لاپتہ زندگی
موت کا موسم تو اپنے پورے جوبن کے ساتھ سندھ پر طاری ہے لیکن آج کل لاپتہ زندگیوں کے نوحے بھی کڑکتی بجلی سے کچھ کم نہیں
ISLAMABAD:
موت کا موسم تو اپنے پورے جوبن کے ساتھ سندھ پر طاری ہے لیکن آج کل لاپتہ زندگیوں کے نوحے بھی کڑکتی بجلی سے کچھ کم نہیں ہیں۔ اغوا برائے تاوان ایک بہت بڑی تجارت ہے اور سندھ اس کا کارآمد Hub بن چکا ہے۔ اغوا کاروں کے بہت بڑے بڑے گینگ بن چکے ہیں جن کی نظر میں انسان کی اہمیت ایک چیک سے بڑھ کر نہیں ہے جس کو وہ کبھی بھی اپنے مفاد کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔
سندھ میں ڈاکو کلچر تب شروع ہوا جب آمر ضیا کے دور میں ہیروئن اور کلاشنکوف ملک میں رائج ہوئی ۔ کلاشنکوف اور ہیروئن کی اسمگلنگ کے ساتھ ساتھ سندھ کا امن و امان بھی داؤ پر لگ گیا۔ آج کل سندھ کے کئی علاقے اور شاہراہیں ایسی ہیں جہاں سے لوگ دن دہاڑے اٹھا لیے جاتے ہیں۔ حیدر آباد سے مٹیاری، مٹیاری سے ہالا تک اکثر لوگ اٹھا لیے جاتے ہیں۔نصیر آباد تک ڈاکوؤں کے گینگ پھیلے ہوئے ہیں۔ ان علاقوں کے کچے زمینی علاقے ڈاکوؤں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔
اغوا برائے تاوان ایک بڑا دیو ہے جس کے تین بڑے سر ہیں۔ ''بااثر لوگ، ڈاکو اور ''پولیس'' جن کی مدد سے وہ عام لوگوں پر راج کر رہا ہے۔ دیو لوگوں کو اٹھا لیتا ہے۔ راہ چلتے ہوئے، گاڑی میں سفر کرتے ہوئے کہیں سے بھی وہ گم کردیتا ہے جب ہی عزیز و اقارب لامحدود انتظار کی سولی پہ ٹنگ جاتے ہیں۔
کبھی کبھی کوئی ''رحم دل'' ڈاکو جلدی سے رقعہ بھیج دیتا ہے کہ پیاروں کی زندگی کی قیمت مقررہ جگہ پر بغیر پولیس کو اطلاع دیے پہنچائی جائے۔ اگر کوئی چٹھی اور کال نہ آئے تو پھر بندہ لاپتہ ہوجاتا ہے۔
اگر علاقے کا با اثر زمیندار ہو تو بھی پولیس کے لیے بندے کو ڈھونڈنا بڑا مشکل کام بن جاتا ہے اور شہری علاقوں سے اغوا کیے گئے لوگوں کے رشتے دار بھاری رقوم کی ادائیگی پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
میڈیا کی رپورٹ کے مطابق 12 مئی 2014 کو شہید ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی کا طالب علم اغوا ہوا۔ 23 مئی کو بخت پور سے 4 لوگ اغوا ہوئے، غلام رسول، عبداللہ بنگلانی اور تارا چند اغوا ہوئے۔ پولیس کی ناکامی کے بعد ورثا تاوان کی رقم بھرنے پر تیار ہوگئے۔ 24 مئی 2014 کو چک شکار پور کے 5 لوگ مسلح افراد نے اغوا کیے۔
