فوڈ گروپ کی درآمدات اور چائے کا پینا
قوم اربوں روپے کی درآمدی چائے پیے چلی جا رہی ہے
پاکستان کے پاس زرعی زمینیں موجود ہیں، ان میں کچھ زرخیز، کچھ نہری نظام سے منسلک، کچھ حصہ بارانی کچھ چولستان، کچھ ریگستان، کہیں پہاڑ اور جنگل، باقی حصہ جو رہ گیا وہ بنجر۔ پھر زمین بھی ہو لیکن کاشتکاری کے لیے پانی نہ ہو، دریا بھی ہوں، نہریں بھی ہوں لیکن بھارت کی جانب سے پانی روکنے اور ایک ایک دریا پر کئی کئی ڈیمز بنانے کا سلسلہ بھی جاری ہو تو پاکستان کی نہریں بھی سست رفتاری کا شکار ہو رہی ہیں۔ پھر ضرورت بھی ہو لیکن پاکستان ڈیمزکی تعمیر میں تساہل و غفلت اور دیر سے دیر کرنے کا مرتکب بھی ہو۔
دنیا بھر کے ممالک جس طرح سے اپنی زمینوں سے بھرپور پیداوار حاصل کر رہے ہیں۔ فی ایکڑ پیداوار کے حصول کا جائزہ لیا جائے تو ہر فصل میں پاکستان کی فی ایکڑ پیداوار دیگر ملکوں کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ پیداوار بڑھانے کے لیے جدید مشینری، جدید ٹیکنالوجی اس کا فقدان اپنی جگہ کیونکہ کسانوں کو بھاری مالیت کے جدید آلات و مشینریاں خریدنے کی اہلیت بھی نہیں۔ اپنی زمینوں کی کم پیداوارکے باعث اتنی مالی استطاعت بھی نہیں رکھتے۔
اکثریت کم تعلیم ہونے کے باعث جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانے کی اہلیت بھی نہیں رکھتے، لیکن ان پر ظلم و ستم یہ ہوتا ہے کہ ضرورت پڑنے پرکھاد اچانک غائب، ادویات ہیں تو وہ بھی جعلی، جتنا پانی چاہیے وہ مطلوبہ مقدار حاصل ہی نہیں ہو پاتی، لہٰذا کم زرعی پیداوارکا حصول پون صدی سے مقدر بن چکا ہے، لہٰذا ملک میں غربت کی سطح بلند سے بلند ہوتی چلی جا رہی ہے۔
ایسے میں ملکی آبادی میں اضافہ ہوتا رہا، لیکن تعلیم پر اخراجات کم سے کم کرنے اور اساتذہ کی کم دلچسپی، اسکول کالج کی خستہ حالی، بعض اسکول کالجز کی زمینوں پر با اثر افراد کا قبضہ، اسکول کے احاطے کو بھینسوں کے باڑے میں تبدیل کرنا، اس طرح کے بے شمار مسائل سے ہمارا کسان، ہاری آج تک انھی میں پھنسا ہوا ہے، لیکن اس دوران ملکی آبادی بڑھتی رہی۔ خوراک کی زیادہ سے زیادہ ضرورت پیدا ہوتی رہی جس نے ملک میں خوراک کے عدم تحفظ کو جنم دیا۔ کبھی گندم کی قلت، کبھی چینی کی بڑی مقدار کی درآمد، لاکھوں ٹن کی درآمد پر کثیر زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے ۔
کوکنگ آئل سے متعلق مختلف منصوبوں کے بارے میں صرف زبانی جمع خرچ سے کام چلایا جانے لگا، جس کے نتیجے میں پام آئل کی درآمد کئی اربوں ڈالر تک جا پہنچی۔ اس تمام صورتحال کا مسلسل ایک نتیجہ نکل رہا ہے کہ ملک میں فوڈ گروپ کی درآمدات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ قوم اربوں روپے کی درآمدی چائے پیے چلی جا رہی ہے، حالانکہ کئی عشرے قبل یہ چیزیں دل لبھایا کرتی تھیں کہ کھانے کے تیل کی خاطر سورج مکھی اور دیگر زرعی اشیاء کی پیداوارکے وسیع منصوبوں پر عملدرآمد شروع ہی ہونے والا ہے۔
