کوچۂ سخن
غزل
و ہ جو رکھتاہے مرے دوست عقیدت مجھ سے
کرنے لگتے ہیں سبھی لوگ محبت مجھ سے
میں ترے نام کی تسبیح پڑھا کرتا ہوں
جب کبھی آنکھ ملائے میری وحشت مجھ سے
شعر کہتے ہوئے آفاق سے ہو آتا ہوں
اے خدا چھین نہ لینا کبھی نعمت مجھ سے
جانے والوں سے کہو اپنے ارادے بدلیں
اب کوئی شخص بھی ہوتانہیں رخصت مجھ سے
ایک کم زور سا انساں ہوں معافی دے دے
زندگی اور نہ لینا کوئی قیمت مجھ سے
میں نے جس روز تری پھول سے جوڑی نسبت
پھول کرتا ہے اسی روز سے نفرت مجھ سے
(ارشد احمد۔مظفر آباد آزاد، کشمیر)
غزل
کسی اخبار کی شہ سرخیوں میں
ہمارا نام ہوگا باغیوں میں
بہت ترتیب سے رکھا ہوا ہے
تمھیں کمرے کی بے ترتیبیوں میں
تو کیا یہ سب مرا دیکھا ہوا ہے
بہت کچھ ہے مماثل منظروں میں
بہت خوش تھا چراگاہوں میں پہلے
جو چرواہا گھرا ہے بھیڑیوں میں
مرے اشعار یوں تازہ ہیں بھائی
سجے ہوں پھول جیسے کھڑکیوں میں
بھروسہ ہی نہیں دریا دلوں کا
سمندر ہوگئے خوش فہمیوں میں
(ذی شان مرتضے۔ پہاڑ پور، ڈیرہ اسماعیل خان)
غزل
خود پر گمان بھی مجھے تصویر کا ہوا
اتنا اثر فضائے اساطیر کا ہوا
دل ہے کسی قدیم کلیسا میں خستہ قبر
پہلو میں جس کے پیڑ بھی انجیر کا ہوا
اٹھ اٹھ کے راہ دیکھتی ہے گرد ریگ کی
مدت کے بعد آنا جو رہگیر کا ہوا
میں پیاس بن کے دشت کے پہلو میں جا بسا
وہ میٹھا چشمہ وادیٔ کشمیر کا ہوا
قزاق بڑھ رہے تھے خموشی سے میری سمت
ناگاہ شور پانی میں زنجیر کا ہوا
گمنام مرنے والا تھا اس شہر میں کوئی
پھر دوستوں سے مشورہ تشہیر کا ہوا
تقدیر سر نیہوڑے کھڑی تھی ہجوم میں
قاسم جو فیصلہ مری تدبیر کا ہوا
(قاسم حیات ۔منڈی بہاء ُالدین)
غزل
بچ کے جائیں بھی کہاں جان کو آئی ہوئی ہے
آگ ایسی ہے کہ اپنوں کی لگائی ہوئی ہے
دل کے بازار میں بیچا نہ خریدا کچھ بھی
میں نے اک شخص سے رسماً ہی نبھائی ہوئی ہے
تجھ پہ لازم ہے کچھ اچھا کرے اس کی خاطر
اس نے امید اگر تجھ سے لگائی ہوئی ہے
قہقہے کتنے ہی چھینے گی اتر کر مجھ میں
جو اداسی مرے اعصاب پہ چھائی ہوئی ہے
ورنہ ہر سمت اندھیرا نظر آنا تھا معاذ ؔ
اس نے صد شکر کوئی شمع جلائی ہوئی ہے
(احمد معاذ۔کہوٹہ)
غزل
گھٹن اتار کفِ التجا دراز میں رکھ
دعا سے دور کہیں مدعا دراز میں رکھ
گداز وقفۂ آخر تماشا چاہے اجل
شکستِ دار نہ ہو مخمصہ دراز میں رکھ
سراب ہے کہ کہیں ریت کھوجتی ہے مجھے
گماں پہ دوڑ ابھی وسوسہ دراز میں رکھ
وہ جسم آخری حسرت کا بالیقیں مظہر
کہانی جلدی سُنا ابتدا دراز میں رکھ
نشہ ضمیر بدلتا ہے کچھ نہیں کہتا
نشے میں گھوم وجہِ اختراع دراز میں رکھ
ابھی اندھیرا نہ پھیلے لطیف منظر پر
ضیا کو بانٹ ذرا سی خلا دراز میں رکھ
(خیال مہدی۔میانوالی)
غزل
جو کی بیوفا کو بھلانے کی کوشش
تھی گویا یہ پتھر ہٹانے کی کوشش
بڑھیں تلخیاں جب سرِبزم لوگو
تو کی ہم نے سب کو ہنسانے کی کوشش
لکھے ہیں جدائی پہ جتنے بھی نغمے
تھی اِن میں غمِ دل سنانے کی کوشش
یقینا ہے آزادیوں کا پیامی
کرے جو پرندے اڑانے کی کوشش
