نئی حکومت کی اولین ترجیح معاشی خوشحالی
پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ نون نے مل کر یہ کوشش کی ہے کہ عوام کو اس بارے میں مایوسیوں سے باہر نکالے
خداخدا کرکے ہمارے ملک میں وہ الیکشن بالآخر ہوہی گئے جن کے بارے میں بہت سوں کو خدشات اوروسوسے تھے اورایک نئی حکومت معرض وجود میں آہی گئی تاہم کسی ایک سیاسی پارٹی کو بھی سادہ اکثریت حاصل نہ ہوسکی۔
حکومت بنانا ایک مشکل اور ناممکن عمل دکھائی دے رہا تھا،لیکن یہ عمل بھی بخیروخوبی مکمل ہوگیا،لیکن ہمیشہ کی طرح مایوس افراد نے اپنا کام جاری رکھا ہوا ہے، وہ اب نئی حکومت کے بارے میں بھی قوم کے دلوں میں وسوسے اوروہم پیداکرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیںکہ یہ ایک دوسال سے زیادہ چلنے والی نہیں ہے۔
پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ نون نے مل کر یہ کوشش کی ہے کہ عوام کو اس بارے میں مایوسیوں سے باہر نکالے۔ہم سب کو معلوم ہے کہ ملک کے معاشی اوراقتصادی حالات کوئی اچھے نہیں ہیں اور ہمیں ایسے میں ایک مضبوط اور مستقل حکومت کی اشد ضرورت ہے۔ یہ میاں نوازشریف اور آصف علی زرداری جیسے جہاندیدہ لیڈروں کی ہی ذہانت اورقابلیت تھی کہ وہ اس مشکل امتحان سے قوم کو باہر نکال سکے۔
انھیں ایک ساتھ کام کرنے کا تجربہ بھی حاصل ہے اورملکی سیاست میں یہ دونوں افراد ایسے ہیں جنھیں افہام تفیم اورمعاملہ فہمی سے سیاست کرنے کا ہنربھی آتاہے،وہ اگر آج موجود نہ ہوتے تو شاید یہ کام اتنی آسانی سے نہ ہوسکتاتھا۔حکومت کے نہ چلنے سے متعلق جو خدشات ہنوز موجود ہیں، ہمیں پورا یقین ہے کہ ایوان صدر میں موجود ایک شخص یہ تما م خدشات دورکردے گا۔
یہ میاں نوازشریف کی فراخدلی تھی کہ صدرمملکت کے لیے آصف علی زرداری کی نامزدگی پر وہ راضی اوررضامند ہوگئے اور خود کو حکومتی امور سے علیحدہ کرلیا،نہ وہ صدر مملکت بنے اورنہ وزیراعظم،جو سیٹ اپ بنایاگیا ہے۔
اس سے بہتر شاید کچھ اوربن بھی نہیں سکتا تھا۔ پیپلزپارٹی نے اگرچہ کابینہ کا حصہ بننے سے انکار کردیا ہے لیکن بلوچستان کی حکومت بدلے میں حاصل کرلی ہے۔اب وفاق اورپنجاب میں مسلم لیگ نون اورسندھ بلوچستان میں پاکستان پیپلزپارٹی حکومت بنارہی ہے۔یہ کام اگر چاہتے تو خان صاحب بھی کرسکتے تھے لیکن اُن کی جارحانہ اورغیرمفاہمانہ سوچ نے انھیں یہ کام کرنے ہی نہیں دیا۔
اُن کی اس سوچ کا اندازہ KPK میں وزارت اعلیٰ کے عہدے کی نامزدگی سے بھی خوب لگایاجاسکتا ہے،وہ ابھی تک نہیں بدلے۔جو سوچ اُن کی کرکٹ میں تھی وہی سوچ سیاست میں بھی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ اس سوچ پرنہ صرف فخر کرتے ہیں اس سوچ کواپنی جدوجہد کانام بھی دیتے ہیں۔چار سال تک ملک کے بڑے صوبے میں عثمان بزدار کو لگائے رکھا اوریہ اُمید بھی کرتے رہے کہ وہ کارکردگی کی روشن مثال بنے گا۔وسیم اکرم پلس کا نام دیکر انھوں نے وسیم اکرم جیسے قومی ہیرو کے ساتھ بھی زیادتی کی ۔