چائے کے لیے مہنگی پتی خریدنے والوں کے لیے یہ خبر اطمینان کا باعث تھی کہ ملک کے کئی چھوٹے پہاڑی سلسلوں میں چائے کی کاشت قابل عمل ہے، البتہ حالیہ دنوں میں یہ اطلاعات مل رہی ہیں کہ چکوال کے کئی مقامات پر زیتون کی کاشت کامیابی سے جاری ہے۔ سون سکیسر تھولے محرم خاں کے ارد گرد کئی چھوٹے پہاڑی سلسلے ایسے ہیں جن پر تجربہ کیا جائے تو چائے کی پتی کی پیداوار حاصل کرسکتے ہیں۔ ان تمام غفلت اور ترجیح نہ دینے کے باعث زرعی پیداوار میں خود کفیل نہیں ہورہے اور جس کے نتیجے میں ملک فوڈ گروپ کی درآمد میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور جس کے منفی اثرات ملک کے زرمبادلہ پر اثر انداز ہورہے ہیں۔
اب ملاحظہ فرمائیں 2021-2022 کے دوران فوڈ گروپ کی درآمدی مالیت9 ارب ایک کروڑ ڈالر 62 لاکھ 46 ہزار ڈالرز کی تھیں۔ اس سے اگلے برس یعنی مالی سال 2022-23 کے دوران جب پاکستان زبردست طریقے سے مالی دباؤ کا شکار تھا ۔ کارخانے بند اس لیے ہو رہے تھے کہ برآمدی مال کی تیاری کے لیے درآمدی میٹریلزکی درآمد نہیں ہورہی تھی۔
کنٹینرز ہزاروں کی تعداد میں پھنسے ہوئے تھے ان کو ریلیز نہیں کیا جا رہا تھا کہ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوتے چلے جائیں گے لیکن منصوبہ ساز ملکی فوڈ گروپ کی درآمد پر کوئی قدغن نہ لگا سکے ۔ لہٰذا 2022-23 کی فوڈ گروپ کی درآمدات 8 ارب 93 کروڑ 69 لاکھ 70 ہزار ڈالرز کی ہوئی تھیں، یعنی اس شعبے میں بہت تیر مارا تو صرف 0.88 فیصد ہی کمی لے کر آ سکے، جب کہ زرعی پیداوار اس اضافے کے لیے جدید مشینری ان کے پرزوں اور ادویات اور کیمیکلز تقریباً 37 فیصد کی کمی لائی گئی۔
ملک میں اگر زرعی زمینوں کی نگہداشت ان کو پانی کی فراہمی ان کے لیے مناسب کھاد ، جعلی کے بجائے اصلی ادویات، جدید مشینری کا استعمال، کاشتکاروں کو بلا سود قرض کی فراہمی اور انتہائی آسانی سے فراہمی اور دیگر کئی باتوں پر عمل کیا جائے تو زرعی پیداوار میں اضافہ ہوگا، لہٰذا 2022-23 ء کے دوران ساڑھے تیرہ لاکھ میٹرک ٹن دالوں کی درآمد کی ضرورت نہ ہوتی ۔
جی ہاں! درآمد کر لیتے لیکن 4 سے 5 لاکھ میٹرک ٹن اور چائے وہ تو مجموعی طور پر ایک کھرب 40 ارب روپے کی چائے پی آئے۔ اس پر کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ یہی ایک گرم مشروب ہے، جس کی چسکیاں لے کر سیاست پر، صحت سے متعلق لوگوں کو ادویات تجویزکرنے تک ، زبردست قسم کے ہلّہ گلّہ کر کے اپنی بات منوانے تک، یہ سارے کام چائے پینے کے دوران ہوٹلوں میں اوطاق میں بیٹھ کر چائے سے خوب لطف اندوز ہوکر انجام دیا جاتا ہے ۔ مختصر یہ ہے کہ چائے کی پیالی میں طوفان اٹھا دینے کے مترادف ہے۔
گزشتہ مالی سال گندم میں خوب درآمد کی گئی 27 لاکھ 29 ہزار میٹرک ٹن پہلے تو آٹا ابھی خاصی مقدار میں اسمگل بھی ہوتا تھا، اب سستا ہے،کافی کنٹرول ہوچکا ہے، بہرحال اس فوڈ گروپ جسے کم سے کم اخراجات کی سطح پر بآسانی لایا جاسکتا ہے، اس پر تقریباً 9 ارب ڈالر سالانہ اخراجات کر رہے ہیں۔