نصراللہ مہر، ایاز مہر، آفتاب مہر، دانش قریشی اور عمران۔ ان میں سے دو کو تشدد کے بعد چھوڑ دیا گیا باقی تین لوگ ابھی تک لاپتہ ہیں۔ شکار پور سے صرف مئی میں 8 سے زائد افراد اغوا ہوئے ہیں جن میں سے کچھ کی تو پولیس میں کوئی ایف آئی آر ہی درج نہیں ہے۔ ضلع خیرپور سے 13 لوگ اغوا ہوئے ہیں اور خیرپور میرس سے 22 لوگ اغوا ہوئے جن میں سے پون کمار، ندیم تالپور، امین گلال، شعیب بروہی اور دیگر شامل تھے۔ CPLC کی رپورٹ کے مطابق 103 کیس رپورٹ ہوئے ہیں جن میں سے 18 بازیاب کرا لیے گئے اور باقی کا کچھ پتا نہیں چل سکا۔ گزشتہ دو دہائیوں میں 763 لوگ اغوا برائے تاوان کا شکار ہوئے ۔
یہ لوگ جن کے نام بااثر کے لفافے میں ہمیشہ چھپے رہتے ہیں جو اپنے علاقے کے بے تاج بادشاہ ہوتے ہیں وہ اپنی زمینوں پر پتہ ہلنے سے بھی باخبر ہوتے ہیں۔ جب اغوا کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو عام انسان پولیس سے پہلے علاقے کے بااثر بندے کے پاس پہنچتا ہے اور جب پولیس اپنی تفتیش کا آغاز کرتی ہے تو بھی اس کی ابتدا بھوتار سائیں کی اجازت سے شروع ہوتی ہے۔ 6اپریل 2014 کو 17 سال کی فوزیہ اغوا ہوئی۔ غریب مزدور باپ کو رقعہ موصول ہوا کہ 5 لاکھ کی رقم ادا کی جائے ورنہ بیٹی کو مار دیا جائے گا۔ غریب مزدور بااثر بندے کے پاس گیا پیغام لانے والے بھی ادھر بلائے گئے اور پھر پولیس کی تحویل میں دیے گئے۔
فوزیہ مئی کے آخر تک تو بازیاب نہ ہوسکی۔ 24 مئی 2014 کو دو اغوا کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جن میں سے ایک بھریا روڈ سے ہوا ہے جس میں ایک بیوپاری ارشد کے گھر 10 مسلح افراد گھس گئے ۔ مسلح افراد کی فائرنگ سے محلے کا ایک بندہ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ لوگوں نے احتجاج کیا پھر بھی کیس داخل نہ ہوسکا۔ اسی دن ٹھل میں مسلح افراد نے عرفان سرکی کو اغوا کرنے کی کوشش کی اور مزاحمت کرنے پر 4 مسلح افراد نے 20 سالہ نوجوان عرفان اور اس کے والد کو زخمی کردیا۔ عرفان زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ حیدرآباد، عمر کوٹ، قمبر، جیکب آباد بھی اغوا کی وبا میں لپیٹ میں آچکے ہیں۔
زیادہ تر لوگ پولیس میں جانے کے بجائے تاوان کی رقم ادا کرکے اپنی زندگی بچانے کو فوقیت دیتے ہیں۔ کچھ لوگ جو اغوا ہوئے ہیں مگر ان کا پتہ نہیں چلتا کہ وہ کہاں ہیں۔ جیسے طارق محمود، فیصل آرائیں اور نعیم آرائیں کے اغوا کا معاملہ جس میں مغوی ابھی تک واپس نہیں ہوئے۔ہالا، بھٹ شاہ کے بیچ راستے میں اغوا ہوئے پھر شکار پور منتقل کیے گئے اس کے بعد کوئی خبر نہیں مل سکی۔انسانی زندگیوں کا مکروہ کاروبار کرنے والوں کی بندوقیں ہمیشہ بااثر لوگوں کے کندھوں پر رکھی ہوئی ہوتی ہیں۔ سندھ کی مشہور آرٹسٹ نسرین ناز کے اغوا کے بعد سندھ کے ڈاکوئوںکی یہ روایت بھی دم توڑ گئی کہ وہ عورتوں پر ہاتھ نہیں اٹھاتے۔ وزیر اعلیٰ کا بیان تو بہت دل نشیں تھا کہ اب کوئی بھی تاوان کی رقم ادا نہیں کرے گا۔ جس نے یہ رقم ادا کی ہے تو اس کو واپس کروا دی جائے گی۔