موجودہ نئی حکومت کے لیے سب سے مشکل کام ملک کودرپیش مالی اوراقتصادی مشکلات سے باہرنکالنا ہے اوریہ کام اب ایک بار پھر میاں شہباز شریف کے کاندھوں پرآگیاہے۔
اپنی سولہ ماہ کی حکومت میں جو تیرہ سیاسی پارٹیوں پر مشتمل تھی وہ بظاہر خوش اسلوبی سے نہ کرسکے اورعوام کو کوئی ریلیف بھی نہ دے سکے لیکن اب انھیں یہ کام کرنا ہوگا، الیکشن میں سادہ اکثریت کا نہ ملنا بھی اُن کی اس سولہ ماہ کی حکومتی کارکردگی کا ایک سبب تھا۔
وہ گرچہ اس سلسلے میں اپنی معروضات اورتوجیہات تو پیش کرتے رہے ہیں لیکن عوام انھیں تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں،وہ اگرعوام کو ریلیف نہ دے سکتے تھے تو انھیں اس عارضی حکومت کا بیڑہ اُٹھانا نہیں چاہیے تھا،لیکن اب اُن کے پاس شاید کوئی عذر اوربہانہ نہیں ہوگا۔ یہ نہ صرف اُن کا اپنا امتحان ہے بلکہ پوری مسلم لیگ نون کا بھی ۔اس میں سرخروئی لازم اورملزوم ہے ورنہ وہ بھول جائیں کہ آیندہ الیکشن میں انھیں اتنی نشستیںبھی مل پائیں گی۔
ہمارا معاشی بحران اس قدرشدید ہے کہ حکومت کرنے والے کو ایک سانس بھی سکون کا نہیں مل پائے گا۔ جون کے مہینے تک ہمیں 24ارب ڈالرز کے قرضے واپس کرنے ہیں،جب کہ دو مہینے بعد بجٹ بھی بنانا ہے۔ حکومتی تحویل میں چلنے والے کئی ادارے سخت مالی خسارے سے دوچار ہیں،اُن کی شفاف نجکاری بھی ہونی ہے۔ نگراں حکومت نے یہ کام اپنے طور پرشروع کردیاتھا لیکن مینڈیٹ نہ ہونے کی وجہ سے وہ اسے پائے تکمیل تک نہیں پہنچا پائی۔اب یہ کام میاں شہبازشریف کو کرنا ہوگا۔ PIAشدید مالی بحران میں مبتلا ہے ۔
اس سے پہلے کہ کوئی انھیں خریدنے والا بھی نہ ہو اس کی نجکاری بھی کردی جائے ۔ ہوسکتا ہے کہ نجی گروپ کی انتظامیہ PIA کوایک بہتر انداز میں کامیابی سے چلاپائے ۔ اسی طرح پاکستان اسٹیل ملز کئی سالوں سے بند پڑی ہے لیکن عوام کے ٹیکسز کے پیسوں سے اس کے ملازمین کی تنخواہیں برابر دی جارہی ہیں۔
قومی بجٹ پریہ ایک بلاوجہ کا غیرضروری بوجھ ہے۔ ایک پیسے کی آمدنی بھی نہیںہے اورملازمین کی تنخواہیں انھیں گھر بیٹھے دی جارہی ہیں۔ مشینوں کو زنگ لگ چکاہے اوراب انھیں کوئی خریدنے والا بھی نہیں ہے۔ حکومت سندھ جہاں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے وہ نہ اُسے بیچنے دیتی ہے اورنہ خود اُسے چلاکردکھاتی ہے۔