رواں مالی سال اس میں قدرے کمی کی توقع کرسکتے ہیں، حالانکہ 7 ماہ میں 8 لاکھ میٹرک ٹن دال 19 لاکھ 80 ہزار میٹرک ٹن گندم کی درآمد ایک کھرب 12ارب روپے کی چائے کی درآمد ہوئی ہے، لیکن نئی حکومت مناسب منصوبہ بندی اگر کرلیتی ہے تو شاید فوڈ گروپ کی درآمدات میں کمی ہوسکتی ہے۔ ملکی چائے کی پیداوار کے حصول پر توجہ دی جائے کیونکہ درآمدی مہنگی ترین چائے پینا اب غریب افراد کے لیے مشکل تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔
دنیا بھر کے ممالک جس طرح سے اپنی زمینوں سے بھرپور پیداوار حاصل کر رہے ہیں۔ فی ایکڑ پیداوار کے حصول کا جائزہ لیا جائے تو ہر فصل میں پاکستان کی فی ایکڑ پیداوار دیگر ملکوں کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ پیداوار بڑھانے کے لیے جدید مشینری، جدید ٹیکنالوجی اس کا فقدان اپنی جگہ کیونکہ کسانوں کو بھاری مالیت کے جدید آلات و مشینریاں خریدنے کی اہلیت بھی نہیں۔ اپنی زمینوں کی کم پیداوارکے باعث اتنی مالی استطاعت بھی نہیں رکھتے۔
اکثریت کم تعلیم ہونے کے باعث جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانے کی اہلیت بھی نہیں رکھتے، لیکن ان پر ظلم و ستم یہ ہوتا ہے کہ ضرورت پڑنے پرکھاد اچانک غائب، ادویات ہیں تو وہ بھی جعلی، جتنا پانی چاہیے وہ مطلوبہ مقدار حاصل ہی نہیں ہو پاتی، لہٰذا کم زرعی پیداوارکا حصول پون صدی سے مقدر بن چکا ہے، لہٰذا ملک میں غربت کی سطح بلند سے بلند ہوتی چلی جا رہی ہے۔
ایسے میں ملکی آبادی میں اضافہ ہوتا رہا، لیکن تعلیم پر اخراجات کم سے کم کرنے اور اساتذہ کی کم دلچسپی، اسکول کالج کی خستہ حالی، بعض اسکول کالجز کی زمینوں پر با اثر افراد کا قبضہ، اسکول کے احاطے کو بھینسوں کے باڑے میں تبدیل کرنا، اس طرح کے بے شمار مسائل سے ہمارا کسان، ہاری آج تک انھی میں پھنسا ہوا ہے، لیکن اس دوران ملکی آبادی بڑھتی رہی۔ خوراک کی زیادہ سے زیادہ ضرورت پیدا ہوتی رہی جس نے ملک میں خوراک کے عدم تحفظ کو جنم دیا۔ کبھی گندم کی قلت، کبھی چینی کی بڑی مقدار کی درآمد، لاکھوں ٹن کی درآمد پر کثیر زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے ۔
کوکنگ آئل سے متعلق مختلف منصوبوں کے بارے میں صرف زبانی جمع خرچ سے کام چلایا جانے لگا، جس کے نتیجے میں پام آئل کی درآمد کئی اربوں ڈالر تک جا پہنچی۔ اس تمام صورتحال کا مسلسل ایک نتیجہ نکل رہا ہے کہ ملک میں فوڈ گروپ کی درآمدات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ قوم اربوں روپے کی درآمدی چائے پیے چلی جا رہی ہے، حالانکہ کئی عشرے قبل یہ چیزیں دل لبھایا کرتی تھیں کہ کھانے کے تیل کی خاطر سورج مکھی اور دیگر زرعی اشیاء کی پیداوارکے وسیع منصوبوں پر عملدرآمد شروع ہی ہونے والا ہے۔
چائے کے لیے مہنگی پتی خریدنے والوں کے لیے یہ خبر اطمینان کا باعث تھی کہ ملک کے کئی چھوٹے پہاڑی سلسلوں میں چائے کی کاشت قابل عمل ہے، البتہ حالیہ دنوں میں یہ اطلاعات مل رہی ہیں کہ چکوال کے کئی مقامات پر زیتون کی کاشت کامیابی سے جاری ہے۔ سون سکیسر تھولے محرم خاں کے ارد گرد کئی چھوٹے پہاڑی سلسلے ایسے ہیں جن پر تجربہ کیا جائے تو چائے کی پتی کی پیداوار حاصل کرسکتے ہیں۔ ان تمام غفلت اور ترجیح نہ دینے کے باعث زرعی پیداوار میں خود کفیل نہیں ہورہے اور جس کے نتیجے میں ملک فوڈ گروپ کی درآمد میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور جس کے منفی اثرات ملک کے زرمبادلہ پر اثر انداز ہورہے ہیں۔