معاشی عدم استحکام کے اس دور میں جہاں عوام ہر طرح سے پس رہے ہیں، رات دن محنت کرکے لوگ کماتے ہیں، اپنا گھر چلانے کے بجائے وہ رقم اپنی زندگی کی قیمت ادا کرنے میں لگا دیتے ہیں۔ آج کا انسان اپنی زندگی کا بھی ٹیکس ادا کرتا ہے۔
جو لوگ روز کماتے اور روز کھاتے ہیں جو روز فروٹ، سبزی کی ریڑھی لگاتے ہیں یا کوئی چھوٹی سی دکان لگاتے ہیں، جو چنے بیچتے ہیں وہ بھتہ دینے پر مجبور ہیں۔ انھیں پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کب گھر سے نکلیں اور کب کسی بے رحم گولی کا شکار بن جائیں اور جو لوگ کچھ کاروبار کریں یا کسی اچھے عہدے پر پہنچ جاتے ہیں وہ اٹھا لیے جاتے ہیں۔ حکومت کے اوپر جو لاقانونیت کی حکومت ہے وہ زیادہ طاقتور ہے۔ ہماری ریاست پر ایک اور ریاست قابض ہے جس کو لاقانونیت کہتے ہیں۔
عام انسان کہیں گم ہوتا جا رہا ہے۔ ہزاروں گم شدہ لوگوں کے بچے روتے بلکتے لوگ دربدر بھٹکتے پھر رہے ہیں۔ اغوا برائے تاوان ایک بڑی وبا کی طرح پھیلتا جا رہا ہے جس کی کوئی ویکسین بھی نہیں۔ ہمارا ملک دنیا کا شاید منفرد ملک ہے جس میں لوگ اپنی سانسوں کی قیمت ادا کرتے ہیں۔ زندگیوں کی خرید و فروخت کے اس کاروبار کو کہیں بھی چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ جو انسان اپنی زندگیاں اپنی محنت کی کمائی سے خرید کر زندہ رہیں وہ دوسرے حقوق مانگنے کی ہمت کرسکیں گے یا نہیں؟ عام انسان آخر اپنی ریاست اور حکومت سے کیا مانگ سکتا ہے؟
موت کا موسم تو اپنے پورے جوبن کے ساتھ سندھ پر طاری ہے لیکن آج کل لاپتہ زندگیوں کے نوحے بھی کڑکتی بجلی سے کچھ کم نہیں ہیں۔ اغوا برائے تاوان ایک بہت بڑی تجارت ہے اور سندھ اس کا کارآمد Hub بن چکا ہے۔ اغوا کاروں کے بہت بڑے بڑے گینگ بن چکے ہیں جن کی نظر میں انسان کی اہمیت ایک چیک سے بڑھ کر نہیں ہے جس کو وہ کبھی بھی اپنے مفاد کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔
سندھ میں ڈاکو کلچر تب شروع ہوا جب آمر ضیا کے دور میں ہیروئن اور کلاشنکوف ملک میں رائج ہوئی ۔ کلاشنکوف اور ہیروئن کی اسمگلنگ کے ساتھ ساتھ سندھ کا امن و امان بھی داؤ پر لگ گیا۔ آج کل سندھ کے کئی علاقے اور شاہراہیں ایسی ہیں جہاں سے لوگ دن دہاڑے اٹھا لیے جاتے ہیں۔ حیدر آباد سے مٹیاری، مٹیاری سے ہالا تک اکثر لوگ اٹھا لیے جاتے ہیں۔نصیر آباد تک ڈاکوؤں کے گینگ پھیلے ہوئے ہیں۔ ان علاقوں کے کچے زمینی علاقے ڈاکوؤں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔
اغوا برائے تاوان ایک بڑا دیو ہے جس کے تین بڑے سر ہیں۔ ''بااثر لوگ، ڈاکو اور ''پولیس'' جن کی مدد سے وہ عام لوگوں پر راج کر رہا ہے۔ دیو لوگوں کو اٹھا لیتا ہے۔ راہ چلتے ہوئے، گاڑی میں سفر کرتے ہوئے کہیں سے بھی وہ گم کردیتا ہے جب ہی عزیز و اقارب لامحدود انتظار کی سولی پہ ٹنگ جاتے ہیں۔
