تعلیمی اداروں کو ڈرگ مافیا سے بچایا جائے…

طلبا و طالبات انٹر نیٹ سرچ کے ذریعے اپنے حقوق اور ایک شہری کی حیثیت سے اپنے اختیارات بارے بھی آگاہی حاصل کریں

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں منشیات کے عادی افراد خاص طور پر نشے کی لت کا شکار نوجوان طلبا وطالبات کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان میں بھی اس حوالے سے صورتحال اتنی اچھی نہیں۔

ایک اندازے کے مطابق ملک بھر میں 85 لاکھ سے زائد افراد منشیات کا شکار ہیں۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں منشیات کا استعمال بھی خطرے کی علامت ہے جس کے تباہ کن اثرات نہ صرف نشہ کرنے والے فرد بلکہ اس کے خاندان کے دیگر افراد اور معاشرے تک محسوس کیے جاتے ہیں۔

ڈپریشن، نفسیاتی مسائل، غربت اور ساتھی طلبا و طالبات کا دباؤ، نجی تعلیمی اداروں میں کھیلوں کے میدان اورادبی و تخلیقی سرگرمیوں کا فقدان بھی نوجوان نسل کے منشیات کا شکار بننے کی وجوہات ہیں۔منشیات کا شکار افراد سے دوری اختیار کرنے کی بجائے ہمدردی کا اظہار اور ان کی بحالی کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ منشیات سمیت مختلف منفی رجحانات سے بچاؤ لازمی ہے۔

دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ وہ لوگ جو منشیات سے نجات حاصل کرنے کے عمل کی جانب راغب ہو جاتے ہیں وہ دیگر افراد کی نسبت جلد نشے کی عادت سے چھٹکارا پا لیتے ہیں۔ ہمارے بچے قوم کا مستقبل ہیں انہیں منشیات و دیگر جرائم سے محفوظ رکھنے کیلئے والدین، اساتذہ، پولیس اور سول سوسائٹی سمیت معاشرے کے تمام طبقات کو اپنا فریضہ اوراہم کردار ادا کرناہو گا تاکہ تعلیمی اداروں میں طلباء و طالبات کومنشیات کا شکار بنانے کے مرتکب سماج دشمن عناصر کی بروقت نشاندہی کرکے انکا فوری طور پر سدباب ممکن بنایا جا سکے۔

والدین کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی سرگرمیوں اور رویوں پر گہری نظر رکھیں۔بچوں کے رویے میں کوئی غیر معمولی تبدیلی نظر آنے کی صورت میں فوری طور پران سے پوچھ گچھ کریں اور ان کے دوست احباب اور اساتذہ کو بھی اعتماد میں لے کر اصل وجوہات جاننے کی کوشش کریں۔بچوں کے منشیات کا شکار ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں دوستوں کے ساتھ پارٹی کلچر آج کل سب سے نمایاں ہے۔

یہ بات سامنے آئی ہے کہ کالجز اور یونیورسٹیوں کے طلباو طالبات منشیات کا شکار ایسے ہی پارٹیوں میں شرکت کرکے بن رہے ہیں ،لہٰذا والدین اپنے بچوں کو ان پارٹیوں سے دور رکھیں۔ امیر اور خوشحال گھرانوں کے طلبا و طالبات مغربی دنیا کے جدید رجحانات کو طرزِزندگی کے طور پر بھی اپنا رہے ہیں۔اسی رجحان کے تسلسل میں آئس سمیت مختلف اقسام کی منشیات کی دن بدن نئی اقسام بھی سامنے آئی ہیں جن کا شکارخاص کر خوشحال گھرانوں سے تعلق رکھنے والے یہ طلبا وطالبات بن رہے ہیں۔جس کا تدارک صرف والدین کی کڑی نگرانی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔


والدین اپنے بچوں کے منشیات کا شکار ہونے کی تصدیق ہوجانے کی صورت میں فوری طور پر اس حساس مسئلے کے حل کیلئے ضروری اقدامات کریں۔اس حوالے سے تعلیمی اداروں کے اساتذہ اور انتظامیہ کا کردار بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے۔تعلیمی اداروں کی انتظامیہ جہاں کلاس رومز میں تعلیمی امور کی نگرانی کیلئے موثر مانیٹرنگ کو یقینی بناتی ہے وہیں اپنے اداروں کی حدود میں کلاس رومز کے باہر بھی طلبا و طالبات کی سگریٹ نوشی اور منشیات کے استعمال کے حوالے سے موثر نگرانی اور روک تھام کا اہتمام کرے۔

انتہائی ضروری امر یہ ہے کہ تمام تعلیمی اداروں میں کام کرنے والے ملازمین کی متعلقہ پولیس سے کلیئرنس کروائی جائے،کیونکہ تعلیمی اداروں میں طلباء و طالبات کو منشیات سپلائی کرنے میں ان تعلیمی اداروں کے سٹاف کے ملوث ہونے کی نشاندہی ہونے پر پولیس تعلیمی اداروں میں طلباو طالبات کو نشے کی لعنت کا شکار بنانے کی کوشش کرنے والے منشیات فروشوں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائے۔ منشیات فروشی کے حوالے سے کراچی کے علاقے لیاری، ملیر اور میمن گوٹھ جبکہ اندرون سندھ ٹھٹھہ ،گھارو ساکرو اور بدین شامل ہیں۔

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ لوگوں نے اسے کاروبار بنا لیا ہے۔ہر کوئی اس میں ملوث ہے یعنی خواتین ،بچے، نوجوان اور بوڑھے ۔ صرف گزشتہ چھ ماہ میں سندھ پولیس نے منشیات کے تدارک کے حوالے سے مختلف تعلیمی اداروں کے ساتھ کافی اجلاس منعقد کیے ہیں۔ نیز مختلف تعلیمی اداروں، ہاسٹلز اور متعلقہ مقامات پر منشیات فروشوں کے خلاف سرچ آپریشنز کیے گئے۔تعلیمی اداروں اور ارد گرد منشیات فروشوں کے تدارک کے لیے سرویلنس ٹیمیں تشکیل دی گئیں۔

منشیات فروشوں کے خلاف موثر کارروائی کے لیے خصوصی ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں،کریک ڈاؤن کے لیے ایس ایس پی آپریشنز کو کراچی کا فوکل پرسن نامزد کیا گیاہے۔تمام تعلیمی اداروں کے سربراہان، والدین، طلباء اور دیگر افراد کسی بھی رہنمائی یا معلومات کے لیے ایس ایس پی آپریشنز آفس میں رابطہ کر سکتے ہیں۔منشیات کے مقدمات کی بہتر تفتیش اور منظم گینگز کے تدارک کے لیے بھی قائم کیے گئے ہیں جو صرف منشیات کے مقدمات کی تفتیش کرتے ہیں۔

کراچی پولیس کے افسران تعلیمی اداروں میں طلبا و طالبات، اساتذہ اور انتظامیہ کو باقاعدگی سے آگاہی بھی فراہم کر رہے ہیں۔ آج کی دنیا سوشل میڈیا کی دنیا ہے طلبا و طالبات سوشل میڈیا کی رنگینیوں سے زیادہ متاثر نظر آتے ہیں انہیں اس حوالے سے بھی درست رہنمائی کی ضرورت ہے کہ کسی بھی چیز کے مثبت پہلو کو اپنائیں اور منفی رجحانات سے خود کو محفوظ رکھیں۔ معاشرے کے دیگر افراد کو بھی اس حوالے سے آگاہی فراہم کریں۔

طلبا و طالبات انٹر نیٹ سرچ کے ذریعے اپنے حقوق اور ایک شہری کی حیثیت سے اپنے اختیارات بارے بھی آگاہی حاصل کریں۔ طلبا و طالبات منشیات کے حوالے سے موجود قانون کا بھی ضرور مطالعہ کریں۔ نئی نسل کو منشیات سے محفوظ رکھنا سندھ پولیس سمیت ہر شہری کی ذمے داری ہے۔طلبہ میں منشیات کے استعمال کے پیش نظر بحیثیت قوم ہمیں اپنی ذمے داری کا احسا س کرتے ہوئے اس بات کا عہد کرنا ہوگا کہ اولاد کسی کی بھی ہو ہم اس کی حفاظت اپنے بچوں کی طرح کرکے معاشرے کو محفوظ بنائیں گے۔نئی نسل کا تحفظ معاشرے کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔

معاشرے کو فعال کرنے کے حوالے سے منشیات کے مضر اثرات بارے آگاہی پروگرامز، سیمینارز اور واکس کے انعقاد کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔ تعلیمی اداروں میں منشیات کی لعنت کے مکمل خاتمے اور منشیات فروشوں کو انجام تک پہنچانے کے کیلئے طلبا و طالبات، والدین، اساتذہ اور تعلیمی اداروں کی انتظامیہ اور پولیس کو مشترکہ لائحہ عمل اپنا کر جدوجہد کرنا ہو گی صرف اسی صورت میں ہم اپنے شہر اور تعلیمی اداروں کو ڈرگ مافیا سے بچا سکتے ہیں۔
Load Next Story