اب ملاحظہ فرمائیں 2021-2022 کے دوران فوڈ گروپ کی درآمدی مالیت9 ارب ایک کروڑ ڈالر 62 لاکھ 46 ہزار ڈالرز کی تھیں۔ اس سے اگلے برس یعنی مالی سال 2022-23 کے دوران جب پاکستان زبردست طریقے سے مالی دباؤ کا شکار تھا ۔ کارخانے بند اس لیے ہو رہے تھے کہ برآمدی مال کی تیاری کے لیے درآمدی میٹریلزکی درآمد نہیں ہورہی تھی۔
کنٹینرز ہزاروں کی تعداد میں پھنسے ہوئے تھے ان کو ریلیز نہیں کیا جا رہا تھا کہ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوتے چلے جائیں گے لیکن منصوبہ ساز ملکی فوڈ گروپ کی درآمد پر کوئی قدغن نہ لگا سکے ۔ لہٰذا 2022-23 کی فوڈ گروپ کی درآمدات 8 ارب 93 کروڑ 69 لاکھ 70 ہزار ڈالرز کی ہوئی تھیں، یعنی اس شعبے میں بہت تیر مارا تو صرف 0.88 فیصد ہی کمی لے کر آ سکے، جب کہ زرعی پیداوار اس اضافے کے لیے جدید مشینری ان کے پرزوں اور ادویات اور کیمیکلز تقریباً 37 فیصد کی کمی لائی گئی۔
ملک میں اگر زرعی زمینوں کی نگہداشت ان کو پانی کی فراہمی ان کے لیے مناسب کھاد ، جعلی کے بجائے اصلی ادویات، جدید مشینری کا استعمال، کاشتکاروں کو بلا سود قرض کی فراہمی اور انتہائی آسانی سے فراہمی اور دیگر کئی باتوں پر عمل کیا جائے تو زرعی پیداوار میں اضافہ ہوگا، لہٰذا 2022-23 ء کے دوران ساڑھے تیرہ لاکھ میٹرک ٹن دالوں کی درآمد کی ضرورت نہ ہوتی ۔
جی ہاں! درآمد کر لیتے لیکن 4 سے 5 لاکھ میٹرک ٹن اور چائے وہ تو مجموعی طور پر ایک کھرب 40 ارب روپے کی چائے پی آئے۔ اس پر کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ یہی ایک گرم مشروب ہے، جس کی چسکیاں لے کر سیاست پر، صحت سے متعلق لوگوں کو ادویات تجویزکرنے تک ، زبردست قسم کے ہلّہ گلّہ کر کے اپنی بات منوانے تک، یہ سارے کام چائے پینے کے دوران ہوٹلوں میں اوطاق میں بیٹھ کر چائے سے خوب لطف اندوز ہوکر انجام دیا جاتا ہے ۔ مختصر یہ ہے کہ چائے کی پیالی میں طوفان اٹھا دینے کے مترادف ہے۔
گزشتہ مالی سال گندم میں خوب درآمد کی گئی 27 لاکھ 29 ہزار میٹرک ٹن پہلے تو آٹا ابھی خاصی مقدار میں اسمگل بھی ہوتا تھا، اب سستا ہے،کافی کنٹرول ہوچکا ہے، بہرحال اس فوڈ گروپ جسے کم سے کم اخراجات کی سطح پر بآسانی لایا جاسکتا ہے، اس پر تقریباً 9 ارب ڈالر سالانہ اخراجات کر رہے ہیں۔
رواں مالی سال اس میں قدرے کمی کی توقع کرسکتے ہیں، حالانکہ 7 ماہ میں 8 لاکھ میٹرک ٹن دال 19 لاکھ 80 ہزار میٹرک ٹن گندم کی درآمد ایک کھرب 12ارب روپے کی چائے کی درآمد ہوئی ہے، لیکن نئی حکومت مناسب منصوبہ بندی اگر کرلیتی ہے تو شاید فوڈ گروپ کی درآمدات میں کمی ہوسکتی ہے۔ ملکی چائے کی پیداوار کے حصول پر توجہ دی جائے کیونکہ درآمدی مہنگی ترین چائے پینا اب غریب افراد کے لیے مشکل تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