کبھی کبھی کوئی ''رحم دل'' ڈاکو جلدی سے رقعہ بھیج دیتا ہے کہ پیاروں کی زندگی کی قیمت مقررہ جگہ پر بغیر پولیس کو اطلاع دیے پہنچائی جائے۔ اگر کوئی چٹھی اور کال نہ آئے تو پھر بندہ لاپتہ ہوجاتا ہے۔
اگر علاقے کا با اثر زمیندار ہو تو بھی پولیس کے لیے بندے کو ڈھونڈنا بڑا مشکل کام بن جاتا ہے اور شہری علاقوں سے اغوا کیے گئے لوگوں کے رشتے دار بھاری رقوم کی ادائیگی پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
میڈیا کی رپورٹ کے مطابق 12 مئی 2014 کو شہید ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی کا طالب علم اغوا ہوا۔ 23 مئی کو بخت پور سے 4 لوگ اغوا ہوئے، غلام رسول، عبداللہ بنگلانی اور تارا چند اغوا ہوئے۔ پولیس کی ناکامی کے بعد ورثا تاوان کی رقم بھرنے پر تیار ہوگئے۔ 24 مئی 2014 کو چک شکار پور کے 5 لوگ مسلح افراد نے اغوا کیے۔
نصراللہ مہر، ایاز مہر، آفتاب مہر، دانش قریشی اور عمران۔ ان میں سے دو کو تشدد کے بعد چھوڑ دیا گیا باقی تین لوگ ابھی تک لاپتہ ہیں۔ شکار پور سے صرف مئی میں 8 سے زائد افراد اغوا ہوئے ہیں جن میں سے کچھ کی تو پولیس میں کوئی ایف آئی آر ہی درج نہیں ہے۔ ضلع خیرپور سے 13 لوگ اغوا ہوئے ہیں اور خیرپور میرس سے 22 لوگ اغوا ہوئے جن میں سے پون کمار، ندیم تالپور، امین گلال، شعیب بروہی اور دیگر شامل تھے۔ CPLC کی رپورٹ کے مطابق 103 کیس رپورٹ ہوئے ہیں جن میں سے 18 بازیاب کرا لیے گئے اور باقی کا کچھ پتا نہیں چل سکا۔ گزشتہ دو دہائیوں میں 763 لوگ اغوا برائے تاوان کا شکار ہوئے ۔
یہ لوگ جن کے نام بااثر کے لفافے میں ہمیشہ چھپے رہتے ہیں جو اپنے علاقے کے بے تاج بادشاہ ہوتے ہیں وہ اپنی زمینوں پر پتہ ہلنے سے بھی باخبر ہوتے ہیں۔ جب اغوا کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو عام انسان پولیس سے پہلے علاقے کے بااثر بندے کے پاس پہنچتا ہے اور جب پولیس اپنی تفتیش کا آغاز کرتی ہے تو بھی اس کی ابتدا بھوتار سائیں کی اجازت سے شروع ہوتی ہے۔ 6اپریل 2014 کو 17 سال کی فوزیہ اغوا ہوئی۔ غریب مزدور باپ کو رقعہ موصول ہوا کہ 5 لاکھ کی رقم ادا کی جائے ورنہ بیٹی کو مار دیا جائے گا۔ غریب مزدور بااثر بندے کے پاس گیا پیغام لانے والے بھی ادھر بلائے گئے اور پھر پولیس کی تحویل میں دیے گئے۔
