اور تسکین کی کئی منازل طے کرتے ہیں۔
Load Next Story