آصف علی زرداری کو اب یہ ذمے داری خود نبھانا ہوگی۔ ہم کب تک اپنے قومی خزانہ اس طرح لٹاتے رہیں گے۔ سوال اگر مزدوروں کی نوکریوں کا ہے تو ہم سب کو معلوم ہے کہ بہت سے مزدور پہلے ہی کہیں اوربھی کام کررہے ہیں اور یہ اضافی آمدنی انھیں گھر بیٹھے مل رہی ہے۔
نجی تحویل میں دینے سے اس اسٹیل ملزکے نصف ملازمین کی ملازمت محفوظ بھی ہوسکتی تھی جو اب ناممکن دکھائی دیتی ہے کیونکہ اب اسے خریدنے والا بھی کوئی نہیں بچا۔یہ کام اگر پہلے ہوجاتا تو آج یہ نوبت آتی ہی نہیں، اسی طرحPIAکا بھی حال ہے ۔ مزدوروں کے حقوق کے نام پرسیاست کرنے کے بجائے اُن کے چلتے روزگار کو محفوظ بنایاجائے۔ پیپلزپارٹی کو سوچنا ہوگا کہ اس کا طرز عمل نہ ملک کی بہتری میں ہے اورنہ مزدوروں کی۔
سوچا جائے کہ یہ ادارے خسارے میں گئے ہی کیوں۔ جو PIA کبھی ایک بہت ہی کامیاب ائیرلائنز تھی اس میں سیاسی بنیادوں پربھرتیاں کرکے اسے خسارے میںلانے والے کون تھے۔سیاسی بھرتیاں کرکے اورپھر یہ کہہ کرکہ اگر لوگوں کو نوکریاں دینا جرم ہے تو ہم یہ جرم باربار کریں گے، ہم نے کوئی ملک اورقوم کی خدمت نہیں کی۔
آج ہم ڈیفالٹ ہونے کی قریب ہیں جب کہ ہمارے پڑوس کے کئی ممالک ترقی اورخوشحالی کی بلندیوں کو چھورہے ہیں۔ اپنے عوام کو مفت کے چند ہزار روپے دینے سے بہتر ہے کہ انھیں اپنے پاؤں پرکھڑا کیاجائے۔ یہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اوردیگر سہولت کارڈوں کا محتاج بنانے کے بجائے فیکٹریاں اورکارخانے لگاکر نہ صرف انھیں باعزت روزگار فراہم کیاجائے بلکہ ملک کی ایکسپورٹ بھی بڑھا کر قوم کو اس کے مستقل کشکول سے نجات دلائی جائے۔
حکومت بنانا ایک مشکل اور ناممکن عمل دکھائی دے رہا تھا،لیکن یہ عمل بھی بخیروخوبی مکمل ہوگیا،لیکن ہمیشہ کی طرح مایوس افراد نے اپنا کام جاری رکھا ہوا ہے، وہ اب نئی حکومت کے بارے میں بھی قوم کے دلوں میں وسوسے اوروہم پیداکرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیںکہ یہ ایک دوسال سے زیادہ چلنے والی نہیں ہے۔
پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ نون نے مل کر یہ کوشش کی ہے کہ عوام کو اس بارے میں مایوسیوں سے باہر نکالے۔ہم سب کو معلوم ہے کہ ملک کے معاشی اوراقتصادی حالات کوئی اچھے نہیں ہیں اور ہمیں ایسے میں ایک مضبوط اور مستقل حکومت کی اشد ضرورت ہے۔ یہ میاں نوازشریف اور آصف علی زرداری جیسے جہاندیدہ لیڈروں کی ہی ذہانت اورقابلیت تھی کہ وہ اس مشکل امتحان سے قوم کو باہر نکال سکے۔
انھیں ایک ساتھ کام کرنے کا تجربہ بھی حاصل ہے اورملکی سیاست میں یہ دونوں افراد ایسے ہیں جنھیں افہام تفیم اورمعاملہ فہمی سے سیاست کرنے کا ہنربھی آتاہے،وہ اگر آج موجود نہ ہوتے تو شاید یہ کام اتنی آسانی سے نہ ہوسکتاتھا۔حکومت کے نہ چلنے سے متعلق جو خدشات ہنوز موجود ہیں، ہمیں پورا یقین ہے کہ ایوان صدر میں موجود ایک شخص یہ تما م خدشات دورکردے گا۔