حقیقت میں کی ہے مرے دُشمنوں نے
سرِ راہ کانٹے بچھانے کی کوشش
سگِ ہجر کاٹے تو کاٹے بلا سے
کریں گے نہ ہم جاں بچانے کی کوشش
جدائی رقم تھی مقدر میں جعفرؔ
بہت کی ہے اُس کو منانے کی کوشش
(اقبال جعفر۔دُرگ)
غزل
شاہزادی کو جب ہنسی آئی
پورے گاؤں میں روشنی آئی
ہجر کے کالے چِلّے کاٹے ہیں
تب مجھے جا کے شاعری آئی
مرنے والوں کو زندگی بخشی
میرے حصّے میں خود کشی آئی
رشتہ مانگا ترا،ہمارے بیچ
پھر قبائل کی دشمنی آئی
جو بھی تیرے قریب آئے ہیں
ان کے چہروں پہ دلکشی آئی
دل پہ یادوں نے پھر چڑھائی کی
اس لیے آنکھ میں نمی آئی
میرے چہرے کا رنگ اڑ نے لگا
تیرے جانے کی جب گھڑی آئی
(نذیرحجازی۔نوشکی بلوچستان)
غزل
جا دور چلا جا کہ قسم کھائی تمہاری
برداشت نہیں ہوتی ہے پرچھائی تمہاری
سر موت کی آغوش میں رکھ کر کوئی سویا
جب کام نہیں آئی مسیحائی تمہاری
کب میری نگاہوں سے برستے نہیں بادل
کب یاد نہیں آتی ہے ہرجائی تمہاری
اُس چشمِ غنودہ کافسوں چھانے لگا تو
کچھ کام نہیں آئے گی دانائی تمہاری
وہ رات اچانک سے مرے خواب میں آ کر
بولی کہ کبھی باندھوں گی میں ٹائی تمہاری
اِک روز چلا آؤں گا بن کر میں تمہارا
اِک روز مٹا دوں گا میں تنہائی تمہاری
تنویر ؔہُوا حبس کا ماحول ختم شد
جب گھر کے دریچے سے مہک آئی تمہاری
(تنویر حسین۔ گلگت بلتستان)
غزل
چاند راتوں پہ بات کرتے ہیں
آؤ خوابوں پہ بات کرتے ہیں
کھول کر وقت کے دریچوں کو
تیرے وعدوں پہ بات کرتے ہیں
روز تازہ غزل کا مطلب ہے
تیری آنکھوں پہ بات کرتے ہیں
کوئی بھر جائے گھاؤ ملنے سے
پھر سے زخموں پہ بات کرتے ہیں
دل جلوں سے بلالؔ مل کر ہم
اپنے شعروں پہ بات کرتے ہیں
(بلال اختر۔ رحیم یار خان)
غزل
ملے ہو تم کرشمہ ہو گیا ہے
ہر اک غم کا مداوا ہو گیا ہے
تری فرقت میں میرا دودھ سا رنگ
جلی چائے کے جیسا ہو گیا ہے
جو میرا سات سالہ عشق تھا وہ
ہوا دشمن کا، ہفتہ ہو گیا ہے
جو پیہم مل رہے ہو آج کل تم
مسائل میں اضافہ ہو گیا ہے
میسر آ گیا ہے اور کوئی
ترا بیمار اچھا ہو گیا ہے
(عبداللہ باصرؔ۔گوجرانوالہ)
غزل
عشق ہم نے مزید کرنا ہے
کچھ غموں کو شدید کرنا ہے
بادشاہی کو چھوڑ دیں گے ہم
حسن کو بس مرید کرنا ہے
خود سے میں جنگ ہار جاتا ہوں
رگِ جاں کو حدید کرنا ہے
ہر روایت کو مار دیتا ہوں
بس غزل کو جدید کرنا ہے
ہم سے تنسیخِ حق نہیں ہونا
تو نے ہم کو شہید کرنا ہے
اک جھلک پیار کی ضرور ہوگی
ایک دو پل کشید کرنا ہے
(سیف علی عدیل۔ اسلام آباد)
غزل
خمارِ غم میں گریبان اپنا پھاڑا ہے
غموں سے چور ہوں صدمات نے اجاڑا ہے
مریضِ عشق کی حالت پہ کچھ ترس کھائیں
کہ اس فقیر نے کیا آپ کا بگاڑا ہے؟
فراقِ یار کی لذت نہ پوچھیے صاحب
جگر فگار ہے، دل موت کا اکھاڑا ہے
جنونِ شوق کی ہر حد ہی پار کر ڈالی
خیالِ یار کو اپنے لہو سے کاڑھا ہے
سکونِ دل یہاں! طلحہ دماغ پاگل ہے؟
یہ راہِ عشق ہے، آلام کا پہاڑا ہے
(طلحہ بن زاہد۔ اوکاڑہ)
سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی