نو منتخب حکومت کومعاشی بحران کا سامنا بڑے فیصلے کرنا ہونگے

آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی سمیت دیگر بڑے چیلنجز کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ہوگا، معاشی ماہرین

آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی سمیت دیگر بڑے چیلنجز کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ہوگا، معاشی ماہرین۔ فوٹو : وسیم نیاز

عام انتخابات کے بعد اس وقت ملک میں حکومت سازی کا عمل جاری ہے اور یہ سب ایسے حالات میں ہو رہا ہے جب ملک کو اندرونی اور بیرونی چیلنجز درپیش جن میں معاشی بحران سر فہرست ہے۔

نئی حکومت کومہنگائی، بے روزگاری، بجلی، گیس، تیل کی زیادہ قیمتوں، سرکلر ڈیٹ، زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی، خسارے میں جانے والے ادارے، بیرونی قرضوں کی واپسی، آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی سمیت دیگر بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔سیاسی محاذ آرائی اور پولرائزیشن بھی مسائل میں اضافے کا باعث ہے۔

ان حالات میں دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کس طرح چیلنجز سے نبردآزما ہوکر ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرتی ہے۔ اس بابت ماہرین کی رائے جاننے کیلئے ''نو منتخب حکومت، معاشی مسائل اور ان کا حل'' کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں اکیڈیمیا اور بزنس کمیونٹی کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ڈاکٹر مبشر منور خان

(ڈین فیکلٹی آف کامرس، پنجاب یونیورسٹی)

پاکستان کے معاشی مسائل نئے نہیں ہیں۔ ہماری معیشت کئی دہائیوں سے مسائل میں گھری ہوئی ہے اور اب پرانے مسائل کے ساتھ نئے مسائل بھی پیدا ہوگئے ہیں جن میں سرکلر ڈیٹ، خسارے میں جانے والے ادارے، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ، زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی و دیگر شامل ہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے مسائل کو بروقت حل نہیں کیا بلکہ اپنی مقبولیت میں کمی کے ڈر سے ایک حکومت نے سارے معاملات اگلی حکومت کیلئے چھوڑ دیے کہ وہ سخت فیصلے کرے۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ ملک میں غربت، بے روزگاری ،مہنگائی، اندرونی اور بیرونی قرضوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا ۔

تمام قرضے بھاری سود پر حاصل کیے گئے ہیں اور اب حالت یہ ہے کہ سود ادا کرنے کیلئے بھی ہمیں مزید قرض لینا پڑتا ہے۔ ہماری آمدن اور خرچ میں بہت فرق ہے جسے کم کرنے کیلئے ہم دنیا سے قرض مانگتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر دیگر علاقائی ممالک کے مقابلے میں شرمناک حد تک کم ہیں۔ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر میں زیادہ تر حصہ ان قرضوں کا ہے جو ہم نے اپنے دوست ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین سے لے رکھے ہیں۔

مہنگائی بھی اپنے عروج پر ہے جس سے نہ صرف نوکری پیشہ افراد بلکہ کاروباری طبقہ بھی پریشان ہے۔ بیشتر چھوٹے اور درمیانے کاروبار یا تو ختم ہوگئے یا ختم ہونے کے قریب ہیں۔ نو منتخب حکومت کو ان تمام مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ہمیشہ کی طرح مسائل کو کارپٹ کے نیچے دھکیلنے کے بجائے حکومت کو بروقت اور ضروری فیصلے لینا ہوں گے۔

گزشتہ تین دہائیوں میں ہم نے ایک بڑی غلطی یہ کی کہ خام مال سے لے کر صنعتی پراڈکٹس تک ہم نے اپنی ضروریات کیلئے چین پر انحصار کیا۔ ہم نے معیاری اورسستی اشیاء خود تیار کرنے کے بجائے چین سے منگوانا شروع کر دیں جس سے ہماری صنعتیں بند ہوگئیں اور بے روزگاری بڑھتی گئی۔

اس کا ادراک اس وقت ہوا کہ جب ہمارا امپورٹ بل بہت زیادہ بڑھ گیا جسے کم کرنے کیلئے امپورٹ پر پابندی لگائی گئی۔ دوسرا مسئلہ یہ ہوا کہ ڈالر کی قدر میں اضافے کی وجہ سے ہمارا یکسچینج ریٹ خراب ہوگیا اور ہمیں خام مال بھی مہنگا ملنے لگا۔ اس صورتحال کی وجہ سے ہمارے ہاں ہر چیز مہنگی ہوگئی۔ لوگوں کی آمدن اتنی ہی رہی لیکن اشیاء کی قیمتیں دو سے تین گنا بڑھ گئیں۔ اس وقت ہماری معیشت شدید دباؤ کا شکار ہے جس کا حل یہ ہے کہ صنعتوں کو بحال کیا جائے۔

ہر وہ پراڈکٹ جس کی پاکستان میں ضرورت ہے،ا سے مقامی سطح پر تیار کیا جائے۔ یہ 25 کروڑ آبادی کا ملک ہے لہٰذا ہاں ہر صنعت ضروری ہے اور اس کے صارفین بھی موجود ہے۔سرمایہ دار یہاں انڈسٹری لگانے سے کتراتے ہیں جس کی وجہ حکومتی پالیسیاں، ٹیکسیشن اورانتظامیہ کا دباؤ جیسے مسائل ہیں۔ سرمایہ داروں نے انڈسٹری کے بجائے ٹریڈنگ شروع کردی ،مال امپورٹ کرکے یہاں بیچنا شروع کر دیا۔ ملک میں کاروبار کو فروغ دینے کیلئے نئی حکومت کو کاروبار دوست پالیسیاں بنانا ہوں گی۔

پاکستان کے مقامی وسائل اور خام مال سے فائدہ اٹھایا جائے اور پاکستان کی صنعت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جائے۔ اس سے امپورٹ پر انحصار اور فارن ایکسچینج پر دباؤ کم ہوگا جبکہ لوگوں کی آمدن میں اضافہ ہوگا اور روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہونگے۔ ہمیں اپنی ایکسپورٹ میں بھی اضافہ کرنا ہوگا۔ سٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ 6ماہ کے دوران ایکسپورٹ میں اضافہ ہوا لیکن ترسیلات زر میں کمی آئی ۔

یہ دونوں ایسے ذرائع ہیں جن سے معیشت بہتر ہوسکتی ہے۔ ہمیں اوورسیز پاکستانیوں کو اس طرف مائل کرنا چاہیے کہ وہ زیادہ سے زیادہ پیسہ پاکستان بھجیں۔ اس حوالے سے انہیں سرمایہ کاری کیلئے مختلف سکیمیں دینی چاہئیں۔ اوورسیز پاکستانیوں کی زیادہ سرمایہ کاری ریئل اسٹیٹ میں ہے۔ایس ایم ایز اور دیگر چھوٹے پراجیکٹس بنا کر انہیں سرمایہ کاری پر راغب کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے پڑھے لکھے طبقے کوبھی باہر بھیجنا چاہیے تاکہ وہ پیسے کما کر پاکستان بھیجیں۔

صنعتی شعبے میں سب سے زیادہ پوٹینشل آئی ٹی سیکٹر میںہے جس سے فارن ایکسچینج میں اضافہ ہوسکتا ہے لہٰذاآئی سیکٹر کو فروغ دینا چاہیے۔ اس کیلئے آئی ٹی سے منسلک اشیاء کی امپورٹ پر ٹیکس میں چھوٹ یا کمی اور ایکسپورٹ کیلئے سہولت دی جائے۔ ہمارے تعلیمی ادارے قابل آئی ٹی گریجوایٹس پید ا کر رہے ہیں جو بیرون ملک جا رہے ہیں، اگر انہیں یہاں مواقع فراہم کیے جائیں تو آئی ٹی سیکٹر کو فروغ مل سکتا ہے۔

اس سے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ بھی ہوگا۔ سرکار کسی حد تک ہی ملازمتیں دے سکتی ہے، زیادہ روزگار نجی شعبہ دیتا ہے لہٰذا کاروبار کو فروغ دینے سے بے روزگاری کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔مسلسل خسارے میں چلنے والے ادارے ملکی معیشت پر بوجھ ہیں، ان کی فوری نجکاری کرنا ہوگی لیکن اگر تنقید کے ڈر سے نئی حکومت نے بڑے فیصلے نہ کیے تو ان اداروں کو چلانے کیلئے اربوں روپے خرچ کرنا پڑیں گے جس سے خزانے پر مزید بوجھ بڑھے گا۔

پاکستان میں علاقائی ممالک کی نسبت بجلی کی قیمت زیادہ ہے۔ مہنگی بجلی کے ساتھ ہماری انڈسٹری دنیا کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ عام آدمی بھی بجلی کا بل ادا کرنے سے قاصر ہے۔ نئی حکومت کو اس پر کام کرنا ہوگا کہ کس طرح بجلی کے نرخ میں کمی لائی جاسکتی ہے، لائن لاسز اور کرپشن میں کمی لانے سے فائدہ ہوسکتا ہے۔

ہمیں قابل تجدید توانائی کی طرف جانے کی ضرورت ہے۔ گھروں اور چھوٹی فیکٹریوں میں سولر پاور کو فروغ دیا جائے۔حکومت خود سول پاور سپلائر رجسٹر کرے اور آسان اقساط پر عوام کو سولر فراہم کیا جائے۔ اس سے نہ صرف عوام کو ریلیف ملے گا بلکہ بجلی کے بلوں میں بھی کمی آئے گی۔

محمد ندیم قریشی

(سابق ریجنل چیئرمین ایف پی سی سی آئی)

نئی حکومت کو بڑے معاشی مسائل کا سامنا ہے۔ اگر سیاسی جماعتیں آپس میں الجھتی رہیں اور 'پی ڈی ایم' دور والے معاملات ہی رہے تو پھر میثاق جمہوریت تو رہے گا لیکن میثاق معیشت پر کام نہیں ہوگا۔


اس وقت ملک کی سب سے اہم ضرورت میثاق معیشت ہے لہٰذا سب کو اپنی اپنی سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر ملک کے لیے سوچنا اور کام کرنا ہوگا۔ ملکی معیشت کی بہتری کیلئے بند کمروں میں فیصلے کرنے کے بجائے تمام سٹیک ہولڈرز کو شامل کرنا ہوگا۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو معیشت ڈگمگاتی رہے گی اور معاشی عدم استحکام رہے گا۔ میرے نزدیک ملک کو لانگ ٹرم اور مستقل معاشی پالیسی کی ضرورت ہے۔

اس میں کم از کم پانچ ، چھ سیکٹرز کو ترجیحات میں شامل کیا جائے۔ انہیں سبسڈی نہ دیں لیکن سہولیات ضرور دی جائیں اور رکاوٹوں کو دور کیا جائے۔ ون ونڈو آپریشن اور فاسٹ ٹریک سسٹم فعال کرنا چاہیے۔ اس وقت ضروری ہے کہ ملک میں نئی صنعتکاری ہو، ایسی صنعتیں لگیں جو امپورٹ میں کمی اور ایکسپورٹ میں اضافے کا باعث بن سکیں۔ اس ضمن میں چھوٹی بڑی دونوں صنعتوں کیلئے انڈسٹری پالیسی لائی جائے۔

یہ ایمنسٹی سکیم نہ ہو لیکن ایسی پالیسی ہو جس میں کوئی سوال نہ پوچھا جائے۔ یہ پالیسی تاجروں کی مشاورت سے بنائی جائے تاکہ وہ ملکی معیشت کو سنبھالا دے سکیں۔ اگر بغیر سوال جواب والی پالیسی ہوگی تو تیزی سے انڈسٹری لگے گی اور ملک کو فائدہ ہوگا۔ ہمیں امپورٹ کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔

اگر ہماری مقامی صنعت امپورٹ میں کمی کا باعث بنتی ہے تو اس کا فائدہ ہوگا۔ اگر نئی حکومت صرف میثاق جمہوریت پر رہی تو حکومت اپنی مدت پوری کر لے گی لیکن ملک کی معاشی حالت نہیں بدلے گی۔ ہمارے سیاستدانوں کو ملک پر رحم کرنا چاہیے تاکہ ملک چل سکے۔ اگر صرف قرضوں سے ملک چلانے کی کوشش کی گئی تو معیشت کبھی ٹھیک نہیں ہوگی۔ ہمیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہوگا۔ اس کیلئے ایک راستہ ایکسپورٹ میں اضافہ ہے۔ اس حوالے سے آسیان ، افریقا و دیگر ممالک میں خلاء ہے جہاں ایکسپورٹ کی جاسکتی ہے۔

یہ کام جنگی بنیادوں پر کرنا پڑے گا۔ حکومت کو پہلے دن سے ہی معاشی خودمختاری کا لائحہ عمل بنانا ہوگا ۔ اگر صرف آئی ایم ایف پر توجہ رہی تو ہم کبھی خودانحصاری طرف نہیں جاسکیں گے۔میرے نزدیک اگر ہم اپنی زراعت اور صنعت کو ٹھیک کرلیں تو معاشی استحکام آسکتا ہے۔ ہم دنیا سے جتنا قرض مانگتے ہیں اس سے زیادہ رقم زراعت سے حاصل ہوسکتی ہے۔ہم اربوں ڈالر کی گندم، سیڈ اورپام آئل امپورٹ کرتے ہیں، اس سے جان چھوٹ جائے گی۔

ہمارے چاول کا معیار دنیا میں بہترین ہے۔ اگر اس طرف توجہ دی جائے تو ایکسپورٹ میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ یہ ملک ہے تو ہم ہیں۔ ہماری ترقی ملک سے ہی جڑی ہے لہٰذا سب کو قومی سوچ کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔

راجہ حسن اختر

(ایگزیکٹیو ممبر لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری)

نئی حکومت کے پاس دوتہائی اکثریت نہیں ہے۔ یہ اتحادی جماعتوں پر مشتمل کمزور حکومت ہے جس کے لیے بڑے فیصلے لینا مشکل ہونگے۔ اگر مضبوط حکومت بنتی تو سیاسی اور معاشی استحکام کی راہ ہموار ہوتی اور بہتر انداز میں معاشی پالیسیوں کا تسلسل بھی قائم ہوتا۔ اس کے باوجود بزنس کمیونٹی، تاجروں اور صنعتکاروں کو توقع ہے کہ معیشت میں بہتری ضرور آئے گی۔

مجھے امید ہے کہ یہ تاجر دوست حکومت ہوگی جو ایسی پالیسیاں لائے گی جس سے بزنس کو فروغ ملے گا اور ملک کو معاشی بحران سے نکالنے میں مدد ملے گی۔ اس وقت پاکستان بحرانوں کا شکار ہے۔ملک آئی ایم ایف کے نرغے میں ہے ۔

ایک طرف ہم نے اس کی قسط واپس کرنی ہے جبکہ دوسری طرف معاشی معاملات چلانے کیلئے ہمیں مزید قرضوں کی ضرورت ہے۔ نئی حکومت سے توقع ہے کہ وہ آئی ایم ایف کے ساتھ بہتر انداز میں معاملات طے کرے گی۔

میرے نزدیک ہمیں ملکی سلامتی اور خود مختاری کو آئی ایم ایف کے مرہون منت نہیں چھوڑنا چاہیے بلکہ ایسی پالیسیاں بنانی چاہئیں جن سے ہماری انڈسٹری اپنے پاؤں پر کھڑی ہوسکے۔ ہمیں اپنی ایکسپورٹس اور ٹیکس نیٹ میں اضافہ کرنا ہوگا۔ اس وقت پیداواری لاگت بہت زیادہ ہے، ہم اس کے ساتھ دنیا کی صنعتوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔

پیداواری لاگت میں کمی کیلئے گیس و بجلی کی قیمتوں میں کمی لانی چاہیے۔ جب تک ہم یہ نہیں کریں گے ایکسپورٹ میں اضافہ ممکن نہیں ہوگا۔ نو منتخب حکومت کو ان معاملات پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ عام آدمی کو ریلیف دینے پر بھی کام کرنا ہوگا۔

اگر ایسا نہ کیا گیا تو بے روزگاری بڑھے گی، اغواء برائے تاوان، چوری اور ڈکیتی جیسے جرائم میں اضافہ ہوگا، امن و امان کی صورتحال خراب ہوگی اور ملک میں مزید عدم استحکام پیدا ہوگا۔ نئی حکومت کیلئے اقتدار پھولوں کی سیج نہیں، کانٹوں کا بستر ہے۔ حکومت کو ایسی پالیسیاں بنانا ہونگی جو ملک کو بحرانوں سے نکال کر خوشحالی کی طرف لے جاسکیں۔

میری نئی حکومت اور تمام سیاسی جماعتوں سے گزارش ہے کہ لڑائی جھگڑوں اور انتقامی کارروائیوں میں اپنا وقت ضائع نہ کریں۔ اسمبلی کے معاملات احسن انداز میں چلائیں ۔ عام آدمی ، کسان، مزدور ، طالب علموں اور نوجوانوں کے مسائل حل کرنے پر توجہ دیں۔ ایسے عملی اقدامات کیے جائیں جس سے بے روزگار نوجوانوں کو روزگار ملے، نیا کاروبار کرنے والوں کیلئے آسانیاں ہوں، ہماری انڈسٹری اور ٹریڈ کیلئے آسانیاں پیدا ہوں۔

اگرہم لڑائی جھگڑوں میں پڑے رہے تو وقت ہاتھ سے نکل جائے گا اور ملک کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔ ملک میں نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد بے روزگار ہے۔ یہ ایٹم بم ہے جس دن پھٹابڑی تباہی ہوگی۔ ہمیں نوجوانوں کومایوسی سے بچانا اور مثبت کاموں کی طرف لگانا ہے۔

ان کیلئے کاروبار کے مواقع پیدا کرنے چاہئیں۔ نئی اور جدید انڈسٹری کے ساتھ ساتھ کاٹیج انڈسٹری کو فروغ دیا جائے۔ موٹرویز کے ساتھ انڈسٹریل زونز بنانے چاہئیں۔ یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل طلبہ کو وہاں پلاٹ الاٹ کیے جائیں، انہیں آسان اقساط پر قرضے دیے جائیں تاکہ وہ انڈسٹریل زونز میں کاٹیج انڈسٹری لگا کر اپنے اور اپنے خاندان کیلئے روزگار کماکر پاکستان کو استحکام کی طرف لے جاسکیں۔

دوست ممالک ہماری مدد کرنے کو آسانی سے راضی نہیں ہونگے۔ ہمیں خودانحصاری اور خودمختاری کی طرف بڑھنا ہوگا۔ اپنے وسائل سے فائدہ اٹھانا کر خود اپنے مسائل حل کرنا ہونگے۔ ہمیں اپنی زراعت پر توجہ دینی چاہیے۔ کنو، آم، دالیں، مرچ سمیت ایسی اجناس کی کاشت کرنی چاہیے جنہیں ایکسپورٹ کرکے خاطر خواہ زرمبادلہ کمایا جاسکے۔

ہمیں کپاس کے کاشتکاری رقبے کو بڑھانا چاہیے۔ چاول کی ایکسپورٹ میں ہرسال اضافہ ہورہا ہے، اس میں مزید بہتری لائی جاسکتی ہے۔ ہمیں زراعت اور صنعت دونوں پر توجہ دینا ہوگی۔ حکومت کو نوجوانوں، کسانوں، صنعتکاروں اور تاجروں کی سرپرستی کرنا ہوگی۔

تاجر دوست پالیسیاں لاکر ملکی معیشت کو سنبھالا دینا ہوگا۔ آٹی کے شعبے سے اربوں ڈالر کمائے جاسکتے ہیں لہٰذا ہمیں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور آرٹفیشل انٹیلی جنس پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ ملک کو بیرونی چیلنجز کا بھی سامنا ہے جن میں بھارت سے تھریٹ ہے۔

ہمیں اپنی افواج کے ساتھ کھڑے ہونا ہے اور انہیں مزید مضبوط کرنا ہے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ یہ ففتھ جنریشن وار کا دور ہے، ایسے میں سب کو متحد رہنا ہے۔ ہمیں فوج کو یہ اعتماد دینا چاہیے کہ اگر خدانخواستہ کوئی مشکل گھڑی آئی تو پوری قوم ان کے شانہ بشانہ ہوگی۔ ایران نے پاکستان میں دراندازی کی ، اسے بھرپور جواب دیا گیا۔

ہمیں یقین ہے کہ پاکستان کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے۔ پاکستان کا کسان، صنعتکار، تاجر، عوام اور نوجوان اپنی افوج کے ساتھ ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا نہ ہو، ملک انارکی کی طرف نہ جائے بلکہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو اور معاشی ترقی کا خواب پورا ہوسکے۔
Load Next Story