یہ میاں نوازشریف کی فراخدلی تھی کہ صدرمملکت کے لیے آصف علی زرداری کی نامزدگی پر وہ راضی اوررضامند ہوگئے اور خود کو حکومتی امور سے علیحدہ کرلیا،نہ وہ صدر مملکت بنے اورنہ وزیراعظم،جو سیٹ اپ بنایاگیا ہے۔
اس سے بہتر شاید کچھ اوربن بھی نہیں سکتا تھا۔ پیپلزپارٹی نے اگرچہ کابینہ کا حصہ بننے سے انکار کردیا ہے لیکن بلوچستان کی حکومت بدلے میں حاصل کرلی ہے۔اب وفاق اورپنجاب میں مسلم لیگ نون اورسندھ بلوچستان میں پاکستان پیپلزپارٹی حکومت بنارہی ہے۔یہ کام اگر چاہتے تو خان صاحب بھی کرسکتے تھے لیکن اُن کی جارحانہ اورغیرمفاہمانہ سوچ نے انھیں یہ کام کرنے ہی نہیں دیا۔
اُن کی اس سوچ کا اندازہ KPK میں وزارت اعلیٰ کے عہدے کی نامزدگی سے بھی خوب لگایاجاسکتا ہے،وہ ابھی تک نہیں بدلے۔جو سوچ اُن کی کرکٹ میں تھی وہی سوچ سیاست میں بھی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ اس سوچ پرنہ صرف فخر کرتے ہیں اس سوچ کواپنی جدوجہد کانام بھی دیتے ہیں۔چار سال تک ملک کے بڑے صوبے میں عثمان بزدار کو لگائے رکھا اوریہ اُمید بھی کرتے رہے کہ وہ کارکردگی کی روشن مثال بنے گا۔وسیم اکرم پلس کا نام دیکر انھوں نے وسیم اکرم جیسے قومی ہیرو کے ساتھ بھی زیادتی کی ۔
موجودہ نئی حکومت کے لیے سب سے مشکل کام ملک کودرپیش مالی اوراقتصادی مشکلات سے باہرنکالنا ہے اوریہ کام اب ایک بار پھر میاں شہباز شریف کے کاندھوں پرآگیاہے۔
اپنی سولہ ماہ کی حکومت میں جو تیرہ سیاسی پارٹیوں پر مشتمل تھی وہ بظاہر خوش اسلوبی سے نہ کرسکے اورعوام کو کوئی ریلیف بھی نہ دے سکے لیکن اب انھیں یہ کام کرنا ہوگا، الیکشن میں سادہ اکثریت کا نہ ملنا بھی اُن کی اس سولہ ماہ کی حکومتی کارکردگی کا ایک سبب تھا۔
وہ گرچہ اس سلسلے میں اپنی معروضات اورتوجیہات تو پیش کرتے رہے ہیں لیکن عوام انھیں تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں،وہ اگرعوام کو ریلیف نہ دے سکتے تھے تو انھیں اس عارضی حکومت کا بیڑہ اُٹھانا نہیں چاہیے تھا،لیکن اب اُن کے پاس شاید کوئی عذر اوربہانہ نہیں ہوگا۔ یہ نہ صرف اُن کا اپنا امتحان ہے بلکہ پوری مسلم لیگ نون کا بھی ۔اس میں سرخروئی لازم اورملزوم ہے ورنہ وہ بھول جائیں کہ آیندہ الیکشن میں انھیں اتنی نشستیںبھی مل پائیں گی۔