فوزیہ مئی کے آخر تک تو بازیاب نہ ہوسکی۔ 24 مئی 2014 کو دو اغوا کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جن میں سے ایک بھریا روڈ سے ہوا ہے جس میں ایک بیوپاری ارشد کے گھر 10 مسلح افراد گھس گئے ۔ مسلح افراد کی فائرنگ سے محلے کا ایک بندہ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ لوگوں نے احتجاج کیا پھر بھی کیس داخل نہ ہوسکا۔ اسی دن ٹھل میں مسلح افراد نے عرفان سرکی کو اغوا کرنے کی کوشش کی اور مزاحمت کرنے پر 4 مسلح افراد نے 20 سالہ نوجوان عرفان اور اس کے والد کو زخمی کردیا۔ عرفان زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ حیدرآباد، عمر کوٹ، قمبر، جیکب آباد بھی اغوا کی وبا میں لپیٹ میں آچکے ہیں۔
زیادہ تر لوگ پولیس میں جانے کے بجائے تاوان کی رقم ادا کرکے اپنی زندگی بچانے کو فوقیت دیتے ہیں۔ کچھ لوگ جو اغوا ہوئے ہیں مگر ان کا پتہ نہیں چلتا کہ وہ کہاں ہیں۔ جیسے طارق محمود، فیصل آرائیں اور نعیم آرائیں کے اغوا کا معاملہ جس میں مغوی ابھی تک واپس نہیں ہوئے۔ہالا، بھٹ شاہ کے بیچ راستے میں اغوا ہوئے پھر شکار پور منتقل کیے گئے اس کے بعد کوئی خبر نہیں مل سکی۔انسانی زندگیوں کا مکروہ کاروبار کرنے والوں کی بندوقیں ہمیشہ بااثر لوگوں کے کندھوں پر رکھی ہوئی ہوتی ہیں۔ سندھ کی مشہور آرٹسٹ نسرین ناز کے اغوا کے بعد سندھ کے ڈاکوئوںکی یہ روایت بھی دم توڑ گئی کہ وہ عورتوں پر ہاتھ نہیں اٹھاتے۔ وزیر اعلیٰ کا بیان تو بہت دل نشیں تھا کہ اب کوئی بھی تاوان کی رقم ادا نہیں کرے گا۔ جس نے یہ رقم ادا کی ہے تو اس کو واپس کروا دی جائے گی۔
معاشی عدم استحکام کے اس دور میں جہاں عوام ہر طرح سے پس رہے ہیں، رات دن محنت کرکے لوگ کماتے ہیں، اپنا گھر چلانے کے بجائے وہ رقم اپنی زندگی کی قیمت ادا کرنے میں لگا دیتے ہیں۔ آج کا انسان اپنی زندگی کا بھی ٹیکس ادا کرتا ہے۔
جو لوگ روز کماتے اور روز کھاتے ہیں جو روز فروٹ، سبزی کی ریڑھی لگاتے ہیں یا کوئی چھوٹی سی دکان لگاتے ہیں، جو چنے بیچتے ہیں وہ بھتہ دینے پر مجبور ہیں۔ انھیں پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کب گھر سے نکلیں اور کب کسی بے رحم گولی کا شکار بن جائیں اور جو لوگ کچھ کاروبار کریں یا کسی اچھے عہدے پر پہنچ جاتے ہیں وہ اٹھا لیے جاتے ہیں۔ حکومت کے اوپر جو لاقانونیت کی حکومت ہے وہ زیادہ طاقتور ہے۔ ہماری ریاست پر ایک اور ریاست قابض ہے جس کو لاقانونیت کہتے ہیں۔
عام انسان کہیں گم ہوتا جا رہا ہے۔ ہزاروں گم شدہ لوگوں کے بچے روتے بلکتے لوگ دربدر بھٹکتے پھر رہے ہیں۔ اغوا برائے تاوان ایک بڑی وبا کی طرح پھیلتا جا رہا ہے جس کی کوئی ویکسین بھی نہیں۔ ہمارا ملک دنیا کا شاید منفرد ملک ہے جس میں لوگ اپنی سانسوں کی قیمت ادا کرتے ہیں۔ زندگیوں کی خرید و فروخت کے اس کاروبار کو کہیں بھی چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ جو انسان اپنی زندگیاں اپنی محنت کی کمائی سے خرید کر زندہ رہیں وہ دوسرے حقوق مانگنے کی ہمت کرسکیں گے یا نہیں؟ عام انسان آخر اپنی ریاست اور حکومت سے کیا مانگ سکتا ہے؟