ہمارا معاشی بحران اس قدرشدید ہے کہ حکومت کرنے والے کو ایک سانس بھی سکون کا نہیں مل پائے گا۔ جون کے مہینے تک ہمیں 24ارب ڈالرز کے قرضے واپس کرنے ہیں،جب کہ دو مہینے بعد بجٹ بھی بنانا ہے۔ حکومتی تحویل میں چلنے والے کئی ادارے سخت مالی خسارے سے دوچار ہیں،اُن کی شفاف نجکاری بھی ہونی ہے۔ نگراں حکومت نے یہ کام اپنے طور پرشروع کردیاتھا لیکن مینڈیٹ نہ ہونے کی وجہ سے وہ اسے پائے تکمیل تک نہیں پہنچا پائی۔اب یہ کام میاں شہبازشریف کو کرنا ہوگا۔ PIAشدید مالی بحران میں مبتلا ہے ۔
اس سے پہلے کہ کوئی انھیں خریدنے والا بھی نہ ہو اس کی نجکاری بھی کردی جائے ۔ ہوسکتا ہے کہ نجی گروپ کی انتظامیہ PIA کوایک بہتر انداز میں کامیابی سے چلاپائے ۔ اسی طرح پاکستان اسٹیل ملز کئی سالوں سے بند پڑی ہے لیکن عوام کے ٹیکسز کے پیسوں سے اس کے ملازمین کی تنخواہیں برابر دی جارہی ہیں۔
قومی بجٹ پریہ ایک بلاوجہ کا غیرضروری بوجھ ہے۔ ایک پیسے کی آمدنی بھی نہیںہے اورملازمین کی تنخواہیں انھیں گھر بیٹھے دی جارہی ہیں۔ مشینوں کو زنگ لگ چکاہے اوراب انھیں کوئی خریدنے والا بھی نہیں ہے۔ حکومت سندھ جہاں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے وہ نہ اُسے بیچنے دیتی ہے اورنہ خود اُسے چلاکردکھاتی ہے۔
آصف علی زرداری کو اب یہ ذمے داری خود نبھانا ہوگی۔ ہم کب تک اپنے قومی خزانہ اس طرح لٹاتے رہیں گے۔ سوال اگر مزدوروں کی نوکریوں کا ہے تو ہم سب کو معلوم ہے کہ بہت سے مزدور پہلے ہی کہیں اوربھی کام کررہے ہیں اور یہ اضافی آمدنی انھیں گھر بیٹھے مل رہی ہے۔
نجی تحویل میں دینے سے اس اسٹیل ملزکے نصف ملازمین کی ملازمت محفوظ بھی ہوسکتی تھی جو اب ناممکن دکھائی دیتی ہے کیونکہ اب اسے خریدنے والا بھی کوئی نہیں بچا۔یہ کام اگر پہلے ہوجاتا تو آج یہ نوبت آتی ہی نہیں، اسی طرحPIAکا بھی حال ہے ۔ مزدوروں کے حقوق کے نام پرسیاست کرنے کے بجائے اُن کے چلتے روزگار کو محفوظ بنایاجائے۔ پیپلزپارٹی کو سوچنا ہوگا کہ اس کا طرز عمل نہ ملک کی بہتری میں ہے اورنہ مزدوروں کی۔
سوچا جائے کہ یہ ادارے خسارے میں گئے ہی کیوں۔ جو PIA کبھی ایک بہت ہی کامیاب ائیرلائنز تھی اس میں سیاسی بنیادوں پربھرتیاں کرکے اسے خسارے میںلانے والے کون تھے۔سیاسی بھرتیاں کرکے اورپھر یہ کہہ کرکہ اگر لوگوں کو نوکریاں دینا جرم ہے تو ہم یہ جرم باربار کریں گے، ہم نے کوئی ملک اورقوم کی خدمت نہیں کی۔
آج ہم ڈیفالٹ ہونے کی قریب ہیں جب کہ ہمارے پڑوس کے کئی ممالک ترقی اورخوشحالی کی بلندیوں کو چھورہے ہیں۔ اپنے عوام کو مفت کے چند ہزار روپے دینے سے بہتر ہے کہ انھیں اپنے پاؤں پرکھڑا کیاجائے۔ یہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اوردیگر سہولت کارڈوں کا محتاج بنانے کے بجائے فیکٹریاں اورکارخانے لگاکر نہ صرف انھیں باعزت روزگار فراہم کیاجائے بلکہ ملک کی ایکسپورٹ بھی بڑھا کر قوم کو اس کے مستقل کشکول سے نجات دلائی جائے۔